منہاج القرآن کے رہنما کا کہنا تھا کہ شیخ الاسلام سے محبت کا دعویٰ کرنیوالوں پر لازم ہے کہ وہ قرآن وسنت کی تعلیمات پر عمل کریں، نماز پنجگانہ قائم کریں، خود کو ایسی محافل سے دور رکھیں جن سے وقت ضائع اور ایمان کا حرج ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام نے ساری زندگی کردار و اخلاق سنوارنے پر محنت کی۔ اسلام ٹائمز۔ پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی 74ویں سالگرہ کی مناسبت سے کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز (بزم منہاج) کے زیر اہتمام منعقدہ ہفتہ تقریبات کے پہلے روز بطور مہمان خصوصی اپنے خطاب میں کہاکہ علم ترقی کی پہلی سیڑھی ہے، بطور طالبعلم ہر گھڑی مطالعہ کتب میں صرف کریں۔ شیخ الاسلام نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ مطالعہ اور تحقیق و تالیف میں صرف کیا۔ شیخ الاسلام سے محبت کا دعویٰ کرنیوالوں پر لازم ہے کہ وہ قرآن وسنت کی تعلیمات پر عمل کریں، نماز پنجگانہ قائم کریں، خود کو ایسی محافل سے دور رکھیں جن سے وقت ضائع اور ایمان کا حرج ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام نے ساری زندگی کردار و اخلاق سنوارنے پر محنت کی۔

معروف تجزیہ کار اوریا مقبول جان نے کہا کہ مومن کا دل قرآن کی محبت سے خالی نہیں ہو سکتا۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ نے قرآن مجید کا گہرا مطالعہ کیا یہی وجہ ہے کہ ان کے ہر شعر میں حکمت اور گہرائی ہوتی تھی۔ آپؒ نے قرآن سے عشق مصطفی ﷺ سیکھا۔ نوجوان اپنی تدریسی مصروفیات کیساتھ ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کریں اور عربی زبان پر ملکہ حاصل کریں۔ قرآن زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی مہیا کرتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری فہم قرآن پر توجہ دے رہے ہیں اور علوم القرآن کے حوالے سے ان کی تصنیفات و تالیفات علمی خزانہ ہے۔

چیئرمین شعبہ عربی پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر حامد اشرف ہمدانی نے کہاکہ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن نے علم و عمل کے میدان میں بہترین خدمات انجام دی ہیں۔ ایسے ادارے ان خوابوں کی تعبیر ہیں جو ہمارے اسلاف نے دیکھے۔ انہوں نے طلباء کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ عمل علم کی اصل ہے۔ ڈائریکٹر خانہ فرہنگ ایران ڈاکٹر اصغر علی مسعودی نے کہا کہ قرآن حکیم ایک روشن چراغ ہے جس کی روشنی کبھی کم نہیں ہوئی۔ قرآن حکیم نور ہدایت ہے۔ آج امت مسلمہ پسماندگی کا شکار ہے، زوال سے دوچار ہے اس کی وجہ قرآن سے دوری ہے۔ قرآن حکیم امت کو اتحاد اور اتفاق کا درس دیتا ہے اور اتحاد و اتفاق اللہ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے۔ تہران سے آئے عالمی شہرت یافتہ قاری علی اکبر توبچی نے تلاوت قرآن حکیم سے شرکائے تقریب کے دلوں کو منور کیا۔ تقریب سے پرنسپل کالج آف شریعہ ڈاکٹر ممتاز الحسن باروی، ڈائریکٹر انٹر فیتھ ریلیشنز سہیل احمد رضا نے بھی خطاب کیا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: شیخ الاسلام قرا ن حکیم

پڑھیں:

اُمید کے پیام بر

 اُمید سے خالی فضا:

اگر آپ ٹھنڈے دماغ اور پورے دل سے غیرجانب دار ہوکر اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو ہر طرف مایوسی اور نااُمیدی نے معاشرے میں عجیب فضاء اور ماحول پیدا کیا ہے۔ ہر انسان، خود سے، حالات سے اور معاشرے سے نالاں ہے۔ ستم ظریقی یہ ہے کہ حالات اور ماحول میں بہتری کی بجائے مزید تنزلی ہو رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں کوئی بھی ترقی پذیر معاشرہ اور ملک ترقی کی راہ پر گام زن نہیں ہوسکتا۔ بالخصوص ایسا ملک جس کی آبادی کا 60 فی صد سے زیادہ حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہو، اگر آپ اُنہیں اپنی قدرتی صلاحیتوں کو بہتر بنانے، آگے بڑھنے کا جذبہ اور بہتر سے بہترین کی تلاش کی اُمید نہیں دیں گے تو وہ مایوسی کا شکار ہوکر اپنے حقیقی اور قدرتی فن سے آشنا نہیں ہوں گے۔ اس بکھرتے سماج میں اُمید کی شمع روشن کرنا جان جوکھم کا کام ہے۔ بطورمعلم، مصنف اور مقرر یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو جینے کی نئی اُمید دیں۔ اُمید کیسے، فرد، خاندان، اداروں اور معاشروں کی ترقی میں کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس مضمون میں ہم یہی کچھ جاننے کی سعی کریں گے۔

اُمید کیا ہے؟

وکی پیڈیا کے مطابق اُمید (Hope) ایک رجائیت پسندانہ دماغ کی کیفیت ہے جو مثبت امکانات کی توقع پر ٹکی ہوتی ہے۔ یہ کسی شخص سے متعلق واقعات اور حالات سے متعلق ہوسکتی ہے یا دنیا سے متعلق بھی ہو سکتی ہے۔ اس کی تعریفوں میں یہ بھی ہے کہ یہ ’’اعتماد کے ساتھ توقع کا نام ہے‘‘ اور یہ ’’کسی خواہش کی انجام پذیری کا سپنا رکھنا ہے۔‘‘ اُمید کی عین ضد کے طور پر مستعمل الفاظ میں ناامیدی اور مایوسی ہیں۔

اُمید کے معنی کے لیے اردو میں آس کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں روزمرہ میں اکثر یہ جملے محاروے استعمال ہوتے ہیں۔ اُمید کا دامن نہ چھوڑیں، کبھی اُمید نہیں چھوڑنی چاہیے، ہمیشہ اچھے کی اُمید رکھنی چاہیے، اُمید پر دُنیا قائم ہے۔ میری نظر میں، اُمید ہمیں ہمت دیتی ہے، اُمید، راستہ تلاش کرنے کی جستجو دیتی ہے۔ اُمید ہمارے حالات اور نتائج نہیں بدلتی بلکہ ہمیں اپنے حالات اور نتائج کو بدلنے کی نئی سوچ اور تحریک دیتی ہے۔ اُمید کوئی مذہبی روحانی اور فلسفیانہ موضوع نہیں بلکہ یہ زندگی کو بہتر انداز میں بسر کرنے اور ذاتی و پیشہ ورانہ زندگی میں عملی نتائج حاصل کرنے کے لیے ایک ذہنی و نفسیاتی اور پروفیشنل مہارت ہے، جس کے ذریعے ہم اپنے دماغ کو منفی، ناکامی کے خوف اور حالات کے دباؤ سے آزاد کرکے ممکنہ حل کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ اُمید، آدھا گلاس خالی کی بجائے، آدھا گلاس بھرے پر توجہ دینے کی جانب اشارہ کرتی ہے، اگر گلاس آدھا بھرا ہے، تو آپ اس کو مزید بھرنے کے لیے کوشاں ہوں گے، نہ کہ آدھا خالی دیکھ کر مایوس ہوجائیں گے، تاہم اندھی اُمید سے کنارہ کریں۔ ایسی اُمید جس کا سر پیر نہ ہو وہ خود سے دھوکا ہے۔ نااُمیدی اور مایوسی اپنے وجود اور رب سے واقفیت نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔

انسانی زندگی میں اُمید کی اہمیت

اُمید نہ ہوتی تو تم کہاں ہوتے، اگر اُمید نہ ہوتی تو میں کہاں ہوتا، اُمید نہ ہوتی تو یہ سانس کہاں ہوتی، اُمید نہ ہوتی تو یہ سوچ نہ ہوتی، اُمید کا دامن ہمیشہ تھامے رہو، کیوںکہ اُمید اندھیروں میں روشنی، مایوسی میں آس، دُکھ میں تسلی، صحرا میں بارش اور اداسیوں میں نئی رُوح کی مانند ہے۔ حالات چاہے جیسے بھی ہوں اُمید انسان کے لیے مضبوط چٹان ہے، طاقت کا سرچشمہ، زندگی کا ماخذ اور رُوح کی تازگی ہے۔ اُمید کے خلاف کوئی قاعدہ نہیں، اُمید کے خلاف کوئی فائدہ نہیں ہے۔

اُمید کی دُنیا

انسان کی زندگی کبھی بھی اُمید کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ معروف جرید ے سائیکولوجی ٹوڈے میں، اپنے مضمونWhy Hope Matters میں پولی کیمبل (Polly Campbell) لکھتی ہیں،’’اُمید، خواہش کے اظہار میں کوئی غیرفعال مشق نہیں ہے، بلکہ یہ زندگی کے لیے ایک فعال نقطہ نظر پیدا کرتی ہے، جب ہم کچھ پانا چاہتے ہیں تو ہمارے ذہن میں اُس کا مقصد بہت واضح ہوجاتا ہے۔ البتہ یہ امر مشکل ہوسکتا ہے، لیکن ہم جہاں جانا چاہتے ہیں، اس تک پہنچنے کے لیے ہم ایک منصوبہ تیار کرلیں گے۔‘‘

اُمید کی سائنس

فوربس میگزین میں Scott Hutcheson  نے اپنے ایک مضمونThe Power Of Hope میں لکھا ہے:

’’تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ جو لوگ پراُمید رہتے ہیں وہ مشکلات سے نمٹنے کے لیے بہتر طور پر تیار ہوتے ہیں کیوںکہ وہ موجودہ تناؤ کے بجائے اپنے مقاصد کے حصول کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ اُمید ایک فعال ذہنیت پیدا کرتی ہے، جو موجودہ چیلینجوں کو ترقی کے لیے سنگ میل بنانے میں معاونت کرتی ہے۔ اُمید اور سائنس کا گہرا تعلق ہے۔ اُمید کے پیچھے بے شمار نفسیاتی اور حیاتیاتی طریقوں کا تجزیاتی دستاویزی مواد موجود ہے۔ اُمید دماغ کے اُن حصوں کے ساتھ منسلک ہوتی ہے جو دماغ کو مقصد کے مطابق رویوں کو (بشمول پریفرنٹل کارٹیکس اور ڈوپامائن) تشکیل دیتے ہیں۔ جب ہم مستقبل کے مثبت نتائج کا تصور کرتے ہیں، تو ہمارا دماغ dopamine جاری کرتا ہے، جو کہ حوصلہ افزائی اور صلے سے منسلک ایک نیورو ٹرانسمیٹر ہے۔‘‘

 اُمیدوں کا جہاں

جب اُمیدوں کا جہاں ٹوٹتا ہے، تو انسان خود بھی ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ آپ اپنی اُمیدوں کے جہاں کا تعین کریں اور اسے اتنا مضبوط اور پائے دار بنائیں کہ وہ آپ کو ٹوٹنے کے بجائے، مزید آگے بڑھنے کی طاقت اور حوصلہ دے۔ اُمید کوئی معمولی چیز نہیں کہ آسانی سے ٹوٹ جائے، آپ کی اُمید کی بنیاد چٹان کی مانند مضبوط ہونی چاہیے تاکہ وہ مشکل حالات میں آپ کے لیے فولادی ڈھال بنے۔ میری زندگی کی سب سے بڑی موٹیویشن اور اُمید میری ماں، میرا جہاں ہے۔

 اُمید کے نام پر خالی اور خیالی افکار کا پرچار

پاکستانی معاشرے میں سوشل میڈیا کے ذریعے اُمید کے نام پر خالی اور خیالی افکار کا پرچار بڑی مہارت سے کیا جا رہا ہے۔ نوجوان نسل کو ایسے سہانے، مصنوعی اور کھوکھلے خواب دکھائے جا رہے ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ اُمید کے نام پر ان غیرحقیقی تصورات کو فروغ دینے سے بچیں اور حقیقت پر مبنی نتائج اور عملی چیزوں کے لیے پُر امید رہیں۔

اُمید حالات سے کنارہ کشی نہیں

اکثر لوگ اس لیے اُمید کا سہارا لیتے ہیں کہ وہ اپنے موجودہ حالات سے فرار ہونا چاہتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اُمید ہمیں حالات سے کنارہ کشی کرنے کی بجائے، ان کا سامنا کرنے اور ان میں بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ اُمید ہمیں حالات بہتر ہو جائیں گے، کے لیے عملی، دیرپا اور مسلسل ٹھوس اقدامات کرنے کی تحریک دیتی ہے۔

اُمید عمل سے ملتی ہے علم سے نہیں

وقت سے آگے اور رزق کے جبر میں انسان کبھی کبھی اپنے راستے سے بھٹک جاتا ہے۔ اگر کسی کو کچھ نہیں دے سکتے تو اُمید کا پیغام دے دیں؛ لیکن یاد رکھیں کہ ہو نہیں جائے گا کرنا پڑے گا۔ منو بھائی نے اپنی معروف پنجابی نظم میں اس نکتے کو بہت خوب صورتی سے بیان کیا ہے:

کیہ ہویا اے؟

کجھ نئیں ہویا

کیہ ہووے گا؟

کجھ نئیں ہونا

کیہ ہوسکدا اے؟

کجھ نہ کجھ ہوندا ای رہندا اے

جو تُوں چاہنا ایں، او نئیں ہونا!

ہو نئیں جاندا، کرنا پیندا اے

عشق سمندر ترنا پیندا اے

سُکھ لئی دُکھ وی جھلنا پیندا اے

حق دی خاطر لڑنا پیندا اے

جیون لئی مرنا پیندا اے

اُمید مستقبل کو نہیں حال کو بہتر بناتی ہے

زندگی اور اُمید کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہیں، مشکلات کے طوفان، خدشات کے بادل، اور خوف کا سمندر آپ کے ارادوں اور خوابوں کو جھنجوڑنے آئیں گے اور لوگ بھی آپ کو ڈرائیں گے لیکن آپ ایک بہادر سپاہی کی طرح، آخری دم تک لڑتے رہیے گا، تاکہ موت جب آپ سے ملنے آئے تو ایک فاتح سے نہ سہی ایک بہادر سپاہی سے ضرور ملے۔ اُمید وہ قوت ہے جو ہمیں جینے تک مرنے نہیں دیتی ہے۔ دُنیا میں اُمید سے بہتر اور کوئی دوا ایجاد نہیں ہوئی ہے۔ ’’اُمید کی دو خوب صورت بیٹاں ہیں، ان کے نام غصہ اور اور ہمت ہیں۔ غصہ کہ چیزیں ایسی ہی ہیں، اور ہمت یہ کہ چیزیں ایسی نہیں رہیں گی جیسی وہ ہیں۔‘‘ (سینٹ آگسٹین)

اُمید کے متعلق اپنے نقطۂ نظر کو بدلیں

 اکثر زندگی میں حالات ہمارے نقطۂ نظر کی بدولت بدل جاتے ہیں۔ آپ صرف اپنی نظر اور سوچ مثبت چیزوں پر رکھیں۔ یہ دن بھی گزر جائیں گے۔ پریشان اور نااُمید ہونے سے حالات میں بہتری نہیں آتی بلکہ مزید خرابی پیدا ہوتی ہے۔ یہ وقت اپنے اندر چھپی صلاحیتوں اور خوابیوں کو تلاش کرنے کا، اپنے رب کے ساتھ تعلق مضبوط کرنے، قدرت کے قریب آنے کا، دُور ہوئے اپنوں کے پاس آنے کا، روٹھے ہوئے دوستوں کو منانے کا، زندگی کے سفر کے خوابوں کو ازسرنو سجانے کا اور خود سے خود کو ملانے کا ہوتا ہے۔ اس لیے اُمید کے متعلق اپنے نقطۂ نظر کو بدلیں۔ ’’اُمید وہ واحد مکھی ہے جو پھولوں کے بغیر شہد بناتی ہے۔‘‘ (رابرٹ انگرسول)

زندگی کے کلچر کو فروغ دیں

رندگی زندہ دلی کا نام ہے، دوسروں کو زندگی کی خوش خبری اور اُمید دینا زندگی کے مقصد اور کلچر کو فروغ دینا ہے۔ یاد رکھیں اچھے وقت میں کسی کو تسلی، اُمید اور جینے کی تلقین کرنا کوئی بڑی بات نہیں، اصل کمال تو یہ ہے کہ بحرانوں میں پھنسے، مسائل میں گھرے اور حالات کے ہاتھوں مجبور انسانوں کو بہتری کے لیے اُمید، اچھائی کی تقلید اور زندگی کی نوید دینا ہے۔ اُمید وہ طاقت ہے جو تمام تر منفی سوچوں پر قابو پانے کے لیے بہترین ذریعہ ہے۔ اس لیے ہمت نہ ہاریں، چلتے رہیں اور ثابت قدم رہیں۔ اُمید انسانی زندگی کا سب سے بڑا اور بہترین وٹامن ہے جو مشکل حالات میں انسان کی اہم دوا بن جاتا ہے۔ زندگی میں نااُمِیدی، مایوسی اور مسائل جس قدر مرضی ہوں، اُمید پر ایمان رکھنے والے ہمیشہ نئی زندگی کی خوشیوں کو منانے کے لیے جی اُٹھتے ہیں۔

دُنیا کو اُمید کی ضرورت ہے

 کسی انسان کو اُمید کی طاقت اور بہتر مستقبل کی جستجو فراہم کردینا سب سے افضل انعام ہے۔ مشکلات، پریشانیوں اور نااُمیدی کے دُور میں اُمید اور ثابت قدمی کو اپنی ڈھال بنالیں۔ مایوسی نااُمیدی اور مشکل حالات میں مثبت سوچ اور اُمید کی شمع روشن رکھنے والے امن کے حقیقی پیام بر ہوتے ہیں۔ زندگی میں محبت اور اُمید کی شمعیں ضرور روشن رکھیں۔ یہ آپ کے بعد آپ کی نسلوں کو بھی روشنی اور خوشی دیتی رہتی ہیں۔ مشکل حالات میں بہتری کی اُمید نہ رکھنا؛ حالات کو مزید ابتر بنا دیتے ہیں۔ نااُمیدی میں پراُمید رہنے والے ہی بلندیوں کو پہنچتے ہیں۔ اپنے خالق سے تعلق کو مضبوط بنائیں اور توکل پر یقین بڑھائیں۔ ’’اُمید کے بغیر رہنا زندگی کو ترک کرنا ہے۔‘‘ (فیوڈور دوستوفسکی)

متعلقہ مضامین

  • بنگلہ دیش: حسینہ حکومت کا تختہ الٹنے والے طالبعلم رہنما نئی سیاسی جماعت بنانے کیلئے تیار
  • موت ہو تو حسن نصراللہ جیسی ہو
  • پاک بھارت میچ کے بعد ہاردک پانڈیا کی گھڑی خبروں میں کیوں ہے؟ جان کر حیران رہ جائیں گے
  • اُمید کے پیام بر
  • حکمران ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے کئے گئے وعدے پوری کریں، اسداللہ بھٹو
  • ہمیں رہبر معظم نے لبنانی عوام تک تعزیت اور ہمدردی کا پیغام پہنچانے کی ذمہ داری سونپی ہے، حجت الاسلام اختری
  • امام حسین علیہ السلام کی زندگی کا ہر لمحہ مینارہ نور ہے، ڈاکٹر حسین  قادری 
  • پاکستان میں سفید موتیا کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے، الشفاء ٹرسٹعلاج میں تاخیر خطرناک ثابت ہو سکتی ہے،پروفیسر صبیح الدین
  • شہید سید حسن نصر اللہ اور شہید صفی الدین کے تابوتوں کی تصاویر جاری کر دی گئیں