وزیراعظم شہبازشریف اورصدر الہام علیوف نے پاکستان میں آذربائیجان کی 2 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری سے متعلق امور کو حتمی شکل دے دی،دوطرفہ تجارتی حجم بڑھانے اور مشترکہ دفاعی پیداوار کو فروغ دینے پر اتفاق ،وزیراعظم اور صدر کی مشترکہ پریس کانفرنس
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
باکو (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 فروری2025ء) وزیراعظم محمد شہباز شریف اور آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے آذربائیجان کی جانب سے پاکستان میں 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے متعلق امور کو حتمی شکل دیتے ہوئے دوطرفہ تجارتی حجم بڑھانے اور مشترکہ دفاعی پیداوار کو فروغ دینے پر اتفاق کیا ہے جبکہ دونوں ممالک کے درمیان ایل این جی کی خریدو فروخت کے فریم ورک معاہدے میں ترمیمی معاہدہ، اسٹیٹ آئل کمپنی آذربائیجان سمیت دیگر مفاہمتی یادداشتوں پر بھی دستخط کئے گئے۔
پیر کو یہاں وزیر اعظم شہباز شریف نے آذربایئجان کے صدر کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں یہ یقین دہانی کروائی کہ آذربائیجان جن شعبوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے، اس سرمایہ کاری اور باہمی تعاون کے منصوبوں کی نگرانی وہ خود کریں گے اور اس رفتار و افادیت میں کسی قسم کا خلل نہیں آنے پائے گا۔(جاری ہے)
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ آذربائیجان کے دورے کی دعوت اور بھرپور میزبانی پر صدر الہام علیوف کا شکر گزار ہوں، باکو اپنے فطری حسن اور قدرتی مناظر کی وجہ سے انتہائی خوبصور ت شہر ہے جو سفید چادر اوڑھے ہوئےہے،ہم بھی اسلام آباد کو باکو کی طرح خوبصورت شہر بنانے میں مصروف ہیں ۔
وزیراعظم نے کہا کہ آذربائیجان کے صدر کے ساتھ ملاقات انتہائی تعمیری اورمفید رہی جس سے ہمارے گہرے بھائی چارے اوربرادرانہ تعلقات کی عکاسی ہوتی ہے، آذربائیجان کے صدر پاکستان کے عوام کے ساتھ دلی محبت کرتے ہیں ، آذربائیجان کے ساتھ دوستی کے معاملے پرپاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں میں اتفاق ہے۔ انہوں نے کہا کہ آذربائیجان کے صدر کے دورہ پاکستان سے دونوں ممالک کے تعلقات کونئی جہت ملی ہے اور ہمارے برادرانہ تعلقات مزید مضبوط ہوئے ہیں ، انہوں نے پاکستان میں 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا جو دونوں ممالک کےلئے مفید ثابت ہوگا ، دونوں ممالک کی ٹیموں نے اس حوالے سے بہت کام کرلیا ہے اورصدر الہام علیوف کی طرف سے یہ بات خوش آئند ہے کہ فریقین کو معاملات کو حتمی شکل دینے کے لئے ایک ماہ کا وقت دیا گیا ہے ،اپریل میں اسلام آباد میں آذربائیجان کے صدرکے دورے کے دوران یہ معاہدے باضابطہ طے پاجائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان مختلف سطح پر تعلقات نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں ۔باہمی مفاد کے مشترکہ منصوبوں سے دونوں ممالک کے عوام مستفید ہوں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہماری دوستی ، سیاسی ہم آہنگی اوربین الاقوامی فورمزپریکساں نکتہ نظر مثالی ہےلیکن اس وقت ہمارے تعلقات کی جو سطح ہے ، ہماری تجارت اور سرمایہ کاری اور کاروباراس کے مطابق نہیں ہیں، اس کو بڑھانے کی ضرورت ہے، آذربائیجان کے صدر کے خلو ص ، قیادت ،بصیرت اوروژن سے بہت متاثر ہوا ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ طے پانے والے معاہدوں کی تکمیل کےلئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کاراباخ کے مسئلے پر آذربائیجان کے موقف کی ہمیشہ حمایت کی ہے،آذربائیجان کے صدر کے وژن ،جرأت اور فیصلہ سازی کی صلاحیت سے اس خطے میں امن کو فروغ ملا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ کشمیری عوام کی غیرمشروط حمایت پر آذربائیجان کا شکریہ ادا کرتے ہیں ،ہم امید کرتے ہیں کہ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی طرف سے منظور کی جانے والی قرارداد و ں پر عمل درآمد ہوگا اور 7 عشروں سے حق ارادیت کے لئے ان کی جدوجہد رنگ لائے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ غزہ کے عوام کو بھی مستقل جنگ بندی کی ضرورت ہے ،مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کےلئے دو ریاستی حل ناگزیر ہے،چاہتے ہیں کہ غزہ میں جنگ بندی پائیدار اوردیرپا ہو۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اورآذربائیجان کے شاندارسٹرٹیجک دفاعی روابط ہیں ان کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے اور اس کےلئے مشترکہ دفاعی پیداوار کی صلاحیت کو فروغ دینا ہوگا،اپریل میں آذربائیجان کا وفد جب پاکستان کا دورہ کرے گا تو یہ دونوں ممالک کا ترجیحی ایجنڈا ہوگا۔وزیراعظم نے کہا کہ بین الاقوامی انفراسٹرکچر کوریڈور وقت کی ضرورت ہے ،گوادر بندرگاہ علاقائی تجارت کے لئے انتہائی اہم ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم ایک خاندان کی طرح ہیں ، اپریل میں آذربائیجان کے صدر کے دورے کے منتظر رہیں گے ، دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے اقتصادی اورتجارتی روابط سے نہ صرف خطے بلکہ دنیا میں امن ترقی اورخوشحالی آئے گی اورہم باہمی کوششوں سے دوستی اور بھائی چارے کو مضبوط بنائیں گے۔پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے کہا کہ اپنے بھائی محمد شہباز شریف کو آذربائیجان کی سرزمین پر خوش آمدید کہتے ہیں اورپاکستان کے ساتھ انتہائی گروی تعلقات کو وسعت دینے کی عزم کی تجدید کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خطے کی صورتحال اور سلامتی کے امور پر دونوں ممالک کا یکساں نقطہ نظر ہے ،گزشتہ سال پاکستان کے دورے میں دو طرفہ تعاون سے متعلق اہم امور پر اہم پیش رفت ہوئی ، دونوں ممالک کے درمیان تجارتی شعبوں میں تعاون بڑھانے کے بہت مواقع ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ ملاقات میں مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے پرتفصیلی تبادلہ خیال ہوا ہے، دونوں ممالک کے درمیان شراکت داری کو فروغ دے رہے ہیں ، ہمیں باہمی تجارت بڑھانے کی ضرورت ہے جس کا حجم اس وقت کم ہے ، جن منصوبوں پر بات چیت ہوئی انہیں ایک ماہ میں حتمی شکل دیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ مفاہمت کی یادداشتوں اور معاہدوں سے دونوں ممالک کے تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی،مختلف شعبوں میں معاہدے دو طرفہ تعلقات میں اہم پیشرفت ہیں ، روابط کے فروغ ، ٹرانسپورٹ، توانائی ، دفاعی پیداوار اورصنعتی شعبے میں بھی تعاون پر بھی تبادلہ خیال ہوا ہے ،دفاعی ساز و سامان کی مشترکہ تیاری کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔ پاکستان کی دفاعی صنعت نے بہت ترقی کی ہے ۔ آذربائیجان کی دفاعی صنعت بھی فروغ پا رہی ہے ، دفاعی پیداوار کے شعبے میں پاکستان کا اہم مقام ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمارا قریبی دوست ہے۔ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان رابطوں کو بھی فروغ حاصل ہو رہا ہے ۔فضائی پروازوں کا سلسلہ بھی باقاعدگی سے جاری ہے اور اس میں مزید اضافہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ علاقائی ترقی کے لئے مواصلاتی منصوبوں کا فروغ ضروری ہے ۔ وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے متعارف کرائی جانے والی اصلاحات کے معیشت اور سیاسی استحکام کے شعبوں میں مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں ۔ بین الاقوامی منظر نامے میں پاکستان کو اہم مقام حاصل ہے اور آپ کی محنت اور دانشمندانہ قیادت میں پاکستان کی کامیابیوں پر بطور بھائی اور دوست ہمیں فخر ہے۔مستقبل کے منصوبوں اور کوششوں میں بھی بحیثیت بھائی ہم آپ کے ساتھ ہوں گے۔\932.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دونوں ممالک کے درمیان ا ذربائیجان کے صدر کے وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ دفاعی پیداوار ذربائیجان کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے شہباز شریف نے کہا کہ ا کرتے ہیں حتمی شکل کو فروغ کے عوام کے دورے کے ساتھ کے لئے ہے اور
پڑھیں:
وزیراعظم کا بیلا روس دورہ، معاہدوں سے عملی اقدامات تک
پاکستان اور بیلا روس کے درمیان دوطرفہ تعلقات عالمی سفارتی منظرنامے میں ایک خاص اہمیت کے حامل بنتے جا رہے ہیں۔ دونوں ممالک جغرافیائی طور پر اگرچہ ایک دوسرے سے فاصلے پر واقع ہیں، مگر مشترکہ اقتصادی، تجارتی، تعلیمی اور تکنیکی مفادات کے باعث ان کے تعلقات میں گزشتہ چند برسوں کے دوران غیر معمولی بہتری آئی ہے۔بیلا روس، جو سوویت یونین کے خاتمے کے بعد 1991 ء میں ایک خودمختار ریاست کے طور پر سامنے آیا، نے جلد ہی دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنا شروع کیے۔ پاکستان اور بیلا روس کے درمیان باضابطہ سفارتی تعلقات 1992 ء میں قائم ہوئے۔ ابتدائی دہائی میں ان تعلقات میں خاص پیش رفت نظر نہیں آئی، لیکن 2000 ء کے بعد عالمی حالات اور علاقائی تعاون کے تناظر میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ساتھ قریبی روابط استوار کرنے کا آغاز کیا۔2015 ء میں بیلا روس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے پاکستان کا پہلا سرکاری دورہ کیا، جو دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد 2024 ء میں دوبارہ ان کا دورہ، اور اس دوران مختلف معاہدوں پر دستخط، تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جانے کی علامت ہیں۔2024 ء کے آخر میں بیلا روس کے صدر کے دورہ پاکستان کے دوران دونوں ممالک نے مختلف شعبوں میں تعاون کے لیے کئی معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں (MoUs) پر دستخط کئے۔ ان معاہدوں کا دائرہ صنعت، تجارت، زراعت، دفاع، تعلیم، آئی ٹی اور معدنیات جیسے وسیع شعبوں تک پھیلا ہوا ہے۔ابھی وزیراعظم شہباز شریف دو دن کے سرکاری دورے پر بیلاروس پہنچے جہاں میزبان صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے ان کا پُرتپاک استقبال کیا، مسلح افواج نے انہیں سلامی دی اور گارڈ آف آنر پیش کیا، دونوں ممالک کے قومی ترانے بجائے گئے۔استقبالیے کے بعد تقریب منعقد ہوئی جس میں دونوں ممالک کی جانب سے حکام نے مختلف معاہدوں اور ایم او یوز پر دستخط کئے۔
پاکستان اور بیلا روس نے ایک جامع صنعتی تعاون کا معاہدہ کیا جس میں بیلا روس کی مشہور کمپنیوں جیسے ’’منسک ٹریکٹر پلانٹ‘‘ اور ’’بیلشینا‘‘ نے پاکستانی مارکیٹ میں صنعتی مشینری اور دیگر سامان کی برآمد کے معاہدے کئے۔زراعت پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ بیلا روس نے اس شعبے میں اپنی مہارت فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے، جس میں جدید زرعی مشینری، بیجوں کی بہتری، فصلوں کے تحفظ کی تکنیک اور پانی کے انتظام کی جدید حکمتِ عملی شامل ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے فروغ کے لیے کئی مفاہمت کی یادداشتیں طے پائیں۔ پاکستان کے طلباء کو بیلا روس کی یونیورسٹیوں میں اسکالرشپس اور سائنسی تحقیق کے مواقع مل سکتے ہیں، جبکہ بیلا روس کے طلباء پاکستان کی زبان، تاریخ اور ثقافت سے روشناس ہو سکتے ہیں اس کا مقصد یونیورسٹیوں کے مابین مشترکہ تحقیق، فیکلٹی اور طلباء کے تبادلے، اور سائنسی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ اس سے نہ صرف تعلیمی معیار میں بہتری آئے گی بلکہ دونوں قوموں کے درمیان ثقافتی ہم آہنگی بھی بڑھے گی۔دفاعی شعبے میں بھی دونوں ممالک نے تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ اس میں فوجی تربیت، سازوسامان کی فراہمی اور تکنیکی مہارت کا تبادلہ شامل ہے۔ پاکستان کی دفاعی صنعت کے لیے یہ معاہدے نئی راہیں کھول سکتے ہیں۔یہ تعاون پاکستانی نوجوانوں کے لیے ترقی کے نئے دروازے کھول سکتا ہے۔بیلا روس نے پاکستان میں معدنی شعبے میں سرمایہ کاری کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ یہ معاہدے ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے اور قدرتی وسائل کے مؤثر استعمال کی راہ ہموار کریں گے۔دونوں ممالک نے ثقافتی پروگرامز، فنکاروں کے تبادلے اور مشترکہ ثقافتی تقریبات کے انعقاد پربھی اتفاق کیا۔
پاکستان اور بیلا روس کے مابین ہونے والے یہ معاہدے محض کاغذی کارروائی نہیں، بلکہ ان کے عملی فوائد اور اثرات دونوں ممالک کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان معاہدوں کے نتیجے میں نہ صرف باہمی تعلقات میں مضبوطی آئے گی بلکہ اقتصادی، معاشرتی، اور سٹریٹجک سطح پر بھی نمایاں ترقی کے امکانات پیدا ہوں گے۔ماضی میں پاکستان اور بیلا روس کے درمیان تجارتی حجم محدود تھا، لیکن ان معاہدوں کے نتیجے میں تجارت میں تیزی سے اضافہ متوقع ہے۔ پاکستانی مصنوعات جیسے چاول، آم، ٹیکسٹائل، اسپورٹس گڈز، فارماسیوٹیکل مصنوعات اور چمڑے کی اشیاء بیلا روسی مارکیٹ میں متعارف کرائی جا سکتی ہیں۔ اس کے برعکس، بیلا روس سے زرعی مشینری، کیمیکلز، ٹائر، صنعتی ساز و سامان اور الیکٹرانکس پاکستان کو درآمد کئے جا سکتے ہیں۔پاکستان کے مغربی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے پیشِ نظر، روسی اتحادی ممالک جیسے بیلا روس کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینا بین الاقوامی سفارتی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ یہ توازن پاکستان کو سفارتی سطح پر زیادہ خودمختاری فراہم کرتا ہے۔دونوں ممالک شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے رکن ہیں، جو ایک ابھرتا ہوا علاقائی اتحاد ہے۔ اس تنظیم کے پلیٹ فارم پر پاکستان اور بیلا روس نہ صرف سیکیورٹی بلکہ اقتصادی، تجارتی، اور ماحولیاتی امور میں مشترکہ ایجنڈا پر کام کر سکتے ہیں۔پاکستان بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) اور CPEC کا اہم حصہ ہے، جبکہ بیلا روس وسطی یورپ اور روس سے قریب تر ہے۔ ان دونوں کا باہمی رابطہ نہ صرف دوطرفہ فائدے کا باعث بنے گا بلکہ وسطی ایشیا اور یوریشیا میں تجارتی کنیکٹیویٹی کے نئے دروازے کھولے گا۔پاکستان اور بیلا روس کے درمیان تعلقات میں حالیہ پیش رفت ایک مثبت اور خوش آئند علامت ہے۔ بیلا روس کے ساتھ طے پانے والے معاہدے اگر سنجیدگی سے نافذ کیے جائیں تو نہ صرف یہ دونوں ممالک کے لیے سود مند ہوں گے بلکہ خطے میں اقتصادی توازن قائم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔ماضی میں ایسے کئی معاہدے محض اعلانات تک محدود رہے۔ حکومت پاکستان کو اس بار ادارہ جاتی سطح پر فالو اپ میکانزم بنانا ہو گا تاکہ ہر معاہدے کی پیش رفت پر نظر رکھی جا سکے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستانی سرمایہ کاروں اور برآمدکنندگان کو بیلا روس کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنے میں سہولت فراہم کرے، ٹیکس میں ریلیف دے اور مشترکہ منصوبوں کے لیے مالی معاونت فراہم کرے۔بیلا روس کے ساتھ ہونے والے معاہدوں پر عملدرآمد کی نگرانی کے لیے ایک مشترکہ ’’مانیٹرنگ سیل‘‘ قائم کیا جائے، جس میں وزارتِ خارجہ، تجارت، دفاع، تعلیم اور ٹیکنالوجی کے نمائندگان شامل ہوں۔پاکستان اور بیلا روس کو ہر سال تجارتی نمائشوں اور بزنس فورمز کا انعقاد کرنا چاہیے تاکہ تاجروں کو براہِ راست روابط قائم کرنے کے مواقع میسر آئیں۔دونوں ممالک کو بینکنگ چینلز کو مضبوط بنانا ہو گا تاکہ ادائیگی کے مسائل نہ ہوں اور کرنسی ایکسچینج میں سہولت ہو۔ اس مقصد کے لئے ’’کرنسی سویپ‘‘ معاہدہ یا ’’ٹریڈنگ اکاؤنٹ‘‘ کا قیام مفید ثابت ہو سکتا ہے۔اگر ان معاہدوں کو مؤثر حکمتِ عملی کے تحت نافذ کیا جائے تو آنے والے برسوں میں پاکستان اور بیلا روس کا تعلق نہ صرف اقتصادی ترقی کا ذریعہ بنے گا بلکہ بین الاقوامی منظرنامے پر پاکستان کے لئے ایک نئی سفارتی طاقت کے طور پر بھی ابھر سکتا ہے۔