دہشتگردی اور انتہاء پسندی انسانی حقوق کیلئے سنگین خطرہ ہے، سید عباس عراقچی
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
انسانی حقوق کونسل سے اپنے ایک خطاب میں ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم اُن یکطرفہ و ظالمانہ پابندیوں کے خاتمے کے بھی خواہاں ہیں جو نہ صرف ایرانی عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی کرتی ہیں بلکہ کروڑوں بے گناہ انسانوں کی مشکلات کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی" نے کہا کہ دہشت گردی اور انتہاء پسندی عالمی سطح پر انسانی حقوق کے لئے خطرہ ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 58ویں اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا۔ یہ اجلاس جنیوا میں منعقد ہوا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہر محاذ بالخصوص مشرق وسطیٰ میں فرنٹ لائن پر ہے۔ ایران، دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ہونے کی حیثیت سے ان انتہاء پسند قوتوں بالخصوص داعش اور القاعدہ کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی عوام کو کئی سالوں سے دہشت گردی کے عفریت اور غیر منصفانہ پابندیوں کا سامنا ہے۔ ان منفی اقدامات کے ہمارے اجتماعی و اقتصادی حقوق پر تخریب کارانہ اثرات پڑے ہیں۔ تاہم ان چیلنجز کے باوجود ایران اپنی اسلامی و انسانی اقدار پر قائم ہے جس کی وجہ سے ہم نے تعلیم، صحت، خواتین کے حقوق اور صنعت و اقتصاد کے شعبوں میں خاطر خواہ ترقی حاصل کی ہے۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ ہم اُن یکطرفہ و ظالمانہ پابندیوں کے خاتمے کے بھی خواہاں ہیں جو نہ صرف ایرانی عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی کرتی ہیں بلکہ کروڑوں بے گناہ انسانوں کی مشکلات کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے ممالک کے داخلی امور میں مداخلت اور اقتصادی و سیاسی دباو ڈالنے کے لئے انسانی حقوق کو ہتھیار نہیں بنانا چاہئے۔ ہم اسرائیلی جرائم کی مذمت اور فلسطینی عوام کی مشکلات کا ذکر کئے بغیر انسانی حقوق کی بات نہیں کر سکتے۔ اسلامی جمہوریہ ایران برملا طور پر غزہ میں اسرائیلی جرائم کی مذمت کرتا ہے۔ ابھی تک فلسطینی عوام کو نسل کشی، منظم اشتعال انگیزی، قبضے اور انسانی حقوق کی پامالی کا سامنا ہے۔ اسرائیل کی وحشی عسکری مہم جوئیوں نے ناقابل بیان انسانی بحران ایجاد کئے ہیں۔ جس کی زد میں بچوں اور خواتین سمیت ہزاروں نہتے شہری آئے ہیں۔ نیز ان کے شہروں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔ یہ صیہونی عسکری اقدامات جنیوا کنونشن سمیت فلسطینیوں کے اُن شہری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں جو انہیں آزادی سے زندہ رہنے کا حق دیتے ہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ صیہونی رژیم کو اپنے جرائم کا ذمہ دار ٹہرائے۔ انہوں نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے خاتمے پر بھی زور دیا۔ انہوں نے انسانی حقوق اور اقوام متحدہ سے درخواست کی کہ وہ انصاف کے اصولوں کا احترام کریں اور مظلوموں کی فریاد سنیں۔ انہوں نے اس بات کا یقین دلایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، قبضے کے خاتمے اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق کے حصول کی جدوجہد کی حمایت جاری رکھے گا۔ ایران ہمیشہ فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ سید عباس عراقچی نے غزہ سے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کے منصوبے کو قبضے کی سیاست کا تسلسل قرار دیا کہ جس کا آغاز 8 دہائیاں قبل ہوا۔ انہوں نے کہا ایران ایسے کسی بھی منصوبے یا اقدام کی مذمت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تہران عالمی سطح پر انسانی حقوق کے ارتقاء کے لئے ہیومن رائٹس کونسل کے ساتھ تعمیری تعاون جاری رکھے گا۔ ہمیں امید ہے کہ تمام ممالک اس سلسلے میں مشترکہ اقدامات اٹھائیں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسلامی جمہوریہ ایران سید عباس عراقچی انہوں نے کہا کہ کے خاتمے حقوق کی
پڑھیں:
سزائے موت اسلامی قانون کا حصہ ہے، طالبان رہنما کا موقف
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) افغان طالبان کے رہنما ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے گزشتہ جمعے کو افغانستان میں چار افراد کو دی گئی سزائے موت کو اسلامی شریعت کا لازمی حصہ قرار دیا ہے۔ قبل ازیں انسانی حقوق کے گروپوں اور اقوام متحدہ کی جانب سے ان چار افراد کو سرعام دی گئی سزائے موت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
یہ سزائیں سن 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد ایک ہی دن میں دی جانے والی موت کی سب سے زیادہ سزاؤں میں سے تھیں۔ موت کی سزائیں کب اور کہاں دی گئیں؟افغانستان کی سپریم کورٹ نے چار افراد کو قتل کے جرم میں مجرم قرار دیا تھا۔ عدالت نے فیصلہ سنایا کہ مقتولین کے اہل خانہ نے ملزمان کو معافی دینے سے انکار کر دیا تھا، جس کے بعد سزائے موت کا حکم جاری کیا گیا۔
(جاری ہے)
یہ سزائیں گزشتہ جمعے کو تین مختلف صوبوں نمروز، فراہ اور بادغیس کے اسٹیڈیمز میں ہزاروں تماشائیوں کے سامنے دی گئیں۔ طالبان کے جنگجوؤں نے بندوقوں سے فائرنگ کر کے ان سزاؤں پر عمل درآمد کیا۔
اخوندزادہ کا موقفاتوار کو طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایکس پر اخوندزادہ کا ایک 45 منٹ کا آڈیو پیغام جاری کیا، جو انہوں نے جنوبی صوبے قندھار میں حج انسٹرکٹرز کے ایک سیمینار کے موقع پر دیا تھا۔
اخوندزادہ نے کہا، ''ہمیں نظم و ضبط کے لیے اقدامات کرنے، نمازیں پڑھنے اور عبادات کا حکم دیا گیا ہے۔ اسلام صرف چند رسومات تک محدود نہیں، یہ الہٰی احکام کا ایک مکمل نظام ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ خدا نے لوگوں کو نماز کے ساتھ ساتھ سزاؤں پر عملدرآمد کا بھی حکم دیا ہے۔ اخوندزادہ نے دعویٰ کیا کہ طالبان نے اقتدار یا دولت کے لیے جنگ نہیں لڑی، بلکہ ان کا مقصد ''اسلامی قانون کا نفاذ‘‘ ہے۔
انہوں نے ان سزاؤں پر عالمی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مغربی قوانین کی افغانستان میں ضرورت نہیں۔ سزاؤں پر عالمی ردعملاقوام متحدہ کی امدادی مشن برائے افغانستان (یو این اے ایم اے) نے ان سزاؤں کو انسانی حقوق کی ''واضح خلاف ورزی‘‘ قرار دیتے ہوئے فوری طور پر موت کی تمام سزاؤں پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ عوامی سطح پر سزائیں خوف پھیلانے اور طالبان کے سخت گیر نظریے کو مسلط کرنے کا ذریعہ ہیں۔
یو این اے ایم اے نے ان سزاؤں کو مسترد کرتے ہوئے شفاف عدالتی کارروائی، منصفانہ مقدمات اور ملزمان کے لیے قانونی نمائندگی کے حق کی ضرورت پر زور دیا۔گزشتہ روز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے ان سزاؤں پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا، ''یہ انسانی وقار اور حق حیات سے بنیادی طور پر متصادم ہیں۔‘‘
ہیومن رائٹس واچ نے ان سزاؤں کو ''شدید پریشان کن‘‘ اور ''بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی سنگین خلاف ورزی‘‘ قرار دیا۔
اس تنظیم کی افغانستان ریسرچر فرشتہ عباسی نے کہا کہ یہ واقعات عالمی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے لیے ایک یاد دہانی ہیں کہ وہ افغانستان میں ایک آزاد احتسابی نظام قائم کرے تاکہ ''ان غیر قانونی اقدامات کے ذمہ داروں‘‘ کو جواب دہ بنایا جا سکے۔ طالبان کی سابقہ پالیسیاںاخوندزادہ نے سن 2022 میں ججوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ اسلامی شریعت کے تحت حدود اور قصاص کی سزاؤں کو مکمل طور پر نافذ کریں۔
نومبر 2022 میں لوگر صوبے میں 12 افراد کو سرعام کوڑے مارے گئے تھے، جو طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد اس طرح کی سزا کا پہلا مصدقہ واقعہ تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان کے پہلے دور (1996-2001) میں بھی عوامی سطح پر دی جانے والی سزائیں عام تھیں اور موجودہ پالیسیاں اسی طرز کی طرف واپسی کا اشارہ دیتی ہیں۔ عالمی تعلقات پر اثراتاخوندزادہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب طالبان مغربی ممالک سمیت عالمی برادری کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ امریکہ نے طالبان کے تین سینئر رہنماؤں بشمول وزیر داخلہ، جو ایک طاقتور نیٹ ورک کے سربراہ بھی ہیں، کے سروں کے لیے رکھی گئی انعامی رقوم ختم کر دی تھیں۔ رواں سال طالبان نے چار امریکی شہریوں کو رہا کیا، جنہیں وہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کی ''نارملائزیشن‘‘ کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ تاہم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور عوامی سطح پر سزاؤں نے طالبان کی ممکنہ بین الاقوامی قبولیت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ پیدا کر رکھی ہے۔ افغان عوام کے خدشاتافغانستان میں طالبان کے سخت گیر قوانین کے باعث خواتین کے حقوق، تعلیم اور آزادیوں پر شدید پابندیاں عائد ہیں۔ طالبان رہنما اخوندزادہ کی پالیسیوں کے نتیجے میں لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر پابندی ہے اور خواتین کی عوامی مقامات تک رسائی بھی محدود ہو چکی ہے۔
ادارت: مقبول ملک