آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے چھٹے میچ میں بنگلہ دیش نے نیوزی لینڈ کو جیت کے لیے 237 رنز کا ہدف دیا، بنگلادیش کی ٹیم نے پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ 50 اوورز میں 9 وکٹوں کے نقصان پر 236 رنز بنائے۔
راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلے جارہے چیمپئنز ٹرافی 2025 کے گروپ اے کے چوتھے میچ میں نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ کیا۔
بنگلا دیش کی پہلی وکٹ 8.

2 اوورز میں 45 کے مجموعی اسکور پر گری، اوپنر تنزید حسن 24 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ تیسرے نمبر پر بیٹنگ کے لیے آنے والے مہدی حسن میراز 13 رنز بنا کر پویلین لوٹے۔
توحید ہردوئے 7، مشفق الرحیم 2، محمود اللہ 4 رنز بناکر آؤٹ ہوگئے۔ نجم الحسین شانتو 77 رنز بناکر پویلین لوٹے۔
جاکر علی نے 45، رشاد حسین نے 26 اور تسکین احمد نے 10 رنز بنائے۔ مستفیض الرحمان 3 اور ناہید رانا صفر کے ساتھ ناٹ آؤٹ رہے۔
اس طرح بنگلادیش کی ٹیم نے پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ 50 اوورز میں 9 وکٹوں کے نقصان پر صرف 236 رنز بناسکی اور کیویز کو جیت کے لیے 237 رنز کا ہدف دے دیا۔
نیوزی لینڈ کی طرف سے مائیکل بریسویل نے 4، ول او رورک نے 2، میٹ ہینری اور کائل جیمیسین نے ایک، ایک کھلاڑی کو آوٹ کیا۔

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: نیوزی لینڈ

پڑھیں:

بال، کھال اور نائی

بال، کھال، نوتے اور نائی کا گٹھ بندھن صدیوں پرانا ہے،کہنے کو تو ’’ بال کی کھال نکالنے‘‘ کے محاورے کی پیدائش بھی کم و بیش صدیوں پرانی کہی جاسکتی ہے اور قوی خیال یہی ہے کہ نائی کے کام کے طریقے اور سلیقے کے عوض نائیوں کے ہاتھ کی صفائی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ضمن میں ہی ’’ بال کی کھال‘‘ والا محاورہ وجود میں آیا ہوگا۔

اس محاورے کی پیدائش کی علت و علل کو دیکھتے ہوئے ایک بات ضرورکہی جاسکتی ہے کہ محاورے کے دانشور بھی تحقیق و جستجو میں اس وقت تک کسی بھی نتیجے کو حتمی شکل نہیں دیتے تھے جب تک وہ کسی بات کو اپنی دانش کی مکمل جانچ پڑتال پر پرکھ نہ لیں۔

اور شاید یہی تحقیق و جستجو اور عمیق نگاہ کی جوہر شناسی تھی کہ صدیوں بعد بھی اس دانش کی ضرب المثل اور محاورے جدید ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے بھی نہ باسی ہوئے اور نہ ہی ان کی منزلت میں تاحال کمی دیکھی گئی ہے،گو اب بھی بہت سے جدیدیے نوجوان نسل کی یوتھیانہ دلیل کو پروپیگنڈا کرکے جھوٹ کے بام عروج پر ’’ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹے‘‘ کے مصداق شہرت و بلندی حاصل کرنے کی خواہش کے رسیا دکھائی دیتے ہیں۔

مگر سچ اور حقائق کے تاروں سے ٹنگا یہ چھینکا بلی کی خواہش اور لالچ کے باوجود ان سب کی حسرتوں پر پانی پھیرتا رہتا ہے مگرگرتا نہیں ہے اور یوں یہ لاجک منہ کے بل پڑی کسی کونے کھدرے میں پڑی بلبلا رہی ہوتی ہے۔

ایک وقت تھا کہ شادی بیاہ کے پیغامات دور دراز عزیز رشتے داروں تک پہنچانے کے لیے نائی کو ’’ نوتے‘‘ یعنی خوشی کا پیغام لے جانے کے لیے چنا جاتا تھا اور یہی نائی بعد کو اس تقریب کا سالار باورچی بھی ہوتا تھا، جس کا اہم فرض کھانے میں لذت لانا بھی شرط تصورکیا جاتا تھا۔

گویا نائی ’’ ہر قسم کی حجامت‘‘ کے لیے انتہائی قابل اعتبار سمجھا جاتا تھا اور لوگوں کے اعتماد پر پورا اترنے کی کوشش میں مجال کہ نائی کسی کے نرخرے پر استرے کا منفی استعمال کردے، بس یہی اعتبار نائی کے سامنے اچھوں اچھوں کی گردن زیر کرا دیا کرتا تھا۔

پھر زمانے کی کروٹ نے پیغام پہنچانے اور تقریبات کا کھانا پکوانے کا کام جب نائی سے لینا بند کر دیا تو نائی نے بھی اپنی سماجی درجہ بندی کر لی اور پھر مجال کہ نائی کو کوئی ’’ خلیفہ‘‘ پکارے بغیر رہ جائے، بس سمجھ لیجیے کہ اگر زمانے کی تبدیلی کے بعد کسی نے بھی نائی کو با ادب ہوکر خلیفہ نہ کہا تو اس کی گردن اڑانے یا بخشنے کا ذمے دار بھی ’’ خلیفہ‘‘ ہوا کرتا۔؎

اور شاید کہ اب بھی ہے، مگر کمبخت شہر کی زندگی کو کیا کہیے کہ اب یہاں نائی یا خلیفہ تو کجا اگر آپ بال کی کھال کھنچوانے والے کو ’’ ہیئر ڈریسر‘‘ اور اس کی دکان کو نائی کی دکان کے بجائے ’’ بیوٹی سیلون‘‘ نہ کہیں تو پھر آپ کے ’’ تھوپڑے‘‘ اور گردن ناپنے کی سلامتی کے لالوں کے آپ خود ذمے دار سمجھے جاتے ہیں۔

نائی کی اہمیت کے پیش نظر یاد آیا کہ ہماری عمر کے بیشتر احباب نائی کے ہاتھوں ’’ ختنہ ‘‘ یا مسلمانی کروائے جانے کے تجربے سے ضرورگزرے ہوں گے، کیا کمال اعتبارکے نائی تھے کہ مجال ’’ختنہ‘‘ کے دوران کوئی بے ایمانی کر کے کسی کی زندگی ناکارہ بنا دیں، ہرگز نہیں۔

گویا انسانی زندگی کی قیمت اور زندگی کی توانائی کے کس قدر پرتو تھے وہ پیشے کی قدر و قیمت سے آشنا نائی حضرات، اب تو جدید مشینی طریقوں کی ایجادات کے بعد نہ وہ نائی رہے نہ وہ ختنہ اور نہ مسلمانی کروانے کی تقریبات کا کلچر، اب تو بس سب چل سو چل ہے جناب۔

یقیناً بہت سارے احباب / قاری ہماری طرح تحریر کے بدلے بدلے انداز کو دیکھ کر شاید کسمسائیں مگر ہماری اس تحریرکے اشارے کنائیوں کی تفھیم ان ہمارے صحافی احباب تک ضرور ہو جائے گی جو جنرل ضیا کا آمرانہ دور دیکھ چکے ہیں اور ابھی تک بقید حیات ہیں۔

یہ لوگ اس دور میں کمال مہارت سے صحافت کی آزادی پر نہ سمجھوتہ کرتے تھے اور نہ خوف زدہ ہوتے تھے بلکہ صحافت کی آزادی کو برقرار رکھنے کا انوکھا اشارہ یعنی سنسر شدہ خبروں کی جگہ چھوڑ کر قاری کو بتا رہے ہوتے تھے کہ وہ جابرانہ دور کے ہوتے ہوئے بھی کسی سمجھوتے پر آمادہ نہیں۔

اور شاید کم و بیش یہی صورتحال کسی نئی صورت میں آج بھی کسی نہ کسی طرح صحافت اور قلم کی روانی کو جبراً روکنے کی کوشش میں مصروف ہے اور قلم کی آزادی کو چبا رہی ہے،جس سے اس بات کا احتمال زیادہ بڑھتا جا رہا ہے کہ آپ ناقابل اشاعت کی فہرست میں شمار نہ کر لیے جائیں۔

زمانہ اور ترقی معکوس کی لالچ سے پُر سرمایہ دارانہ چابکدستیوں نے ’’ نائی‘‘ سے نوتے بھیجنے کی جگہ واٹس ایپ کے ذریعے پیغام رسانی کا جگاڑ نکال لیا ہے تو اب ہمارے بیچارے ’’ نائیوں‘‘ نے بھی نوتے پہنچانے کی نوازشوں کا حل تلاش کر لیا ہے، اب گلی،گلی اور محلے کی بنیاد پر صبح سویرے ایک عرصے سے گھرکی چوکھٹوں پر لاؤڈ اسپیکر سے یہ آواز بلاناغہ ہماری سماعتوں سے ٹکراتی ہے کہ ’’ بال دیدو اور ہزاروں روپے لے لو‘‘ وغیرہ۔

اس آواز کو سنتے ہی تجسس ہوا کہ بال جس کی نہ کبھی پرواہ کی گئی اور نہ اسے اس قدر قیمتی جانا گیا کہ اس کی خریداری اس قدر مہنگے داموں کبھی ہوگی؟ سو ہمارے اندر صحافی کی حِس جاگی اور ہم اس کے اتنے مہنگے داموں فروخت کی جستجو کے سر ہوگئے، پھرکیا تھا بالوں کی قدر و قیمت کے ایسے ایسے جوہر ہمارے سامنے کھلے کہ ہم دنگ ہوئے بنا نہ رہ سکے۔

کھوجنا پر معلوم ہوا کہ ایک عرصہ پہلے پنڈی کے بڑے گھر والوں کو جب بالوں کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوا تو انھوں نے پنڈی، چکوال، جہلم اور اس سے متعلقہ علاقوں میں زیادہ سے زیادہ بھرتیاں شروع کردیں اور یوں ان مذکورہ علاقوں کے افراد میں اپنے بالوں کی سلامتی کی جدوجہد شروع ہوگئی اور ان علاقوں کے بالوں کو قیمتی جانتے ہوئے یہاں کے عوام نے اپنی حجامت کروانا ہی ترک کردی اور عوام نے اسی میں عافیت جانی کہ وہ کسی جہادی تنظیم میں پناہ لے کر کم از کم اپنے قیمتی بال تو بچالیں۔

قیمتی بالوں کی خریداری کی یہ وبا جب دیگر شہروں میں پھیلی تو آدھا پنجاب بالوں کی حفاظت کرتے کرتے’’ گنجا‘‘ ہوگیا، جہاں کٹے ہوئے بالوں کی فی کلو قیمت 25000 تک پہنچ گئی، اس منفعت بخش بالوں کے کاروبار میں پنجاب سے قلت کی بنا پر پھر نائی بھائیوں نے اپنے ہرکارے سندھ بلوچستان اور خیبر پختونخوا دوڑائے اور ممکن بنایا کہ ان جگہوں سے ارزاں قیمت پرکٹے بال خرید کر مہنگی مارکیٹ میں فروخت کریں۔

خیبر پختونخوا والے اپنے بالوں کی حفاظت کے لیے ’’ طالبان‘‘ کے نمک خوار بننے پر مجبور ہوجاتے ہیں، جب کہ سندھ کے یہ رہواسی اب تک بالوں کی قیمت سے بالکل نا آشنا ہیں۔ یہی وہ وجہ ہے کہ سندھ میں نائی بھائیوں کے ہرکارے گلی گلی یہ صدا لگاتے نظر آتے ہیں کہ ’’ بال فروخت کرو اور پیسے کماؤ‘‘، کیونکہ سندھ میں پی پی کی پالیسی کے تحت آسان پیسے کمانے کا چلن پچھلے سولہ سال سے ویسے ہی رائج ہے، سو اس بہتی گنگا میں نائی بھی بال خریدنے کے نوتے دے دے کر ارزاں قیمت پر بال خرید رہے ہیں اور اس طرح آج کل نائیوں کی سندھ میں چاندی ہی چاندی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سنکگران فیسٹیول؛ تھائی لینڈ قونصلیٹ کراچی کل سے دو روز کیلئے بند رہے گا
  • چینی قربت حاصل کرنے پر بھارت کی بنگلادیش کو سزا
  • عالمی برادری نظربند کشمیریوں کی رہائی کیلئے اقدامات کرے
  • بال، کھال اور نائی
  • امریکہ میں رجسٹریشن کے بغیر مقیم غیر ملکیوں پر نیا عتاب،11 اپریل کی ڈیڈ لائن دیدی
  • پی ایس ایل میں سب سے زیادہ ٹرافی کس ٹیم نے اپنے نام کیں؟جانئے
  • پی ایس ایل 10کی افتتاحی تقریب کا راولپنڈی میں آغاز
  • پی ایس ایل جیتنے کیلئے پہلا قدم کل کا میچ ہے، ڈیوڈ وارنر
  • وفاقی وزیر داخلہ کی پاسپورٹ حصول کیلئے نئی شرائط کے قانونی امور مکمل کرنے کی ہدایت
  • پی پی ایس سی کی جانب سے تحریری امتحانات کے نتائج کا اعلان