بھتے کی پرچیوں، دھمکیوں کے باعث والدچل بسے، معروف گلوکار کےافسردہ کر دینے والے انکشافات
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
گلوکار و اداکار علی حیدر نے انکشاف کیا ہے کہ ماضی میں بھتے کی پرچیاں ملنے اور لوگوں کی جانب سے دھمکیاں ملنے کے باعث انہوں نے ملک چھوڑا جب کہ ان ہی دھمکیوں کی وجہ سے دل برداشتہ ہوکر ان کے والد بھی چل بسے۔
علی حیدر نے حال ہی میں احمد علی بٹ کے پوڈکاسٹ میں شرکت کی، جہاں انہوں نے میوزک کیریئر سمیت ملک چھوڑنے کے معاملے پر کھل کر بات کی۔ان کے مطابق 2010 کے بعد کچھ خاندانی مسائل کی وجہ سے وہ پہلے ہی میوزک سے دور ہو چکے تھے اور انہوں نے نعتیں پڑھنا شروع کردی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ پہلےہی وہ خاندان مسائل اور پریشانیوں سے گزر رہے تھے لیکن اس دوران پھر اچانک انہیں دوسروں کی جانب سے بھی دھمکیاں اور پرچیاں ملنے لگیں۔
انہوں نے بتایا کہ 2013 اور 2014 میں ہر کسی کو بھتے کی پرچیاں ملتی تھیں، انہیں بھی ملنے لگیں، دوسروں کی طرح انہیں بھی دھمکیاں ملنے لگیں۔علی حیدر کا کہنا تھا کہ باقی لوگوں نے اس وقت پریشر برداشت کیا لیکن ان سے پریشر بردشت نہ ہوا اور انہیں ملک چھوڑنا پڑا۔ان کے مطابق اس وقت ان کے والد پرنٹنگ پریس کا کاروبار کرتے تھے جو کہ دھمکیوں اور بھتے کی پرچیوں کے بعد بند ہوگیا اور والد گھر پر بیٹھ گئے۔
انہوں نے بتایا کہ والد کے گھر پر بیٹھنے کے باوجود انہیں دھمکی آمیز فون آنے لگے اور انہیں بتایا جاتا کہ آپ کا گھر نمبر فلاں ہیں، فلاں محلے اور گلی میں آپ کا گھر ہے جب کہ اہل خانہ کے حوالے سے بھی غلیظ دھمکیاں دی جاتیں۔علی حیدر کا کہنا تھا کہ بھتے کی پرچیاں ملنے اور دھمکیاں ملنے کے بعد ایک دن وہ لوگ گھر میں ہی آگئے اور بیٹھ گئے، جس سے ان کے زائدالعمر والد سخت پریشان ہوگئے اور پھر کچھ عرصے بعد وہ انتقال کر گئے۔گلوکار نے بتایا کہ ان کے والد پرسکون حالت میں انتقال کر گئے تھے لیکن وہ بھی دھمکیوں اور بھتے کی پرچیوں سے پریشان تھے۔
انہوں نے دھمکیاں دینے اور بھتے کی پرچیاں دینے والوں کے نام بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ سب کو معلوم ہے کہ 2013 اور 2014 میں یہ سب کون کر رہا تھا؟انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہر کسی کو معلوم ہے کہ اس وقت کون کس طرح کن کو دھمکیاں دیتا تھا اور کیا کیا کام کرتا تھا، ہر کسی کو ہر چیز بتانے کی ضرورت نہیں، کچھ چیزیں نہیں بھی بتائی جا سکتیں۔
علی حیدر کے مطابق بعد ازاں وہ والدہ کے کہنے پر اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ ایک پرانے پروموٹر کی توسط سے امریکا منتقل ہوگئے اور ان کا ایسا سلسلہ بن گیا کہ وہ وہاں رہ گئے۔انہوں نے اعتراف کیا کہ امریکا میں پاکستان کے مقابلے محفوظ ماحول تھا اور انہوں نے کئی سال وہیں گزار دیے۔علی حیدر نے بتایا کہ 2010 کے بعد ان کی جانب سے پڑھی گئی نعتیں اور حمد بھی موسیقی کی تبدیل شدہ شکلیں تھیں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: نے بتایا کہ انہوں نے علی حیدر کے بعد اور ان
پڑھیں:
اردو سے صرف انہیں پریشانی ہے جو ہندو مسلم سیاست کو فروغ دیتے ہیں، اودھیش پرساد
سماجوادی پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ نے اترپردیش کے وزیراعلٰی یوگی آدتیہ ناتھ کے "کٹھ ملّا" والے بیان پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ انکا یہ بیان کسی سنت یا سنیاسی انسان کا نہیں ہو سکتا۔ اسلام ٹائمز۔ سماجوادی پارٹی کے ایودھیا سے رکن پارلیمنٹ اودھیش پرساد نے کہا کہ اردو کسی خاص قوم یا برادری کی زبان نہیں ہے، بلکہ یہ محبت، عزت اور تہذیب کی زبان ہے۔ انہوں نے اُردو کو ملک کی سب سے بہترین زبان قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسی زبان ہے جو صدیوں سے مختلف طبقات کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ اودھیش پرساد نے کہا کہ سرکاری دفاتر اور عدالتوں میں کئی اہم ریکارڈ اردو میں موجود ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ درحقیقت اردو سے صرف انہیں پریشانی ہے جو ہندو مسلم سیاست کو فروغ دیتے ہیں، ورنہ باقی سب کے لئے یہ عام بول چال کی زبان ہے، جس میں ہندی کے کئی الفاظ بھی شامل ہیں۔ لوگ روزمرہ کی گفتگو اور تقاریر میں بھی اس زبان کا استعمال کرتے ہیں، کیونکہ یہ ایک عام فہم اور مقبول زبان ہے۔
انہوں نے اترپردیش کے وزیراعلٰی یوگی آدتیہ ناتھ کے "کٹھ ملّا" والے بیان پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ان کا یہ بیان کسی سنت یا سنیاسی کا نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اترپردیش کی تاریخ شاندار رہی ہے، یہاں سے سات وزرائے اعظم منتخب ہو چکے ہیں، یہ ریاست ہمیشہ گنگا جمنی تہذیب کی علامت رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوگی آدتیہ ناتھ کا یہ لب و لہجہ ریاست کے وزیراعلیٰ کے شایان شان نہیں ہے، وہ اس وقت ذہنی دباؤ میں ہیں، کیونکہ مہاکمبھ میں بے شمار لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے اور اب وہ سوالات کے گھیرے میں ہیں۔ واضح رہے کہ اترپردیش اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے پہلے دن وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپوزیشن، خاص طور پر سماجوادی پارٹی پر سخت تنقید کی تھی۔
یوگی آدتیہ ناتھ نے مزید کہا کہ سماجوادی پارٹی ملک کو "کٹھ ملّاپن" کی طرف لے جانا چاہتی ہے، جو کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہوگا۔ انہوں نے ریاست کی مقامی بولیوں جیسے کہ بھوجپوری، اودھی، برج اور بندیل کھنڈی کو اسمبلی کی کارروائی میں شامل کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ان زبانوں کے تحفظ اور فروغ کے لئے پوری طرح سنجیدہ ہے۔ ان کے مطابق یہ بولیاں ہندی کی ذیلی زبانیں ہیں اور ان کی ترقی کے لئے حکومت خصوصی اکیڈمیوں کا قیام عمل میں لا رہی ہے تاکہ ان کو مناسب شناخت اور عزت مل سکے۔