Daily Ausaf:
2025-02-24@16:41:34 GMT

ملک کیوں چھوڑناپڑا؟گلوکار علی حیدر نے وجہ بتادی

اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT

کراچی(شوبز ڈیسک)گلوکار و اداکار علی حیدر نے انکشاف کیا ہے کہ ماضی میں بھتے کی پرچیاں ملنے اور لوگوں کی جانب سے دھمکیاں ملنے کے باعث انہوں نے ملک چھوڑا جب کہ ان ہی دھمکیوں کی وجہ سے دل برداشتہ ہوکر ان کے والد بھی چل بسے۔

علی حیدر نے حال ہی میں احمد علی بٹ کے پوڈکاسٹ میں شرکت کی، جہاں انہوں نے میوزک کیریئر سمیت ملک چھوڑنے کے معاملے پر کھل کر بات کی۔

ان کے مطابق 2010 کے بعد کچھ خاندانی مسائل کی وجہ سے وہ پہلے ہی میوزک سے دور ہو چکے تھے اور انہوں نے نعتیں پڑھنا شروع کردی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلےہی وہ خاندان مسائل اور پریشانیوں سے گزر رہے تھے لیکن اس دوران پھر اچانک انہیں دوسروں کی جانب سے بھی دھمکیاں اور پرچیاں ملنے لگیں۔

انہوں نے بتایا کہ 2013 اور 2014 میں ہر کسی کو بھتے کی پرچیاں ملتی تھیں، انہیں بھی ملنے لگیں، دوسروں کی طرح انہیں بھی دھمکیاں ملنے لگیں۔

علی حیدر کا کہنا تھا کہ باقی لوگوں نے اس وقت پریشر برداشت کیا لیکن ان سے پریشر بردشت نہ ہوا اور انہیں ملک چھوڑنا پڑا۔

ان کے مطابق اس وقت ان کے والد پرنٹنگ پریس کا کاروبار کرتے تھے جو کہ دھمکیوں اور بھتے کی پرچیوں کے بعد بند ہوگیا اور والد گھر پر بیٹھ گئے۔

انہوں نے بتایا کہ والد کے گھر پر بیٹھنے کے باوجود انہیں دھمکی آمیز فون آنے لگے اور انہیں بتایا جاتا کہ آپ کا گھر نمبر فلاں ہیں، فلاں محلے اور گلی میں آپ کا گھر ہے جب کہ اہل خانہ کے حوالے سے بھی غلیظ دھمکیاں دی جاتیں۔

علی حیدر کا کہنا تھا کہ بھتے کی پرچیاں ملنے اور دھمکیاں ملنے کے بعد ایک دن وہ لوگ گھر میں ہی آگئے اور بیٹھ گئے، جس سے ان کے زائدالعمر والد سخت پریشان ہوگئے اور پھر کچھ عرصے بعد وہ انتقال کر گئے۔

گلوکار نے بتایا کہ ان کے والد پرسکون حالت میں انتقال کر گئے تھے لیکن وہ بھی دھمکیوں اور بھتے کی پرچیوں سے پریشان تھے۔

انہوں نے دھمکیاں دینے اور بھتے کی پرچیاں دینے والوں کے نام بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ سب کو معلوم ہے کہ 2013 اور 2014 میں یہ سب کون کر رہا تھا؟

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہر کسی کو معلوم ہے کہ اس وقت کون کس طرح کن کو دھمکیاں دیتا تھا اور کیا کیا کام کرتا تھا، ہر کسی کو ہر چیز بتانے کی ضرورت نہیں، کچھ چیزیں نہیں بھی بتائی جا سکتیں۔

علی حیدر کے مطابق بعد ازاں وہ والدہ کے کہنے پر اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ ایک پرانے پروموٹر کی توسط سے امریکا منتقل ہوگئے اور ان کا ایسا سلسلہ بن گیا کہ وہ وہاں رہ گئے۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ امریکا میں پاکستان کے مقابلے محفوظ ماحول تھا اور انہوں نے کئی سال وہیں گزار دیے۔

علی حیدر نے بتایا کہ 2010 کے بعد ان کی جانب سے پڑھی گئی نعتیں اور حمد بھی موسیقی کی تبدیل شدہ شکلیں تھیں۔
مزیدپڑھیں:گولی کیوں چلائی؟ وہ کہتے ہیں وفاقی حکومت کے ماتحت آتے ہیں، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: نے بتایا کہ علی حیدر نے انہوں نے کے بعد اور ان

پڑھیں:

ایف آئی آر

کچھ روایت چل پڑی ہے، آج کل سندھ میں لوگوں کے خلاف ایف آئی آر کٹوانے کی۔ چلو یہ بھی اچھا ہوا کہ کم از کم حکومت نے اپنے مخالفین کا نوٹس تو لیا، مگر ان بے بنیاد ایف آئی آر نے پولیس کو رسوا کردیا ہے اور بڑی آسانی سے یہ ماجرہ سمجھ میں آرہا ہے کہ کس طرح ہماری پولیس آڑے کاموں میں استعمال ہو تی ہے۔

77 سال گزرگئے اس ملک کو آزاد ہوئے مگر یہ روایت نہیں بدلی۔ 1947 میں نوابشاہ کے ڈپٹی کلیکٹر مسعود کھدر پوش تھے۔ سندھ میں پہلی ہاری (کسان) رپورٹ انھوں نے ہی ترتیب دی تھی، وہ میرے والد کی بہت عزت کیا کرتے تھے کیونکہ میرے والد نوابشاہ میں کسانوں کے وکیل تھے۔

ڈپٹی کلیکٹر مسعود کھدر پوش نے اپنی ہاری رپورٹ میں میرے والد قاضی فیض محمد کو کسانوں کا ایک متحرک لیڈر بتایا ہے۔ میرے والد سے وڈیرے ناراض رہتے تھے۔ ان وڈیروں میں جو میرے والد کے ساتھ کھڑے رہے، وہ تھے رئیس غلام رسول جتوئی۔ اس لیے کہ دور طالب علمی سے وہ میرے والد کے گہرے دوست تھے۔

رئیس غلام رسول جتوئی، غلام مصطفی جتوئی کے والد اور غلام مرتضیٰ جتوئی کے دادا تھے۔ غلام رسول جتوئی اپنے والد خان بہادر امام بخش خان جتوئی کے اکلوتے بیٹے تھے۔ خان بہادر امام بخش خان جتوئی سندھی اور سرائیکی زبان کے خوبصورت شاعر تھے اور ممبئی اسمبلی کے رکن بھی تھے۔ نوشہرو فیروز اور گردو نواح کو سندھی زبان میں ’’ساھتی پرگڑو‘‘ کہا جاتا ہے یعنی سندھ کا تہذیبی حصہ کیونکہ سندھ کا یہ حصہ علم و ہنر اور ادب کا گہوارہ رہا ہے۔

تقسیم سے پہلے یہاں کے رہنے والے سندھی ہندو پڑھے لکھے اورکاروباری لوگ تھے۔ اسکولوں کا بہترین انفرا اسٹرکچر تھا۔ تمام طبقے کے بچے ایک ہی کلاس میں ایک ہی بینچ پر بیٹھ کر پڑھتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ غلام رسول جتوئی کی دوستی میرے والد سے گہری رہی۔ 

وہ میرے والد کے غریب خانے پر آتے، راتیں بسرکرتے چاہے ان کے سونے کا بستر زمین پر ہی کیوں نہ ہو اور جب میرے والد ان کے یہاں جاتے تو ان کی خاطر مدارات نوابوں کی طرح کی جاتی مگر میرے والد کا مقصد حیات تھا غریب کسانوں کو وڈیروں کے شکنجے سے آزاد کروانا۔ مسعود کھدر پوش چونکہ میرے والد کے گہرے دوست تھے تو وہ اپنی بیگم کے ہمراہ ہمارے گاؤں آیا کرتے تھے۔ ان سے دوستی کی روایت میرے والد نے آخر تک نہ چھوڑی۔ اپنی بڑھتی عمر ہونے کے بعد بھی وہ ان سے لاہور ملنے جاتے تھے۔

میرے والد کے ایک اور اسکول فیلو تھے وہ تھے گوبند مالی، جنھوں نے 1956 میں ہجرت کی اور ہندوستان چلے گئے۔ گوبند مالی نے ہندوستان میں سندھی زبان میں بہت سے ناول لکھے مگر ان کے ایک ناول ’’چھوئی موئی‘‘ کا ترجمہ اردو اور ہندی میں ہوا ہے۔

اس ناول کی کہانی ایک دہقان (کسان) لیڈر کے گرد گھومتی ہے جس کا نام تھا ’’ فیض‘‘ یعنی میرے والد۔ قصہ مختصر یہ کہ مسعود کھدر پوش کا نوابشاہ سے تبادلہ ہوگیا اور دہقانوں کو ہمت دلانے کے گناہ میں یہاں کے وڈیرے میرے والد کے درپے ہوگئے۔

انھوں نے میرے والد کو سبق سکھانے کی ٹھان لی کیونکہ میرے والد نے بہ حیثیت ایک وکیل ان کی ناک میں دم کر رکھا تھا کہ وہ زمینیں جو یہاں ہندو چھوڑ گئے تھے وہ زمینیں ان دہقانوں کو دلانے کے لیے ’’ہاری الاٹی تحریک ‘‘ کا آغاز میرے والد نے کیا۔

ان وڈیروں نے میرے والد کے خلاف بھینسیں چوری کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کروایا اور میرے والد گرفتار ہوگئے۔ اس وقت کے ایس ایچ اوکوئی پنہور صاحب تھے۔ اتوار کو سیشن کورٹ لگائی گئی اور میرے والد کی ضمانت منظور ہوئی۔ ایس ایچ او کو مطلع کیا گیا۔

انکوائری کروائی گئی اور انکوائری میں یہ ثابت ہوا کہ ایف آئی آر جھوٹی درج کی گئی تھی۔ ایس ایچ او پنہور صاحب معطل ہوئے،مگر بات یہاں پر ختم نہ ہوئی ان وڈیروں نے رات کے اندھیرے میں ہمارے گاؤں والے گھر پر حملہ کروایا۔

ڈاکو ہمارے گھر میں گھسے۔ ہمارے گھر کی عورتیں اس وقت سو رہی تھیں۔ میری والدہ تھیں ، میری دادی تھیں اور میری چاچی جو کہ اس وقت حمل سے تھیں اور باقی گھر کے افراد بھی اس وقت سو رہے تھے۔ میرے بڑے بھائی یہ بتاتے تھے کہ میری والدہ کے ہاتھوں سے ان ڈاکوؤں نے سونے کی چوڑیاں اتروائیں، ہماری چاچی نے جب مزاحمت کی تو ان کے پیٹ پر لاٹھیاں ماریں۔

اتفاقا میرے والد گھر پر موجود نہ تھے اور یہ بہتر ہی ہوا کیونکہ وہ میرے والد کو ہی مارنے آئے تھے۔ ہماری چاچی کیونکہ حاملہ تھیں ان کو ایمرجنسی میں اسپتال پہنچایا گیا جہاں ان کا حمل ضایع ہوا پھر میرے والد کو اپنا گاؤں چھوڑنا پڑا۔

وہ نوابشاہ منتقل ہوئے پھر اس تحریک نے زور پکڑا۔ نوابشاہ کے قریب رئیس بروہی کے گاؤں میں ہاری کانفرنس ہوا کرتی تھی اور ان کانفرنس میں باچا خان، مولانا بھاشانی، اچکزئی، مینگل صاحب ، خیر بخش مری، میجر اسحاق اور میاں افتخار جیسے لوگوں نے شرکت کی۔

اب وڈیرہ اپنی ماہیت اور بھی وسیع کر گیا ہے۔کل تک یہ لوگ آمریتوں کی گودوں میں پلتے تھے۔ان کا اقتدار کے بغیر جینا محال تھا۔ اقتدار سے ان کا تعلق چولی دامن جیسا ہے۔ پھر آئے بھٹو صاحب۔ ان میں سے کچھ لوگ جمہوریت پسند بنے۔مگر بھٹو کا زمانہ بھی عتاب کا تھا۔ اب اس دور میں بھینس چوری کرنے کے الزام میں نہیں لیکن سائیکل چوری کرنے کے الزام ایف آئی آر کٹنے لگیں اور انھوں نے DPR کا قانون متعارف کروایا جس میں ضمانت کی کلاز ہی نہیں تھی۔

(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • بھتے کی پرچیوں، دھمکیوں کے باعث والدچل بسے، معروف گلوکار کےافسردہ کر دینے والے انکشافات
  • ہزاروں لوگ اس لئے جیلوں میں ہیں کہ انہوں نے جلوس کیوں نکالا: محمود خان اچکزئی
  • ہزاروں لوگ اس لیے جیلوں میں ہیں کہ انہوں نے جلوس کیوں نکالا: محمود خان اچکزئی
  • علی حیدر کو پاکستان چھوڑ کر کیوں جانا پڑا؟ گلوکار نے وجہ بتا دی
  • ’بیٹا میچ دیکھنے دبئی چلا گیا لیکن جیل میں والد سے ملنے نہ آسکا‘، قاسم خان کی دبئی اسٹیڈیم سے تصاویر وائرل
  • ایک برطانوی معمر جوڑے کو افغانستان میں طالبان نے حراست میں لے لیا
  • ایف آئی آر
  • اردو سے صرف انہیں پریشانی ہے جو ہندو مسلم سیاست کو فروغ دیتے ہیں، اودھیش پرساد
  • محمد عامر نے شاہین آفریدی کے بولنگ ایکشن میں غلطی بتادی