کراچی:

سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے لیاقت کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینٹسٹری کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر علی فرحان رضی کو بقائی میڈیکل یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز کا رکن مقرر کر دیا۔

ڈاکٹر علی فرحان رضی کو یہ عہدہ میڈیکل ایجوکیشن کے شعبے میں 25 سالہ خدمات کے اعتراف میں دیا گیا ہے۔

 ڈاکٹر علی فرحان رضی آئندہ تین سال تک بقائی یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز میں اپنی ذمہ داریاں انجام دیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈاکٹر علی فرحان رضی

پڑھیں:

اسپتالوں اور لیبارٹریز کو درکار اہم طبی آلات کی شدید قلت کا خطرہ پیدا ہو گیا

پاکستان کے اسپتالوں اور لیبارٹریز کو درکار اہم طبی آلات کی شدید قلت کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ڈریپ نے بیرون ملک سے منگوائی جانے والی میڈیکل ڈیوائسز کی رجسٹریشن کی توسیع ختم کر دی ہے، جس کے باعث درآمد کنندگان نئے آلات نہیں منگوا سکتے۔

ہیلتھ کیئر ڈیوائسز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے بانی رکن محمد عمر کے مطابق 90 فیصد میڈیکل ڈیوائسز بیرونِ ملک سے درآمد کی جاتی ہیں اور ان کی رجسٹریشن کا پیچیدہ عمل وقت پر مکمل نہ ہونے کے باعث ایک بڑا بحران جنم لے سکتا ہے۔

انہوں نے نجی ٹی وی سے گفتگو کے موقع پر ایچ ڈی اے پی کے بانی رکن محمد عمر کے ساتھ سینئر وائس چیئرمین شہان ارشاد میمن،وائس چیئرمین ظفراللہ علوی اور سابق چیئرمین ظفر ہاشمی بھی موجود تھے.

محمد عمر نے کہا کہ ڈریپ کی جانب سے امپورٹ کی جانے والی میڈیکل ڈیوائسز کی رجسٹریشن کی توسیع ختم ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے امپورٹرز میڈیکل ڈیوائسز منگوانے سے قاصر ہیں، اس صورتحال کے باعث اسپتالوں، لیبارٹریز اور مراکز صحت میں جان بچانے والے آلات کی شدید قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

2017 میں حکومت پاکستان نے میڈیکل ڈیوائسز کی رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا تھا، تاہم اس عمل کے لیے دی گئی مدت ناکافی ثابت ہوئی۔ پہلے 2020 تک کی ڈیڈلائن مقرر کی گئی، پھر اسے 2023 اور بعد میں 2024 تک توسیع دی گئی، لیکن اب فروری 2025 گزرنے کے باوجود ہزاروں میڈیکل ڈیوائسز رجسٹریشن کے بغیر رہ گئی ہیں۔

ڈریپ (ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان) نے امپورٹ پر پابندی عائد کر دی ہے، جس کے نتیجے میں اسپتالوں میں سرنج سے لے کر بڑی ٹیسٹنگ مشینوں تک کی شدید قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔

محمد عمر کے مطابق یہ ایک قومی سطح کا صحت بحران ہے۔ اگر میڈیکل ڈیوائسز موجود نہ ہوئیں تو سرجریز اور اہم طبی پراسیجرز رک سکتے ہیں، جس سے مریضوں کی جانیں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ایسوسی ایشن نے تمام ضروری دستاویزات جمع کروا دی تھیں اور ڈریپ نے یقین دہانی کرائی تھی کہ اگر ان کے پاس وسائل اور افرادی قوت کی کمی ہو تو مزید وقت دیا جائے گا، لیکن دو ماہ گزرنے کے باوجود کوئی مثبت جواب نہیں آیا۔

حکومت کو اس معاملے پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا، نہ صرف ٹائم لائن میں توسیع دی جائے بلکہ ایک جامع فریم ورک بھی بنایا جائے تاکہ آئندہ رجسٹریشن کے مسائل پیدا نہ ہوں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسئلہ یہ نہیں کہ عمل پیچیدہ ہے، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ توسیع کم وقت کے لیے دی جاتی ہے، اور اب جب ایکسٹینشن ختم ہو چکی ہے۔

امپورٹرز نے تمام ضروری دستاویزات ڈریپ میں جمع کروا دی ہیں لیکن اس کے باوجود رجسٹریشن نہیں کی جا رہی۔ان کا کہنا ہے کہ اگر اس مسئلے کا فوری حل نہ نکالا گیا تو پاکستان کو ایک شدید طبی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس کے اثرات عام مریضوں سے لے کر پورے ہیلتھ کیئر سسٹم تک محسوس کیے جائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • ڈاکٹر علی فرحان بقائی میڈیکل یونیورسٹی کے رکن بورڈ آف گورنرز مقرر
  • نجی میڈیکل کالجز کی سالانہ فیس 12 لاکھ روپے مقرر کرنے کی تجویز
  • خانہ فرہنگ کراچی میں منعقدہ تقریب "انا علی العہد" میں خصوصی شرکت
  • کراچی میں ریڈ لائن منصوبے پر کام کے دوران پانی کی لائن پھر ٹوٹ گئی
  • سول اسپتال کراچی میں سماعت سے محروم بچے کا کامیاب آپریشن کرکے کوکلئیر امپلانٹ نصب کردیا گیا
  • اسپتالوں اور لیبارٹریز کو درکار اہم طبی آلات کی شدید قلت کا خطرہ پیدا ہو گیا
  • لاہور، جی سی یونیورسٹی میں شعبہ انٹرنیشنل ریلیشنز کا سالانہ عشائیہ
  • محکمہ اسکول ایجوکیشن کے ترقیاتی بجٹ 39 فیصد خرچ کیے جانے کا انکشاف
  • شاہد یونیورسٹی تہران اور ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کراچی کے درمیان مفاہمتی یادداشت پر دستخط