پوری دنیا شہید مقاومت کو سلام عقیدت پیش کر رہی ہے، علامہ مقصود ڈومکی
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
جیکب آباد میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ سید مقاومت کی تدفین کے موقع پر دنیا بھر کے شیعہ اور سنی مسلمان امریکہ اور اسرائیل کیخلاف اپنے غم اور غصے کا اظہار کرکے شہدائے مقاومت کو سلام عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ سید مقاومت کی شہادت پر پورا عالم اسلام سوگوار ہے۔ پاکستان کے شیعہ سنی عوام متحد ہو کر قبلہ اول کی آزادی کی تحریک میں حماس اور حزب اللہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سید مقاومت شہید علامہ سید حسن نصراللہ اور شہید سید ہاشم صفی الدین کی تشییع جنازہ کے موقع پر ڈی سی چوک جیکب آباد میں شہداء سے تجدید عہد کے عنوان سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ آج سید مقاومت کی تدفین کے موقع پر دنیا بھر کے شیعہ اور سنی مسلمان امریکہ اور اسرائیل کے خلاف اپنے غم اور غصے کا اظہار کرکے شہدائے مقاومت کو سلام عقیدت پیش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح رحمت اللہ علیہ اور حکیم الامت مصور پاکستان حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس وقت اسرائیل غاصب کی مخالفت کی جب برطانیہ اور عالمی سامراجی قوتیں غاصب ریاست کے ناجائز وجود کا اعلان کر رہی تھیں۔ لہٰذا پاکستان کے غیرت مند عوام اور سیاسی مذہبی و قوم پرست جماعتوں نے ہمیشہ تحریک آزادی فلسطین کی غیر مشروط حمایت کی ہے۔ ہم کسی بھی غدار کو یہ اجازت ہرگز نہیں دیں گے کہ وہ غاصب اسرائیل کو تسلیم کرے اور قبلہ اول اور فلسطین کے ساتھ خیانت کرے۔ تقریب میں شہداء کی یاد میں شمع روشن کرکے شہداء کی تصاویر پر پھول نچھاور کئے گئے۔
تقریب سے پ ٹ الف سندھ کے سابقہ صدر انتظار حسین چھلگری، شہری اتحاد جیکب آباد کے رہنماء اور مہران سوشل فورم کے چیئرمین ایڈوکیٹ عبدالحئی سومرو، جماعت اسلامی کے ضلعی امیر محمد ابوبکر سومرو، پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے ضلعی صدر منجھو انجمن سپاہ علی اکبر، جیکب آباد کے چیئرمین سید احسان علی شاہ بخاری، مجلس وحدت مسلمین عزاداری ونگ کے صوبائی نائب صدر سید غلام شبیر نقوی، آئی ایس او کے صدر اظہار الحسن، ڈومکی اتحاد کے جنرل سیکرٹری استاد عبدالفتاح ڈومکی، احمد علی ٹالانی، میرالی اتحاد کے صدر علی بخش میرالی، نثار احمد ابڑو اور ایم ڈبلیو ایم عزاداری ونگ کے ضلعی صدر نور الدین گولاٹو و دیگر نے خطاب کیا۔ اس موقع پر پیام ولایت اسکاؤٹس کے رہنماء سید گلزار علی شاہ، امداد حسین جعفری و دیگر شہدائے راہ حق کو اسکاؤٹس سلامی پیش کی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: علامہ مقصود سید مقاومت جیکب آباد نے کہا کہ
پڑھیں:
سفارت کاری کو ایک حقیقی موقع دینا چاہتے ہیں، ایران
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 اپریل 2025ء) روایتی حریف ممالک امریکہ اور ایران کے مابین مذاکراتی عمل بحال ہو رہا ہے۔اس کا مقصد ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کو محدود بنانا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد تہران حکومت پر دباؤ بڑھا دیا ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئے۔ عمان میں ہونے والے ان مذاکرات کا مقصد ایک ممکنہ جوہری معاہدے تک پہنچنا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو اچانک اعلان کیا کہ ان کی انتظامیہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرے گی۔ان مذاکرات کی تاریخ طے کرنے سے قبل دونوں ممالک کے مابین بیان بازی کی جنگ جاری رہی، جس میں ٹرمپ نے دھمکی دی کہ اگر بات چیت ناکام ہوئی توفوجی کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔
(جاری ہے)
صدر ٹرمپ کی اس دھمکی کے جواب میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ایک مشیر نے کہا کہ ایران اقوام متحدہ کے جوہری معائنہ کاروں کو ملک سے نکال بھی سکتا ہے۔
اس بیان پر امریکہ نے خبردار کیا کہ ایسا کوئی بھی اقدام ''کشیدگی میں اضافے‘‘ کا باعث ہی ہو گا۔ امریکہ کو ایرانی ردعمل کی قدر کرنا چاہیے، ایرانی سفارت کارجمعے کو ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے کہا کہ ایران ''نیک نیتی اور مکمل احتیاط کے ساتھ سفارت کاری کو ایک حقیقی موقع دے رہا ہے‘‘۔
انہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے ایک بیان میں کہا، ''امریکہ کو اس فیصلے کی قدر کرنا چاہیے، جو ان کی جارحانہ بیان بازی کے باوجود کیا گیا۔‘‘
یہ مذاکرات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں، جب صدر ٹرمپ نے گزشتہ ماہ خامنہ ای کو ایک خط بھیجا تھا، جس میں انہوں نے مذاکرات پر زور دیا اور خبردار کیا کہ اگر تہران نے انکار کیا تو فوجی کارروائی خارج از امکان نہیں ہے۔
تہران نے چند ہفتے بعد اس خط کا جواب دیا کہ وہ بالواسطہ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ لیکن اس وقت تک براہ راست بات چیت ممکن نہیں جب تک امریکہ اپنی ''زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ کی پالیسی برقرار رکھتا ہے۔
مذاکرات سے قبل مزید پابندیاںصدر ٹرمپ نے کہا کہ مذاکرات ''براہ راست‘‘ ہوں گے لیکن ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے زور دیا کہ بات چیت ''بالواسطہ‘‘ ہو گی۔
عراقچی اور امریکہ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف ان مذاکرات کی قیادت کریں گے۔اس ملاقات سے قبل واشنگٹن نے ایران پر اپنی ''زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ ڈالنے کی پالیسی جاری رکھی اور تازہ پابندیوں میں ایران کے تیل کے نیٹ ورک اور جوہری پروگرام کو نشانہ بنایا۔
کیا فوجی کارروائی ممکن ہے؟بدھ کو صدر ٹرمپ نے کہا کہ اگر مذاکرات ناکام رہے تو ایران کے خلاف فوجی کارروائی ''بالکل ممکن‘‘ ہے۔
اس کے ردعمل میں خامنہ ای کے ایک سینیئر مشیر علی شمخانی نے خبردار کیا کہ یہ دھمکیاں ایران کو ایسے اقدامات پر مجبور کر سکتی ہیں، جن میں اقوام متحدہ کے جوہری نگرانوں کو ملک سے نکالا بھی جا سکتا ہے۔واشنگٹن نے اس بیان کے جواب پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ دھمکی ایران کے ''پرامن جوہری پروگرام‘‘ کے دعوؤں کے منافی ہے اور اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو نکالنا ''کشیدگی میں اضافے کا باعث ہی بنے گا۔
ایران امریکہ سے مذکرات سے کتراتا کیوں ہے؟ایران مسلسل اس بات کی تردید کرتا رہا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ماضی کے ''تلخ تجربات اور اعتماد کے فقدان‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے تہران حکومت نے امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے ہمیشہ احتیاط برتی ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ صدارت میں 2015 کے تاریخی جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیار کی تھی اور ایران پر سخت معاشی پابندیاں دوبارہ نافذ کر دی تھیں۔
واشنگٹن کی اس ڈیل سے علیحدگی کے بعد تہران نے ایک سال تک اس معاہدے کی پاسداری کی لیکن بعد میں اس نے بھی مرحلہ وار اپنی جوہری سرگرمیوں کو وسعت دینا شروع کر دی۔
بقائی نے کہا کہ ایران ہفتے کو ہونے والے مذاکرات سے قبل ''نہ تو کوئی پیشگی رائے قائم کرے گا اور نہ ہی کوئی پیشن گوئی‘‘ کرے گا۔ یاد رہے کہ ایرانی جوہری مذاکرات کے لیے عمان ایک طویل عرصے سے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
بقائی نے کہا، ''ہم ہفتے کے روز دوسری طرف کے ارادوں اور سنجیدگی کا جائزہ لینا چاہتے ہیں اور اسی کے مطابق اپنےاگلے اقدامات کا تعین کریں گے۔‘‘
ادارت: عدنان اسحاق