چین اور روس کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا، صدر شی جن پنگ
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ چین اور روس کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا، دونوں مشترکہ ترقی کے اہداف حاصل کررہے ہیں۔
چین کے صدر شی جن پنگ سے روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن نے ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے، ملاقات میں دونوں ملکوں کے باہمی تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: چینی صدر کی روسی ہم منصب سے ڈیڑھ گھنٹہ میٹنگ، کیا کچھ زیربحث آیا؟
چینی صدر شی جن پنگ نے اس موقع پر کہا کہ چین اور روسی سچے دوست ہیں جو ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں، بلکہ دونوں ایک دوسرے کے خوشی اور غم میں شریک ہوتے ہیں۔
شی جن پنگ نے کہا کہ تاریخ اور موجودہ حالات ثابت کرتے ہیں کہ چین اور روس اچھے ہمسائے ہیں، دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا، دونوں ملک مشترکہ ترقی کے اہداف حاصل کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کے منتخب ہونے پر چین اور روس کا ردعمل سامنے آگیا
اس موقع پر گفتگو میں روسی صدر نے اپنے ہم منصب کو امریکا کے ساتھ حالیہ مذاکراتی کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news امریکا ٹیلی فون چین روس شی جن پنگ مذاکرات ولادیمیر پیوٹن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا ٹیلی فون چین مذاکرات ولادیمیر پیوٹن چین اور روس ایک دوسرے
پڑھیں:
جرمن الیکشن میں قدامت پسندوں کی جیت، اے ایف ڈی دوسرے نمبر پر
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 فروری 2025ء) یورپی یونین کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے ملک جرمنی کے وفاقی دارالحکومت برلن سے پیر 24 فروری کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق ملکی سیاسی دھارے کی دو مرکزی جماعتوں میں سے ایک، قدامت پسندوں کی کرسچن ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو اور جنوبی صوبے باویریا میں اس کی ہم خیال جماعت کرسچن سوشل یونین یا سی ایس یو مشترکہ طور پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے اول نمبر پر رہیں۔
جرمنی میں آباد پاکستانیوں کو اپنا سماجی رویہ بدلنا ہو گا، کومل ملک
سی ڈی یو نے گزشتہ روز ہوئے قومی انتخابات میں اپنے سربراہ فریڈرش میرس کی قیادت میں ان انتخابات میں حصہ لیا تھا اور میرس ہی اس پارٹی کی طرف سے چانسلرشپ کے عہدے کے امیدوار بھی ہیں۔
(جاری ہے)
کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے برعکس ملکی سیاسی دھارے کی دوسرے مرکزی جماعت اور مرکز سے بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی)، جس کے سربراہ اولاف شولس اب تک وفاقی چانسلر کے عہدے پر فائز ہیں، اس الیکشن میں عوامی تائید کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہی۔
کل کے الیکشن میں یہ بھی ہوا کہ انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت 'الٹرنیٹیو فار جرمنی‘ (متبادل برائے جرمنی) یا مختصراﹰ اے ایف ڈی پہلی مرتبہ جرمن ایوان زیریں یا بنڈس ٹاگ میں دوسری بڑی سیاسی طاقت بن گئی ہے۔
قدامت پسندوں اور سوشل ڈیموکریٹس کی مشترکہ پارلیمانی اکثریتجرمن الیکشن اتھارٹی کی طرف سے آج جاری کردہ عبوری سرکاری نتائج کے مطابق قدامت پسندوں کی یونین جماعتوں سی ڈی یو اور سی ایس یو اور سوشل ڈیموکریٹس کی پارٹی ایس پی ڈی کو مشترکہ طور پر نو منتخب بنڈس ٹاگ میں اتنی سیٹیں مل گئی ہیں کہ یہ جماعتیں مل کر ممکنہ طور پر ایک نئی قومی مخلوط حکومت بنا سکتی ہیں۔
جرمنی میں جمہوریت کس طرح اتنی مضبوط ہوئی؟
ایسا اس لیے بھی ممکن ہو سکا کہ پارلیمان میں نمائندگی کے لیے بطور جماعت کم از کم پانچ فیصد ووٹ حاصل کرنے کی شرط پورا نہ کرنے کی وجہ سے فری ڈیموکریٹس کی جماعت ایف ڈی پی اور اتحاد سارہ واگن کنیشت یا بی ایس ڈبلیو کو نئی پارلیمان میں کوئی نمائندگی حاصل نہیں ہو گی۔ اسی لیے ان کو اور دیگر چھوٹی متفرق جماعتوں کو ملنے والے ووٹوں کی نسبت سے پارلیمانی نشستیں ایوان میں نمائندگی کی حامل تمام پانچ جماعتوں میں تقسیم کر دی گئیں۔
یوں سی ڈی یو، سی ایس یو اور ایس پی ڈی کو مشترکہ طور پر اتنی سیٹیں مل گئیں کہ 630 رکنی نئی پارلیمان میں ان جماعتوں کی نشستیں 50 فیصد سے زیادہ ہو گئی ہیں۔ فریڈرش میرس کے لیے نئی حکومت بنانے کی راہ ہموارجرمن قومی انتخابات کے عبوری سرکاری نتائج کے مطابق کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے سربراہ فریڈرش میرس کے لیے اب اصولاﹰ اس امر کی راہ ہموار ہو گئی ہے کہ وہ جرمنی کے آئندہ وفاقی چانسلر بن سکتے ہیں۔
جرمن انتخابات: انتخابی مہم میں سیاسی جماعتوں کی خارجہ پالیسی
انہوں نے نتائج واضح ہو جانے کے بعد کل رات گئے ہی کہہ دیا تھا کہ انہیں امید ہے کہ اپریل میں ایسٹر کے مسیحی مذہبی تہوار تک ملک میں ایک نئی وفاقی حکومت قائم ہو جائے گی۔
ساتھ ہی مرکزی سیاسی دھارے کی دیگر جماعتوں کی طرح سی ڈی یو کے سربراہ نے ایک بار پھر یہ بھی واضح کر دیا کہ قدامت پسند یونین جماعتیں نو منتخب ایوان میں دوسری سب سے بڑی سیاسی طاقت اے ایف ڈی کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنائیں گی۔
وفاقی جرمن انتخابات، جرمنی کی ساکھ اورعالمی میڈیا
اسی طرح سوشل ڈیموکریٹس کی جماعت ایس پی ڈی اور گرین پارٹی کے ساتھ ساتھ لیفٹ پارٹی 'دی لِنکے‘ کی طرف سے بھی یہ بات پہلے ہی کہی جا چکی ہے کہ ان میں سے بھی کوئی جماعت اے ایف ڈی کے ساتھ اس کے سیاسی نظریات کے باعث کوئی مخلوط حکومت سازی نہیں کرے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نئی بنڈس ٹاگ میں 'متبادل برائے جرمنی‘، جو ملک میں تارکین وطن کی آمد اور اسلام کی مخالف ہے، آئندہ پارلیمانی اپوزیشن ہی کا حصہ ہو گی۔
کس پارٹی کے پارلیمانی ارکان کتنے؟غیر حتمی سرکاری نتائج کے مطابق نئی جرمن پارلیمان میں فریڈرش میرس کی قیادت میں سی ڈی یو اور سی ایس یو کے پارلیمانی حزب کے ارکان کی مجموعی تعداد 208 ہو گی۔ اس کے بعد 630 رکنی ایوان میں اے ایف ڈی کے اراکین کی تعداد 152 ہو گی۔
اب تک برسراقتدار مخلوط حکومت میں شروع میں شامل ہونے والی تینوں جماعتوں ایس پی ڈی، گرین پارٹی اور فری ڈیموکریٹک پارٹی کو عوامی تائید میں کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
جرمنی میں کل کے قبل از وقت عام الیکشن اس لیے ضروری ہو گئے تھے کہ اس تین جماعتی حکومتی اتحاد سے گزشتہ برس ایف ڈی پی علیحدہ ہوگئی تھی اور شولس حکومت کی پارلیمانی اکثریت ختم ہو گئی تھی۔جرمنی: اے ایف ڈی کے ساتھ تعاون پر میرکل کی میرس پر پھر تنقید
نئی بنڈس ٹاگ میں سوشل ڈیموکریٹ ارکان کی تعداد اب 120 ہو گی جبکہ ماحول پسندوں کی گرین پارتی کے ارکان کی تعداد بھی کم ہو کر اب 85 رہ گئی ہے۔
جہاں تک فری ڈیموکریٹس کی جماعت ایف ڈی پی کا تعلق ہے، تو وہ کم از کم پانچ فیصد ووٹوں کی لازمی حد پار کرنے میں ناکامی کے باعث نئی بنڈس ٹاگ میں نمائندگی سے محروم ہی رہے گی۔نو منتخب جرمن پارلیمان میں نمائندگی کی حامل پانچویں اور آخری جماعت بائیں بازو کی 'دی لِنکے‘ ہو گی، جس کے ارکان کی تعداد 64 ہو گی۔
اسی دوران موجودہ وفاقی چانسلر اور سوشل ڈیموکریٹ رہنما اولاف شولس نے کہہ دیا ہے کہ وہ حسب روایت نئی حکومت کے اقتدار میں آنے تک ایک نگران حکومت کے سربراہ کے طور پر اپنے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔
م م / ش ر (ڈی پی اے، اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)