پاکستان کے انتخابی نتائج گزشتہ 2دہائیوں میں کسی بہتری کی جانب گامزن نہیں ہوئے‘فافن
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
اسلام ا?باد: فافن نے پاکستان کے انتخابی نتائج کے متعلق سال 2002تا2024 تک کی رپورٹ جاری کر دی۔
فافن رپورٹ کے مطابق پاکستان کے انتخابی نتائج گزشتہ دو دہائیوں میں کسی بہتری کی جانب گامزن نہیں ہوئے، قومی اور صوبائی اسمبلیاں ایک چوتھائی سے بھی کم رجسٹرڈ ووٹرز اور نصف ڈالے گئے ووٹوں کے مینڈیٹ سے منتخب ہو رہی ہیں۔
اسی طرح 2002 سے 2024 تک ہونے والے پانچ عام انتخابات میں نمائندگی کا خلا برقرار رہا ہے ، 2002 کی قومی اسمبلی کو 20 فیصد رجسٹرڈ ووٹرز اور 47 فیصد ڈالے گئے ووٹوں کی حمایت حاصل تھی، 2008 کی اسمبلی کو 22 فیصد رجسٹرڈ ووٹرز اور 50 فیصد ڈالے گئے ووٹوں کی تائید حاصل ہوئی۔
رپورٹ کے متن میں بتایا گیا کہ 2013، 2018 اور 2024 کی اسمبلیاں 26 فیصد، 22 فیصد، اور 21 فیصد رجسٹرڈ ووٹرز کی نمائندگی کرتی ہے، 2013 ، 2018 اور 2024 کی اسمبلیاں 48 فیصد، 43 فیصد، اور 45 فیصد ڈالے گئے ووٹوں کی نمائندگی کرتی تھیں۔
فافن رپورٹ میں لکھا گیا کہ 2024 کے عام انتخابات میں 265 میں سے کسی بھی حلقے سے کوئی امیدوار اکثریتی رجسٹرڈ ووٹرز کی حمایت حاصل نہیں کر سکا، تقریباً تین چوتھائی حلقے یعنی 202 میں کامیاب امیدواروں کو 25 فیصد سے بھی کم رجسٹرڈ ووٹرز کی حمایت حاصل تھی۔
2024 میں 63 حلقوں میں کامیاب امیدواروں کو 25 سے 50 فیصد ووٹرز کی حمایت ملی جبکہ ڈالے گئے ووٹوں کے تناسب سے صرف 69 حلقوں میں کامیاب امیدواروں نے 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیےا ور 196 حلقوں میں کامیاب امیدواروں کو نصف سے کم ووٹ حاصل ہوئے۔
فافن رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ 2024 کے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلیوں میں صرف دو حلقے ایسے تھے جہاں کامیاب امیدواروں نے 50 فیصد سے زائد رجسٹرڈ ووٹ حاصل کیے، صوبائی اسمبلیوں میں زیادہ تر 499 صوبائی حلقوں میں کامیاب امیدواروں کو 25 فیصد سے کم رجسٹرڈ ووٹرز کی حمایت ملی۔
جنرل الیکشن2024 میں صرف 107 صوبائی حلقوں میں کامیاب امیدواروں نے 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیے، ایف پی ٹی پی (FPTP) نظام اس بحران کو مزید بڑھا دیتا ہے ،ایف پی ٹی ایف میں وہ امیدوار کامیاب ہوتا ہے جو حلقے میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرے، چاہے اسے اکثریتی حمایت حاصل نہ ہو۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ فافن پارلیمنٹ سے اپیل کرتا ہے کہ وہ ایف پی ٹی پی نظام کا ازسرِ نو جائزہ لے پارلیمان ووٹرز کی زیادہ شمولیت اور مزید نمائندہ انتخابی نتائج کو یقینی بنانے کے لیے اصلاحات پر غور کرے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: حلقوں میں کامیاب امیدواروں میں کامیاب امیدواروں کو رجسٹرڈ ووٹرز کی انتخابی نتائج رجسٹرڈ ووٹ حمایت حاصل ووٹ حاصل فیصد سے
پڑھیں:
معیشت میں بہتری کی دعویدار حکومت صنعتی پہیہ چلانے میں ناکام
لاہور ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین ۔ 21 فروری 2025ء ) معیشت میں بہتری کی دعویدار حکومت صنعتی پہیہ چلانے میں ناکام، رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران ملک کی بڑی صنعتوں کی پیدوار مزید کم ہو گئی۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے ملک کی بڑی صنعتوں کی پیداوار سے متعلق اعداد و شمار پر مبنی رپورٹ جاری کی گئی ہے، جس میں ملک کی بڑی صنعتوں کی پیدوار میں مزید کمی ہو جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ ادارہ شماریات کی جانب سے رواں مالی سال کی ششماہی رپورٹ میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں کمی ریکارڈ کی گئی۔ ادارہ شماریات کے مطابق دسمبر میں سالانہ بنیادوں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 3.73 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ نومبر کی نسبت دسمبر میں صنعتوں کی پیداوار 19.07 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔(جاری ہے)
رپورٹ کے مطابق جولائی تا دسمبر فرنیچر کی صنعتی پیداوار میں 61.06فیصد ، مشینری اور ایکوئپمنٹ کی صنعت سے پیداوار 27.88 فیصد ، الیکڑیکل ایکوئپمنٹ کی صنعتی پیداوار میں 19.10 فیصد کی کمی ہوئی۔
آئرن اینڈ سٹیل مصنوعات کی پیداوار 12.04فیصد ، کیمیکلز مصنوعات کی پیداوار میں 8.87فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق جولائی تادسمبر آٹوموبیل سیکٹر کی پیداوار 50.16فیصد بڑھ گئیں، تمباکو کی صنعتی پیداوار میں 19.21 فیصد، پیپر اور بورڈ کی صنعتی پیداوار میں 2.81فیصد کا اضافہ ہوا۔ اسی عرصہ کے دوران فارماسوٹیکلز کی پیداوار 1.85فیصد، ٹیکسٹائل سیکٹر کی پیداوار میں 2.14فیصد، مشروبات کی صنعتی پیداوار 1.15 فیصد جبکہ لیدر مصنوعات کی صنعتی پیداوار میں 0.38فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب ملک کی سب سے بڑی ٹیکسٹائل سیکٹر میں بحرانی صورتحال پیدا ہو جانے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کی جانب سے ملک کی ٹیکسٹائل صنعت میں بحرانی صورتحال پیدا ہو جانے کا انکشاف کیا گیا ہے۔ نجی ٹی وی چینل آج نیوز کی رپورٹ کے مطابق آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین کامران ارشد نے خبردار کیا ہے کہ ٹیکسٹائل صنعت شدید بحران کا شکار ہو چکی ہے، 40 فیصد اسپننگ ملز بند ہو چکی ہیں جبکہ باقی بھی بند ہونے کے قریب ہیں۔ اپٹما نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مقامی ٹیکسٹائل صنعت کو مساوی مواقع فراہم کیے جائیں اور اسپننگ انڈسٹری کو بچانے کے لیے فوری پالیسی اصلاحات کی جائیں۔ کامران ارشد کا کہنا ہے کہ دھاگے کی بے تحاشا درآمدات کے باعث مقامی صنعت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اور اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو مزید 100 سے زائد اسپننگ ملز بند ہو جائیں گی، جس سے لاکھوں ملازمتیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ چئیرمین اپٹما کے مطابق غیر منصفانہ ٹیکس نظام اور حکومتی پالیسیوں نے ٹیکسٹائل صنعت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، جس سے 15 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ کامران ارشد نے کہا کہ پاکستان کی کاٹن اکانومی کو بچانے کے لیے فوری اقدامات ناگزیر ہیں اور ٹیکسٹائل سیکٹر کو سہارا دینے کے لیے سیلز ٹیکس اصلاحات کی جائیں، ورنہ یہ صنعت مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی۔ دوسری جانب ملک میں مہنگی بجلی و کاروباری مشکلات کے باعث ٹیکسٹائل انڈسٹری کے 33 فیصد یونٹ بند ہونے کا انکشاف سامنے آگیا۔ دنیا نیوز کے مطابق مہنگی بجلی اور کاروباری مشکلات کی وجہ سے ملک میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کے 33 فیصد یونٹ بند ہو چکے ہیں، یعنی پاکستان کی 568 ٹیکسٹائل ملز میں سے 187 اب بند ہوچکی ہیں، ان میں سب سے زیادہ ملز پنجاب میں بند ہوئیں صوبے میں 147 ٹیکسٹائل ملز بندش کا شکار ہوئیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ سندھ اور بلوچستان میں 54 ملز بند ہوئی ہیں تو خیبرپختونخواہ میں 6 ملز بند ہو چکی ہیں، شہروں کے لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو قصور میں سب سے زیادہ 47 اور ملتان میں 33 فیکٹریاں بند ہوئی ہیں، فیصل آباد میں 31، شیخوپورہ میں 11 اور ساہیوال میں 17 ٹیکسٹائل ملز بند ہوچکی ہیں، ان ملز کی بندش کی وجہ مہنگی بجلی کے علاوہ ملک کی سخت معاشی صورتحال بھی بتائی گئی ہے۔ علاوہ ازیں عالمی بینک کی جانب سے پاکستان کی ایکسپورٹس میں مسلسل گراوٹ کے حوالے سے بھی ایک رپورٹ جاری کی گئی، جس میں کہا گیا ہے کہ ایکسپورٹ میں کمی کی بنیادی وجہ تجارتی پالیسی ہے جہاں دیگر ممالک تجارتی رکاوٹوں کو کم کر رہے ہیں اور علاقائی اور عالمی سطح پر اپنی معیشتوں کو مربوط کر رہے ہیں، پاکستان مخالف سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، اس وقت پاکستان کے ٹیرف عالمی اوسط سے کم از کم دو گنا اور مشرقی ایشیاء کے ممالک کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہیں۔ اسی حوالے سے ایک اور رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان برآمدات کے شعبے میں خطے کے دیگر ممالک کی نسبت سب سے پیچھے رہ گیا ہے، پاکستان کے مقابلے میں سری لنکا، بنگلہ دیش، بھارت اور حتیٰ کہ مصر کی برآمدات بھی زیادہ ہیں، دیگر ممالک کی برآمدات جی ڈی پی کا 27 فی صد ہیں، جب کہ پاکستان کی برآمدات 10 فی صد تک محدود ہیں، 2010ء سے 2024ء تک ہر سال جی ڈی پی شرح کے لحاظ سے برآمدات کم ہوئی ہیں، 2010ء میں برآمدات جی ڈی پی کا 13 فی صد تھیں، 2024ء میں یہ 10 فیصد رہ گئیں۔