اسرائیلی فوج کی شام میں زیرقبضہ علاقوں میں لوگوں کو زمینوں کے پر کشش معاوضے اور اچھی نوکریوں کی پیشکش
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
دمشق(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔24 فروری ۔2025 ) اسرائیلی فوج شام کے جنوب میں زیرقبضہ علاقوں کی آبادی کو زمینوں کے پر کشش معاوضے اور اچھی نوکریوں کی پیشکش کررہی ہے یہ سلسلہ سابق صدر بشار الاسد کی حکومت کے سقوط کے بعد سے جاری ہے جب اسرائیلی فوج نے جبل الشیخ اور القنیطرہ صوبے کی پہاڑیوں اور دیہی علاقوں کا کنٹرول لے لیا تھا.
(جاری ہے)
عرب نشریاتی ادارے کے مطابق اگرچہ اسرائیل کی جانب سے سرکاری طور پر اس حوالے سے کوئی اعلان سامنے نہیں آیا تاہم شام کے جنوبی حصے میں تعینات اسرائیلی فوج نے وہاں فوجی اڈے قائم کر لیے اور اپنے فوجیوں کے لیے رہائشی عمارتیں بھی بنا لیں رپورٹ میںالقنیطرہ میں ذرائع کے حوالے بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے جنوبی کی آبادی کو معاشی پیش کش بھی کی ہے. عرب تجزیہ نگارو ں کا کہنا ہے کہ اسرائیل سرحدوں میں توسیع کرنے کی کوشش کررہا ہے بعض مبصرین سرحدی علاقوں میں اسرائیلی سرگرمیوں پر دمشق کی خاموشی کو اسدحکومت کے خلاف موجودہ عبوری حکومت اور تل ابیب کے درمیان خفیہ ڈیل کا نتیجہ قراردے رہے ہیں واضح رہے کہ اسرائیل نے اسدحکومت کے خلاف باغی گروپوں کی برق فتار پیش قدمی کے دوران فضائی حملوں کے ذریعے بشارالااسد کی شامی افواج کو مفلوج کردیا تھاجس کے بعد باغی گروپ آسانی کے ساتھ شامی دارالحکومت دمشق سمیت ملک پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے. بشارالااسد‘ایران اور ان کے دیگر اتحادیوں کی جانب سے ہمسایہ عرب ملکوں کا نام لیے بغیر الزام عائدکیا جاتا رہا ہے کہ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ مل کر شام کے باغی گرپوں کی مدد کی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اسرائیلی فوج نے شام کے جنوب میں ان علاقوں میں مردم شماری کی جہاں اس کی فوجیں قابض ہیں مردم شماری کے دوران آبادیوں کی تعداد، عمر، تعلیمی قابلیت اور کام کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں بتایا گیا ہے کہ ان علاقوں میں اسرائیلی افواج نے زمینوں کے سروے بھی کیئے ہیں اور مقامی لوگوں کو زمینیں فروخت کرنے کے لیے پرکشش معاوضہ دینے کے وعدے کیے ہیںذرائع کے مطابق اسرائیلی فوج نے مقامی آبادی کو اسرائیلی سرحد کے اندر روزگار کے مواقع دینے کا وعدہ بھی کیاالبتہ مقامی ذرائع کے مطابق یہ وعدے اسرائیل میں شامیوں کی بھرتیوں کی حد تک نہیں پہنچے ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے بعض لوگوں کو کام کی پیش کش کی ہے کہ وہ صبح اسرائیل میں داخل ہوں اور کام کے بعد رات میں واپس شام لوٹ آئیں جیسا کہ غزہ کی پٹی میں ہوا کرتا تھا. ذرائع کے مطابق اسرائیلی فوج نے ان لوگوں کے لیے ورک پرمٹ پیش کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے اسرائیلی فوج نے وعدہ کیا ہے کہ ہر کام کرنے والے کو روزانہ 75 سے 100 ڈالر کی اجرت ملے گی جو شام میں کسی ملازم کو ملنے والی کئی ماہ کی تنخواہ کے برابر ہے یاد رہے کہ شام کے بعض جنوبی قصبوں اور دیہات کے لوگوں نے اسرائیلی فوج کی جانب سے پیش کی جانے والی انسانی امداد لینے سے انکار کر دیا تھا اسرائیل مختلف عسکری اور اقتصادی طریقوں سے جنوبی شام میں اپنے وجود کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے یہاں وہ اب تک 7 فوجی ٹھکانے قائم کر چکا ہے. بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ وہ گولان کی پہاڑیوں میں بفرزون کے اندر کئی ٹھکانوں جن کی تعداد 10 سے زیادہ ہو چکی ہے میں پوزیشن سنبھال چکی ہے یہ بفرزون 1974 سے اسرائیل اور شام کے زیر کنٹرول علاقوں کو الگ کرتا ہے. اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے مطابق یہ اقدام عارضی اور دفاعی نوعیت کا ہے جس کا مقصد شام کی سمت سے اپنے ملک کے لیے ممکنہ خطرات کو ختم کرنا ہے تاہم ساتھ وہ یہ باور کرا چکے ہیں کہ سرحد پر سیکورٹی ضمانت حاصل ہونے تک ان کی فوج اس بفرزون میں رہے گی نیتن یاہو زور دیتے ہیں کہ شام کے جنوبی علاقے کو ہتھیاروں سے پاک رکھا جائے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسرائیلی فوج نے ہے کہ اسرائیل علاقوں میں ذرائع کے کے مطابق شام کے کے بعد کے لیے
پڑھیں:
اسرائیل اور ترکی کے درمیان لفظی جنگ حقیقی جنگ بن سکتی ہے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) ایک سینئر اسرائیلی حکومتی اہلکار نے خبردار کیا کہ ترکی شام میں ایک ''نو عثمانی ریاست‘‘ کے قیام کی کوشش کر رہا ہے اور اگر اس نے ''سرخ لکیر‘‘ کو عبور کیا تو اسرائیل کارروائی کرے گا۔
اس کے جواب میں ترک حکومتی اہلکاروں نے کہا ہے کہ غزہ، لبنان اور شام پر جاری اپنے فضائی حملوں کے ساتھ، اسرائیل کی ''بنیاد اور نسل پرست حکومت‘‘ جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کے ساتھ ''ہمارے خطے کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ‘‘ بن گئی ہے۔
عالمی برادری اسرائیلی حکومت کی غیر قانونی سرگرمیوں کے خاتمے کو یقینی بنائے، انقرہ
یہ تازہ ترین غیر سفارتی تبصرے گزشتہ ہفتے کے آخر میں اسرائیل کیشامپر دوبارہ بمباری کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں۔
(جاری ہے)
دسمبر 2024 ء میں شام کے آمر صدر بشار الاسد کی معزولی کے بعد، اسرائیل نے شام میں متعدد اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ شام کے نئے حکام، جو 14 سال کی تفرقہ انگیز خانہ جنگی کے بعد ملکی عوام کو متحد کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، کہتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کوئی تنازعہ نہیں چاہتے۔
اس کے باوجود اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ اسے شام میں بمباری پر مجبور کیا گیا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ نئی حکومت اس کے خلاف پرانی حکومت کے ہتھیاروں کا استعمال نہ کرے۔
شامی مہاجرین ترکی میں ’سیاسی فٹ بال‘ کیسے بنے؟
ایک اسرائیلی اہلکار نے مقامی میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ شام پر گزشتہ ہفتے کے فضائی حملے مختلف تھے۔
ان کا مقصد ترکی کو ایک پیغام دینا تھا۔حملے کے اہداف کیا تھے؟
اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے حما میں ایک فوجی ہوائی اڈے کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ حمص میں طیاس، حمص کے ایئربیس ٹی 4 اور دمشق میں سائنسی مطالعات اور تحقیقی مراکز کی برانچوں کو نشانہ بنایا۔
ترکی کی حکمت عملی کیا ہے؟
ترکی کئی مہینوں سے خاموشی سے شام کی نئی حکومت کے ساتھ دفاعی معاہدے پر بات چیت کر رہا ہے۔
اس میں شامی فوجیوں کو تربیت دینا اور ان شامی ہوائی اڈوں کا استعمال کرنا شامل ہے، جن پر اسرائیل نے حملہ کیا۔ ترکی کا استدلال یہ ہے کہ ایران اور روس، جو کہ شام کی معزول حکومت کے سابق فوجی حامی رہے ہیں، نے شام میں جو خلا چھوڑ دیا ہے، وہ اسے پُر کرتے ہوئے شام میں استحکام لانے اور شدت پسند ''اسلامک اسٹیٹ‘‘ گروپ کے خلاف کارروائیاں کرنے میں مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ترکی، عراق، شام اور اردن کا داعش کے خلاف مشترکہ کارروائی کا فیصلہ
اسرائیل اسے کیسے دیکھ رہا ہے؟
اسرائیل کے دفاعی نامہ نگار رون بین یشائی نے مقامی آؤٹ لیٹ، Ynet نیوز کے لیے لکھا، ''مرکزی شام کے ہوائی اڈوں پر فضائی دفاعی نظام اور ریڈار متعارف کرانے کا ترکی کا ارادہ شام میں اسرائیل کی آزادی کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔
ترکی کی شام میں موجودگی کی وجہ سے اسرائیل آزادانہ طور پر ایران کی طرف بڑھنے کے لیے شام کی فضائی حدود استعمال نہیں کر سکتا۔‘‘ اسد حکومت کے دور میں شام کی فضائی حدود کے استعمال پر زیادہ پابندیاں عائد تھیں۔دریں اثناء اسرائیلی میڈیا نے سکیورٹی بجٹ اور فورس کی تعمیر کا جائزہ لینے سے متعلق 'ناگل کمیشن‘ کی رپورٹ کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔
یہ کمیشن اگست 2024 ء میں قائم مقام اسرائیلی سکیورٹی مشیر جیکب ناگل کی سربراہی میں قائم کیا گیا تھا، تاکہ اسرائیل کے مستقبل کے دفاعی بجٹ کے لیے سفارشات پیش کی جاسکیں۔ جنوری میں جب کمیشن کی رپورٹ جاری کی گئی تو اسرائیلی ذرائع نے کہا کہ اس نے ترکی کے ساتھ آنے والی جنگ سے انتباہ کیا ہے۔یورپی یونین کا ’ایئر برج‘ کے ذریعے شام کو امداد کی فراہمی کا اعلان
تاہم اسرائیل اور ترکی کے درمیان براہ راست تصادم کا امکان نہیں ہے۔
کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بات چیت اس ہفتے شروع ہوئی ہے کیونکہ اگر اسرائیل نے غلطی سے بھی ترک فوج کو نشانہ بنایا تو اس سے سنگین تنازعہ کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔اس بات کا امکان بھی نہیں ہے کہ اسرائیل کا اتحادی اور دیرینہ دوست امریکہ ترکی کے ساتھ تصادم کی منظوری دے گا۔
ادارت عاطف بلوچ