Islam Times:
2025-02-24@12:03:38 GMT

شہید مقاومت

اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT

‍‍‍‍‍‍

تجزیہ ایک ایسا پروگرام ہے جسمیں تازہ ترین مسائل کے بارے نوجوان نسل اور ماہر تجزیہ نگاروں کی رائے پیش کیجاتی ہے۔ آپکی رائے اور مفید تجاویز کا انتظار رہتا ہے۔ یہ پروگرام ہر اتوار کے روز اسلام ٹائمز پر نشر کیا جاتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںہفتہ وار تجزیہ انجم رضا کے ساتھ
موضوع:سید مقاومت کی  تشیع جنازہ اور ان کی مجاہدانہ زندگی پہ ایک نظر
مہمان: ڈاکٹر علامہ میثم رضا ہمدانی
میزبان و پیشکش: سید انجم رضا

تاریخ: 24 فروری 2025
شہید سید  حسن  نصراللہ و  ہاشم صفی الدین کی تشیع جنازہ کا احوال 
شہید  کا تعارف،ابتدائی زندگی، زمانہ طالب علمی، مقاومت میں کب آئے؟
 آپ کا خطے میں اثر رسوخ، اہم کارنامے
 کیا آپ کی خون رنگ شہادت مقاومت کو مہمیز عطاکرے گی ؟ کیسے ؟
 کیا آپ کی خون رنگ شہادت مقاومت کو مہمیز عطاکرے گی ؟ کیسے ؟
 
خلاصہ گفتگو و اہم نکات:
٭سید حسن نصراللہ وقار کے عروج پر ہیں، نصراللہ کی روح اور راہ پیروکاروں کے لیے مشعل راہ ہے
٭حقیقی پیرو مکتب اہل بیت ؑ، ایک سچا مطیع ولایت،  ایک دلیر جاں باز مجاہد،
٭ شہید  نے راہی کربلا ہونے کا فقط نعرہ بلند نہیں کیا بلکہ آزادی قدس کے لئے اپنی جان قربان کردی اور اپنے عہد کو سچ کر دکھایا
٭ سید حسن  نصراللہ کی شہادت کے تقریباً پانچ ماہ بعد دنیا بھر سے لاکھوں افراد  کی ان کی تشیع جنازہ میں شرکت
٭  جب لبنان میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو ان کی عمر پانچ سال تھی۔ یہ ایک تباہ کن جنگ تھی
٭  شہید حسن  نصر اللہ 15 سال کی عمر میں اس وقت کے سب سے اہم لبنانی شیعہ سیاسی عسکری گروپ امل موومنٹ کے رکن  بنے
٭ سید حسن  نصراللہ  نصراللہ اپنے اساتذہ حکم پر 16 سال کی عمر  میں نجف اشرف  جاکر علوم دینی میں تخصص حاصل کیا
٭ نجف اشرف آپ کی ملاقات شہید عباس سے بھی ہوئی
٭شہید حسن نصراللہ کی لبنان واپسی کے بعد امام خمینی کی قیادت میں  انقلابِ اسلامی ایران برپا ہوا
٭امام خمینی ؓ نے حسن نصراللہ کو لبنان میں اپنے نمائندے کے طور پہ مقرر کردیا
٭حزب اللہ نے لبنان میں امریکی أفواج اور قابض صیہونی  کے خلاف مسلح کارروائیاں کرکے خطے کی سیاست میں اپنا نام قائم کیا
٭ عباس موسوی کی ، 1992 میں  شہادت کے بعد  حزب اللہ کی قیادت حسن نصر اللہ کو ملی
 ٭ شہید حسن نصراللہ مشرق وسطیٰ کےسب سے موثر اور مقبول لیڈر تھے
 

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: حسن نصراللہ اللہ کی

پڑھیں:

شہید حسن نصراللہ کی ٹارگٹ کلنگ میں امریکہ کا کردار

اسلام ٹائمز: امریکہ نے شہید سید حسن نصراللہ کے قتل کے لیے ضروری اسلحہ فراہم کرنے علاوہ اس قتل کی نامحدود سیاسی حمایت بھی کی ہے جس کے باعث صیہونی حکمرانوں کے خلاف کوئی عدالتی کاروائی نہیں ہو سکی اور ان پر جنگی جرائم اور انسانیت سوز مظالم کے باوجود مقدمہ نہیں چل سکا۔ البتہ یہ جرائم اور مظالم وقت گزرنے فراموش نہیں کیے جائیں گے اور جتنی بھی دیر سے سہی آخرکار امریکہ اور صیہونی رژیم کو ان جرائم کی سزا ملے گی۔ تحریر: علی احمدی
 
اگرچہ شہید سید حسن نصراللہ کی ٹارگٹ کلنگ میں امریکہ کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کی لاجسٹک سپورٹ اور اسلحہ فراہمی ایک واضح امر ہے لیکن کچھ ایسے شواہد بھی پائے جاتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ نے اس قتل میں کہیں زیادہ وسیع کردار ادا کیا ہے۔ صیہونی دشمن نے سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان شہید سید حسن نصراللہ کی ٹارگٹ کلنگ میں اپنے پاس موجود جدید ترین فوجی ٹیکنالوجیز کا استعمال کیا تھا اور صرف چند منٹ میں ہی ایف 15 جنگی طیاروں کی مدد سے ایک ہی جگہ 80 سے زیادہ ایسے بم گرائے جن میں سے ہر ایک کا وزن تقریباً ایک ٹن کے قریب تھا۔ اس بارے میں شائع ہونے والی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل نے اس حملے میں جن بموں کا استعمال کیا وہ ایم کے 84 کہلاتے ہیں اور اینٹی بنکر اور امریکی ساختہ ہیں۔
 
شائع ہونے والی رپورٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل کی ٹارگٹ کلنگ کوئی سادہ فوجی اور سیکورٹی آپریشن نہیں تھا بلکہ اس کے مقدمات فراہم کرنے کے لیے طویل عرصہ درکار تھا۔ یہ حملہ اسلامی مزاحمت کی جانب سے غزہ کی حمایت کے ردعمل میں انجام پایا۔ مختلف باخبر ذرائع کے بقول غاصب صیہونی رژیم نے اس حملے میں بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک کی انٹیلی جنس سروسز کی مدد بھی حاصل کی تھی تاکہ اپنے انٹیلی جنس اور لاجسٹک آپریشنز کو خفیہ رکھ سکے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ بین الاقوامی کھلاڑی اس حملے میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر شریک بھی تھے۔ اس بارے میں ایک اہم ترین سوال یہ ہے کہ شہید سید حسن نصراللہ کی ٹارگٹ کلنگ کے لیے انجام پانے والے حملے کی منصوبہ بندی اور اجراء میں امریکہ کا کردار اور شراکت کس حد تک تھی؟
 
سیاسی اور فوجی امور کے ماہر عمر معربونی اس بارے میں کہتے ہیں کہ اس حملے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کے اصلی دشمن کے طور پر امریکہ کے کردار سے چشم پوشی اختیار نہیں کی جا سکتی اور اس آپریشن میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اسٹریٹجک تعاون انجام پایا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو فراہم کیے گئے تعاون کا ایک حصہ ان بموں کی صورت میں تھا جن سے شہید سید حسن نصراللہ کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ بم ایم کے 84 نام کے ہیں اور اگرچہ ان میں سے ہر ایک کا وزن ایک ٹن ہے لیکن وہ 80 ٹن دھماکہ خیز مادے جتنی تباہی پھیلاتا ہے۔ معربونی نے شہید سید حسن نصراللہ کی ٹارگٹ کلنگ میں امریکی تعاون کے دو بنیاد پہلو بیان کیے ہیں جو یہ ہیں:
 
1)۔ الیکٹرانک آلات کے ذریعے نظارت اور جاسوسی معلومات کی فراہمی۔ واضح ہے کہ اس حملے سے پہلے انتہائی جدید طریقوں سے جاسوسی کا عمل انجام پایا ہے جس کی مدد سے مطلوبہ ٹارگٹ کا تعین کیا گیا ہے۔
2)۔ اسرائیل کو اسلحہ اور جنگی آلات فراہم کرنا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس حملے میں امریکہ کا کردار مرکزی نوعیت کا تھا اور کم از کم اس بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں پایا جاتا۔
بین الاقوامی امور کے ایک اور ماہر عدنان علامہ بھی امریکی حکومت کو شہید سید حسن نصراللہ کی ٹارگٹ کلنگ میں برابر کا شریک قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ امریکہ تھا جس نے جنگی طیارے اور اسلحہ اور بم صیہونی رژیم کو فراہم کیے۔ وہ مزید کہتے ہین کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اس ٹارگٹ کلنگ سے پیشگی مطلع تھا۔
 
اس بات کی دلیل یہ ہے کہ اس حملے میں استعمال ہونے والے بم ایسے مخصوص بم تھے جن میں کم شدت کا یورینیم استعمال ہوتا ہے اور اس سے دھماکے والی جگہ کا درجہ حرارت شدید حد تک بڑھ جاتا ہے۔ عدنان علامہ کہتے ہیں: "امریکہ نے شہید سید حسن نصراللہ کے قتل کے لیے ضروری اسلحہ فراہم کرنے علاوہ اس قتل کی نامحدود سیاسی حمایت بھی کی ہے جس کے باعث صیہونی حکمرانوں کے خلاف کوئی عدالتی کاروائی نہیں ہو سکی اور ان پر جنگی جرائم اور انسانیت سوز مظالم کے باوجود مقدمہ نہیں چل سکا۔ البتہ یہ جرائم اور مظالم وقت گزرنے فراموش نہیں کیے جائیں گے اور جتنی بھی دیر سے سہی آخرکار امریکہ اور صیہونی رژیم کو ان جرائم کی سزا ملے گی۔" انہوں نے شہید سید حسن نصراللہ کی ٹارگٹ کلنگ میں امریکی مداخلت کو 70 فیصد قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ تعاون براہ راست طور پر انجام پایا ہے اور اس میں انٹیلی جنس تعاون بھی شامل ہے۔
 
عدنان علامہ نے شہید سید حسن نصراللہ کی ٹارگٹ کلنگ میں امریکہ کے کردار کے بارے میں تین اہم نکات پیش کیے:
1)۔ امریکہ نے لبنان میں دنیا کا سب سے بڑا سفارت خانہ بنا رکھا ہے جس میں ایک مخصوص ہیلی پیڈ اور ایئرپورٹ بھی شامل ہے اور وہاں بیروت ایئرپورٹ کی نظارت کے تحت پروازیں انجام پاتی ہیں۔
2)۔ امریکہ کے نمائندے کسی قسم کی اجازت اور روک ٹوک کے بغیر بہت آسانی سے لبنان کے مختلف وزارت خانوں میں آتے جاتے ہیں اور ہمیشہ اس ملک میں ان کی آمدورفت جاری رہتی ہے۔
3)۔ لبنان میں امریکی سفارت خانہ جدید ترین ٹیلی کمیونیکیشن اور جاسوسی آلات سے لیس ہے جن کے ذریعے امریکہ وسیع پیمانے پر جاسوسی معلومات اکٹھی کرتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ یہ معلومات اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کو بھی فراہم کرتا رہتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • موت ہو تو حسن نصراللہ جیسی ہو
  • کراچی، پاکستانی بچوں کا شہید سید حسن نصراللہ سے اظہار عقیدت، ویڈیو رپورٹ
  • لبنان: حزب اللہ کے شہید سربراہ حسن نصر اللہ کے جنازے میں ہزاروں افراد کی شرکت
  • شہید حسن نصراللہ کی ٹارگٹ کلنگ میں امریکہ کا کردار
  • شہدائے مقاومت کی نماز جنازہ نمائندہ ربہر انقلاب کی اقتدا میں ادا کر دی گی
  • شہید سید حسن نصراللہ، طالب علم سے قومی ہیرو بننے تک کا سفر
  • لبنان، حزب اللہ کے شہید سربراہ حسن نصر اللہ کے جنازے میں ہزاروں افراد کی شرکت
  • حسن نصراللہ شہید کی نماز جنازہ و تدفین آج ہو گی، لبنان میں سکیورٹی ہائی الرٹ
  • حزب اللّٰہ لبنان کے شہید سربراہ سید حسن نصراللّٰہ کی تدفین آج ہوگی