ایران،حزب اللہ اورامریکی پالیسی
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
صرف ایک سال قبل تک حزب اللہ کی عسکری،سیاسی،اورمعاشرتی ترقی نے اسے لبنان میں ایک ناقابلِ نظراندازقوت بنادیاتھا اور اس کی طاقت کا اثر نہ صرف لبنان بلکہ پورے خطے میں محسوس کیاجاتاتھا۔حزب اللہ کااسرائیل کیلئے چیلنج بننااورایران کی ممکنہ حکمتِ عملی اب بھی باہمی طور پر جڑے ہوئے ہیں اورخطے کی جغرافیائی سیاست میں گہرے اثرات رکھتے ہیں۔لبنان میں حزب اللہ نہ صرف عسکری تنظیم ہے بلکہ ایک سیاسی جماعت اورفلاحی ادارہ بھی ہے،جوعوامی خدمات فراہم کرتا ہے۔اس کی مقامی حمایت اسے مزیدمستحکم بناتی ہے،جس سے اسرائیل کیلئے اسے عسکری طورپر کمزورکرنا مزیدمشکل ہوجاتاہے۔
حزب اللہ کے پاس جدیدمیزائل سسٹمز، ڈرون ٹیکنالوجی، اورگوریلاوارفیئرمیں مہارت ہے،جو اسرائیل کیلئے ایک سنگین خطرہ ہے۔ 2006ء کی لبنان‘ اسرائیل جنگ میں حزب اللہ نے اسرائیل کوحیران کن مزاحمت کا سامنا کرایا تھا، جس کے بعداسرائیل نے اپنی شمالی سرحدپردفاعی نظام کومزیدمضبوط کیا۔اس وقت حزب اللہ کے پاس اندازالاکھ سے زیادہ میزائل اورراکٹ موجود ہیں،جن کی رینج اسرائیل کے بڑے شہروں تک پہنچ سکتی ہے۔اگرچہ اسرائیل کے پاس جدید دفاعی نظام،جیسے آئرن ڈوم،موجودہیں،حزب اللہ کی مسلسل عسکری ترقی اورجنوبی لبنان میں اس کے ٹھکانے اسرائیل کیلئے مسلسل خطرہ بن گئے تھے ۔ کسی بھی بڑے تصادم کی صورت میں دونوں اطراف بھاری نقصان کاسامنا بھی کرناپڑا لیکن حزب اللہ کی استعداداسرائیل کیلئے ایک مستقل خطرہ ثابت ہوئی۔
حزب اللہ لبنان میں ایک مضبوط سیاسی اورعسکری قوت ہے جس کاایران کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔اسرائیل کی جانب سے حزب اللہ کو کمزورکرنے کی مسلسل کوششوں کے باوجود تنظیم نے شام کی خانہ جنگی میں حصہ لے کر مزیدعسکری تجربہ حاصل کیاتھا لیکن شام سے بشارالاسدکے فرارکے بعدحزب اللہ کاوجودبھی ختم ہوچکاہے۔تاہم لبنان میں عوامی حمایت اورایرانی مالی وعسکری امدادنے حزب اللہ کواب تک برقرار رکھاہواہے،لیکن داخلی معاشی بحران اورسیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ حالیہ پسپائی کے بعد تنظیم کیلئے چیلنجزپیداہوچکے ہیں۔
اسرائیل اب بھی خاص طورپرشام اور لبنان میں حزب اللہ کے عسکری انفراسٹرکچرکوتباہ کرنے کیلئے فضائی حملوں اورانٹیلی جنس آپریشنز پر انحصارکررہا ہے ۔اسرائیل کی کوشش ہے کہ حزب اللہ کواتنا کمزور رکھاجائے کہ وہ اسرائیل کے خلاف بڑی عسکری کارروائی نہ کرسکے۔ تاہم،مکمل عسکری انخلانہ ہونے کی وجہ سے سرحد پر کشیدگی برقرارہے۔کیاان حالات میں حزب اللہ اسرائیل کیلئے چیلنج بن سکتی ہے؟آئیے اس کاجائزہ لیتے ہیں۔
26جنوری کے دن ہزاروں بے گھرلبنانی شہریوں نے جنوبی لبنان میں واقع اپنے گھروں کو واپس لوٹنے کی کوشش کی۔انقلابی موسیقی سنتے، حزب اللہ کاپرچم فخرسے لہراتے، قافلوں میں سفر کرنے والے ان لوگوں کوایک سال کی جنگ کے بعدواپسی پرپتہ چلاکہ ان کے گھررہے ہی نہیں تھے۔تاہم موٹرسائیکل سوارنوجوان حزب اللہ کے پرچم لہراتے ہوئے اورہارن بجاتے ہوئے ان علاقوں سے گزرے جہاں اہل تشیع آبادنہیں توچند مقامی افرادسے ان کی مدبھیڑہوئی کیوںکہ ان قافلوں کواشتعال انگیزحرکت کے طور پر دیکھا گیا ۔ انہوں نے اپنے نقصان پرتاسف کا اظہار کیااورتباہ شدہ عمارات میں حزب اللہ کے سابق سربراہ حسن نصراللہ کی تصاویرآویزاں کر دیں۔
اس دن اسرائیلی فوجیوں کے انخلامکمل ہونا تھاجوامریکااورفرانس کی ثالثی میں طے پانے والی جنگ بندی کی شرط تھی۔اس شرط کے تحت حزب اللہ کوجنوبی علاقوں سے ہتھیاراورجنگجو بھی ہٹانا تھے جبکہ ہزاروں لبنانی فوجیوں کی جنوب میں تعیناتی ہوناتھی۔ تاہم اسرائیل کاکہناہے کہ لبنان نے معاہدے پرمکمل عملدرآمدنہیں کیااوراس کانتیجہ یہ نکلاکہ اسرائیلی فوج کا انخلابھی مکمل نہیں ہوا ۔لبنان نے بھی اسرائیل پرکچھ ایسے ہی الزامات لگائے ہیں اورجیساکہ متوقع تھا،حالات بگڑے۔چندعلاقوں میں اسرائیلی فوجیوں نے گولیاں چلادیں اور ایک لبنانی فوجی سمیت24افراد ہلاک ہوئے۔تاہم جنوبی لبنان میں دہائیوں سے سب سے بڑی طاقت حزب اللہ کوایک بارپھراپنی طاقت کے اظہارکاموقع مل گیاجسے اسرائیل سے جنگ میں بہت نقصان اٹھاناپڑاتھالیکن حزب اللہ کے اس جواب نے اسرائیل اوراس کے اتحادیوں کوپھرسے ششدرکر دیاہے لیکن بڑاسوال یہ ہے کیاحزب اللہ بطورگروہ لبنان اورمشرق وسطی میں وقوع پذیرہونے والی تبدیلیوں سے بچ کرزندہ رہ سکے گی؟
گذشتہ دہائیوں میں حزب اللہ نے ایک عسکری،سیاسی اورمعاشرتی تحریک کے طورپرلبنان کے سب سے طاقتورگروہ کی حیثیت اختیارکرلی تھی جس نے ایرانی حمایت اورمددسے لبنانی فوج سے بھی زیادہ عسکری طاقت اورمہارت حاصل کرلی۔ دوسری جانب پارلیمان میں موجودگی کی وجہ سے حزب اللہ کے بغیرکوئی اہم ملکی فیصلہ ممکن نہیں ہوتا تھا۔ مختصرطورپریہ کہاجاسکتاہے کہ حزب اللہ کسی بھی وقت ملک کومنجمدکرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی تھی اورکئی باراس نے کیابھی۔تازہ ترین تنازع اکتوبر 2023 ء میں اس وقت شروع ہواجب حزب اللہ نے غزہ میں اسرائیلی جنگ کے جواب میں ایک دوسرا محاذ کھول دیا۔گزشتہ ستمبرمیں کشیدگی اس وقت بڑھی جب اسرائیل نے ناقابل یقین حدتک حزب اللہ کے اندرگھس کرپہلے پیجر دھماکوں میں گروہ کے اراکین کی ہلاکت کی منصوبہ بندی کوعملی جامہ پہنایااوراس کے بعدوالکی ٹاکیزبھی اسی طرح استعمال ہوئیں۔
دوسری جانب فضائی حملوں اورجنوبی لبنان پرزمینی حملے میں عام شہریوں سمیت چارہزار افراد ہلاک ہوئے اورخصوصی طورپر حزب اللہ کی حمایت کرنے والے علاقوں میں بہت جانی اورمالی نقصان کے علاوہ حزب اللہ کوبھی بھاری چوٹ پہنچی ۔ بہت سے رہنما قتل ہوئے،حسن نصراللہ سمیت، جوتین دہائیوں سے حزب اللہ کاچہرہ تھے۔ ان کے جانشین نعیم قاسم،جو حسن نصراللہ جتنے بااختیار نہیں، نے تسلیم کیاہے کہ ان کو’’تکلیف دہ‘‘ نقصانات پہنچے ہیں۔نومبرمیں جنگ بندی کا اعلان ایک طرح سے حزب اللہ کی جانب سے ہتھیارپھینکنے کے برابرتھا جسے امریکا،برطانیہ سمیت بہت سے ممالک میں دہشت گردگروہ سمجھا جاتا ہے۔
گذشتہ ماہ نئی حقیقت کاادراک اس وقت ہوا جب لبنان کی پارلیمنٹ نے سابق آرمی چیف جوزف اون کونیاصدرمنتخب کرلیاجن کی حمایت امریکامیں بھی پائی جاتی ہے۔یہ انتخاب دوسال تک ایک بحران کے بعدہواجس کی وجہ حزب اللہ بتائی جاتی ہے۔تاہم کمزور حزب اللہ اس باراس عمل کو ماضی کی طرح روک نہیں سکی۔ایسی ہی ایک اور پیش رفت نئے صدرکی جانب سے نواف سلام کی بطوروزیراعظم تعیناتی تھی جوبین الاقوامی عدالت انصاف کے صدرکے طورپر کام کررہے تھے۔ان کوحزب اللہ کاحامی نہیں سمجھا جاتا۔
فی الحال حزب اللہ کی توجہ اورترجیح اس کی اپنی بنیادہے۔حزب اللہ نے اپنے لوگوں کو بتا رکھا ہے کہ جنگ میں ناکامی حقیقت میں اس کی فتح ہے لیکن لبنان میں اکثریت جانتی ہے کہ سچائی مختلف ہے۔آبادیاں تباہ ہوچکی ہیں اورعالمی بینک کے مطابق عمارات کوپہنچنے والے نقصان کاتخمینہ تین ارب ڈالرسے زیادہ کالگایاگیاہے۔تباہ حال معیشت کے ساتھ لبنان میں کوئی نہیں جانتاکہ مددکہاں سے آئے گی کیونکہ بین الاقوامی امداد کوحکومت کی جانب سے حزب اللہ کی طاقت کولگام دینے کے اقدامات سے مشروط کردیاگیا ہے۔حزب اللہ نے 2006ء کی جنگ کے بعدکی طرح بہت سے لوگوں کی مالی امدادکی ہے تاہم اشارے مل رہے ہیں کہ حزب اللہ سے لوگوں کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔
’’واریئرزآف گاڈ:انسائیڈحزب اللہ سٹرگل اگینسٹ اسرائیل‘‘کے مصنف نکولس بلینڈفورڈ کے مطابق ’’چھ ماہ بعدبھی لوگ خیموں یااپنے مکانات کے کھنڈرات میں رہ رہے ہوئے توشایدوہ جنگ کیلئے اسرائیل یالبنانی حکومت کی بجائے حزب اللہ کو موردالزام ٹھہراناشروع کردیں۔ایسی صورت حال میں حزب اللہ کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اسرائیل کیلئے میں حزب اللہ حزب اللہ کی حزب اللہ نے حزب اللہ کو حزب اللہ کے سے حزب اللہ اسرائیل کی کی جانب سے
پڑھیں:
اسرائیل حماس جنگ بندی کیلئے ہونیوالے مذاکرات بغیر کسی پیشرفت کے ختم
حماس عہدیدار کا کہنا ہے کہ حماس کا مؤقف برقرار ہے کہ کسی بھی معاہدے کی بنیاد غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کا خاتمہ اور قابض افواج کا انخلا ہونا چاہیئے۔ عہدیدار نے کہا کہ حماس کے ہتھیاروں کے حوالے سے کوئی بات چیت ممکن نہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیل حماس جنگ بندی کے لیے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات کسی پیش رفت کے بغیر ختم ہوگئے۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق قاہرہ میں غزہ کے جنگ بندی معاہدے کی بحالی اور اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے ہونے والے تازہ مذاکرات کسی نمایاں پیش رفت کے بغیر اختتام کو پہنچ گئے۔ خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق پیر کو فلسطینی اور مصری ذرائع نے بتایا کہ حماس نے اپنا مؤقف برقرار رکھا ہے کہ کسی بھی معاہدے کا نتیجہ جنگ کے مکمل خاتمے پر نکلنا چاہیئے۔ اسرائیل نے جنوری میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے ناکام ہونے کے بعد گزشتہ ماہ دوبارہ غزہ میں اپنی فوجی کارروائیاں شروع کیں اور اس کا اصرار ہے کہ وہ جب تک حماس کو مکمل طور پر شکست نہ دے دے، یہ حملے جاری رکھے گا۔
حماس کا کہنا ہے کہ جنگ کے خاتمے اور غزہ سے انخلا کے بدلے قیدیوں کی ایک ساتھ حوالگی کے لیے تیار ہیں، مگر اسرائیلی تجویز جنگ کے مکمل خاتمے کے لیے نہیں، صرف قیدیوں کی واپسی کے لیے ہے۔ مصر نے غزہ جنگ بندی کے حوالے سے نئی تجویز پیش کی ہے، جس میں فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ عرب میڈیا کو ایک سینیئر حماس عہدیدار نے بتایا ہے کہ مصر نے حماس کو جنگ بندی کے لیے ایک نئی تجویز پیش کی ہے، تاہم اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جب تک فلسطینی مزاحمتی گروہ ہتھیار نہیں ڈال دیتے، تب تک اسرائیل کے ساتھ کوئی معاہدہ ممکن نہیں۔
حماس عہدیدار کا کہنا ہے کہ حماس کا مؤقف برقرار ہے کہ کسی بھی معاہدے کی بنیاد غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کا خاتمہ اور قابض افواج کا انخلا ہونا چاہیئے۔ عہدیدار نے کہا کہ حماس کے ہتھیاروں کے حوالے سے کوئی بات چیت ممکن نہیں۔ حماس رہنماء کے مطابق مصر کی تجویز میں 45 دن کی عارضی جنگ بندی بھی شامل ہے، جس کے بدلے میں خوراک اور شیلٹر کے لیے ضروری سامان غزہ میں داخل کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ حماس کا کہنا ہے کہ جنگ بندی صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب اسرائیل کی جارحیت کا مکمل خاتمہ ہو، جس میں اب تک 50 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔