اسلام آباد:

وزیر اعظم پاکستان کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی و ماحولیات رابطہ رومینہ خورشید عالم نے کہا ہے کہ ہمیں پاکستان میں بھی معاشی ترقی کے لیے واٹر سیکیورٹی کی ضرورت ہے اور کوئی ملک اس مسئلہ سے اکیلا نہیں نمٹ سکتا۔

اسلام آباد میں او آئی سی ممالک کی پانی کے مسئلے پر رابطہ کانفرنس کے دوران خطاب کرتے ہوئے رومینہ خورشید عالم نے کہا ہے کہ پانی صرف قدرتی یا ماحولیاتی وسیلہ ہی نہیں بلکہ ہماری زندگی کی بنیاد اور سفارتی ترجیحات میں شامل ہے، پاکستان نے پانی کے اشتراک کے معاہدے کیے ہیں جس میں انڈس واٹر ٹریٹی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ او آئی سی میں شامل اسلامی ممالک میں بھی پانی کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستان ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ اور واٹر منیجمنٹ کی پلاننگ کررہا ہے جس سے سیلابی پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے او آئی سی ممالک ، ان کی جامعات اور ریسرچ ادارے آپس میں معلومات شیئر کریں، ایک دوسرے سے تعاون کریں۔

کامسٹیک کے تحت منعقدہ دو روزہ کانفرنس میں 22 اسلامی ممالک کے پانی سے متعلق ریسرچ کے ادارے ’’سینٹر آف ایکسیلینس‘‘ کے نمائندے شریک ہوئے۔

کانفرنس سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کامسٹیک کے کوآرڈینیٹرجنرل ڈاکٹر اقبال چوہدری نے کہا ہے کہ پانی ہر قوم کی بنیادی ڈیمانڈ یا ضرورت ہے، واٹر ریسورس منیجمنٹ تمام ممالک بلکہ پوری دنیا کا اہم مسئلہ ہے اور آج سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بھی واٹر پیورو فیکیشن پر بات کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ صرف تکنیکی نہیں بلکہ ایک سماجی مسئلہ ہے، واٹر گورنس اور پانی کا بے جا استعمال یا نقصان ہم سب کے لیے چیلنج ہے اور ہمیں اس مسئلے سے سائنس کے ساتھ ساتھ سماجی بنیادوں پر بھی نمٹنا ہوگا۔

کانفرنس سے اپنے خطاب میں او آئی سی کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل (جنرل سیکریٹریٹ) آفتاب احمد کھوکھر کا کہنا تھا کہ بہت سے او آئی سی اراکین کو پانی کے حوالے سے غیر مساوی تقسیم کا سامنا ہے، پانی معاشی سرگرمیوں کی بنیاد ہے اور ماحولیاتی تبدیلی او آئی سی ممالک کا بھی مسئلہ ہے۔ امید ہے کہ او آئی سی کی اس دو روزہ ورکشاپ کے ذریعے ہم پانی کے حوالے سے چیلنجز اور اس کے حل کی جانب پہنچیں گے۔

کانفرنس کی کلیدی اسپیکر ڈائریکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ ریسرچ او آئی سی زہرا زمرت نے اپنے آن لائن خطاب میں کہا کہ کسی بھی ملک کی پبلک ہیلتھ، انڈسٹری، زراعت اور سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ کے لیے پانی ضروری ہے،sustainable use of water resources ہمارا اہم مسئلہ ہے۔

اس موقع پر حصار فاؤنڈیشن کی عافیہ سلام کا کہنا تھا کہ پانی ہر رنگ، نسل، کمیونٹی سے بالاتر ہوکر سب کی ضرورت ہے سن 2050 تک دنیا میں پانی کی طلب میں 55 فیصد اضافہ ہوگا۔ توانائی کی طلب 80 فیصد اور خوراک کی طلب 60 فیصد بڑھ جائے گی، دنیا میں یہ مسائل کنٹرول سے باہر ہو رہے ہیں اور اس کے لیے فوری طور پر واٹر منیجمنٹ کی پلاننگ کی ضرورت ہے۔

کانفرنس میں اردن سے آئے ہوئے اردن کے کامسٹیک کے ایگزیکٹیو مروان الرگاد نے بھی خطاب کیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: او آئی سی ضرورت ہے مسئلہ ہے پانی کے ہے اور کے لیے نے کہا

پڑھیں:

صرف اپنے ملک کی فکر کیجیے!

متحدہ عرب امارات، سات چھوٹی چھوٹی ریاستوں کا ایک مجموعہ ہے۔ آبادی بھی ہمارے مقابلہ میں بس واجبی سی ہے۔ صرف ایک کروڑ نفوس، جس میں سے نوے فیصد لوگ باہر سے آئے ہوئے ہیں یعنی غیرملکی ہیں۔

سات ریاستوں میں دوبئی کو تقریباً پوری دنیا جانتی ہے۔ دراصل دوبئی تضادات کا ایک مجموعہ ہے جس کی مثال دنیا میں شاید کہیں موجود ہو، مگر اسلامی دنیا میں اس طرح کا بھرپور شہر دیکھنے میں نظر نہیں آتا۔ دوبئی ایک حددرجہ ترقی یافتہ اور زندہ دل شہر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ عام لوگوں کا خیال ہو کہ دوبئی، تیل کی آمدنی کی بدولت ترقی کی اوجِ ثریا پر براجمان ہے۔ مگر یہ گمان مکمل طور پر ناقص ہے۔ سات ریاستوں پر مشتمل اس ملک میں دوبئی، وہ واحد ریاست ہے جہاں تیل کے ذخائر نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یعنی جو زمینی دولت، ابوظہبی یا متصل ریاستوں کو حاصل ہے، دوبئی اس سے یکسر محروم ہے۔ مگر پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوبئی، تیل کے بغیر محیرالعقول ترقی کیسے کر گیا۔

یہ بھی یاد رہے کہ متحدہ عرب امارات، مکمل طور پر اسلامی مملکت ہے۔ یہاں کے مقامی لوگ راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ ان کے قوانین بھی اسلامی ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہاں مغربی مالک سے گورے، ہر جانب نظر آتے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہر ملک سے لوگ آ بھی رہے ہیں اور روزگار بھی حاصل کر رہے ہیں۔ دراصل اس ملک کی اصل کامیابی اس کے حکمرانوں کی وہ حددرجہ ترقی پسند اور زمانے کے ساتھ چلنے کی عملی پالیسیاں ہیں، جس کی مثال اسلامی ممالک خصوصاً پاکستان میں کہیں بھی نظر نہیں آتی۔دراصل ہوا یہ ہے کہ دوبئی کے حکمرانوں نے یہ ٹھان لی کہ وہ کسی لحاظ سے بھی دنیا سے پیچھے نہیں رہیں گے۔ جدید دنیا کے تمام تقاضے پورے کریں گے اور پھر ریاست، ان معاملات پر پہرا دے گی۔

دوبارہ عرض کروں گا کہ انھوں نے دین کو ترقی کی راہ میں آڑے نہیں آنے دیا۔ ہمارے جیسے ملکوں سے مزدور منگوائے اور ایک مستحکم انفرااسٹرکچر بنا ڈالا۔ ماڈرن سڑکیں، جدید ہوٹل، فقید المثال شاپنگ مالز قائم کیے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی رٹ اتنی سختی سے قائم کی کہ کوئی کار، رات کو بھی سرخ بتی کراس کی جسارت نہیں کر سکتی۔ امن وامان اتنے جبر سے مستحکم کیا کہ چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔ سرمایہ کو غیرمعمولی تحفظ دے ڈالا۔ مگر معاملہ صرف اس مقام پر نہیں رکتا۔ دوبئی کے حکمرانوں نے پورے ملک میں بارز، شراب خانے، نائٹ کلب اور Personal Pleasures پر کسی قسم کی قدغن نہیں رکھی۔ یہ نازک نکتہ کم ازکم ہمارے جیسے دقیانوس ملک کے لیے کافی معنی خیز ہے۔

نتیجہ کیا ہوا۔ پوری دنیا سے سرمایہ دوبئی پہنچنا شروع ہو گیا۔ کرہ ارض پر جتنے بھی امیر لوگ ہیں، انھوں نے اپنے گھر دوبئی میں بنا لیے۔ ہمارے ملک کے صدور، وزراء اعظم اور بڑے آدمی، تمام کے تمام، آج بھی دوبئی میں جائیداد خریدنا محفوظ ترین سرمایہ کاری سمجھتے ہیں۔ نام لینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پاکستان کے ہر صحیح یا غلط طریقے سے امیر بننے والے شخص کا دوبئی میں کوئی نہ کوئی ٹھکانہ موجود ہے۔ دوبئی ہلز میں، بڑے بڑے محلات، پاکستانیوں کے زیرتصرف ہیں۔ ہر ایک کو معلوم ہے کہ کون سا محل کس کا ہے۔

بہرحال دوبئی آج کی دنیا کا تیزرفتار ترقی کرنے کا ایک شاندار نمونہ بن چکا ہے۔ ہاں ایک عرض کرتا چلوں۔ وہاں کے اخبارات اور ٹی وی چینلز، قطعاً حکومت کے خلاف ایک لفظ لکھ یا بول نہیں سکتے۔ مگر ترقی کی قیمت اگر اظہار رائے پر سخت پابندی ہے، تو یہ کوئی مہنگا سودا نہیں۔ ہمارے بدنصیب ملک میں اظہار رائے پر ڈھیل پرویز مشرف کے دور میں برپا ہوئی اور اب تو یہ سوشل میڈیا کی اس غلاظت میں بدل چکی ہے جس نے ملک کو بے یقینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ لہٰذا آج بھی اگر بے مثال ترقی، اس مجنونانہ اظہار رائے پر مکمل پابندی سے برپا ہوتی ہے تو پھر ہمیں ترقی کو چن لینا چاہیے۔ آپ دوبئی کو رہنے دیجیے۔ کیا چین کی خیرہ کن ترقی کے ساتھ ساتھ میڈیا کا عنصر موجود ہے، جواب مکمل نفی میں ہے۔

دوبئی کی داخلی ترقی سے ہٹ کر اب میں ایک حددرجہ نازک نکتہ کی طرف آنا چاہتا ہوں۔ اور وہ متحدہ عرب امارات کی خارجہ پالیسی ہے۔ ان کی بیرونی ساکھ کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ ہمارا ملک کسی بھی ملک کا دشمن نہیں۔ کسی بھی مذہبی ریاست سے ہمارا کوئی تنازع نہیں۔ ہم سب کے دوست ہیں اور کھلے بازوؤں سے ہر ایک کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ایران کے ساتھ جو فکری اختلاف تھا یا ہے، اسے بھی انھوں نے تجارت کے ذریعے ختم کر ڈالا۔ ایران پر بھرپور پابندیوں کے باوجود، ایرانی تیل کی بین الاقوامی نقل وحرکت، دوبئی کی بندرگاہوں سے ہی ہوتی ہے۔

کیا یہ خارجہ پالیسی کی معراج نہیں کہ وہ ہندوستان سے بھی قریبی تعلقات رکھتے ہیں اور پاکستانی بھی دوبئی کو اپنا دوسرا گھر گردانتے ہیں۔ سعودی عرب بھی وہاں سرمایہ کاری کرتا ہے۔ اور اسرائیل کے ساتھ بھی ان کے قریبی تعلقات ہیں۔ یعنی ایک دوسرے کے دشمن ممالک، دوبئی کے ساتھ حددرجہ خوشگوار تعلق قائم رکھے ہوئے ہیں۔ آپ دوبئی جایئے، تو آپ کو ان گنت مقامات پر پاکستانی اور ہندوستانی اکٹھے کام کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ایک ساتھ کھانا کھاتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ یہودی مرد اور خواتین، اپنے روایتی لباس میں بڑے سکون سے چلتے پھرتے نظر آئیں گے۔ مغربی ممالک کی خواتین اسکرٹ پہنے ہوئے محفوظ طریقے سے چہل قدمی کرتی نظر آئیں گی۔ یعنی کہ دنیا کے ان گنت ممالک سے مرد اور خواتین اپنی مرضی کا لباس پہن کر باہر آ سکتے ہیں اور ان پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں ہے۔

اب میں اپنے اس بیانیہ کو الٹا کر کے پاکستان کی طرف لوٹتا ہوں۔ ہمارے ملک کو ستر برس سے ایک ادنیٰ لیبارٹری میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ہماری درسی کتب میں باور کروایا جاتا ہے کہ ہمارا ملک، اسلام کا قلعہ ہے۔ اس فقرے کا مطلب کوئی بھی باشعور انسان نہیں سمجھ پاتا اور نہ دوسرے کو سمجھا سکتا ہے۔ ہم اور دیگر بہت سارے مسلمان ملک ہیں۔ مگر ہم اسلام کا قلعہ کیسے بن گئے۔ ہندوستان میں بھی اتنے ہی مسلمان ہیں، جتنے پاکستان میں۔ پھر ہماری صف بندی، اتنی مختلف کیوں ہے۔ اور اس مفروضے پر عمل کرنے یا اسے ترویج دینے سے ہمارے ملک کو فائدہ ہوا یا نقصان؟ اگر ہمارے اردگرد مذہب کی فصیلیں ہیں تو پھر شدت پسند، جہادی مسلمان، وہ ہم پر حملہ آور کیوں ہیں؟ دراصل ضیاء الحق نے ہمارے معاشرے کی سماجی اور مذہبی ترکیب ہی بدل ڈالی ہے۔ اور شاید اب ہمیں نارمل ہونا آتا ہی نہیں ہے۔

عجیب معاملہ یہ بھی ہے کہ ہمیں اپنے علاوہ پوری دنیا کی فکر ہے۔ مگر اپنے ملک کی ترقی اور خوشحالی سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں۔ فلسطین سے لے کر برما کے روہنگیا مسلمان ہوں یا چین کے اوگر لوگ، ہم ہر طرف لفظی بیان بازی اور شور مچانے سے گریز نہیں کرتے۔ اپنے ملک کی خیرخواہی سے ہمیں کوئی یارا نہیں۔ آج تک کیا کسی فلسطینی مسلما ن نے کہا ہے یا حماس یا حزب اللہ نے فرمایا ہے کہ جو دہشت گرد، پاکستان سے لڑر ہے ہیں، ہم افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ان دہشت گردوں کو نیست ونابود کر دیں گے؟ کم ازکم میری نظر سے ایسا کوئی بیان گزشتہ چالیس پچاس برس سے نہیں گزرا۔ مگر ہم ان لوگوں کے لیے ہلکان ہیں جو ہمارے کسی مسئلہ پر ہمارے ساتھ کھڑے ہونے سے گریز کرتے ہیں۔ زیادہ بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہمیں اپنے ملک کی سب سے زیادہ فکر کرنی چاہیے۔

اپنے ملک کو خوشحالی کی ٹرین پر گامزن کرنا چاہیے۔ یکسو ہو کر، ایک مضبوط اور متوازن خارجہ پالیسی ترتیب دینی چاہیے جس کا واحد مقصد خطے سے منسلک تنازعات سے دور رہنا ہو۔ مگر یہ کبھی نہیں ہو گا۔ ہم نے ہر وہ قدم اٹھانا ہے جو ہماری استطاعت سے بھی باہر ہو، اور جس سے ساری دنیا ہمارا ٹھٹھا لگا سکے۔ اپنے ملک کی ترقی تو ہمارے لیے ثانوی حیثیت رکھتی ہے؟ ابھی بھی وقت ہے، ہمیں جدید فکر کو اپنا کر اپنے ملک کی خیرخواہی پر حددرجہ محنت کرنی چاہیے۔ یہی وقت کا تقاضا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • معاشی ترقی کیلیے واٹر سکیورٹی ضروری ہے، پانی کا مسئلہ کوئی اکیلے نہیں سنبھال سکتا، رومینہ خورشید
  • ہمیں عوامی خدمت سے کوئی نہیں روک سکتا: احسن اقبال
  • صرف اپنے ملک کی فکر کیجیے!
  • کراچی میں ریڈ لائن منصوبے پر کام کے دوران پانی کی لائن پھر ٹوٹ گئی
  • وفاقی وزیر اطلاعات عطاءاللہ تارڑ کا یوتھ کانفرنس سے خطاب، نوجوانوں کے کردار پر زور
  • کئی علاقوں میں 3روز کے لیے پانی کی فراہمی معطل
  • پاکستان وسطی ایشیائی ممالک کیلیے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے‘صدر زرداری
  • کراچی: کئی علاقوں میں 3 دن کیلئے پانی کی فراہمی معطل
  • رمضان میں پانی کی بلاتعطل فراہمی کیلئے واٹر بورڈ متحرک