Daily Ausaf:
2025-02-24@11:04:54 GMT

ام حسان! وزیر داخلہ کچھ تو خیال کرو یار

اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT

19 فروری 2025 ء بروز بدھ کو بعد نماز عشاء اسلام آباد پولیس نے مارگلہ ٹائون اسلام آباد سے محترمہ ام حسان کو گرفتار کر لیا،اس وقت کہ جب وطن عزیز پاکستان تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے،دہشت گردی ایک دفعہ پھر سر اٹھا چکی ہے،بزرگ مذہبی خاتون کہ جن کی ساری زندگی اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اس کی بالادستی کے لئے جدوجہد سے بھرپور ہے،کو گرفتار کرنا انتہائی قابل مذمت فعل ہے۔
رسوائے زمانہ پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب امریکہ و یورپ کے ایماء پر وطن عزیز پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کے لئے متنازع اقدامات کئے گئے تو اس کے خلاف عملی مزاحمت کا مرکز لال مسجد و جامعہ سیدہ حفصہ بنا۔ مولانا عبدالعزیز ، اور محترمہ ام حسان کی قیادت میں ان متنازعہ اقدامات کے خلاف تحریک چلی، لال مسجد پہ بہت کچھ لکھا جاچکا،لیکن اس حقیقت کو تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ وطن عزیز پاکستان کی نظریاتی اساس بالخصوص وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور گرد و نواح میں واقع مساجد و مدارس محفوظ ہیں تو اس کا سہرا بھی مولانا عبدالعزیز غازی اور محترمہ ام حسان کو ہی جاتا ہے۔انہون نے اپنا سب کچھ قربان کرکے پاکستان کے اسلامی تشخص اور مساجد و مدارس کا تحفظ کیا۔
2007 ء میں جب رسوائے زمانہ پرویز مشرف کی حکومت نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع 80 سے زائد مساجد کو غیر قانونی قرار دے کر شہید کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو اس کے خلاف عملی مزاحمت لال مسجد و جامعہ حفصہ سے ہی ہوئی۔یکے بعد دیگرے سات مساجد کی شہادت کے بعد حضرت مولانا عبدالعزیز غازی اور محترمہ ام حسان کی قیادت میں لال مسجد و جامعہ حفصہ کے طلبہ و طالبات انتہائی قدم اٹھانے پر اس وقت مجبور ہو گئے تھے،جب مارگلہ ٹائون اسلام آباد میں واقع قدیم مسجد ’’مدنی مسجد‘‘ کو بھی شہید کرنے کی کوشش ہوئی۔پھر چشم فلک نے تین جولائی تا دس جولائی 2007 ء یہ منظر بھی دیکھا کہ لال مسجد و جامعہ حفصہ کے نہتے و معصوم طلبہ و طالبات پر ظلم و ستم کے ایسے ایسے پہاڑ ڈھائے گئے کہ جس کی مثال تاریخ میں اس سے پہلے نہیں ملتی۔ اس تحریک کے دوران ایک موقع پر لال مسجد میں منعقدہ کانفرنس کے دوران ایک طالبہ کی جانب سے کہے گئے یہ الفاظ اس وقت میرے کانوں میں گونج رہے ہیں کہ ’’ہماری جانیں تو چلی جائیں گی لیکن مساجد و مدارس محفوظ رہیں گے‘‘۔ پھر ایسا ہی ہوا کہ سینکڑوں معصوم و نہتے طلبہ و طالبات کی جانیں تو لال مسجد آپریشن کے دوران چلی گئیں لیکن اسلام آباد و گرد و نواح کے مساجد و مدارس محفوظ ہو گئے۔
گزشتہ چند روز سے مارگلہ ٹائون اسلام آباد میں واقع مدنی مسجد کو ایک دفعہ پھر سی ڈی اے کی جانب سے شہید کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔جس پر اہل علاقہ سراپا احتجاج تھے۔اسی سلسلے میں مورخہ 19 فروری کو بعد نماز ظہر اہل علاقہ اور مدنی مسجد کی انتظامیہ کا ایک وفد لال مسجد آیا اور اس وفد نے محترمہ ام حسان سے درخواست کی کہ وہ اس معاملے کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ چنانچہ وہ جامعہ حفصہ کی سات معلمات و طالبات کے ہمراہ مذکورہ مسجد پہنچ گئیں۔جہاں پر ان کے مذاکرات اسسٹنٹ کمشنر،ایس پی سمیت ضلعی انتظامیہ و پولیس کے دیگر حکام کے ساتھ ہوئے۔جس کے نتیجے میں اسی روز مغرب کے وقت ایک معاہدہ طے پا گیا۔خوش گوار ماحول میں افہام و تفہیم سے تمام معاملات طے پاگئے۔جس کے بعد محترمہ ام حسان اپنے ساتھ موجود جامعہ حفصہ کی سات معلمات و طالبات کے ہمراہ مذکورہ مسجد کے امام مولانا قاری ساجد کی رہائش گاہ پر چلی گئیں۔ جہاں پر ان کے قیام و طعام کا انتظام تھا۔نماز عشاء کی ادائیگی کے بعد محترمہ ام حسان کھانے کے دستر خوان پر موجود تھیں کہ اچانک ایس ایچ او تھانہ ویمن کی قیادت میں اسلام آباد پولیس کی بھاری نفری نے مذکورہ رہائش گاہ کا محاصرہ کرلیا اور گھر میں داخل ہوکر محترمہ ام حسان اور ان کے ساتھ موجود معلمات و طالبات کو حراست میںلے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔ اگلے روز انہیں انسداد دہشت گردی عدالت نمبر 2 اسلام آباد کے روبرو پیش کیا گیا۔محترمہ ام حسان کو جامعہ حفصہ کی دیگر سات معلمات و طالبات وغیرہ کے ہمراہ اے ٹی سی 2 کے جج طاہر عباس سپرا کے روبرو پیش کیا گیا۔ایس ایچ او تھانہ ویمن اور ایس ایچ او تھانہ شہزاد ٹائون نے پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ انہیں عدالت میں پیش کیا۔اس موقع پر جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات کئے گئے تھے۔ عام افراد سمیت غیر متعلقہ وکلا کو بھی جوڈیشل کمپلیکس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ سماعت کے آغاز پر پولیس نے تھانہ شہزاد ٹائون میں انسداد دہشت گردی اور تعزیرات پاکستان کی متعدد دفعات کے تحت درج ایک جھوٹے مقدمے میں ام حسان سمیت تمام گرفتار شدگان کا جسمانی ریمانڈ مانگا۔پولیس نے دوران سماعت موقف اختیار کیا کہ ام حسان سے چاقو برآمد کر لیا ہے۔ ڈنڈے،سریا سمیت دیگر تعمیراتی میٹریل اور پسٹل وغیرہ برآمد کرنا ہے۔اس لئے ان کا ریمانڈ درکار ہے۔پولیس کے مذکورہ موقف پر عدالت میں موجود محترمہ ام حسان برہم ہو گئیں اور روسٹرم پر آکر کہا کہ ’’یہ شخص کس ڈھٹائی سے جھوٹ بول رہا ہے۔اسے شرم نہیں آتی۔کون سا چاقو اس نے مجھ سے برآمد کیا ہے؟مسجد کو شہید کرنے کے معاملے کی اطلاع ملی تو میں خالی ہاتھ ہی اپنے گھر سے نکل گئی۔میں تو اپنا موبائل بھی اپنے پاس رکھنا بھول گئی تھی۔ ام حسان و دیگر گرفتار شدگان کے وکیل وہاج الحسن کی جانب سے پولیس کی جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی بھرپور مخالفت کی گئی۔ دوران سماعت محترمہ ام حسان کی جانب سے آنکھوں پر پٹی باندھنے کی شکائت پر جج نے حکم دیا کہ ’’ خبردار کر رہا ہوں کہ ان میں سے کسی کی آنکھوں پر پٹی نہیں باندھنی‘‘۔بعدازاں فاضل عدالت نے پولیس کی درخواست منظور کرتے ہوئے محترمہ ام حسان و دیگر گرفتار شدگان کو چار روز کے لئے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔ راولپنڈی اسلام آباد کے علماء سمیت ملک بھر کی مذہبی جماعتوں کے قائدین تادم تحریر ’’سکتے‘‘ کے عالم میں ہیں،میں اسلامی ’’یوٹیوبرز‘‘کی اس حوالے سے منظر نامے سے غائب ہونے پر سوال اس لئے نہیں اٹھانا چاہتا کیونکہ ان کی اسلام پسندی تو اب مصدقہ ہو چکی ہے(تفصیلات پھر کبھی سہی) البتہ میں یہ سوال اٹھانے کا حق ضرور رکھتا ہوں کہ اگر اسلام آباد میں ایمان مزاری عورت ہو کر گستاخوں کی حمائت کر سکتی ہیں،اگر ماروی سرمد نام کی عورت ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں ہم جنس پرستی کی حمائت کر سکتی ہے، اگر میرا جسم میری مرضی کے سلوگن کے ساتھ چند مادر پدر آزاد عورتیں ملک میں ننگا اور گندہ ایجنڈہ متعارف کروا سکتی ہیں، اگر وقت کی وزیرنی فردوس عاشق اعوان ٹاک شو میں مخالف ایم این اے کے منہ پر تھپڑ رسید کر سکتی ہیں، اور مختلف ٹاک شو ز میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین مخالفین کی پگڑیوں کو اچھال سکتی ہیں تو اس سے نہ قیامت آتی ہے اور نہ زلزلہ،لیکن ام حسان مساجد ومدارس کی حفاظت کی بات کریں یا مساجد کی حفاظت کے لئے سرکار سے مذاکرات کریں توکیا یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ ان پر جھوٹا پرچہ کاٹ کر گرفتار کر لیا جائے ؟وزیر داخلہ کچھ تو خیال کرو یار؟

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: لال مسجد و جامعہ معلمات و طالبات اسلام آباد میں کی جانب سے شہید کرنے پولیس کی میں واقع سکتی ہیں کے ساتھ کے بعد کے لئے

پڑھیں:

شہباز شریف اور محسن نقوی کیخلاف اندراجِ مقدمہ کی درخواست خارج

اسلام آباد:

شہباز شریف اور محسن نقوی سمیت دیگر کے خلاف اندراجِ مقدمہ کی درخواست خارج کردی گئی۔
 

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد نے وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ محسن نقوی و دیگر کے خلاف مقدمہ کے اندراج کے لیے 22 اے کی درخواست خارج  کردی۔

کیس کی سماعت ایڈیشنل اینڈ سیشن جج محمد افضل مجوکا نے کی۔ عدالت نے وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ محسن نقوی و دیگر کے خلاف مقدمہ اندراج کی درخواست عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کی۔

دورانِ سماعت ایس ایچ او تھانہ سیکرٹریٹ کی جانب سے جواب عدالت میں جمع نہیں کروایا گیا جب کہ درخواست گزار گل خان کی جانب سے بھی کوئی عدالت پیش نہیں ہوا۔

واضح رہے کہ درخواست گزار نے وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ ودیگر کے خلاف مقدمہ کے اندراج کی استدعا کر رکھی تھی۔

متعلقہ مضامین

  • کار سرکار میں مداخلت؛ ملزمہ ام حسان اور چار لڑکیوں کے مزید جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
  • شہباز شریف اور محسن نقوی کیخلاف اندراجِ مقدمہ کی درخواست خارج
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا 8افراد کے نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم،سیکرٹری داخلہ سے حلفی بیان طلب
  • حیدرآباد، پولیس اور وکلا کے درمیان کشیدگی پر جوڈیشل انکوائری کا حکم
  • مصطفیٰ عامر کی نماز جنازہ ڈیفنس کی مسجد میں ادا کردی گئی
  • اسلام آباد پولیس کا چیمپئنز ٹرافی کیلئے چار روزہ خصوصی ٹریفک پلان جاری، شہریوں کو متبادل راستے اختیار کرنے کی ہدایت
  • اسلام آباد کے پوش سیکٹر میں نیب کے گریڈ 19کے افسر کی پراسرار موت
  • وکلا ءکی ہڑتال تیسرے روز بھی جاری، عدالتی میں کام بند
  • پشاور، آئی ایس او کے زیراہتمام شب شہداء بیادِ شہدائے امامیہ مسجد حیاتِ آباد