Express News:
2025-02-24@10:55:21 GMT

انسان اپنی تخلیق کے برعکس کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT

’’اللہ تعالیٰ نے کائنات بنانے کے بعد جب انسان کو تخلیق کرنے کا سوچا تو اُس وقت اللہ تعالیٰ کا محبوب فرشتہ جو بعد میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق انسان کے مخالف ہوگیا، اُس نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ آپ انسان کو تخلیق نہ کریں کیونکہ یہ فسادی ہوگا جو زمین پر فساد پھیلائے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کی وکالت کرتے ہوئے فرمایا کہ میرا تخلیق کیا گیا انسان دُنیا میں امن کا پیامبر ہوگا۔ وہ زمین کو خوبصورت بنانے میں ہمیشہ کلیدی کردار ادا کرے گا۔‘‘

کیا انسان نے اُس بھروسے کو قائم رکھا ہے؟ کیا انسان نے اُس بھرم کو قائم رکھا ہے؟ یہ ماضی، حا ل اور مستقبل کا ایک اہم سوال ہے اور رہے گا۔

زمین کے انسان نے دوسرے کے حصے کی چیزوں پر قبضہ کرنے کی ہوس کو اپنے اُوپر حاوی کرلیا ہے لیکن آپ عالمی سطح سے لے کر اپنی نجی زندگی کو دیکھیں تو انسان نے اپنی اس ہوس کو پورا کرنے کےلیے اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں۔ زمین کے ٹکڑے کو ہتھیانے کےلیے سیکڑوں، ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ برطانیہ جو آدھی دنیا پر حکومت کرتا رہا، اُس نے اپنی سلطنت کو بڑھاوا دینے کےلیے کمزور ملکوں اور خطوں کو بری طرح کچلا اور انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ پھینکا۔

ان تمام واقعات کی تاریخ گواہ ہے اور حال ہی میں بننے والی ایک ویب سیریز "The Last Kingdom" میں اسے فلمایا بھی گیا ہے کہ اگر برطانیہ نے آدھی دنیا کو اپنے زیر اثر کیا ہے تو اُس کے پیچھے بہت بڑی خونیں تحریک ہے۔

برطانیہ کی طرح سینٹرل ایشیا سے آنے والے چنگیز خان، ہلاکو خان اور اسی طرح کے دیگر حملہ آوروں نے انسانیت کو ختم کرنے کی لرزہ خیز داستانیں رقم کی ہیں۔ سکندر اعظم نے پوری دنیا کو فتح کرنے کا عزم کیا اور اپنے اس مذموم مقصد کو پورا کرنے کےلیے اُس نے لاکھوں لوگوں کو قتل کردیا۔ ہٹلر اور مسولینی کا گٹھ جوڑ بھی اسی لیے بنا کہ وہ یورپ اور مغرب پر قابض ہونا چاہتے تھے لیکن دنیا میں عبرت کا نشان بن گئے۔ وہ ملک جو اب ترقی یافتہ ملک کہلائے جاتے اور دنیا میں چوہدری بنے پھرتے ہیں، ان سب ملکوں نے اپنی سلطنتوں کو بڑھانے کےلیے انسانی خون کا بازار گرم کیے رکھا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

اگر ہم اپنے ملک اور خطے کی بات کریں تو برصغیر ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کےلیے ایک پرکشش خطہ رہا ہے۔ پہلے ایران، عراق اور افغانستان سے آنے والے حملہ آوروں نے اس خطے پر قبضہ کیے رکھا، جس میں سب سے زیادہ طویل عرصہ تک مغلیہ حکومت قائم رہی اور تاریخ بتاتی ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر میں قدم رکھا تو اُس وقت آخری بادشاہ بھی مغل ہی تھا۔ مغلوں سے اقتدار لینے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی (برطانیہ) نے کم وبیش سو سال تک برصغیر میں لوٹ مار، انسانوں سے زیادتی اور استحصال کی ایسی ایسی داستانیں رقم کیں جن کو بیان کرنے کےلیے بہت لمبا عرصہ درکار ہے اور جس کا اظہار پاک و ہند کا مورخ بیان کرتا رہتا ہے اور فلمساز بھی اپنی فلموں کے ذریعے جدوجہد کی داستانوں کو فلمبند کرتے رہتے۔ ایسی ایسی لرزہ خیز داستانیں ہیں کہ خدا کی پناہ۔

اس وقت دنیا میں جتنے بھی لوگ ہیں وہ کسی نہ کسی مذہب کو ماننے والے ہیں اور ہر مذہب ہی امن کی تعلیم دیتا ہے تو پھر انسان اپنے مذاہب کے برعکس عمل کیوں کررہے ہیں؟

اسی طرح آپ عالمی جنگوں اور تاحال ہونے والی جنگوں کو دیکھیں تو یقیناً پریشان ہوں گے کہ کروڑوں لوگ ان جنگوں کی نذر ہوچکے ہیں لیکن انسانوں نے ماضی کی خونریزی سے کچھ نہیں سیکھا، کیونکہ انسان اپنی سلطنتوں کو بڑھاوا دینے کی حرص میں تاحال مبتلا ہے۔ موجودہ دور میں گریٹر امریکا، گریٹر اسرائیل، گریٹر برطانیہ، گریٹر چین، گریٹر روس اور گریٹر ہندوستان کےلیے یہ ممالک کسی نہ کسی شکل میں جنگوں میں مشغول ہیں۔ کائنات کی خوبصورتی ختم کرنے کےلیے بارود کا استعمال کیا جارہا ہے۔ غزہ، یوکرین، روس، لبنان، شام، صومالیہ، یمن وغیرہ اس کی تازہ ترین مثالیں ہیں۔

دنیا کے ممالک کو زیر اثر کرنے کےلیے دنیا کے بڑے بڑے بینکوں کے نام بھی آتے ہیں جو ملکوں کو زیر اثر کرنے میں سود پر قرضے دے کر ان کی معیشت کو اپنے کنٹرول میں کرلیتے ہیں اور اُس ملک کو دیوالیہ قرار دے کر اُس کے اثاثوں پر قابض ہوجاتے ہیں، جیسے حال ہی میں سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کی مثال سب کے سامنے ہے۔ مسائل میں گھرے ترقی پذیر ملک چار و ناچار اُن کی شرائط کو مان کر اپنے ملک کو چلاتے ہیں۔ ان طاقتور ملکوں نے کمزور ملکوں کو دبانے کےلیے اکٹھ بنا لیے ہیں جنہیں مختلف نام دیے گئے ہیں۔ یہ سارے اکٹھ (گروپس) غریب ملکوں کو دبانے کے فیصلے کرتے ہیں اور اُن پر اپنی پالیسیاں مسلط کرتے ہیں اور جو ان کی بات نہ مانے وہ پھر جنگ کےلیے تیار رہے۔ وینزویلا کی مثال آپ سب کے سامنے ہے جسے دبانے کے لیے امریکا نے ہر ممکن کوشش کی لیکن اُن کے صدر ہوگو شاویز چٹان کی طرح اُس کے سامنے ڈٹے رہے۔

ایک اور حیرت انگیز بات کہ دنیا میں امن قائم کرنے کےلیے ان طاقتور ملکوں نے جو فورمز بنائے ہیں لیکن جب یہ خود کمزور ملکوں کا استحصال کر رہے ہوتے ہیں تو پھر اپنے ہی بنائے گئے فورمز کے قوانین کو ماننے سے انکاری ہوجاتے ہیں، جیسے اسرائیل نے غزہ بندی میں جنگ بندی کےلیے یو این کی قراردادوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور گریٹر اسرائیل کے نام پر وہ فلسطینیوں کو دوسرے علاقوں میں نقل مکانی کی کوشش کر رہا ہے جس کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان نے تقویت دی ہے جس کے مطابق امریکا، غزہ کو اپنا علاقہ قرار دے رہا ہے اور وہی مطالبہ دہرا رہا ہے جو اسرائیل کرتا چلا آرہا ہے کہ فلسطینی دوسرے علاقوں کی طرف نقل مکانی کرجائیں۔ گو کہ غزہ میں جنگ بندی ہوچکی ہے لیکن ان لیڈروں کے بیانات سے ایسا لگ رہا ہے کہ شاید یہ جنگ بندی عارضی ہے اور عین ممکن ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد جنگ دوبارہ نہ شروع ہوجائے۔

پاک وہند میں کشمیر کا تنازعہ بھی عالمی تنازعہ سمجھا جارہا ہے اور یہ بھی زمین کے ایک ٹکڑے پر اقتدار کی جنگ ہے، جس کے حل کےلیے تاحال کوئی امکان نظر نہیں آتا کیونکہ انڈیا قانون سازی کرکے کشمیر پر اپنا تسلط قائم کرچکا ہے اور کشمیریوں کے آزاد کشمیر کے مطالبے کو ماننے سے انکاری ہو چکا ہے۔ حال ہی میں امریکی صدر نے کینیڈا کو اپنا علاقہ قرار دے کر ایک نیا محاذ کھول دیا ہے جس نے عالمی سطح پر سراسیمگی پھیلا دی ہے۔ امریکا کے نت نئے بیانات سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسے مستقبل میں دنیا میں امن کا قائم رہنا ممکن نہیں ہوگا۔ اسی طرح انڈیا اور چین کے درمیان تبت کا ایک چھوٹا سا گاؤں کشیدگی کا باعث بنا ہوا ہے۔

اگر ہم اپنے ملک کی صورتحال دیکھیں تو جہاں دہشت گردی ہمارے لیے درد سر بنی ہوئی ہے وہاں خیبرپختونخوا کے علاقے کرم میں زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کی وجہ سے اب تک دو فرقوں کے سیکڑوں افراد قتل ہوچکے ہیں اور تاحال ہماری سیکیورٹی فورسز نے اس مسئلے سے نمٹنے کےلیے آپریشن شروع کیے ہوئے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ ان دونوں فریقین میں کوئی بھی زمین کے اس چھوٹے سے ٹکڑے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔

انسانی تاریخ کا یہ موضوع جس میں قتل و غارت، زمین کے لیے انسانوں کا قتل عام، اقتدار کی ہوس میں اپنے پرائے کا استحصال بہت بڑا موضوع ہے جسے ایک مضمون میں سمونا ناممکن ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انسان خدا اور اس کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کی تعلیمات کو بالکل بھول چکے ہیں اور موجودہ دور میں بسنے والے انسانوں نے ایک نئی دُنیا تخلیق کی ہے جس میں بدامنی، قتل و غارت، استحصال، کمزوروں پر ظلم، لوگوں کو ختم کرنے کےلیے مہلک سے مہلک اسلحہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔

حیرت انگیز طور پر دنیا کے تمام ملکوں حتیٰ کہ ترقی پذیر ملکوں نے بھی اپنے آپ کو محفوظ کرنے کےلیے ایٹم بم بنا لیے ہیں۔ جدید ترین اسلحہ اور بہتر سے بہتر دفاعی نظام گویا ہر ملک کی پہلی ترجیح ہے، جبکہ دنیا کو پرامن اور خوشحال بنانا اُن کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات بھی انسانوں سے انتقام لے رہی ہے جیسے موسمیاتی تبدیلیاں، ناگہانی آفات اب انسانوں کا مقدر بن چکی ہیں اور پوری دنیا اس سے بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ کبھی مختلف ملکوں میں نہ بجھنے والی آگ کی شکل میں، کبھی زلزلوں، کبھی سیلابوں اور سونامی کی شکل میں، کبھی شدید گرمی اور سردی کی شکل میں اور کبھی لامتناہی بارشوں کی شکل میں، لیکن انسان ہے کہ اپنی روش سے پیچھے ہی نہیں ہٹ رہا۔

اس لیے ایسا لگتا ہے کہ انسانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو خدا انسانوں کو ختم کرنے کےلیے قیامت کا دن جلد ہی مقرر کرے گا۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے بنانے والے کی بات پر کان دھریں اور ایسا سماج بنانے کی کوشش کریں جس کی منظر کشی اللہ تعالیٰ نے کی ہے۔ انسان کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ باغ عدن سے نکالے جانے کے بعد تو اُسے زمین میسر آگئی تھی لیکن اگر زمین سے نکالا گیا تو پھر وہ کہاں جائے گا؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کرنے کےلیے ا اللہ تعالی کی شکل میں دنیا میں ملکوں نے زمین کے نے والے ہیں اور ہے اور اور اس کی بات رہا ہے لیکن ا کے بعد

پڑھیں:

بدنصیب اولاد اور سیاسی مسائل

آج پاکستان میں انارکی کی فضا اور افراتفری مچی ہوئی ہے، جس کی لاٹھی بے شک اسی کی بھینس ہے، ملکی فضا غیر منصفانہ رویے کی وجہ سے مکدر ہو چکی ہے۔

ایسا ہی حال بے شمار گھرانوں کا ہے جہاں یا تو بہت زیادہ آزادی اور اسلامی تعلیم کا فقدان ہے یا پھر یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی ناخواندگی اور غربت میں مبتلا ہے اس کی خاص وجہ ہمارے حکمرانوں کی غیر توجہی اور اپنی عوام سے دوری، ملکی خوشحالی اور ترقی سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔

حال ہی میں مصطفیٰ عامر کی موت اور اس پر تشدد نے لوگوں کو دکھی کر دیا ہے۔ ماضی کے عبرت ناک واقعات سے سبق سیکھنا چاہیے کہ کس طرح قاتلوں نے جوان لڑکوں کو ان کی ماؤں کے سامنے خون میں نہلا دیا اور پاکستان کی تعلیم یافتہ بیٹیوں کا سرعام قتل کیا گیا، ان کے چہروں پر تیزاب پھینکا گیا اس قسم کے واقعات ہماری آنکھوں کے سامنے رونما ہوئے ہیں۔ 

ان ظالموں کو باعزت طور پر بری کر دیا گیا اور مقتول کے والدین کو ملک چھوڑنے اور قصاص لینے پر مجبور کر دیا گیا بہت سے ماں باپ نے تو قصاص کی رقم کو بھی لینا شرم کا باعث جانا۔ لیکن قصاص کی رقم مقتول کو دینا اسلامی حکم ہے بہرحال۔

ایسے حالات میں بے شمار لوگوں کو یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ والدین کی تربیت نہیں ہے، غلطی والدین کی ہے اور یہ بھی کہ بچے کا پہلا مدرسہ ماں کی گود ہے وہ مہد سے لے کر لحد تک سیکھنے کے عمل سے گزرتا ہے۔ سچ ہے لیکن یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا پڑے گی کہ والدین تو پڑھا لکھا دیتے ہیں۔ 

اپنی زندگی کے خوبصورت دن اولاد کی اچھی تربیت اور اس کی پرورش میں گزار دیتے ہیں لیکن جب یہی بچے باہر کے ماحول اور دوستوں کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں تب وہ ہواؤں میں اڑ رہے ہوتے ہیں تعلیم و تربیت دھری رہ جاتی ہے، نئے نئے شوق اور جستجو انوکھے کام کرنے کی طرف رغبت دلاتی ہے۔

ان حالات میں ان نوجوانوں کو والدین کی ہر بات گراں گزرتی ہے وہ اپنے گھر سے جانے اور آنے کا شیڈول ہرگز نہیں بتاتے ہیں چونکہ وہ طاقتور اور بلند قامت ہو چکے ہوتے ہیں، منفی سرگرمیوں اور سوچ کے تحت اپنے والدین کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔

چونکہ انھیں ایسے دوستوں کی صحبت میسر ہوتی ہے جو ہوائی فائرنگ توکرتے ہی ہیں ساتھ میں جرائم کرنے میں بے باک ہوتے ہیں، اپنے گھروں یا کرائے کے گھر لے کر تخریبی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں اگر گھر کا سربراہ جو کہ کسی کا والد ہوتا ہے اگر وہ مالی طور پر مضبوط اور تعلیم یافتہ ہے تو وہ اپنی اولاد کی مصروفیت پر گہری نگاہ رکھتا ہے اور اس پر پابندیاں عائد کرتا ہے۔ 

ایسی صورت میں بے شمار نوجوان لڑکے، لڑکیاں اپنا وہ گھر جہاں انھوں نے شفیق والدین کے زیر سایہ بچپن بتایا چیزوں اور کائنات کے اسرار و رموز کے بارے میں علم حاصل کیا، اپنے بڑوں کی نصیحت سنی، باہرکا ماحول پل بھر میں سب کچھ بھلا بیٹھا اور ایسی بدنصیب اولادوں نے اپنا گھر چھوڑ دیا اور دوستوں کی سنگت میں رہ کر زندگی کو خوشگوار جانا، ماں باپ روتے رہے، تڑپتے اور سسکتے رہے انھوں نے اپنی شکل نہیں دکھائی اور آخر برے انجام کو پہنچے۔

اکثر والدین پولیس کا ڈراوا بھی دیتے ہیں، تھانے اور جیل کی ہوا کھلانے کا اظہار کرتے ہیں لیکن یہ بات زبانی کلامی ہوتی ہے، انھیں معلوم ہے ہماری پولیس سے بھی اچھی توقعات ذرا کم ہی ہیں، کہیں کوئی اور مسئلہ نہ پیدا ہو جائے ان کی اولاد بیٹھے بٹھائے مصیبت میں پھنس جائے۔

بے شک والدین، والدین ہی ہوتے ہیں، وہ اپنی اولاد کا کبھی برا نہیں چاہتے ہیں، بہت سے گھرانوں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ دولت، پیسہ اپنے بچوں پر لٹاتے ہیں، انھیں یہ نہیں سکھاتے بیٹا! اسے ناجائز اور غلط طریقوں پر نہیں استعمال کرنا، بے جا ڈھیل دینے کے نتائج خطرناک ہوتے ہیں۔

لیکن یہ بھی پیار اور اعتبار دینے کا انوکھا طریقہ ہے اور ایسا لاڈ پیار پوش علاقوں میں اولاد کے حوالے سے اکثر سامنے آتا رہتا ہے۔کوئی بھی کام کرنے سے پہلے نتائج پر نظر رکھنا اہم ترین ہوتا ہے ورنہ کردار کی عمارت لمحہ بھر میں ڈھیر ہو جاتی ہے اور اگر مثبت سوچ اور عمل ہے تو ستاروں پر کمند ڈالنے والے بھی ہمارے سامنے ہی ہیں۔

آج پاکستان کے بہت سے طلبا و طالبات سائنس کی ترقی اور ایجادات کے حوالے سے اہم امور پر کام انجام دے رہے ہیں اور کامیابی کا سہرا سجائے پوری دنیا کے سامنے آتے ہیں، انھوں نے اپنا بھی نام روشن کیا ہے اور اپنے پیارے وطن کا بھی۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرے اور انھیں وہ ذرایع مہیا کرے جن کی بنا پر وہ ہر رکاوٹ کو اپنی ذہنی سطح کی بنا پر دور کر سکیں۔

لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ حکومتی استحکام نہ ہونے کے برابر ہے، بس زور اس بات پر ہے کہ زیادہ سے زیادہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے ارکان تنخواہیں اور دوسری مراعات حاصل کر سکیں اور پاکستان کے نوجوان بھٹکتے رہیں، تاریک راہوں میں مارے جائیں، ان کی ٹارگٹ کلنگ کی جائے، سیاسی حالات بہت ابتر ہیں بالکل اس شعر کے مطابق:

میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو

گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

علامہ اقبال کا ایک اور شعر یاد آگیا ہے حالات حاضرہ کے تناظر میں۔

جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

ہمارے ملک میں آمرانہ نظام ہے اسی وجہ سے اپنی مرضی سے قانون سازی محض اپنے مفاد کی خاطر کرتے ہیں۔ جمہوریت اور اسلامی آئین سے دور دور کا واسطہ نظر نہیں آتا ہے۔ قانون کا یہی سقم ہے کہ آج بے قصور مرد و زن جیل کاٹ رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • امن کی تلاش، دنیا سعودی عرب پر کیوں بھروسہ کرتی ہے؟
  • خاتون نے بستر پرخیمہ کیوں لگایا؟وجہ جان کرآپ دنگ رہ جائیں گے
  • ’’فلم انڈسٹری میں کامیابی کےلیے صرف محنت کافی نہیں!‘‘ تاپسی پنو کا تلخ انکشاف
  • مسلمانوں کا فکری دھارا مختلف کیوں ہے؟
  • ناکام یا کامیاب
  • اردو کا قصور بتلاؤ
  • بدنصیب اولاد اور سیاسی مسائل
  • خالد علیم، ایک وسیع المطالعہ شاعر، نستعلیق آدمی
  • عمران خان میرے سیاسی رول ماڈل، عظیم انسان بننے کے لیے انسانیت کا خیال رکھنا ضروری ہے، علی امین گنڈاپور