اُدت نرائن مشکل میں پڑگئے، پہلی بیوی نے گلوکار کیخلاف مقدمہ درج کروا دیا
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
خاتون مداح کو بوسہ دینے کی وائرل ویڈیو کی وجہ سے تنازع کا شکار ہونے والے گلوکار اُدت نرائن ایک مرتبہ پھر مشکل میں پڑگئے ہیں۔
گلوکار کیخلاف اس مرتبہ ان کی پہلی بیوی رنجنا جھا نے ان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی ہے انہوں نے گلوکار پر ان کے حقوق کی خلاف ورزی اور ان کی جائیداد کے غلط استعمال کا الزام لگایا ہے۔
گلوکار حال ہی میں فیملی کورٹ میں پیش ہوئے، جہاں انہوں نے تصفیہ کے کسی بھی امکان کو مسترد کر دیا۔ بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق رنجنا جھا کے قانونی نمائندے، اجے کمار نے انکشاف کیا کہ وہ اپنی بڑھتی عمر اور صحت کے خدشات کی وجہ سے ادت نارائن کے ساتھ دوبارہ ملنا چاہتی ہیں۔
تاہم عدالت کی طرف سے دونوں میں مصالحت کی کوششوں کے باوجود گلوکار اپنی پہلی بیوی کے ساتھ رہنے پرانکاری ہیں۔ 1984 میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے والے اس جوڑے میں 1988 میں اُدت نرائن کو ملنے والی شہرت کے بعد دوریاں آگئیں تھیں اور شہرت میں اضافے کے بعد گلوکار نے مبینہ طور پر خود کو اہلیہ سے دور کر لیا تھا۔
2006 میں شوہر کے ساتھ تنازعات بڑھنے کے بعد رنجنا نے خواتین کمیشن سے رجوع کیا تھا جہاں اُدت نرائن نے مبینہ طور پر اہلیہ کو ایک فلیٹ سمیت مالی مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن بعد میں وہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔
اس ہی وجہ سے ان کی اہلیہ کی جانب سے فیملی کورٹ میں بحالی کا نیا مقدمہ دائر کیا گیا۔ اپنے تحریری دفاع میں اُدت نرائن نے رنجنا جھا پر رقم بٹورنے کی کوشش کرنے اور عدالت کو غلط معلومات فراہم کرنے کا الزام لگایا ہے۔
گلوکار کا کہنا ہے کہ بہار ویمن کمیشن میں 2013 میں آپس میں طے ہونے والے معاہدے کے مطابق وہ انہیں ماہانہ 15,000 روپے کی ادائیگی کر رہے تھے جو بعد میں 2021 میں بڑھا کر 25,000 روپے کردیا گیا تھا۔ مزید برآں گلوکارہ نے رنجنا جھا کو 1 کروڑ روپے کا مکان 5 لاکھ روپے کی زرعی زمین اور زیورات دینے کا دعویٰ کیا ہے۔
ان دعووں کے باوجود رنجنا جگا نے جواب میں الزام عائد کیا ہے کہ گلوکار نے نیپال میں زمین کی فروخت سے 18 لاکھ روپے روکے اور اپنی بیوی کے طور پر اس کی جائز حیثیت سے انکار کرتا رہا۔ جب رنجنا نے ممبئی میں گلوکار سے ملنے کی کوشش کی تو انہوں نے اہلیہ پر ہراساں کرنے کا الزام بھی لگایا۔
دوسری جانب انسانی حقوق کے وکیل S.
انہوں نے دلیل دی کہ ادت نرائن کے اقدامات خواتین کے حقوق کو مجروح کرتے ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
امیر جماعت اسلامی کے خلاف جعلی مقدمہ
صوبہ سندھ میں اپنے روایتی غیر سیاسی غیر جمہوری گھٹیا ہتھکنڈوں اور مقتدرہ کی کامل حمایت اور سرپرستی سے لگ بھگ گزشتہ دو عشروں سے مسلط کردہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنی بدحکومتی، بدانتظامی اور بے پناہ بدعنوانی سے نہ صرف اپنے سیاسی مخالفین بلکہ اہل سندھ کی زندگی بھی اجیرن کرکے رکھ دی ہے۔ اب اس امر میں کوئی کلام ہے اور نہ ہی رتی برابر کوئی شبہ کہ نام نہاد جمہوریت اور جمہوری اقدار کی علمبردار پی پی پی درحقیقت اپنے باطن میں بدترین فسطائیت اور غیر جمہوری پست ذہنیت اور حد درجہ بدنما کردار کی حامل جماعت ہے جس کے بظاہر خوش نما اور روشن چہرے کے پس پردہ اس کے مکروہ عزائم اور ارادے چھپے ہوئے ہیں۔ بقول علامہ اقبالؒ
چہرہ روشن اندرون چنگیز سے تاریک تر
پی پی پی کی حکومت کی حد درجہ بیڈ گورننس کی وجہ سے دیگر شعبوں کے ساتھ سندھ میں گزشتہ ایک عرصے سے امن وامان کی صورت حال بھی بہت برے طریقے سے تباہی سے دوچار ہوچکی ہے۔ خصوصاً سندھ کے بالائی اضلاع گھوٹکی، شکارپور، لاڑکانہ، جیکب آباد، کشمور، کندھکوٹ، قنبر شہداد کوٹ میں تو حالات بدترین ہوچکے ہیں۔ ان اضلاع میں اغوا برائے تاوان سمیت جرائم کی دیگر بڑھتی ہوئی وارداتوں کی بنا پر اہل علاقہ محفوظ مقامات کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور مستند ذرائع کے مطابق گزشتہ چند ماہ کے دوران ہندو برادری کے 20 ہزار کے قریب افراد شدید بدامنی کے سبب انڈیا، پنجاب اور صوبہ سندھ کے بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی کرچکے ہیں۔ سندھ کے مذکورہ اضلاع میں بہت زیادہ بدامنی کے باعث کاروبار زندگی متاثر ہوا ہے وہیں معمولات زندگی، معیشت، زراعت اور تعلیمی سرگرمیوں کو بھی بہت زک پہنچی ہے۔ اس وقت بھی دو درجن سے زائد مغوی اغوا برائے تاوان کے لیے قید میں پڑے ہوئے ان کا بہیمانہ تشدد (جس کی ڈاکو خود ہی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر دے دیتے ہیں) سہنے پر مجبور ہیں۔ اب تو ڈاکوئوں کی دیدہ دلیری کا عالم یہ ہے کہ وہ صاحب ثروت افراد کے گھروں پر بطور دھمکی تاوان یا بھتے کی وصولی کے لیے راکٹ لانچرز تک بھیجنے لگے ہیں۔ ایسی بدترین اور سنگین بدامنی کی حالت میں حکومت سندھ کے ذمے داران بجائے اپنے صوبے کے عوام کو امن فراہم کرنے اور زندگی کی بنیادی ضروری مہیا کرنے کے یا تو دن رات ہمہ وقت بدعنوانی میں ملوث ہیں اور یا پھر اپنے سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے کے لیے ان پر جعلی اور جھوٹے مقدمات قائم کرنے میں مصروف ہیں۔ صوبائی وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار نے سندھی میڈیا کے مطابق ضلع نوشہرو فیروز میں پی پی پی کے سیاسی مخالفین بشمول سابق مشیر حکومت سندھ اور صدر زرداری کے سابق نفس ناطقہ اسماعیل ڈاہری پر زمین تنگ کر ڈالی ہے اور ماسوائے ان کے زن بچہ کو کولہو میں پلوانے کے ان پر ہر ظلم و ستم ہی برپا کر ڈالا ہے۔ دوسری جانب جتوئی خاندان کے معزز فرد سابق وزیراعظم غلام مصطفی جتوئی کے صاحبزادے جی ڈی اے کے مرکزی رہنما غلام مرتضیٰ جتوئی کو بھی محض پی پی پی میں شمولیت اختیار نہ کرنے کی وجہ سے ان پر جعلی مقدمات قائم کرکے انہیں گرفتار کرلیا ہے جو پی پی کے بدترین فاشزم کا آئینہ دار ہے۔
یہ کیسی ستم ظریفی ہے اور کتنا بڑا المیہ ہے کہ پی پی پی کی سندھ پر عرصہ گزشتہ دو دہائیوں سے مسلط حکومت بجائے صوبے سے بدامنی بدعنوانی بے روزگاری مہنگائی اور غربت کو ختم کرنے کے اپنے سیاسی مخالفین کو بے جا تنگ، ہراساں اور خوفزدہ کرنے کے لیے ان پر جعلی مقدمات قائم کرنے میں مصروف ہے۔ سندھ کے شہر، قصبات اور دیہات ہر قسم کی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ تعلیمی ادارے، اسپتال، مراکز صحت، روڈ راستے بدامنی، بدنظمی اور کرپشن سے تباہ و برباد ہو کر رہ گئے ہیں لیکن پی پی پی کی حکومت کو اصلاح احوال کی ذرہ برابر مطلق پروا نہیں ہے۔ بدامنی کی ایسی ابتر اور حد درجہ بگڑی ہوئی صورت حال کے پیش نظر جماعت اسلامی سندھ کے جوان سال امیر کاشف سعید شیخ اپنی متحرک ٹیم کے ہمراہ اہل سندھ کو امن وامان کی فراہمی کے لیے حکومت سندھ کی توجہ مبذول کروانے کے لیے میدان عمل میں نکلے ہوئے ہیں اور مسلسل لگا تار اس حوالے سے اپنی جملہ مساعی کو بروئے کار لانے میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے پی پی پی کی بدعنوان اور بدنام زمانہ نااہل، نالائق اور نکمی ترین حکومت کو حد درجہ تکلیف ہے کہ آخر اس کی مجرمانہ غفلت کا پردہ چاک اور وہ بھی اس منظم، مربوط انداز میں تواتر کے ساتھ جماعت اسلامی سندھ کی قیادت کیوں کررہی ہے جس کی وجہ سے اہل سندھ میں آگاہی، شعور اور بیداری کی ایک طاقتور لہر جنم لے چکی ہے۔
یوں لگتا ہے کہ جماعت اسلامی سندھ کے ہاتھوں پی پی پی کو یوں اپنے سابقہ اور موجودہ بیڈگورننس کی انتہا سمیت دیگر جرائم آشکار ہونے کا خوف ہی لاحق اور درپیش تھا کہ پہلے تو اس نے 16 فروری بروز اتوار شکار پور میں انڈس ہائی وے پر اس کی جانب سے دیے گئے امیر صوبہ کاشف سعید شیخ کی زیر قیادت پرامن احتجاجی دھرنے کے انعقاد کے لیے قائم کردہ کیمپ میں رکھے گئے ضروری سامان اور پرچموں، بینرز وغیرہ کو ضلع شکار پور کی پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ لے جانے کی مذموم سعی کی تا کہ دھرنے کو سبوتاژ اور ناکام بنایا جاسکے تاہم اس موقع پر موجود نائب قیم صوبہ امداد اللہ بجارانی، ضلعی امیر شکارپور عبدالسمیع بھٹی نے مع کارکنان پولیس کے مذموم عزائم کو شدید مزاحمت کے ذریعے سے ناکام بنا ڈالا اور پولیس افسران کو مع بھاری نفری ناکام و نامراد واپس جانا پڑا۔ البتہ یہ ہزیمت، ناکامی اور پسپائی کا داغ ان کے دل ہی میں رہ گیا جس کی وجہ سے جماعت اسلامی سندھ کے مذکورہ مقام پر دیے گئے یادگار، تاریخی اور شاندار دھرنے کی کامیابی کے بعد جس میں ہزاروں کارکنان، عام شہری، تمام دینی، سیاسی جماعتوں، وکلا، اساتذہ، اقلیتی برادری، سول سوسائٹی کے رہنمائوں اور نمایاں افراد نے قابل ذکر تعداد میں شرکت کی اور سندھ میں بحالی امن کے لیے انڈس ہائی وے پر کئی گھنٹوں تک لگاتار پرامن دھرنا دیا گیا۔ کے اختتام پر شکارپور پولیس کی جانب سے امیر صوبہ کاشف سعید شیخ، نائب قیم صوبہ امداد اللہ بجارانی، امیر ضلع شکارپور عبدالسمیع بھٹی، امیر شہر مولانا صدر الدین مہر، اقلیتی رہنما ڈاکٹر مہر چند اور کاشف عمران منگی کے خلاف گزشتہ دن ایک جعلی مقدمہ کی بنیاد پر ایف آئی آر کا اندراج کیا گیا ہے جس کی سندھ بھر میں ہر سطح پر شدید مذمت کی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ بدامنی سے متاثرہ اضلاع میں جماعت اسلامی سندھ کی سنجیدہ، ٹھوس اور تسلسل سے کی گئی جدوجہد کو عوام سمیت سندھ کے سوشل، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر قابل ذکر پزیرائی سے پی پی پی حکومت اور قیامت کے سینے پر سانپ لوٹ گئے ہیں اور اس نے اسی تناظر میں مارے خوف کے جماعت اسلامی صوبہ سندھ کے امیر سمیت دیگر ذمے داران پر مذکورہ جعلی مقدمہ قائم کرکے اپنے خبث باطن کا ایک واضح ثبوت فراہم کردیا ہے۔ شکارپور پولیس جس کی جانب سے مذکورہ جعلی ایف آئی آر کا اندراج کیا گیا ہے اس کے متعلق امیر صوبہ کاشف سعید شیخ نے دھرنے سے دوران خطاب یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ اس کے 80 اہلکاروں کو جرائم پیشہ عناصر سے روابط رکھنے اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے سبب ضلع بدر کیا جاچکا ہے۔
واضح رہے کہ شکارپور پولیس کے بارے میں ہی کچھ عرصے پہلے سندھی میڈیا یہ حیران کن اطلاع سامنے آئی تھی کہ اس کی خفیہ پولیس کا انچارج ایک جرائم پیشہ فرد رہا ہے۔ یہی نہیں سارا ضلع بدامنی کی آگ میں بُری طرح سے جل رہا ہے۔ خان پور ناپرکوٹ کے 9 مزدوروں سمیت دیگر کئی مغوی ڈاکوئوں کے قبضے میں ہیں لیکن بجائے انہیں بازیاب کروانے کے شکارپور پولیس حکومت سندھ کے ایما پر اسے اس کی بدحکومتی، نااہلی، نالائقی اور بدعنوانی سمیت دیگر جملہ خرابیوں پر آئینہ دکھانے والی جماعت اسلامی سندھ کی حق گو قیادت کے خلاف جعلی ایف آئی آر کا اندراج کرکے اپنے لیے مزید جگ ہنسائی کا سامان وافر طور پر مول لینے میں مصروف ہے جس پر اسے غالب کے الفاظ میں یہی کہہ کر شرم اور عاد دلائی جاسکتی ہے کہ ’’شرم تم کو مگر نہیں آتی‘‘۔