WE News:
2025-04-15@07:58:04 GMT

صاحب سیف و قلم خوشحال خان خٹک کی مزاحمتی زندگی

اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT

صاحب سیف و قلم خوشحال خان خٹک کی مزاحمتی زندگی

پشتونوں کی دستیاب تاریخ میں اگر خوشحال خان خٹک کو سب سے معتبر اور مشہور شخصیت قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا، کیونکہ ان کی شخصیت کے مختلف اور منفرد پہلوؤں نے نہ صرف اِن کو کئی صدیوں زندہ اور مقبول رکھا، بلکہ ان کو ایک “مزاحمتی استعارہ” کی حیثیت بھی حاصل رہی ہے۔

سال 1613 کو ضلع نوشہرہ خیبرپختونخوا کے گاؤں اکوڑہ خٹک میں پیدا ہونے والے خوشحال خٹک نے اپنی 75 سالہ زندگی میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے، وہ فروری 1689 میں ایک شاندار مزاحمتی زندگی گزارنے کے بعد وفات پا گئے، مگر پشتون معاشرت اور سیاست میں ان کا نام آج بھی زندہ ہے۔

تقریباً 3 صدیاں گزرنے کے باوجود ان کی مقبولیت اور اہمیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، وہ نہ صرف منفرد انداز کے شاعر رہے، بلکہ ان کو پشتون قبائل کو اکھٹا کرکے اس زمانے کی طاقتور “مغل ایمپائر” کو متعدد بار شکست دینے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔

اسی پس منظر میں ان کو پشتونوں کے نیشنل ہیرو کا خطاب دیا گیا اور ان کی شاعری کو پاکستان کے علاوہ افغانستان اور ایران میں بھی بہت مقبولیت حاصل رہی۔

ابتدائی زندگی میں وہ مغلیہ سلطنت کے وفاداروں میں شامل رہے اور یہ وفاداری ان کو اپنے والد شہباز خان خٹک سے وراثت میں ملی تھی۔ تاہم بعد میں جب وہ بوجوہ مغل شہنشاہ اورنگزیب سے بغاوت پر اُتر آئے تو انہوں نے مغلیہ سلطنت کو ہلاکر رکھ دیا۔

اسی تناظر میں خوشحال خان خٹک کی زندگی کو 3 حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا حصہ ان کے “دور وفاداری” پر مشتمل ہے، جبکہ آخری حصے میں ان کی مزاحمتی زندگی کو ڈالا جاسکتا ہے۔ درمیان میں ان کی شاعری کا وہ یادگار دور رہا جس نے ان کو اَمر کر دیا۔

وہ کئی شعرا کے علاوہ ہندوستان، ایران، پاکستان اور افغانستان میں مقبولیت پانے والے علامہ محمد اقبال کے بھی “محبوب شاعر” ٹھہرے۔

علامہ محمد اقبال نے متعدد بار خود اعتراف کیا کہ انہوں نے شاہین اور خودداری سے متعلق افکار خوشحال خان خٹک کی شاعری پڑھنے کے بعد اختیار کیں۔ ماہرین کے مطابق اقبال نے ان کی فارسی شاعری خود پڑھی، جبکہ پشتو شاعری کو دوستوں سے پڑھوایا۔

علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے ابتدائی دور میں 2 یا3  بار جب افغانستان کے دورے پر گئے تو انہوں نے افغان حکمرانوں خصوصاً غازی امان اللہ خان کو خوشحال خان خٹک کی تعلیمات عام کرنے کی تجویز دی، علامہ نے دوسرا کام یہ کیا کہ فارسی کو نصاب اور تعلیمی اداروں میں عام کرنے کی سفارش بھی کی۔

اسی دور کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ فارسی آبادی کے تناظر میں اقلیت میں رہنے کے باوجود افغانستان میں ایلیٹ رولنگ کلاس کی زبان رہی، اور ایک دور میں پشتو کی حالت یہ تھی کہ غازی امان اللہ خان جیسے قوم پرست رہنما بھی پشتو بولنے سے قاصر رہے، جس پر ممتاز پشتون لیڈر خان عبد الغفار خان المعروف باچا خان نے ان کے ساتھ کی گئی۔

ایک ملاقات کے دوران نہ صرف ناپسندیدگی کا اظہار کیا بلکہ یہ شرط اور خواہش بھی رکھی کہ دوسری بار جب وہ ان (غازی امان اللہ خان) کے ساتھ ملاقات کریں گے تو امید رکھتے ہیں کہ دونوں کے درمیان پشتو زبان میں بات چیت ہوگی۔ اسی تناظر میں بعد میں افغانستان اور پاکستان کے اندر خوشحال خان خٹک کی تعلیمات سے کافی استفادہ حاصل کرنے کا سلسلہ تیز ہوا اور وہ ایک لیجنڈ کی حیثیت اختیار کرگئے۔

جہاں تک مغلیہ سلطنت کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں اور مزاحمت کا تعلق ہے وہ پشتون تاریخ کا ایک قابل فخر باب کہلایا جاسکتا ہے۔

ابتداء میں خوشحال خان خٹک نے اسی مغلیہ سلطنت کے مفادات کے لیے یوسفزئی قبائل کے ساتھ جھڑپیں کیں اور فریقین میں بڑی جنگیں ہوئیں، تاہم جب خوشحال خان خٹک مزاحمت پر اتر آئے تو جن 2 پشتون قبائل پر ان کا اپنے قبیلے کے بعد زیادہ انحصار رہا وہ یوسفزئی اور آفریدی قبائل تھے۔

ان 3 قبائل نے اورنگزیب عالمگیر کی حکومت کو سخت مشکلات سے دوچار کیا اور مغلیہ سلطنت کو لمبے عرصے تک اس ریجن میں متعدد بار شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ غالباً اسی وابستگی کا نتیجہ تھا کہ خوشحال خان خٹک کا انتقال اکثر ماہرین کے مطابق اپنے علاقے کی بجائے موجودہ ضلع خیبر کے علاقے وادی تیراہ میں ہوا جہاں وہ مزاحمتی آفریدی قبائل کے ساتھ رہایش پذیر تھے۔

اس بارے میں اکثر مورخین اور ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ مغلیہ سلطنت نے خوشحال خان خٹک کے بعض بیٹوں خصوصاً بہرام خان کو ان کے والد کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا تھا اس لیے وہ بڑھاپے میں وادی تیراہ منتقل ہوگئے جہاں 75 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔

انتقال کے بعد ان کی جسد خاکی کو ان کے آبائی گاؤں اکوڑہ خٹک لایا گیا جہاں اس وقت ان کا مزار موجود ہے اور روزانہ درجنوں، سینکڑوں لوگ ان کی مزار پر حاضری دیتے ہیں۔

خوشحال خان خٹک کو عام پشتون خوشحال بابا کے نام سے مخاطب کرتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ پشتونوں نے ان کو ہی غیر متنازعہ طور پر پہلی بار”بابا” کے خطاب سے نوازا ہے تو غلط نہیں ہوگا، بعد میں یہ خطاب جن پشتون شخصیات کے حصے میں آیا ان میں احمد شاہ ابدالی، باچا خان اور خوشحال خان خٹک کے ہم عصر شاعر رحمان بابا شامل ہیں۔

خوشحال خان خٹک مزاحمتی شاعری کے علاوہ بولڈ شاعری کے موجد رہے ہیں اور ان کی اسی شاعری نے سینکڑوں دیگر کے لیے بولڈ شاعری کی ہمت دی۔ جنسیات پر مشتمل ان کی شاعری پڑھ کر اکیسویں صدی میں بھی بہت سے کم لوگ اس پر یقین کرنے کو تیار نظر آئیں گے کہ صدیوں قبل ایک پشتون شاعر نے جنسیات سے متعلق اتنا کچھ اتنا کھل کر لکھا ہے۔

مختلف پشتون قبائل اور علاقوں کی خصوصیات اور کمزوریوں پر خوشحال خان خٹک نے صدیوں قبل جو تاثرات بیان کیے ہیں وہ کمال کے ہیں۔ شاید ہی انہوں نے اپنے سمیت کسی کو معاف کیا ہو اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ناقدین بھی ان کی جرات اور مشاہدات کا شاندار الفاظ میں اعتراف کرتے ہیں۔

وہ کمال درجے کے طبیب بھی تھے اور وہ باقاعدہ لوگوں کا نہ صرف یہ کہ علاج کیا کرتے تھے بلکہ انہوں نے مختلف امراض کا اپنی شاعری کے ذریعے اسباب اور علاج بھی بتائے ہیں۔

ان کو قدرت نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ پشتونوں کے علاوہ دوسری اقوام میں بھی ان کو عزت و احترام کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔

اس بات کا بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ خوشحال خان خٹک اس زمانے میں سائنسی علوم پر بھی بہت عبور رکھتے تھے، علم فلکیات کے بارے میں ان کی معلومات ناقابل یقین حد تک قابل رشک رہی ہیں۔

ان کی زندگی، شاعری اور جدوجہد پر تبصرہ کرتے ہوئے ممتاز شاعر اور صحافی روحان یوسفزئی کا کہنا ہے کہ دستیاب پشتون تاریخ میں خوشحال خان خٹک سے شاید ہی کوئی بڑی شخصیت گزری ہو، کیونکہ وہ مختلف شعبوں میں آل راؤنڈر تھے، اور آج کی نسل بھی ان سے لاتعلق یا بے خبر نہیں ہے۔

روحان یوسفزئی کے بقول خوشحال خان خٹک کو سب پشتون اپنے “بابا” کے نام سے مخاطب کرتے ہیں اور سب ان کی اونرشپ لینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

وہ نہ صرف یہ کہ بہت اچھے اور منفرد شاعر اور سکالر تھے، بلکہ ایک عظیم جنگجو اور سپہ سالار بھی تھے یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں ان جیسی ہمہ گیر شخصیت بہت کم پائی جاتی ہے۔

روحان یوسفزئی کے مطابق خوشحال خان خٹک کی زندگی اور تعلیمات نے کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ان کی مقبولیت اور شہرت میں مزید اضافہ ہوتا آیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عقیل یوسفزئی

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: خوشحال خان خٹک کی مغلیہ سلطنت انہوں نے کرتے ہیں کے علاوہ کی شاعری کے ساتھ ان کو ا کے بعد

پڑھیں:

مرزا رسول جوہؔر

ہم سب دوست اس بات پر متفق ہیں مرزا رسول جوہؔر کم از کم 50 کے پیٹے میں ہیں مگر وہ خود کو نہ صرف سفید بالوں والا نوجوان سمجھتے ہیں بلکہ اپنی تھوڑی بہت میڈیکلی خفت کا ذمہ دار شوگر کو ٹھہراتے ہیں۔ وہ برملا اعتراف کرتے ہیں کہ انسولین کا انجیکشن انہیں رات گئے تک تو ہشاش بشاش رکھتا ہے مگر اندھیرا گہرا ہوتے ہی شوگر تمام اعضا کو معطل کرکے رکھ دیتی ہے۔

مرزا صاحب غالباً سات برس قبل میدانِ صحافت میں آئے تھے جب وہ بجلی میٹر کی ریڈنگ پیچھے کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے اور جبری برطرف کردیے گئے۔ ان کے معاشی حالات سے باخبر افسر تعلقات عامہ نے خاص تعلقات استعمال کرتے ہوئے انہیں اخبار میں پروف ریڈر رکھوا دیا۔ یوں چند ہی دنوں میں وہ میٹر ریڈر سے پروف ریڈر بن گئے۔

ان کا پروف شدہ مسودہ پڑھتے ہوئے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے دال کھاتے ہوئے اس میں بار بار کنکر آ جائیں۔ ابھی پروف ریڈنگ میں ان کی مہارت کا سکہ بیٹھنے بھی نہ پایا تھا کہ انہیں بطور سب ایڈیٹر نیوز ڈیسک پر بیٹھنے کا موقع مل گیا۔

قصہ یوں ہے کہ ایک نیا اخبار مارکیٹ میں آنے سے سب ایڈیٹرز کا ایک باغی جتھہ وہاں چلا گیا لہٰذا چند ٹرینی بھرتی کرکے اور مرزا رسول جوہؔر کی عمر رسیدگی کے دھوکے میں انہیں تجربہ کار سمجھتے ہوئے نئے میدان میں اتار دیا گیا مگر انہوں نے ہمت نہ ہاری بلکہ ان کا حوصلہ اس پرچم کی طرح بلند رہا جسے ہر روز بلند کردیا جاتا اور ہر شام کو اتار لیا جاتا ہے۔

صبح سے شام تک مسلسل اتار چڑھاؤ اور دھینگا مشتی میں انہوں نے سب ایڈیٹنگ پر اپنا ہاتھ صاف کرلیا۔ ان کی بنائی ہوئی چند یادگار سرخیاں آپ سے چھپانا مرزا رسول جوہؔر کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟ ان سرخیوں نے انہیں اسٹاف میں یکدم مشہور کردیا تھا۔ نمونے کی چندسرخیاں:

’شیخ رشید نے گھر گھر الیکشن مہم کا آغاز شروع کر دیا‘
’آفریدی کی فلک بوس چھکوں اور زمین بوس چوکوں کی مدد سے سینچری‘
’نرگس عمرہ سے لوٹ آئیں، آج الحمرا میں پرفارم کریں گی‘
’برڈ فلو سے 4 چینی باشندے جاںبحق‘

جس روز آخری سرخی اخبار میں شائع ہوئی تو قارئین نے فون کرکے شکایت کی کہ جاں بحق صرف مسلمانوں کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ ایڈیٹر صاحب نے ان کی سرزنش کی تو مرزا رسول جوہؔر نے دل ہی دل میں ادارہ چھوڑ دینے کی ٹھان لی تھی اور ڈیڑھ ماہ بعد ہی بالوں میں اتری چاندی کی بدولت دوسرے روزنامے میں رپورٹر ہو گئے۔

مرزا کی بطور رپورٹر تقرری بذات خود بریکنگ نیوز تھی مگر ٹی وی چینلز بہت بعد میں آئے۔ بہر کیف یہاں بھی صورتحال حسب سابق ہی رہی انہیں ایک سیاسی شخصیت کا انٹرویو کرنے کا ٹاسک ملا تو مرزا صاحب نے سوالنامہ تیار کیا اور فوٹو گرافر کے ہمراہ انٹرویو لینے پہنچ گئے چند ابتدائی اہم سوالات یوں تھے:

سوال: موجودہ سیاسی حالات میں قائداعظم کے 14 نکات کی اہمیت و افادیت کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
سوال: اگر آپ اس مرتبہ بھی الیکشن ہار گئے تو اسے دھاندلی قرار دیں گے یا اپنی پرانی پارٹی میں واپس چلے جائیں گے؟
سوال: جونیجو کی نئی روشنی اسکیم کا مشرف کی روشن خیالی سے موازنہ کریں؟

اس پر وہ صاحب زچ ہو کر بولے یا تو آپ انٹرویو کی تیاری نہیں کرکے آئے یا پھر آپ میرے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔ مرزا رسول جوہؔر نے صورتحال کو سنبھالا دیا اور سوالات کا رخ پسند و ناپسند کی جانب موڑتے ہوئے جیب سے ’نجی سوالنامہ‘ نکالا اور بالترتیب سوالات کی بوچھاڑ کردی۔

نجی سوالات میں تیسرا اور چوتھا سوال جو سوالنامے کے عین مطابق تھے کچھ یوں کیے گئے جو بمعہ جواب درج ہیں:
سوال: ٹی وی دیکھتے ہیں؟
جواب: جی نہیں، ٹی وی دیکھنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔
سوال: آپ کا پسندیدہ ڈرامہ کون سا ہے؟

اس سوال کے بعد انٹرویو اختتام کو پہنچ گیا۔ مرزا رسول جوہؔر نے فوٹو گرافر سے صورتحال پر خاموشی اختیار کرنے کی درخواست کی اور دفتر میں صاحب انٹرویو سے وقت نہ ملنے کا بہانہ کردیا۔ (یاد رہے اس واقعے بشمول اگلے واقعات کے راوی فوٹو گرافر صاحب ہی ہیں۔ حالانکہ صحافت میں سورس نہیں بتایا جاتا لیکن مرزا رسول جوہؔر کے معاملے میں سورس چھپایا جائے تو واقعات من گھڑت لگتے ہیں)۔

فوٹو گرافر کے مطابق دوسرا واقعہ کچھ یوں ہے’8 اکتوبر 2005کے زلزلے پر ایک ماہر ارضیات سے انٹرویو کا وقت لیا گیا۔ زلزلے کے حوالے سے کئی سوالات زیر بحث آئے۔ انٹرویو دینے والے صاحب پٹھان تھے اور مشکل سے اردو بولتے تھے۔

مرزا صاحب نے انٹرویو کا اختتام ان الفاظ سے کیا، ان تمام سوالات، ان کے جوابات اور سیرحاصل گفتگو سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ آپ کا تعلق صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا) سے ہے؟ بقول فوٹو گرافر وہ اس منطق پر پریشان تھے کہ خان صاحب اس اخذ شدہ نتیجے پر برہم ہی نہ ہو جائیں مگر وہ اس وقت حیران رہ گئے جب خان صاحب سیٹ سے اٹھ کر آگے بڑھے اور مرزا سے ہاتھ ملاتے ہوئے بولے ’آفرین ہے آپ نے خوب پہچانا، میرا تعلق چارسدہ سے ہے۔‘

ایک واقعے کا میں خود عینی شاہد بلکہ کردار ہوں۔ ایک مرتبہ مرزا رسول جوہؔر نے کوئی تقریب کور کی مگر فوٹو گرافر سے ٹائمنگ سیٹ نہ ہو سکی۔ اس پر انہوں نے کسی دوسرے اخبار کے فوٹو گرافر سے تصاویر بذریعہ انٹرنیٹ ای میل کرنے کی درخواست کی۔ اس دوران مرزا نے میرے سامنے بھی اس فوٹو گرافر کو SMS بھیجے۔

کچھ دیر بعد دوران گفتگو مرزا رسول جوہؔر کو ایک میسج موصول ہوا جسے پڑھتے ہی انہوں نے بڑبڑانا شروع کردیا اور فوٹو گرافر کو سخت برا بھلا (گالیاں) کہا، میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے ’یار اس بے وقوف نے 500 روپے نقد لیکر بھی تصاویر مجھے ای میل کرنے کے بجائے APPکو میل کردی ہیں۔

بولے اب کونAPP (ایسوسی ایٹیڈ پریس آف پاکستان) جا کر تصاویر لائے۔ میں نے انہیں میسج دکھانے کے لیے کہا، فوٹو گرافر کا مسیج پڑھ کر مجھے ہنسی آئی مگر میں نے خود پر قابو پاتے ہوئے مرزا رسول جوہؔر سے ان کی ای میل آئی ڈی اور پاس ورڈ (بقول ان کے کوڈ) پوچھا اور تصاویر اوپن کرکے انہیں دکھا دیں۔ اس پر مرزا بھی حیران رہ گئے۔ وہ یادگار میسج یوں تھا:
App Ko Tsaveer Mail Kar Di Hain

مرزاAPP یعنی آپ کو ’اے پی پی‘ پڑھ کر مشتعل ہو گئے تھے۔ عقدہ کھلنے پر مرزا نے کھسیانی بلی کی مانند، شوگر کو بطور کھمبا نوچتے ہوئے سارا ملبہ اسی پر گرا دیا۔

مرزا خود کو 18، 20 برس سے صحافت کی دنیا کا راہی بتاتے ہیں مگر یہ پول بھی اس وقت کھل گیا جب مرزا رسول جوہؔر صحافیوں کو پلاٹ ملنے کے لیے 10 سالہ تجربے کی شرط بھی پوری نہ کرسکے لیکن مرزا نہایت ڈھٹائی سے اسے سینیئر صحافیوں کی سازباز قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ ان کے ساتھی پروف ریڈر بھی موجود ہیں جن کے ساتھ انہوں نے اس وادی پرخار میں قدم رکھا مگر مرزا رسول جوہؔر بضد ہیں کہ ان کے گاؤں والے صحافتی تجربے کو ڈال کر اتنے برس بن ہی جاتے ہیں۔

مرزا رسول جوہؔر کے اور بھی کئی دلچسپ واقعات ہیں، ان شاء اللہ آئندہ کسی ملاقات پر ان کا ذکر اٹھا رکھتے ہیں۔ ویسے بھی وہ آج کل پرنٹ میڈیا سے تنگ آ کر الیکٹرانک میڈیا میں جانے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ ’یار زندہ صحبت باقی‘

پسِ تحریر: ان کا اصل نام مرزا رسول گوہر تھا لیکن ان کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے شاعری کی دنیا میں قدم رکھا تو پہلی بار علامہ اقبال کے ’جوابِ شکوہ‘ کا یہ شعر سنتے ہی گوہر کو جوہؔر کرلیا تھا۔

’تربیت عام تو ہے جوہر قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں‘

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

شیخ رشید علامہ اقبال مرزا رسول جوہؔر مشکورعلی نرگس

متعلقہ مضامین

  • الخلیل میں فلسطینی شخص نے گاڑی اسرائیلی فوجی پر چڑھا دی
  • خوشحال خان خٹک ایکسپریس 5 سال، 1 ماہ بعد بحال, کب چلے گی؟
  • حکومت کا پانچ سال سے معطل خوشحال خان خٹک ایکسپریس کو بحال کرنے کا فیصلہ
  • مرزا رسول جوہؔر
  • زباں فہمی نمبر244 ؛کچھ جوشؔ کے بارے میں
  • ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی
  • وفاقی حکومت کا پانچ سال سے معطل خوشحال خان خٹک ایکسپریس کو بحال کرنے کا فیصلہ
  • فلسطین غیور یمنی قوم کے دلیرانہ موقف کو کبھی فراموش نہ کریگا، القسام بریگیڈز
  • وقت گزر جاتا ہے
  • عمر رواں، ایک عہد کی داستان