یوکرین کے صدر نے امریکا کو اچانک آنکھیں دکھانا شروع کردیں
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی نے امریکا کو اچانک آنکھیں دکھانا شروع کر دیں۔
ولودومیر زیلنسکی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو صاف کہہ دیا کہ وہ جنگ پر خرچ 500 ارب ڈالر تو کیا 100 ارب ڈالر بھی واپس نہیں کریں گے، انہوں نے یورپی رہنماوں کےساتھ آج سربراہ اجلاس کا بھی اعلان کیا ہے۔
دعویٰ کیا گیا ہےکہ امریکا نے یوکرین کے زیر زمین معدنی وسائل کے 50 فیصد حصے کے حقوق مانگے تھے تاہم یوکرین کے صدر زیلنسکی نے معاہدے پر دستخط سے انکار کر دیا تھا۔
اگرچے برطانوی میڈیا کا دعویٰ تھا کہ صدر زیلنسکی ڈیل پر بعد میں آمادہ ہوگئے تھے مگر اب انہوں نے بیان میں واضح کیا ہے کہ وہ ایسی کسی بھی ڈیل پر دستخط نہیں کریں گے جس کی ادائیگی 10 نسلوں کو بھگتنا پڑے۔
یوکرینی صدر کا کہنا ہے کہ وہ امریکا کے 500 ارب ڈالر تو کیا وہ 100 ارب ڈالر بھی تسلیم نہیں کرتے کیونکہ انہوں نے سابق امریکی صدر جو بائیڈن سے رقم قرض نہیں امداد کے طور پر لی تھی۔
صدرٹرمپ کا نام لیے بغیر ولودومیر زیلنسکی نے کہا کہ خواہ کسی کو پسند آئے یا نہیں، امداد کی واپسی ذمہ داری نہیں ہوتی اس لیے ہم امداد واپس نہیں کریں گے۔
یوکرینی صدر نے کہا کہ امن بزور طاقت روس سے ہو نہ کہ یوکرین کے ساتھ ایسا کیا جائے۔
صدر زیلنسکی نے عہدہ چھوڑنے کیلئے دو شرائط رکھیں، پہلی یہ کہ ان کے مستعفی ہونے سے یوکرین میں امن آئے یا دوسری صورت میں یوکرین کونیٹو کا رکن بنا دیا جائے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: زیلنسکی نے یوکرین کے ارب ڈالر
پڑھیں:
غزہ میں امداد کے داخلے کو جنگ بندی سے منسلک نہیں کیا جا سکتا، سعودی وزیر خارجہ
غزہ میں امداد کے داخلے کو جنگ بندی سے منسلک نہیں کیا جا سکتا، سعودی وزیر خارجہ WhatsAppFacebookTwitter 0 12 April, 2025 سب نیوز
جدہ (آئی پی ایس )سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ غزہ میں امداد کے داخلے کو جنگ بندی سے منسلک نہیں کیا جا سکتا۔عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق شہزادہ فیصل نے یہ بھی کہا کہ بین الاقوامی برادری کو اسرائیلی حکومت پر دبا ڈالنا چاہیے کہ وہ غزہ کو امداد کی فراہمی کی اجازت دے۔انطالیہ میں غزہ کی جنگ بندی کے بارے میں عرب اسلامی وزارتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی وزیر نے یہ بات کہی، اجلاس میں انکلیو میں ہونے والی پیش رفت کے ساتھ ساتھ فوری اور پائیدار جنگ بندی کے حصول کی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اجلاس میں فلسطینی عوام کو ان کے بنیادی حقوق کے استعمال کے قابل بنانے کے لیے کوششیں جاری رکھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ فلسطینیوں کی بے دخلی کو واضح طور پر مسترد کیا جاتا ہے، سعودی عرب جنگ بندی مذاکرات میں مصر اور قطر کی کوششوں کو سراہتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے سے متعلق کسی بھی تجویز کو واضح طور پر مسترد کرتے ہیں، اس کا اطلاق ہر طرح کی نقل مکانی پر ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو فلسطینیوں کی بعض اقسام کی روانگی کو رضاکارانہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن آپ رضاکارانہ انخلا کی بات نہیں کر سکتے، جب کہ غزہ میں فلسطینیوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر امداد نہیں مل رہی ہے، اگر لوگوں کو کھانا، پانی یا بجلی نہیں مل رہی ہے اور اگر انہیں مسلسل فوجی بمباری کا خطرہ ہے، تو یہاں تک کہ اگر کسی کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے، تو یہ رضاکارانہ انخلا نہیں ہے، یہ جبر کا تسلسل ہے۔
سعودی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ کوئی بھی تجویز جس میں فلسطینیوں کی روانگی کو فریم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، یا جسے ان حالات میں رضاکارانہ انخلا کا موقع کہا جاتا ہے، محض حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے مترادف ہے۔انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا جا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمیں اس حقیقت کی وضاحت جاری رکھنی چاہیے، لگاتار کام کرنا چاہیے اور امید ہے کہ یہ پیغام سب کے لیے واضح ہوگا، خاص طور پر اس ایکشن پلان کے فریم ورک کے اندر جس پر ہم نے آج کمیٹی میں اتفاق کیا ہے۔ فیصل بن فرحان نے مغربی کنارے میں اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کی بھی مذمت کی جن میں یہودی بستیوں کی توسیع، گھروں کو مسمار کرنا اور زمین پر قبضہ شامل ہے۔