تھائی لینڈ کے سابق وزیراعظم نے 2 دہائی قبل مسلمانوں کے قتل عام پر معافی مانگ لی
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
تھائی لینڈ(نیوز ڈیسک)تھائی لینڈ کے سابق وزیر اعظم تھاکسن شناوترا نے 2 دہائی قبل ملک کے جنوبی حصے میں فوج کے ٹرکوں میں دم گھٹنے والے متعدد مسلمان مظاہرین کے ’قتل عام‘ پر معافی مانگی ہے۔نجی اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ معافی ’تک بائی قتل عام‘ کے نام سے مشہور اس واقعے پر عوامی سطح پر مانگی جانے والی پہلی معافی ہے، اور یہ معافی ایک قانون کی میعاد ختم ہونے اور 7 مشتبہ افراد کے خلاف قتل کے الزامات ختم ہونے کے تقریباً 4 ماہ بعد سامنے آئی ہے۔
یہ قتل عام طویل عرصے سے تھائی لینڈ کے مسلم اکثریتی جنوبی صوبوں میں ریاستی استثنیٰ کی علامت کے طور پر کھڑا ہے، جہاں سرکاری افواج اور علیحدگی پسندوں کے درمیان کئی سال سے شورش جاری ہے، جو ایک ایسے خطے کے لیے زیادہ سے زیادہ خودمختاری کا مطالبہ کر رہے ہیں، جو ثقافتی اور مذہبی طور پر بدھ اکثریتی ملک سے الگ ہے۔قتل عام کے وقت وزیر اعظم رہنے والے تھاکسن نے کہا کہ وہ کسی بھی ایسے اقدام کے لیے معافی مانگنا چاہتے ہیں، جس سے لوگوں کو ’بے چینی‘ کا احساس ہوا ہو۔’ڈیپ ساؤتھ‘ کے نام سے مشہور علاقے کے 19 سال میں پہلے دورے کے دوران قتل عام کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ جب میں وزیر اعظم تھا، تو میرا مقامی لوگوں کی دیکھ بھال کرنے کا پختہ ارادہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی یا عدم اطمینان ہوا ہے، تو معذرت خواہ ہوں۔تھائی لینڈ میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ ’دوائے جے‘ کی شریک بانی انچنا ہیمینا کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب تھاکسن نے معافی مانگی ہے۔انہوں نے کہا، ’اگر وہ (معافی مانگنے کے بارے میں) مخلص ہیں، تو انہیں مرنے والوں کے اہل خانہ سے آمنے سامنے جاکر بھی معافی مانگنی چاہیے۔
25 اکتوبر 2004 کو سیکیورٹی فورسز نے ملائیشیا کی سرحد کے قریب واقع صوبہ نارتھیوت کے قصبے تک بائی میں پولیس اسٹیشن کے باہر احتجاج کرنے والے ہجوم پر فائرنگ کی تھی، جس کے نتیجے میں 7 افراد ہلاک ہوئے تھے۔اس کے بعد تھائی لینڈ کے فوجی ٹرکوں کے پیچھے 78 افراد کو گرفتار کر کے ایک دوسرے کے اوپر کھڑا کر دیا گیا تھا، جس کے بعد ان کا دم گھٹ گیا اور ان کے ہاتھ پیٹھ کے پشت پر بندھے ہوئے تھے۔
گزشتہ سال اگست میں ایک صوبائی عدالت نے متاثرین کے اہل خانہ کی جانب سے 7 اہلکاروں کے خلاف دائر فوجداری مقدمے کو منظور کر لیا تھا، جن میں ایک سابق فوجی کمانڈر بھی شامل تھا، جو سنہ 2023 میں شیناواترا کی فیو تھائی پارٹی کے لیے پارلیمان کے لیے منتخب ہوا تھا۔حکام نے عدالت میں پیش ہونے سے گریز کیا اور کیس چلنے سے روک دیا، اکتوبر میں تھاکسن کی بیٹی وزیر اعظم پیتونگٹرن شناوترا نے کہا تھا کہ پابندیوں کے قانون میں توسیع ممکن نہیں ہے۔
سینئر صحافی، دانشور، شاعر اور کالم نگار اثر چوہان طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: تھائی لینڈ کے قتل عام کے لیے نے کہا
پڑھیں:
بالی ووڈ ہدایتکار فلموں میں مسلمانوں کے منفی کردار کشی پر برہم
بھارتی فلم ساز اور مصنف عباس ٹائر والا نے بالی ووڈ کی فلموں میں بڑھتے ہوئے مسلمان وِلن کرداروں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جدید فلموں کے سیاسی پہلو کو دیکھ کر اب انہیں شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔
فلم ’جانے تو یا جانے نہ‘ کے ہدایت کار ، ’وار‘، 2.0، اور ’پٹھان‘ جیسی بڑی فلموں کے مکالمہ نگار، عباس ٹائر والا نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ پہلے بھارتی فلم ساز اپنی انفرادیت کے لیے مشہور تھے۔ وہ ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ کام کرتے تھے جن کی سوچ ان کے جیسی ہی ہوتی تھی، اور شاذ و نادر ہی کسی فلم میں ولن یا اس کے سیاسی نظریے کے بارے میں شرمندگی محسوس ہوتی تھی مگر اب انڈسٹری کے حالات بدل چکے ہیں ۔
عباس نے کہا کہ یہ صرف اس وجہ سے نہیں کہ وہ ایک بھارتی مسلمان ہیں، بلکہ بطور مصنف وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ بار بار ایک مسلم ولن کو دکھانا اب گھسا پٹا لگتا ہے۔
ان دنوں عباس ٹائر والا پاون کلیان کی تیلگو ڈرامہ فلم ’ہری ہرا ویر مالو‘ کے ہندی مکالموں پر کام کر رہے ہیں، جس میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کو مخالف کردار کے طور پر دکھایا گیا ہے، جو حال ہی میں وکی کوشل کی فلم ’چھاوا‘ میں بھی بطور ولن دکھائے گئے تھے۔
اس پر بات کرتے ہوئے ہدایتکار کا کہنا تھا کہ جب اورنگزیب کو ولن کے طور پر دکھایا جاتا ہے تو اس کے کردار کو خاص اہمیت دی جاتی۔ یقیناً کچھ تاریخ کی کچھ تلخ حقیقت ایسی ہیں جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر فلم میں ان کو بڑھا چڑھا کر دکھایا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ حال ہی میں ریلیز اور باکس آفس پر کامیاب ہونے والی فلم چھاوا میں میں وکی کوشل نے سمبھاجی مہاراج کا کردار نبھایا ہے، جبکہ اکشے کھنہ نے اورنگزیب کا کردار ادا کیا ہے۔
فلم ’چھاوا‘ ایک تاریخی ڈرامہ ہے جو مراٹھا جنگجو چھترپتی سمبھاجی مہاراج کی زندگی اور ان کی مغل بادشاہ اورنگزیب کے ساتھ جنگوں پر مبنی ہے۔ فلم میں اورنگزیب کو منفی کردار میں دکھایا گیا ہے۔