ایک برطانوی معمر جوڑے کو افغانستان میں طالبان نے حراست میں لے لیا
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
افغانستان کے صوبہ بامیان میں پیٹر رینالڈز، عمر 79 اور ان کی اہلیہ، باربی، عمر 75 کو یکم فروری کو اپنی رہائش گاہ پر واپس آتے ہوئے حراست میں لے لیا گیا۔ یہ جوڑا 18 سال سے افغانستان کے اندر مختلف تعلیمی منصوبوں میں مصروف ہے اور 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد انہوں نے ملک میں رہنے کا انتخاب کیا۔
اگرچہ طالبان نے خواتین کی ملازمت پر پابندی عائد کر دی ہے اور پرائمری سطح سے آگے خواتین کی تعلیم کو محدود کر دیا ہے، تاہم اس خاص منصوبے کو مبینہ طور پر بامیان میں مقامی حکام کی جانب سے حمایت حاصل تھی۔
اپنی گرفتاری کے بعد ابتدائی تین دنوں تک، جوڑے نے اپنے بچوں کے ساتھ ٹیکسٹ میسجز کے ذریعے رابطہ قائم رکھا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں وزارت داخلہ کی طرف سے رکھا گیا ہے اور انہیں ان کی خیریت کا یقین دلایا جا رہا ہے تاہم، بعد میں بات چیت بند ہوگئی اور ان کے بچوں نے اس وقت سے ان سے کچھ نہیں سنا۔
نائیک میں رینالڈس کی رہائش گاہ کی تلاشی لی گئی ہے اور ان کے عملے سے جوڑے کی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی ہے، خاص طور پر مذہب پرستی کے کسی بھی الزامات سے متعلق، جس کی تمام ملازمین نے تردید کی ہے۔
سنڈے ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کی بیٹی، سارہ اینٹ وِسٹل، جو ڈیوینٹری، نارتھمپٹن شائر سے ہے، نے کہا ہے کہ یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے ان کی والدہ کی عمر 75 سال ہے اور والد، جن کی عمر 80 کے قریب ہے، کو منی اسٹروک کا سامنا کرنے کے بعد دل کی دوائیوں کی ضرورت ہے۔ وہ محض ایک ایسے ملک کو مدد فراہم کرنے کی کوشش کر رہے تھے جس کا انہیں بہت خیال ہے۔ یہ تصور کہ انہیں ماؤں کو تعلیم دینے کے لیے رکھا جا رہا ہے، بہت پریشان کن ہے۔
انہوں نے اپنے تین بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر طالبان قیادت کو ایک کھلا خط لکھا ہے جس میں ان کے والدین کی رہائی کی درخواست کی گئی ہے۔
دی گارڈین کے مطابق، پیٹر اور باربی رینالڈس کی ملاقات یونیورسٹی آف باتھ میں ہوئی اور افغانستان سے گہری محبت پیدا کرنے کے بعد 1970 میں کابل میں شادی کی تھی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ باربی کو طالبان کی طرف سے ایک خاتون کو دیا جانے والا پہلا تعریفی سرٹیفکیٹ بھی دیا گیا تھا اپنے خط میں، Entwistle اور اس کے بھائیوں نے طالبان سے اپیل کی کہ وہ ان کے والدین کو آزاد کریں، اور انہیں تعلیم کے لیے اپنا گراں قدر تعاون جاری رکھنے کی اجازت دیں۔
انہوں نے اپنے والدین کی دوہری شہریت کی حیثیت پر روشنی ڈالی اور لکھا ہے کہ ہمارے والدین نے مسلسل افغانستان کے ساتھ وابستگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ بامیان میں اپنے پروجیکٹ کے علاوہ، یہ جوڑا کابل کے پانچ اسکولوں میں پروگراموں پر عمل درآمد کر رہا ہے۔ طالبان کی قیادت نے ان اقدامات کی تعریف کی تھی جو ان کے والدین فراہم کر رہے تھے۔
Entwistle نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان کے والدین نے ہمیشہ مطلوبہ اجازت کے ساتھ کام کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ بار بار ہونے والی تبدیلیوں کے باوجود قواعد و ضوابط کی پابندی کرتے رہے ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ان کے والدین انہوں نے کے ساتھ کے بعد اور ان ہے اور
پڑھیں:
افغانستان میں انتہاپسند گروپوں کے لیے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں.مارکوروبیو
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 فروری ۔2025 )امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ افغانستان میں ایسے علاقے موجود ہیں جو انتہاپسند گروپوں کو اپنی سرگرمیوں کے لیے مواقع فراہم کرتے ہیں امریکی نشریاتی ادارے” سی بی ایس“ سے انٹرویومارکو روبیو نے کہا کہ میں یہ نہیں کہوں گا افغانستان میں نائن الیون سے پہلے جیسا منظر ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جب آپ کی حکمرانی میں ایسے علاقے ہوں جہاں ہر حصے پر آپ کا مکمل کنٹرول نہ ہو تو یہ ایسے گروہوں کے لیے موقع فراہم کرتا ہے.(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ آج اور 10 سال پہلے کے درمیان فرق یہ ہے کہ اب اس زمین پر امریکی موجود نہیں ہیں جو انہیں ہدف بنائیں اور ان کا پیچھا کریں روبیو نے کہا کہ جب طالبان کو بتایا گیا کہ اسلامک اسٹیٹ یا القاعدہ ان کے ملک کے کچھ حصوں میں کام کر رہی ہے تو بعض معاملات میں طالبان تعاون کرتے رہے ہیں اور ان کے پیچھے گئے ہیں لیکن دوسرے معاملات میں انہوں نے اتنا زیادہ تعاون نہیں کیا. انہوں نے کہا کہ میں یہ کہوں کا کہ میں اس کا موازنہ نائن الیون سے پہلے کے دور سے نہیں کیا جاسکتا لیکن یقینی طور پر صورت حال کہیں زیادہ غیر یقینی ہے اور یہ بات صرف افغانستان تک محدود نہیں ہے امریکی وزیر خارجہ کے تبصروں پر طالبان نے فوری طور پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا لیکن طالبان مسلسل یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ پورا ملک ان کے کنٹرول میں ہے اور وہ ان خدشات کو بھی مسترد کرتے ہیں کہ کوئی بھی غیر ملکی دہشت گرد تنظیم افغان سرزمین پر موجود ہے. مارکو روبیو کا یہ بیان اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے چند دن بعد سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ القاعدہ کے کارکنوں کو طالبان کی خفیہ ایجنسی کے تحفظ میں افغانستان بھر میں محفوظ ٹھکانے مل رہے ہیں رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ طالبان نے اجازت پر مبنی ایک ایسا ماحول قائم کر رکھا ہے جس سے القاعدہ کو مضبوط ہونے کا موقع ملا ہے اور اس کے محفوظ ٹھکانے اور تربیتی کیمپ پورے ا فغانستان میں پھیلے ہوئے ہیں. رپورٹ میں افغانستان میں موجود ایک دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ خراسان کو جو اسلامک اسٹیٹ سے منسلک ایک گروپ ہے علاقائی دہشت گردی کا ایک بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے . اقوام متحدہ کا جائزہ یہ اجاگر کرتا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ خراسان کے حامیوں نے یہ کہ نہ صرف طالبان حکام اور افغانستان کی مذہبی اقلیتوں پر حملے کیے ہیں بلکہ ان کے حملوں دائرہ یورپ تک پھیلا ہوا ہے اور یہ گروپ افغانستان کی سرحد سے ملحق وسطی ایشیائی ریاستوں میں بھی اپنی بھرتیوں کے لیے سرگرم ہے طالبان عسکری طور پر اگست 2021 میں اس وقت افغانستان کے اقتدار پر قابض ہوئے تھے جب امریکی قیادت میں نیٹو افواج، ملک میں دو عشروں کی اپنی موجودگی کے بعد واپس لوٹ گئیں تھیں جس کے بعد نیٹو کی مدد سے قائم افغان حکومت اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکی اور ڈھیر ہو گئی تھی.