یواے ای : رمضان المبارک میں صرف ساڑھے تین گھنٹے کام کا نوٹیفکیشن جاری
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
دبئی (اوصاف نیوز )یو اے ای میں رمضان المبارک کے دوران سرکاری ملازمین کیلئے اوقات کار کا اعلان کر دیا گیا ہے، سرکاری ملازمین کو رمضان میں صرف ساڑھے تین گھنٹے کام کرنا پڑے گا۔
پیر سے جمعرات تک سرکاری دفاتر کے اوقات صبح 9 بجے سے دوپہر 2:30 بجے تک ہوں گے، جبکہ جمعہ کے روز کام کا دورانیہ صبح 9 بجے سے دوپہر 12 بجے تک ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ ملازمین پیر سے جمعرات تک روزانہ ساڑھے تین گھنٹے کم کام کریں گے، جبکہ جمعہ کو ڈیڑھ گھنٹہ مزید کم ہوجائے گا۔
سرکاری ملازمین جن کی ملازمت کی نوعیت مختلف اوقات میں کام کرنے کی متقاضی ہے ان پر یہ اصول لاگو نہیں ہوں گے۔ اس کے علاوہ وزارتوں اور وفاقی سرکاری اداروں کے ملازمین اپنے منظور شدہ فلیکسیبل ورکنگ سسٹم کے مطابق کام جاری رکھ سکتے ہیں۔
جمعہ کے دن 70 فیصد تک ملازمین کو ریموٹ ورکنگ (گھر سے کام کرنے) کی اجازت دی گئی ہے جو کہ منظور شدہ گائیڈ لائنز کے مطابق ہوگی۔ دبئی اسلامی امور اور فلاحی سرگرمیوں کے محکمے کے جاری کردہ ہجری کیلنڈر کے مطابق متوقع ہے کہ رمضان المبارک کا آغاز یکم مارچ 2025 بروز ہفتہ سے ہوگا۔
متحدہ عرب امارات کے بین الاقوامی فلکیاتی مرکز نے تصدیق کی ہے کہ رمضان کا چاند 28 فروری 2025 کی رات کو باآسانی دیکھا جا سکے گا۔ اسلامی مہینے 29 یا 30 دن کے ہوتے ہیں اور چاند نظر آنے پر اگلے دن سے رمضان کا آغاز ہوگا۔ مزید پڑھیں : پاک بھارت ٹاکرے میں “پانڈیا” کی گھڑی کی چرچے
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
پی ٹی آئی کے وفد کی چیف جسٹس سے 2 گھنٹے تک ملاقات، شکایتوں کے انبار لگا دیے
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وفد نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے 2 گھنٹے تک ملاقات کی اور شکایتوں کے انبار لگا دیے۔
سپریم کورٹ نے چیف جسٹس پاکستان سے اپوزيشن رہنماؤں کی ملاقات کا اعلامیہ جاری کردیا۔
اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اصلاحات کے ایجنڈے پر وسیع پیمانے پر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کےلیے اپوزیشن قیادت کو مدعو کیا۔
پی ٹی آئی کی قیادت نے چیف جسٹس سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی، چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وفد کا خیر مقدم کیا اور پی ٹی آئی وفد کو نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے مجوزہ اجلاس سے آگاہ کیا۔
چیف جسٹس نے بتایا کہ انہوں نے وزیر اعظم سے ملاقات کی،
وزیراعظم سے اصلاحات کے ایجنڈے پر حکومت کی رائے فراہم کرنے کی درخواست کی، وزیر اعظم نے اس عمل کو مثبت انداز میں لیا اور پالیسی سازی اور عملدرآمد میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس نے مزید بتایا قانون و انصاف کمیشن کو فیڈ بیک موصول ہو چکا ہے، یہ فیڈ بیک ملک بھر کی بار کونسلز، عوام کی آراء اور ضلعی عدلیہ کی طرف سے موصول ہوا، ہائیکورٹس کے رجسٹرارز اور صوبائی جوڈیشل اکیڈمیز کی رائے بھی جلد متوقع ہے۔
چیف جسٹس نے کہا وزیر اعظم ٹیکس مقدمات کے مختلف عدالتی فورمز پر التواء پر تشویش رکھتے ہیں، چیف جسٹس نے وزیراعظم کو یقین دہانی کروائی کہ ٹیکس مقدمات کو جلد نمٹانا اولین ترجیح ہے، چیف جسٹس نے وزیراعظم کو یقین دہانی کروائی زیر التوا مقدمات کی مجموعی تعداد میں کمی اولین ترجیح ہے۔
ملاقات میں عمر ایوب، شبلی فراز، بیرسٹر گوہر علی خان، بیرسٹر علی ظفر بیرسٹر سلمان اکرم راجہ، لطیف کھوسہ، ڈاکٹر بابر اعوان نے بھی شرکت کی، سپریم کورٹ کے رجسٹرار محمد سلیم خان اور سیکریٹری قانون و انصاف کمیشن تنزیلہ صباحت نے چیف جسٹس کی معاونت کی، پی ٹی آئی وفد کی چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات دو گھنٹے تک جاری رہی۔
چیف جسٹس نے تجویز دی عدالتی اصلاحات کو ایک کم از کم مشترکہ قومی ایجنڈا بنایا جانا چاہیے، مشترکہ قومی ایجنڈے کے لیے دو طرفہ حمایت ہونی چاہیے۔
ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر آرٹیکل 175 اے کی خلاف ورزی ہے، صدر مملکت نے آرٹیکل 200 کی شق ایک کا استعمال جوڈیشل کمیشن کے اختیار کو غصب کرکے کیا۔
اعلامیہ کے مطابق ملاقات میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے قید عمران خان اور دیگر رہنماؤں اور کارکنوں کو درپیش مسائل اجاگر کیے، عمر ایوب نے شکایت کی اپوزیشن قیادت کے مقدمات جان بوجھ کر مختلف مقامات پر ایک ہی وقت میں مقرر کیے جاتے ہیں اور کہا کہ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ عدالتوں میں پیشی ممکن نہ ہو سکے۔
سپریم کورٹ اعلامیہ کے مطابق چیف جسٹس سے ملاقات میں عمر ایوب نے یہ بھی کہا کہ پارٹی قیادت اور کارکنوں کے کیسز کی پیروی کرنے والے وکلاء کو ہراساں کیا جا رہا ہے، جیل حکام عدالتوں کے احکامات پر عمل نہيں کر رہے، پی ٹی آئی کے وکلاء پر دہشت گردی کے مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھنے والوں میں جسٹس منصور، جسٹس منیب اختر ، جسٹس عائشہ اور جسٹس اطہر شامل ہیں۔
اعلامیہ کے مطابق عمر ایوب نے کہا کہ ملک کا اقتصادی استحکام قانون کی حکمرانی پر منحصر ہے، معاشی بحالی تب ہی ممکن ہے جب عدلیہ اپنا کردار ادا کرے اور ایگزیکٹو کو جوابدہ بنایا جائے۔
پی ٹی آئی وفد کے دیگر شرکاء نے بھی اسی نوعیت کی آراء کا اظہار کیا، پی ٹی آئی وفد نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ عدلیہ میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
سپریم کورٹ اعلامیہ کے مطابق ملاقات میں بیرسٹر علی ظفر نے درخواست کی کہ فراہم کردہ پالیسی تجاویز کا جواب دینے کےلیے وقت درکار ہے، انہوں نے فوجداری انصاف کے نظام اور دیوانی مقدمات کے حل میں بہتری کے لیے قیمتی تجاویز پیش کیں۔