سینئر صحافی رانا اثر علی چوہان 86 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
ویب ڈیسک: سینئر صحافی، ادیب، دانشور، شاعر اور نامور کالمسٹ ”شاعر نظریہ پاکستان“۔ ”حسینی راجپوت“ رانا اثر علی چوہان چیف ایڈیٹر روزنامہ ”سیاست“ 86 سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔
مرحوم نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز 1958 ء میں سرگودھا سے کیا۔ بعد ازاں وہ لاہور منتقل ہو گئے اور 1971ء میں ہفت روزہ ”پنجاب“ اور 11 جولائی 1973ء میں روزنامہ ”سیاست“ لاہور، سرگودھا، ملتان کا اجراء کیا۔
مری: پولیس سے بچنے کیلئے ملزم نے عمارت سے کود کر خودکشی کرلی
انہوں نے پنجابی جریدہ ”چانن“ بھی نکالا۔ ان کی اہلیہ نجمہ اثر علی چوہان 1976ء میں پاکستان پیپلز پارٹی شعبہ خواتین پنجاب کی پہلی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئیں۔ ان کے بیٹے اپنے اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ برطانیہ،امریکہ، کینیڈا، سعودی عرب اور دبئی میں مقیم ہیں۔
اثر چوہان بااصول اور بے باک صحافی تھے جنہوں نے صحافت ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ مرحوم مجید نظامی کے ساتھ ان کی خصوصی انسیت تھی جنہوں نے انہیں ”شاعرِ نظریہ پاکستان“ کا لقب دیا تھا۔ انہوں نے اپنے کالم کا آغاز روزنامہ ”پاکستان“ سے کیا۔
پولیس اہلکاروں کا سزائے موت کے مجرم کیلئے دعوت کا انتظام، مقدمہ درج
اس کے علاوہ مرحوم روزنامہ ”جنگ“۔روزنامہ ”نوائے وقت“ اور دوسرے کئی اخبارات میں کالم لکھتے رہے۔ اپنی زندگی کے آخری سانس تک وہ ”نوائے وقت“ کے ساتھ وابستہ رہے۔ وہ اپنی سوانح حیات مرتب کررہے تھے تاہم فرشتہ اجل نے انہیں اس کی تکمیل کی مہلت نہیں دی۔ جنازے کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
اسرائیل اور ترکی کے درمیان لفظی جنگ حقیقی جنگ بن سکتی ہے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) ایک سینئر اسرائیلی حکومتی اہلکار نے خبردار کیا کہ ترکی شام میں ایک ''نو عثمانی ریاست‘‘ کے قیام کی کوشش کر رہا ہے اور اگر اس نے ''سرخ لکیر‘‘ کو عبور کیا تو اسرائیل کارروائی کرے گا۔
اس کے جواب میں ترک حکومتی اہلکاروں نے کہا ہے کہ غزہ، لبنان اور شام پر جاری اپنے فضائی حملوں کے ساتھ، اسرائیل کی ''بنیاد اور نسل پرست حکومت‘‘ جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کے ساتھ ''ہمارے خطے کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ‘‘ بن گئی ہے۔
عالمی برادری اسرائیلی حکومت کی غیر قانونی سرگرمیوں کے خاتمے کو یقینی بنائے، انقرہ
یہ تازہ ترین غیر سفارتی تبصرے گزشتہ ہفتے کے آخر میں اسرائیل کیشامپر دوبارہ بمباری کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں۔
(جاری ہے)
دسمبر 2024 ء میں شام کے آمر صدر بشار الاسد کی معزولی کے بعد، اسرائیل نے شام میں متعدد اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ شام کے نئے حکام، جو 14 سال کی تفرقہ انگیز خانہ جنگی کے بعد ملکی عوام کو متحد کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، کہتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کوئی تنازعہ نہیں چاہتے۔
اس کے باوجود اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ اسے شام میں بمباری پر مجبور کیا گیا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ نئی حکومت اس کے خلاف پرانی حکومت کے ہتھیاروں کا استعمال نہ کرے۔
شامی مہاجرین ترکی میں ’سیاسی فٹ بال‘ کیسے بنے؟
ایک اسرائیلی اہلکار نے مقامی میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ شام پر گزشتہ ہفتے کے فضائی حملے مختلف تھے۔
ان کا مقصد ترکی کو ایک پیغام دینا تھا۔حملے کے اہداف کیا تھے؟
اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے حما میں ایک فوجی ہوائی اڈے کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ حمص میں طیاس، حمص کے ایئربیس ٹی 4 اور دمشق میں سائنسی مطالعات اور تحقیقی مراکز کی برانچوں کو نشانہ بنایا۔
ترکی کی حکمت عملی کیا ہے؟
ترکی کئی مہینوں سے خاموشی سے شام کی نئی حکومت کے ساتھ دفاعی معاہدے پر بات چیت کر رہا ہے۔
اس میں شامی فوجیوں کو تربیت دینا اور ان شامی ہوائی اڈوں کا استعمال کرنا شامل ہے، جن پر اسرائیل نے حملہ کیا۔ ترکی کا استدلال یہ ہے کہ ایران اور روس، جو کہ شام کی معزول حکومت کے سابق فوجی حامی رہے ہیں، نے شام میں جو خلا چھوڑ دیا ہے، وہ اسے پُر کرتے ہوئے شام میں استحکام لانے اور شدت پسند ''اسلامک اسٹیٹ‘‘ گروپ کے خلاف کارروائیاں کرنے میں مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ترکی، عراق، شام اور اردن کا داعش کے خلاف مشترکہ کارروائی کا فیصلہ
اسرائیل اسے کیسے دیکھ رہا ہے؟
اسرائیل کے دفاعی نامہ نگار رون بین یشائی نے مقامی آؤٹ لیٹ، Ynet نیوز کے لیے لکھا، ''مرکزی شام کے ہوائی اڈوں پر فضائی دفاعی نظام اور ریڈار متعارف کرانے کا ترکی کا ارادہ شام میں اسرائیل کی آزادی کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔
ترکی کی شام میں موجودگی کی وجہ سے اسرائیل آزادانہ طور پر ایران کی طرف بڑھنے کے لیے شام کی فضائی حدود استعمال نہیں کر سکتا۔‘‘ اسد حکومت کے دور میں شام کی فضائی حدود کے استعمال پر زیادہ پابندیاں عائد تھیں۔دریں اثناء اسرائیلی میڈیا نے سکیورٹی بجٹ اور فورس کی تعمیر کا جائزہ لینے سے متعلق 'ناگل کمیشن‘ کی رپورٹ کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔
یہ کمیشن اگست 2024 ء میں قائم مقام اسرائیلی سکیورٹی مشیر جیکب ناگل کی سربراہی میں قائم کیا گیا تھا، تاکہ اسرائیل کے مستقبل کے دفاعی بجٹ کے لیے سفارشات پیش کی جاسکیں۔ جنوری میں جب کمیشن کی رپورٹ جاری کی گئی تو اسرائیلی ذرائع نے کہا کہ اس نے ترکی کے ساتھ آنے والی جنگ سے انتباہ کیا ہے۔یورپی یونین کا ’ایئر برج‘ کے ذریعے شام کو امداد کی فراہمی کا اعلان
تاہم اسرائیل اور ترکی کے درمیان براہ راست تصادم کا امکان نہیں ہے۔
کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بات چیت اس ہفتے شروع ہوئی ہے کیونکہ اگر اسرائیل نے غلطی سے بھی ترک فوج کو نشانہ بنایا تو اس سے سنگین تنازعہ کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔اس بات کا امکان بھی نہیں ہے کہ اسرائیل کا اتحادی اور دیرینہ دوست امریکہ ترکی کے ساتھ تصادم کی منظوری دے گا۔
ادارت عاطف بلوچ