امریکی اسلحے کی طالبان سے واپسی کے لیے صدر ٹرمپ سرگرم
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
افغانستان میں رہ جانے والے امریکی اسلحے میں 78 ایئرکرافٹس، 40 ہزار سے زائد فوجی گاڑیاں اور 3 لاکھ سے زائد اسلحہ شامل ہے ، یہ سارا اسلحہ اور فوجی سازوسامان اس وقت طالبان کے زیر استعمال ہے
کنزرویٹو ایکشن کانفرنس میں خطاب کے دوران امریکی صدر ٹرمپ کی طالبان کے قبضے میں موجود امریکی اسلحے کی واپسی کے لیے منصوبہ تیار کرنے کی ہدایت ، طالبان کی فوجی پریڈز میں امریکی اسلحے کی نمائش پر خفگی
ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی اسلحے کی واپسی کے لیے نمائندہ مقرر کرتے ہوئے انہیں جامع منصوبہ تشکیل دینے کی ہدایت کردی ہے ۔خبرایجنسی کی رپورٹ کے مطابق کنزرویٹو ایکشن کانفرنس میں حال ہی میں خطاب کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے قبضے میں موجود امریکی فوج کے اسلحے کی واپسی کے لیے منصوبہ تیار کرنے کی ہدایت کردی ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈوف کا نام لیا اور ان کی تعریف کرتے ہوئے ہدایت کی کہ طالبان سے امریکی اسلحہ واپس لیا جائے اور کہا کہ وہ یہ کام کرسکتے ہیں اور وہ ایک انٹرپرینئیور ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ مذکورہ نمائندے کی مکمل شناخت واضح نہیں ہے لیکن خیال ہے کہ ٹرمپ ڈوف مانچسٹر کی بات کر رہے ہیں جو ایک مشہور کاروباری شخصیت اور امریکا کی ری پبلکن پارٹی کے حامی ہیں۔ ٹرمپ نے خطاب میں زور دیتے ہوئے کہا کہ طالبان کے ہاتھوں سے امریکی اسلحہ واپس لینے کی ضرورت ہے اور اسی دوران طالبان کی فوجی پریڈز کے دوران امریکی اسلحے کی نمائش پر خفگی کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان کو سالانہ دو سے ڈھائی ارب ڈالر فراہم کرتے ہیں حالانکہ ہمیں خود مدد کی ضرورت ہے ۔رپورٹ کے مطابق افغانستان میں رہ جانے والے امریکی اسلحے میں 78 ایئرکرافٹس، 40 ہزار سے زائد فوجی گاڑیاں اور 3 لاکھ سے زائد اسلحہ شامل ہے ، یہ سارا اسلحہ اور فوجی سازوسامان اس وقت طالبان کے زیر استعمال ہے ۔اس سے قبل طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا تھا کہ طالبان افغانستان میں رہ جانے والے امریکی اسلحے کو مال غنیمت تصور کرتے ہیں اور اس کا تحفظ جاری رکھیں گے ۔ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ جب تک طالبان حکومت میں ہیں اس وقت تک امریکی اس کی واپسی کا دعویٰ نہیں کرسکتے ہیں۔یاد رہے کہ امریکا نے جولائی 2021 میں افغانستان سے اپنی فوج کا مکمل انخلا کیا تھا اور اس کے فوری بعد طالبان نے حکومت سنبھالی تھی اور اس وقت رہ جانے والا سازوسامان طالبان حکومت نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔طالبان نے امریکا سے ہونے والے معاہدے کے تحت تمام فوجیوں کی بحفاظت واپسی کی راہ ہموار کی تھی اور انخلا کے دوران سیکڑوں افغان شہری بھی امریکی فوجی جہازوں میں بیرون ملک چلے گئے تھے ۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
دنیا پر ٹرمپ کا قہر
جب امریکا کسی ملک کو دھمکیاں دے رہا ہے، کسی پر پابندیاں لگا رہا ہے، کسی پر قبضہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے اور اقوام متحدہ کو خاطر میں نہیں لا رہا ہے گویا خود کو پوری دنیا کا مالک اور ٹھیکیدار سمجھ رہا ہے پھر اپنی ہر زیادتی کو اپنا استحقاق بھی سمجھ رہا ہے تو ایسے میں دنیا میں افراتفری، انتشار اور سیاسی و معاشی عدم استحکام کا پیدا ہونا یقینی ہے پھر جب سب کچھ امریکا کو ہی کرنا ہے تو اقوام متحدہ کے وجود کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟
امریکا تو اپنی من مانی کر ہی رہا ہے، اس کا بغل بچہ اسرائیل اس سے بھی دو ہاتھ آگے جا رہا ہے، اس نے ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے مگر مجال ہے کہ کوئی اسے روک یا ٹوک سکے۔ اقوام متحدہ میں حالانکہ اسرائیل کے خلاف اسے جنگی جنون سے باز رکھنے کے لیے کئی قراردادیں پیش ہو چکی ہیں مگر اس کے آقا امریکا نے کسی کو پاس نہ ہونے دیا اور اگر کوئی پاس بھی ہو گئی تو اس پر عمل نہ ہونے دیا۔
چنانچہ غزہ کیا پورے فلسطین میں مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے دنیا تماشا دیکھ رہی ہے اور مسلمان ممالک بھی خاموش ہیں کیونکہ وہ اپنے مفادات کو دیکھ رہے ہیں۔ ایسے حالات میں اقوام متحدہ کی بے بسی پر ترس آ رہا ہے پہلے لوگ او آئی سی کو بے حس گھوڑا کہتے تھے مگر اب تو اقوام متحدہ کا اس سے بھی برا حال ہے اگر اقوام متحدہ امریکا کے آگے بے بس ہے تو پھر اسے بند ہی کر دینا چاہیے اور امریکا بہادر کو من مانی کرنے دی جائے۔
اس سے کم سے کم یہ تو ہوگا کہ تمام ہی ممالک امریکا سے کیسے نمٹنا ہے اس پر سوچنا شروع کریں گے ابھی تو دنیا اپنے معاملات کے لیے یو این او کی جانب دیکھتی ہے مگر ان کے جائز مطالبات بھی پورے نہیں ہو پاتے اس لیے کہ تمام معاملات کو UNOخود نہیں امریکی مرضی سے نمٹاتی ہے۔
افسوس اس امر پر ہے کہ امریکا اپنے مفادات کا غلام ہے وہ صرف اپنے ملک اور قوم کی بھلائی کو دیکھتا ہے اسے کسی ملک کی پریشانی یا مشکل کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اس نے روس کو زیر کرنے کے لیے پاکستان کے دائیں بازو کے حکمرانوں، مذہبی طبقے اور افغان مجاہدین کو خوب خوب استعمال کیا۔ پھر پاکستان نے امریکی گلوبل وار آن ٹیررزم میں ہزاروں جانیں گنوائیں اور کروڑوں ڈالر کا نقصان اٹھایا مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب اس کا کام نکل گیا تو اس نے پاکستان کو اپنے حلیفوں کی فہرست سے نکال کر چین سے تعلقات توڑنے پر زور دینے لگا۔
امریکی حکمرانوں کو اگر اپنے ہم وطنوں کے علاوہ کسی کی پرواہ ہے تو وہ اسرائیل ہے۔ امریکی ویٹو پاور اسرائیل کے کھل کر کام آ رہی ہے۔ وہ امریکی سپورٹ کے بل بوتے پر عربوں کو خاطر میں نہیں لا رہا ہے اور کسی بھی عرب ملک کو نشانہ بنانے سے ذرا نہیں ہچکچا رہا ہے۔ شام اور عراق کے بعد اب وہ ایران پر حملے کی تیاری کر رہا ہے اور کسی بھی وقت وہ یہ حرکت کر سکتا ہے اور اگر ایران نے پلٹ کر وار کیا تو پھر امریکا اسے معاف نہیں کرے گا اور اسے اپنے مہلک ترین میزائلوں سے نشانہ بنا دے گا۔
اب بتائیے تقریباً دو سال سے اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے مگر امریکا سمیت تمام یورپی ممالک تماشا دیکھ رہے ہیں انھوں نے اسرائیل کو اس کی جارحیت روکنے کے لیے آج تک کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔ امریکا نے اسرائیل کے لیے خطرہ بننے والے کتنے ہی ممالک کو تباہ و برباد کر ڈالا ہے، اگر اس کے مفادات اور برتری قائم رکھنے کے راستے میں روس اور چین آڑے نہ آتے تو وہ پوری دنیا پر اپنا پرچم لہرا دیتا۔
دراصل امریکا کی برتری اس کی فوجی طاقت ہے۔ معیشت تو اس کی بھی ڈانواڈول ہے۔ وہ دنیا کو صرف اپنی فوجی طاقت سے ڈراتا رہتا ہے جہاں تک معیشت کا تعلق ہے تو اس سے بڑا اس کے لیے اور کیا لمحہ فکریہ ہوگا کہ وہ خود 36 ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے۔ امریکی معیشت روز بہ روز تنزلی کی جانب گامزن ہے۔
صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھال کر امریکی معیشت کو پٹری پر لانے کے لیے ہی مختلف اقدام کیے ہیں جن میں مختلف عوامل شامل ہیں۔ امریکی ایڈ ختم کرنے سے لے کر ٹیرف کا بڑھایا جانا انھی اقدام میں شامل ہے۔ صدر ٹرمپ اپنے لگائے گئے ٹیرف کو امریکا کے لیے مفید قرار دے دیتے ہوئے تین روز قبل اسے نافذ کرنے کا اعلان کیا کیا تو اس انتہائی اقدام سے پوری دنیا میں ہلچل مچ گئی تھی۔
اسٹاک ایکسچینجوں میں لوگوں کے اربوں ڈالر ڈوب گئے ، وال اسٹریٹ میں کہرام بپا ہوا۔ جب خود امریکی عوام ٹرمپ کے اس اقدام سے بے زارنظر آتے ہیں تو ٹرمپ نے یو ٹرن لیتے ہوئے ٹیرف کے نافذ کو تین ماہ کے لیے معطل کرنے کا اعلان کیا ،البتہ چین کے خلاف 125 فی صد ٹیرف برقرار رکھنے کا اعلان بھی کیا۔
ٹرمپ کے اس غیر متوقع اقدام سے خود پاکستان کے بری طرح متاثر ہونے کا امکانات بڑھ گئے ہیں، کیونکہ اس وقت پاکستان اپنے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے کوششیں کر رہا ہے اور اس میں اسے کئی کامیابیاں بھی ملی ہیں جس سے ملک میں معاشی استحکام پیدا ہونے کی امید ہو چلی تھی مگر ٹرمپ نے پاکستانی برآمدات پر29 فی صد بھاری محصول عائد کرکے پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔
دراصل امریکا پاکستانی مصنوعات کی ایک فائدہ مند منڈی ہے۔ پاکستان اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے امریکی انتظامیہ سے مذاکرات کرنے کا آغاز کرنے جارہا ہے مگر یہاں تو دنیا کا ہر ملک ہی امریکی حکومت سے اس کے ٹیرف کو کم کرنے پر مذاکرات کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
کیا ٹرمپ اپنے اعلان کردہ محصولات سے مستقل طور پر پیچھے ہٹ جائیں گے ؟ان کی سخت طبیعت کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا نہیں ہے مگر انھیں پیچھے ہٹنا پڑے گا ورنہ خود امریکی معیشت پہلے سے زیادہ تنزلی کا شکار ہو سکتی ہے۔
اس وقت دنیا کی تجارت ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے تحت انجام پا رہی ہے اس کے اصول بنانے میں بھی امریکی ہاتھ تھا اب خود امریکا اپنے مفاد کی خاطر عالمی تجارت کو ایسا نقصان پہنچانے جا رہا ہے جس کا نقصان اسے خود بھی بھگتنا پڑے گا اور ٹرمپ کو عوامی مقبولیت سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔
انھیں چاہیے کہ امریکی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے کچھ دوسرے اقدام اٹھائیں۔ ٹیرف کے نفاذ کو اگر مناسب سطح پر بھی لے آئیں جس سے عالمی تجارت رواں دواں رہے اور چھوٹے ممالک کو نقصان نہ ہو تو اس سے نہ صرف امریکی امیج برقرار رہے گا بلکہ شاید اگلی بار انتخابات میں کامیابی ٹرمپ کا پھر مقدر بن جائے۔