دبئی میں پاکستانی شائق پھر مایوس
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
’’جیتے گا بھئی جیتے گا پاکستان جیتے گا‘‘ دبئی اسٹیڈیم کے باہر پاکستانی شرٹس میں ملبوس تین پاکستانی نوجوان زوردار آواز میں نعرے لگاتے دکھائی دیے تو میں رک گیا،گوکہ ہمارے ہم وطن تعداد میں بھارتیوں سے خاصے کم تھے لیکن ان کا جوش و جذبہ بہت زیادہ تھا۔
افسوس پلیئرز کے ساتھ ایسا نہیں تھا جنھوں نے ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی مایوس کیا، دنیا میں کہیں بھی کوئی آئی سی سی ایونٹ ہو اہم میچز کی بیشتر ٹکٹس بھارتی خرید لیتے ہیں، دبئی اسٹیڈیم میں بھی80،90 فیصد شائقین بھارت سے ہی تعلق رکھتے تھے،تقریبا ہاؤس فل ہی رہا۔
جب میں اسٹیڈیم میں داخل ہو رہا تھا تو ایک صاحب نے مجھے تصویر دکھاتے ہوئے کہا کہ میں کل بابر اعظم کے ساتھ ہی تھا،دراصل ان کی آنکھوں میں جلن تھی اس لیے وہ پریکٹس نہ کر پائے، گوکہ قطاریں کافی لمبی تھیں لیکن سسٹم ایسا تھا کہ لوگ چند منٹ میں ہی اندر داخل ہو جاتے۔
دبئی میں قانون کی مکمل پاسداری ہوتی ہے اسی لیے سب قابو میں رہتے ہیں، یہاں مسلح پولیس والے شازونادر ہی نظر آتے ہیں، سیکیورٹی اہلکار اپنے فرائض تندہی سے انجام دیتے ہیں اس لیے میچز کا بااحسن انداز میں انعقاد ہوتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کی رقابت سب جانتے ہیں اس کے باوجود دبئی میں شائقین کوالگ بٹھانے کا کبھی نہیں سوچا جاتا،سب لوگ کنٹرول میں بھی رہتے ہیں کیونکہ انھیں پتا ہے اگر کوئی گڑبڑ کی تو اگلی پرواز سے وطن بھیج دیا جائے گا۔
بھارتی ٹیم ٹریفک میں پھنس کر ٹاس سے 35 منٹ قبل ہی وینیو پر پہنچ پائی،وہ ہمیشہ کی طرح الگ ہوٹل میں مقیم ہے، پاکستانی ٹیم ایک ایسے ہوٹل میں قیام کر رہی ہے جس کے ساتھ ریس کورس ہے،گھوڑوں کی دوڑ کے دنوں میں وہ ہوٹل مکمل بک ہوتا ہے۔
پاکستانی بیٹنگ اس بار بھی جذبے سے عاری نظر آئی، امام الحق کم بیک کے بعد پہلا میچ کھیل رہے تھے اس لیے دفاعی خول میں رہے، بابر اعظم ایک بار پھر سیٹ ہو کر وکٹ گنوا بیٹھے،میں سب سے پہلی سیٹ پر بیٹھا ہوں برابر کے اسٹینڈ میں بیٹھے لوگ صاف نظر آتے ہیں۔
اننگز کے درمیان میں ہی برطانیہ سے آئے ہوئے صحافی دوست نے نشاندہی کی کہ ایک خاتون ابھی سے اپنے موبائل سے دیکھ کر دعائیں پڑھ رہی ہیں، بیچارے شائقین ٹیم سے آس لگائے بیٹھے ہوتے ہیں، اپنا پیسہ خرچ کرکے میچ دیکھنے آتے ہیں، وقت بھی ضائع ہوتا ہے لیکن مایوسی ہی ملتی ہے۔
اسٹیڈیم کی طرح میڈیا باکس میں بھی 90 فیصد بھارتی صحافی ہی تھے،ویزا مسائل کی وجہ سے بہت کم پاکستانی آئے ہیں، قادر خواجہ کو دیکھ کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی، وہ محنتی صحافی ہیں، انھوں نے وزن اتنا کم کرلیا کہ پہچانے ہی نہیں جا رہے تھے۔
سرفراز احمد چیمپئنز ٹرافی کے آئی سی سی سفیر ہیں، وہ بھی میڈیا باکس میں آئے، میں نے ان سے پوچھا کیا لگتا ہے تو انھوں نے کہا اگر بڑا اسکور بنایا تب ہی فتح کا چانس ہوگا، سرفراز سابق پاکستانی کپتان ہیں، چیمپئنز ٹرافی انہی کی زیرقیادت ٹیم نے جیتی تھی لیکن ان میں تکبر بالکل نہیں ہے۔
موجودہ کھلاڑی ایک میچ کھیل کر خود کو سپراسٹار سمجھنے لگتے ہیں،سرفراز حقیقی سپراسٹار ہیں لیکن کبھی ایسا پوز نہیں کرتے، ’’کیا حال ہیں بڈی‘‘ یہ مخصوص آواز سن کر میں سمجھ گیا کہ وسیم اکرم ہیں،پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہی تھے۔
وسیم بھائی مختصر بات چیت کے بعد کمنٹری کیلیے چلے گئے، میڈیا باکس سے ہی دیکھا کہ شائقین آٹوگراف کیلیے کیپس ایک اسٹینڈ کی جانب پھینک رہے ہیں، میں نے کسی سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ شاہد آفریدی وہاں بیٹھے ہیں،شاہد بھارتیوں میں بہت مقبول ہیں، اب ہماری ٹیم میں ان کی 20 فیصد صلاحیتوں کا حامل آل راؤنڈر بھی موجود نہیں ہے۔
پاکستان سے وہاب ریاض بھی آئے ہوئے ہیں، وہ مینٹورز کے ’’باس‘‘ ہیں،جب وہ چیف سلیکٹر تھے تب ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں کیا ہوا سب جانتے ہیں، ان کی پہنچ اوپر تک ہے اس لیے پی سی بی میں مستقل کوئی نہ کوئی ذمہ داری حاصل کر رہے ہیں، دبئی میں وہ میڈیا کو انٹرویوز دیتے ہی نظر آئے۔
اس بار ٹیم کیلیے وہاب ریاض کا کردار عاقب جاوید نے ادا کیا، چہرے بدلتے ہیں مگر نتائج وہی رہتے ہیں، پہلی اننگز کے بعد ہی پاکستانی شائقین مایوس ہو گئے تھے،پاک بھارت میچز میں اب ماضی جیسی شدت نہیں رہی، پلیئرز کے پہلے آف دی فیلڈ تعلقات بہتر ہوتے تھے مگر فیلڈ میں وہ سخت رویہ اپناتے۔
اب آن دی فیلڈ بھی سب اچھے بچے ہیں، بابر جب بیٹنگ کیلیے آئے تو کوہلی نے پیٹھ تھپتھپائی اور حال پوچھا، میچ کے دوران اوورز کے وقفوں میں ساؤنڈ سسٹم پر پاکستانی اور بھارتی گانے چلتے تو شائقین جھوم اٹھتے۔
بھارتی صحافی وکرانت گپتا سے ڈائننگ ایریا میں ملاقات ہوئی، وہ کسی سیلیبریٹی کی طرح مقبول ہیں، انھوں نے بتایا کہ میچز کی کوریج کیلیے پاکستان جانے والے ہیں، ان کی ہمارے ملک میں بھی بہت فین فولوئنگ ہے، وہاں موجود دیگر بھارتی صحافی اپنی ٹیم کی متوقع فتح کو سیلیبریٹ کرنے کے پلانز بنا رہے تھے۔
ایک تو اتنے کم رنز بنائے پھر کیچز ڈراپ کر کے پاکستانی ٹیم نے رہی سہی کسر بھی دور کر دی،جو تھوڑے بہت پاکستانی شائق اسٹیڈیم آئے تھے وہ بھی میچ ختم ہونے سے پہلے ہی واپس جانے لگے۔
ویسے پہلے ہی سب کو پتا تھا کہ یہی ہو گا پھر بھی ایک آس تھی کہ شاید بابر سنچری بنا دے، شاید شاہین 5 وکٹیں اڑا دے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، ٹیم کے حوالے سے ہم لوگ آغاز سے ہی جو خدشات ظاہر کر رہے تھے وہ درست ثابت ہوئے۔
جاتے ہوئے ایک مایوس شائق کا تبصرہ سنا کہ اب بنگلہ دیش سے مقابلے کی تیاری کرنی چاہیے کہیں وہ بھی نہ ہرا دے، افسوس اس بار بھی مایوسی ہی ملی، بھارت سے میچ میں شکست کا دکھ کوئی پاکستانی ہی سمجھ سکتا ہے،ایک کوہلی ہیں جو آؤٹ آف فارم بھی ہوں تو پاکستان کیخلاف اسکور ضرور کرتے ہیں اور ایک ہمارے’’ کنگ‘‘ جن سے اب مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں بھی رہے تھے کی طرح اس لیے
پڑھیں:
پاکستانی شائقین کا اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ،کوہلی کی سنچری پر جی بھر کے داد دی
پاکستان کرکٹ ٹیم تو چیمپئنز ٹرافی میں بھارت کے خلاف اہم میچ میں بری طرح ہار گئی لیکن پاکستانی شائقین کی جانب سے اسپورٹس مین اسپرٹ کا زبردست مظاہرہ کیا گیا۔
پاکستان کے 242 رنز کے ہدف کے تعاقب میں وکٹری شاٹ پر ویرات کوہلی کی سنچری مکمل ہوئی تو پاکستانی شائقین کرکٹ نے کوہلی کو بھی جی بھر کے داد دی۔
اسلام آباد میں شائقین کرکٹ نے ویرات کوہلی کے حق میں نعرے بھی لگائے،اسٹار بلے باز کے ہر ہر شاٹ پر داد دی۔
پاکستانی شائقین کرکٹ کا ردعمل بھارت کے لیے ایک مثال ہے کیوں کہ بھارت نے اپنے اسٹیڈیم میں پاکستان کے حق میں نعرے لگانے والوں کو گرفتار کیا تھا۔
اس کے علاوہ کرکٹ میچ کے دوران سری نگر میں پاکستانی جھنڈا لہرانے پر بھی گرفتاریاں کی گئی تھیں۔
خیال رہے کہ چیمپئنز ٹرافی میں بھارت نے پاکستان کو 6 وکٹوں سے شکست دے دی اور تقریباً پاکستان ٹورنامنٹ سے آؤٹ ہوگیا۔
ویرات کوہلی نے شاندار سنچری بنائی اور ناقابل شکست رہے۔