WE News:
2025-04-13@16:43:54 GMT

الف سے اللہ، ب سے بلوچستان، پ سے پاکستان

اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT

اکثر لوگ سوچتے ہوں گے کہ ستتر  برس ہو گئے اور ان برسوں میں کیا کچھ نہیں ہوا مگر بلوچستان نے ترقی نہیں کی۔ نہ وہ لاہور کی طرح روشن ہوا نہ کراچی کی طرح بزنس میں اس کا کوئی نام ہوا، نہ پشاور  کی طرح وہ سیاسی طور پر بیدار ہوا۔ بسا اوقات لگتا ہے کہ ان قریباً آٹھ دہائیوں میں بلوچستان ایک جمود کا شکار رہا۔ نہ بیدار ہوا نہ ترقی کی نہ کاروبار میں نام بنایا نہ امن وہاں پر آیا۔ ایسا کیوں ہوا ؟ کون ہے اس خوبصورت خطہ زمین کے لوگوں کا قصور وار؟ بحیثیت پاکستانی ہمیں جاننے کا حق ہے کہ اس تنزلی کا الزام کس کو دینا ہے؟

سوال اتنا سہل نہیں کہ اس کا سیدھا سادا جواب ہو اور آپ کسی ایک پر الزام لگا کر اس کو مجرم ثابت کریں اور پھر بیک جنبش قلم اس خطے کی محرومیوں کا اختتام ہو جائے۔ اس سوال کے کئی پہلو ہیں۔ اس کا ایک پہلو جغرافیائی ہے،  ایک پہلو معاشی ہے، ایک سیاسی ہے، اور کہانی کا ایک سرا بین الاقوامی بھی ہے۔ ان سب پہلوں پر بات کریں تو بات سمجھ آ سکتی ہے۔ تنہا کوئی واقعہ، تنظیم یا ادارہ بلوچستان کے مسائل کا حل نہیں پیش کر سکتا۔

جغرافیائی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ صوبہ اتنا بڑا ہے کہ رقبے کے اعتبار سے ملک کا چوالیس فیصد حصہ ہے اور آبادی کے اعتبار سے ملک کی صرف سات فیصد آبادی یہاں مقیم ہے۔ یہ مشکل علاقہ ہے۔  سنگلاخ پہاڑ، پانی کی قلت، انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی اس علاقے کو مزید مشکل تر بنا دیتی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ بلوچستان میں اب بھی ایسے علاقے ہیں جہاں بنی آدم نے کبھی قدم نہیں دھرا۔ گاڑی پر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے چوبیس گھنٹے سے زیادہ بھی درکار ہو سکتے ہیں۔

 ہم نے ابھی تک نہ پنجاب میں تمام سڑکیں بنائیں نہ سندھ کو تعلیم کی روشنی سے منور کیا نہ کے پی کے میں صحت کی تمام سہولیات بہم پہنچائیں تو یہ بات تو واضح ہے کہ ایک ایسے صوبے میں جہاں آبادی بہت کم ہے وہاں کی سڑکوں، اسکولوں اور اسپتالوں پر کسی کی توجہ کم ہی رہی ہے۔

ترقی کے بنیادی مدارج سے بہت دور بلوچستان ہے۔ جغرافیے کے ماہر بتاتے ہیں کہ پاکستان کے تمام تر وسائل کو بروئے کار لا کر بھی بلوچستان میں ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا مشکل ہے۔ بہتر ہے کہ وہ بلوچ علاقے جہاں آبادی زیادہ ہے وہاں  بلوچوں کی بڑی آبادیاں تعمیر کی جائیں اور ترقی کی شمع روشن کی جائے مگر اس سے تمام مسائل حل نہیں ہوسکتے۔

اس معاملے کا ایک معاشی پہلو بھی ہے کہ آبادی کم ہے۔ ترقی کا فقدان ہے، ذرائع محدود ہیں اس وجہ سے ملکی خزانے میں بلوچستان زیادہ حصہ ڈالنے  سے قاصر رہتا ہے۔ بجٹ کو دیکھیں تو ملکی خزانے میں بلوچستان جو حصہ ڈالتا ہے اس سے کئی سو گنا زیادہ وفاق بلوچستان کے خزانے میں ڈالتا ہے۔ این ایف سی ایوارڈ کے بعد بلوچستان کو اس کا حصہ پورا ملتا ہے لیکن اس کے باوجود بلوچستان کی محرومیاں دور نہیں ہوتیں۔ اس کے جواب کو جاننے کے لیے اس قضیے کے سیاسی پہلو پر غور کرنا ضروری ہے۔

بلوچستان قیام پاکستان سے ہی سیاسی انتشار کا شکار رہا۔ خان آف قلات کا معاملہ ہو، ایوب کے خلاف شورش ہو، بھٹو صاحب کا نیپ پر کریک ڈاؤن ہو ، بلوچ سرداروں کی آپس میں جنگ ہو،  ستر کی دہائی میں بگٹی صاحب کے بلوچوں پر مظالم ہوں، مشرف دور میں اکبر بگٹی کا قتل ہو، یا پھر حالیہ علیحدگی پسند تحریکیں ہوں۔ بلوچستان سے سب نے فائدہ اٹھایا مگر بلوچستان کو فائدہ پہنچانے والے کم رہے۔ افلاس، بے روزگاری اور پسماندگی کے بیچ میں دھنسا یہ خطہ بہت سی محرومیوں کا شکار رہا۔ ہر کسی نے اس سرزمین کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ اس عمل میں بلوچ سیاست دان اور سردار بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔

اس معاملے کا بین الاقوامی پہلو یہ ہےکہ ہم  جس محاذ پر  کمزوری دکھاتے ہیں وہ دشمن کے لیے ’موقع‘ بن جاتا ہے۔ بلوچستان میں بھی بہت سی ایسی بین الاقوامی قوتوں کی در اندازی رہی ہے جو پاکستان دشمن ہیں۔  بلوچستان کی اہم جغرافیائی حیثیت کےاعتبار سے نہ بھارت کو اس کا سکون قبول ہے نہ افغانستان کو اس کی ترقی سے کوئی لگاؤ  ہے۔ اور ایران کےا س خطے میں اپنے ہی عزائم ہیں۔ ان بین الاقوامی طاقتوں میں پھنسا ارض پاک کا یہ ٹکڑا سازشوں کا شکار بھی رہا اور محرومیاں بھی اس کا مقدر بنیں۔ بلوچستان کو کسی نے ترقی نہیں کرنے دی۔ گوادر کی بین الاقوامی معاشی اور جغرافیائی حیثیت ہمارے دشمنوں کو قبول نہیں۔ ان کی چیرہ دستیوں کا سلسلہ آئے روز ہمارے ماتھے پر خون لکھ جاتا ہے۔

پاکستان بہت خوش قسمت بھی ہے کہ دنیا جہان کے قدرتی ذخائر، مناظر، موسم اور اجناس ہم کو قدرت نے عطا کیے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اللہ کی اس حسین امانت کو سنبھال کر نہیں رکھ پا رہے ہیں۔ اس سرزمین سے وہ لوگ اٹھتے رہے ہیں جو بیرونی ایجنڈے پر چلتے اور اس خطے کو برباد کرتے چلے آ رہے ہیں۔ بی ایل اے جیسی نفرت انگیز تحریکیں ہمارے ماتھوں پر  کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ آئے روز پنجابیوں کا قتل اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا اس پر خاموش رہنا اور  پھر انسانی حقوق کا واویلا کرنا اس سوچ کو ترویج دیتا ہے جو پاکستان مخالف ہے۔

ماضی کا ماتم بہت ہو چکا، اب مستقبل کی بات کرنی چاہیے۔ سعودی حکومت کی جانب سے بلوچستان میں سرمایہ کاری کی نوید بلوچستان کے روشن مستقبل کی دلیل ہے۔ اس سے روز گار بھی بڑھے گا، معیشت کی ترقی کا پہیہ بھی چلے گا، انفرا سٹرکچر بھی بنے گا۔ افلاس بھی ختم ہو گا۔  اربوں ڈالر کی اس سرمایہ کاری کے معاہدے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں سے پچیس فیصد منافع بلوچستان کے حق کے طور پر بلوچوں کو ادا کیا جائے گا اور پچیس فیصد حکومت پاکستان کے خزانے میں جائے گا۔

اب بلوچستان کی محرومیاں  دور ہونے کا اک امکان نظر آ رہا ہے۔ یاد رکھیں جو بھی اس سرمایہ کاری کے خلاف ہو گا وہ بلوچستان کی ترقی سے مخلص نہیں ہو گا۔ اپنے ہی پلوں کو مسمار کرنے والے، سرکاری املاک  کو توڑ دینے  والے، اپنے  ہم وطنوں کو قتل کر دینے والے، ترقی کے ہر منصوبے کی مخالفت کرنے والے کسی اور کے ایجنٹ ہوتے ہیں۔ ان کو پاکستانی نہیں کہا جا سکتا۔

بلوچستان ہمارے جسم کا حصہ ہے۔ اس سرزمین میں بے شمار امکانات ہیں۔ اس کے پہاڑوں میں بہت سونا ہے۔ اس کے شہریوں کے  ذہنوں میں بہت زرخیزی ہے۔ ترقی اس صوبے کا حق ہے۔ تو یقین رکھیے اگر یہ اللہ کی مرضی ہے اور ہمیں  پاکستان سے محبت ہے تو بلوچستان کی محرومیاں یقیناً دور ہوں گی۔  اور اب دیر نہیں ہے کہ وہاں نفرت انگیز پراپیگنڈے کے بجائے محبتوں کا سفر  شروع ہونے کو ہے ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بلوچستان میں بین الاقوامی بلوچستان کے بلوچستان کی میں بلوچ نہیں ہو کا شکار کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

امریکہ اور صیہونی رژیم سے مقابلے کا واحد راستہ جہاد فی سبیل اللہ ہے، قائد انصاراللہ یمن

یمن میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم انصاراللہ کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ سازباز کا راستہ سوائے شکست اور ناکامی کے کچھ حاصل نہیں کر سکتا کہا کہ امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم سے مقابلے کا واحد راستہ جہاد ہے۔ اسلام ٹائمز۔ انصاراللہ یمن کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے غزہ میں مظلوم فلسطینی شہریوں کے خلاف جاری صیہونی بربریت کے بارے میں کہا: "ہم نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی توڑنے کے آغاز سے ہی فلسطینی عوام کی حمایت میں فوجی کاروائیاں شروع کر دی تھیں۔ اسرائیل نے امریکہ کی واضح حمایت اور شاباش سے جنگ بندی کا معاہدہ توڑا ہے۔ اسرائیلی دشمن نے حتی جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں بھی معاہدے پر عمل نہیں کیا اور دوسرے مرحلے کا آغاز ہی نہیں ہونے دیا۔ آج یہ رژیم غزہ کی پٹی میں فلسطینی عوام کی بھرپور نسل کشی میں مصروف ہے۔" انصاراللہ یمن کے سربراہ نے کہا کہ اکثر صیہونی آبادکار بھی اس حقیقت سے واضح ہو چکے ہیں کہ بنجمن نیتن یاہو اور اس کی جرائم پیشہ مافیا اسرائیلی یرغمالیوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتی۔ انہوں نے کہا: "جنگ بندی معاہدہ فلسطینی بچوں اور خواتین کے قتل عام اور غزہ کو تباہ کیے بغیر اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی کا باعث بن سکتا تھا۔" سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے کہا: "یہ معاہدہ قیدیوں کے تبادلے، جارحیت روکنے اور اہل غزہ کو امداد فراہم کرنے میں فلسطینی عوام کے کم از کم حقوق پورے کر رہا تھا لیکن صیہونی دشمن سے اس سے دستبردار ہو کر ناجائز اور مجرمانہ مطالبات پیش کیے ہیں۔"
 
انصاراللہ یمن کے سربراہ نے یرغمالیوں سے متعلق نیتن یاہو کی پالیسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "صیہونی دشمن کی کوشش ہے کہ یرغمالیوں کی آزادی کے بدلے فلسطینی قیدی آزاد نہ کرے، غزہ کے عوام کو امدادی سامان فراہم نہ کرے اور جارحیت ختم نہ کرے۔" انہوں نے کہا: "قیدیوں کا مسئلہ فلسطینی عوام کے لیے ایک ایسا بنیادی مسئلہ ہے جس سے چشم پوشی اختیار نہیں کی جا سکتی، خاص طور پر یہ کہ ہزاروں فلسطینی قیدی اسرائیلی جیلوں میں شدید مشکلات برداشت کر رہے ہیں اور ٹارچر کیے جاتے ہیں۔" سید بدرالدین الحوثی نے کہا: "صیہونی رژیم ایک طرف یرغمالیوں کا کارڈ حماس سے چھین لینا چاہتی ہے جبکہ دوسری طرف غزہ پر جارحیت بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ دشمن کے خطرناک اہداف میں سے ایک غزہ سے فلسطینی عوام کو جبری جلاوطن کرنا ہے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو دشمن اس کے بعد مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو بھی جبری جلاوطن کر دے گا۔" انصاراللہ یمن کے سربراہ نے صیہونی دشمن سے کسی قسم کی سازباز کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا: "سازباز کا راستہ ایسا راستہ ہے جس نے ہمیشہ شکست کھائی ہے اور ناکامی کا شکار ہوا ہے اور اس رژیم کے سامنے جھکنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس کام کا نہ تو امت مسلمہ کو کوئی فائدہ پہنچے گا اور نہ ہی فلسطینی عوام کا کوئی مسئلہ حل ہو گا۔"
 
سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے مسلح مزاحمت پر زور دیتے ہوئے کہا: "درست راستہ صیہونی اور امریکی دشمن کے خلاف جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ غاصب صیہونی رژیم نے لبنان سے جنگ بندی معاہدے کی بھی خلاف ورزی کی ہے اور لبنان کے مختلف علاقوں پر فضائی جارحیت کے علاوہ حزب اللہ کے مجاہدین کی ٹارگٹ کلنگ بھی کر رہا ہے۔" انصاراللہ یمن کے سربراہ نے امریکہ اور صیہونی رژیم کو خطے میں شر کا سرچشمہ اور علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے لیے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا: "وہ سرطانی غدہ جو خطے میں موجود ہے اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے صیہونی اور امریکی دشمن ہے جو نہ صرف خطے میں شر کا سرچشمہ ہیں بلکہ عالمی امن اور سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہیں۔" سید بدرالدین الحوثی نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ اس سطح پر نہیں کہ دوسروں کو برا بھلا کہہ سکے کیونکہ وہ خود شر، جرم اور طاغوت کا سرچشمہ ہے۔ انہوں نے کہا: "صیہونی دشمن کو جس قدر مراعات دیں گے اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ دشمن آخرکار سازش اور فتنہ گری کرے گا۔"

متعلقہ مضامین

  • محکمہ ترقی نسواں بلوچستان میں مالی بے قاعدگیوں کی تحقیقات کا آغاز
  • ڈیڑھ لاکھ ہنر مند افراد کو روزگار کیلئے بیلا روس بھیجیں گے؛ وزیراعظم
  • ہماری منزل تیزی سے ترقی کرتا پاکستان ہے، شہباز شریف
  • ن لیگ بلوچستان کے رہنماؤں کی اختر مینگل پر تنقید
  • پائیدار ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے آبادی میں اضافے کو مربوط کرناناگزیر ہے. ویلتھ پاک
  • جہاد فرض ہوچکا ہے
  • پی ایس ایل 10: فاسٹ بولر احسان اللہ کس بڑی ٹیم کا حصہ بن گئے؟
  • پاکستان، قرآن اور ہمارا امتحان
  • بلوچستان کا ایشو
  • امریکہ اور صیہونی رژیم سے مقابلے کا واحد راستہ جہاد فی سبیل اللہ ہے، قائد انصاراللہ یمن