Express News:
2025-02-24@01:15:29 GMT

کوچۂ سخن

اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT

غزل
غم کا اظہار سرِ عام کروں یا نہ کروں
سوچتا ہوں کہ میں یہ کام کروں یا نہ کروں
کوئی اُمّید، نہ آواز،  نہ منزل کا سراغ
اور ہمّت ابھی دو گام کروں یا نہ کروں
زندگی! تو نے بہت درد دیے ہیں مجھ کو
تجھ سے میں شکوۂ آلام کروں یا نہ کروں
یہ جو سازش مرے احباب کی ہے میرے خلاف
اس کو تدبیر سے ناکام کروں یا نہ کروں
دے دیا جس نے ابھی کفر کا فتویٰ مجھ پر
میں اُسے واقفِ اسلام کروں یا نہ کروں
پھر ترے کوچے میں آجاؤں سوالی بن کر
پھر سے اِک آرزوئے خام کروں یا نہ کروں
دکھ بھرے لفظوں سے پُر ہے یہ کتابِ ہستی
اِس کو منسوب ترے نام کروں یا نہ کروں
دور منزل ہے بہت، وقت ہے کم، جسم نڈھال
دو گھڑی چھاؤں میں آرام کروں یا نہ کروں
خوار پھرنا ہی تو قسمت میں لکھا ہے صادقؔ
شکوۂ  گردشِ  ایّام  کروں یا نہ کروں؟
(محمد ولی صادق۔ کوہستان، خیبر پختون خوا)

غزل
یہیں پہ کر لے ستاروں پہ گفتگو میرے ساتھ
کہاں کہاں پہ بھٹکتا پھرے گا تو میرے ساتھ 
گزر رہا ہوں کسی تنگ و تار گھاٹی سے 
اور اک ہجوم روانہ ہے با وضو میرے ساتھ 
ہے ایسا شہرِ تخیل مرے تصرف میں 
جہاں پہ میں ہوں فقط میں ہوں اور تو میرے ساتھ
ہے آئینے میں کوئی ہو بہو مرے جیسا 
جو تیرے لہجے میں کرتا ہے گفتگو میرے ساتھ
مجھے سنہری جزیروں کا ہے سفر درپیش 
اور اس پہ تیری کمی بھی ہے چار سو میرے ساتھ
پھر ایک روز چمکنے لگے گا میرا وجود 
اگر وہ یونہی رہے گا ستارہ رو میرے ساتھ
(ذی شان مرتضے۔ پہاڑ پور)

غزل
جسم بنتے ہوئے اعصاب نہیں تھے لیکن
تب مرے پاس کوئی خواب نہیں تھے لیکن
میں جو بے وقت تجھے چوم لیا کرتا تھا
مانتا ہوں مجھے آداب نہیں تھے لیکن
میں اسی بنچ پہ بیٹھا تھا کئی سال کے بعد
اب وہاں پر مرے احباب نہیں تھے لیکن
بے خیالی میں اسی سمت نظر جاتی تھی 
دیدہ و دل مرے بیتاب نہیں تھے لیکن
روز اک شخص یہاں رات کو گریہ کرتا
میری بستی میں یہ تالاب نہیں تھے لیکن
جیسے منظر سے کوئی شخص ابھی گزرا ہو
میرے رستے میں یہ گرداب نہیں تھے لیکن
(حسن فاروق۔ راولپنڈی)

غزل
مداروں کا یہ کارخانہ فہد جی
مشینیں ہیں کُن کا ترانہ فہد جی
جو جنگل میں سب سے پرانا شجر ہے
وہی ہے مرا آستانہ فہد جی
مسافر نے گٹھڑی پہ لکھا ہوا ہے
نہیں ہے غمِ آشیانہ فہد جی
بچھونا قلندر کا ساری زمیں ہے
ہے سارا فلک شامیانہ فہد جی
خلیفہ زمیں کا بنایا گیا تھا
تبھی کھایا آدم نے دانہ فہد جی
لپیٹے گا چادر وہ شمس و قمر کی
رہیں گے نہ روز و شبانہ فہد جی
مرے سر پہ رکھا ہوا سیب بولا
اگر چُوک جائے نشانہ فہد جی؟
جسے آپ نے اسمِ دل سے پکارا
حقیقت میں ہے دردخانہ فہد ؔجی
(سردارفہد۔ ایبٹ آباد)

غزل
جونہی پُرجوش پنچھی کی اڑانیں ٹوٹ جاتی ہیں
اُسی لمحے ہماری بھی کمانیں ٹوٹ جاتی ہیں
بڑے لوگوں کی باتیں ہیں انہیں بیٹا نہیں بدلو
نئے لہجے ملانے سے زبانیں ٹوٹ جاتی ہیں
ترا نقصان واجب ہے کہ ان کا کچھ نہ جائے گا
وہ آنکھیں سامنے ہوں تو کمانیں ٹوٹ جاتی ہیں
دسمبر میں محبت پر عزاداری کرو یارو
کہ رو لینے سے نفرت کی چٹانیں ٹوٹ جاتی ہیں
میں جب محسوس کرتا ہوں بلال حبشی کی لکنت کو
تو اِس بے کار بندے کی اذانیں ٹوٹ جاتی ہیں
عیادت کرنے والوں نے طبیبِ دل کو سمجھایا
مریضوں سے نہ گھبراؤ دکانیں ٹوٹ جاتی ہیں
تمھارے گھر میں ہادیؔ کا کوئی تو نام لیتا ہے
رواں ہوتی جو سانسوں کی اٹھانیں ٹوٹ جاتی ہیں
(بلال ہادی۔ چکوال)

غزل
جس کو ہے سمجھ دوستو نمکین غزل کی
دیتا نہیں ہے داد وہ سنگین غزل کی
معراج غزل ہے کہ ہے معراج محبت
دل جس کو دیا نکلی وہ شوقین غزل کی
جدت کی کتابوں میں روایت کے رکھے پھول
ہم سے نہیں ہو گی کبھی توہین غزل کی
کر دیتے ہیں ہم داد سخن اس کے حوالے
ہوتی ہے پذیرائی جو رنگین غزل کی
نشہ نہیں اترے گا کبھی سر سے ہمارے
کچھ ایسے چکھی ہم نے ہے کوکین غزل کی
سب اس کی کنیزیں ہیں اسی نقش قدم پر
شہزادی ہے بس ایک ہی پروین غزل کی
تک بند تو کچھ ٹھیک ہیں لیکن متشاعر
کر دیں گے کسی روز یہ تدفین غزل کی
(محمد کلیم شاداب۔ آکوٹ، ضلع آکولہ، مہاراشٹر، انڈیا)

غزل
منظروں سے عاری آنکھوں سے سوا رہ جائے گا
اک خلا پر ہو بھی جائے، اک خلا رہ جائے گا
ماہتاب و شمس کو مطلوب ہے تیری جھلک
یہ سوالی بھی ترے در پر کھڑا رہ جائے گا!
تب یہ دنیا بھی نہیں تھی اور خدا موجود تھا
جب یہ دنیا بھی نہ ہوگی اور خدا رہ جائے گا
رائگاں ہونے کا بھی احساس اگر جاتا رہا
اس بھری دنیا میں آخر میرا کیا رہ جائے گا
کان سننے کی جسارت ہی نہیں کر پائیں گے
دیکھنے والا مسلسل دیکھتا رہ جائے گا
تیرگی یوں تو نگل سکتی ہے سورج بھی مگر
وہ دیا جو تیرے طاقوں میں دھرا رہ جائے گا
دل کی کشتی آ گئی گرداب وحشت میں اسیرؔ
اب خدا رہ جائے گا یا ناخدا رہ جائے گا
(اسیر ہاتف۔ سرگودھا)

غزل
دن اگر محنت میں گزرا، رات سونا چاہیے
سچ کہا، تھوڑا بہت آرام ہونا چاہیے
آنسوؤں سے تر ہوئی جاتی ہیں آنکھیں اس لیے
آپ سے لپٹے ہوئے آنچل کا کونا چاہیے
مدتیں، مانا کہ ہونٹوں پر رہی مسکان سی
یادِ جاناں سے ابھی پلکیں بھگونا چاہیے
جو بھی تھے، سب تشنۂ تعبیر ہو کر رہ گئے
اب تو خوابوں سے گلے مل مل کے رونا چاہیے
دل کسی کا جس قدر گزرے کٹھن ادوار سے
بس تمہیں تو کھیلنے کو اک کھلونا چاہیے
اتنے عرصے میں مری آہیں رہیں کیوں بے اثر
درد بن کر دوست کے دل میں سمونا چاہیے
اس نے میرے نام کا سِکّہ اچھالا ہے رشیدؔ
اک کشیدہ قد کو، حیرت ہے کہ بونا چاہیے
(رشید حسرتؔ۔ کوئٹہ)

غزل
چھوڑ اوروں کو کہ نفرت کی حدیں پار کریں
آؤ ہم مل کے محبت کی حدیں پار کریں
مال دنیا کا نہیں ہاتھ میں آنے والا
ہیں وہ دانا جو سخاوت کی حدیں پار کریں
چند لمحوں کی ہیں سانسیں تو چلیں یوں ہی سہی
ایک دوجے سے رفاقت کی حدیں پار کریں
ایسے قانون پہ چلنا ہے حماقت یارو!
کیوں نہ سب اٹھ کے بغاوت کی حدیں پار کریں
ہم ترقّی میں تو جدّت کا سہارا لے لیں
بس تمدّن میں قدامت کی حدیں پار کریں
کام آجائیں غریبوں کے مصائب میں ہم
ایسے بن جائیں کہ خدمت کی حدیں پار کریں
ہم پہ لازم ہے تو پھر صبر گوارا نہ کریں
چل کہ مٹّی کی حفاظت کی حدیں پار کریں
(محبوب الرّحمان۔ سینے، میاندم، سوات)

غزل
ملا جو وقت تو مِلتے رہیں گے 
وگرنہ ہاتھ ہی مَلتے رہیں  گے 
کہ طوفاں بھی گرا پائے نہ جس کو 
ہم ایسی شاخ پہ کھلتے رہیں گے 
تمہارے ساتھ تو بنتی ہے اپنی 
تمہارے ساتھ تو ملتے رہیں گے 
ہمارے رنگ میں ڈھلتے رہو تم 
تمہارے رنگ میں ڈھلتے رہیں گے 
مجھے تب تک سرور آتا رہے گا 
کہ جب تک عشق میں جلتے رہیں گے 
یہ بستی بے وفاؤں کی ہے ارسل 
یہاں ہم کب تلک رلتے رہیں گے 
(ارسلان شیر۔ کابل ریور، نوشہرہ)

غزل
مری وفا کے بدل میں مجھ کو یہاں وہ دے کر سزا گیا ہے
مگر یقیں بھی مرا وہ کامل یہاں پہ جاتے بنا گیا ہے
یہ ہجر ہے لاعلاج اور ہم پڑے اداسی میں کیا کریں اب
 کہ پیار کا مان توڑ کے وہ تو ایک عبرت سکھا گیا ہے
میں نے تو روکا تھا اس کو لیکن نہ جانے اس کو ہوا کیا آخر
وہ جاتے  جاتے  چراغ خانہ سبھی ہمارے بجھا گیا ہے
چمن جلا تو یہ آگ، شعلے بھڑک اٹھے تھے یوں ناگہانی
وہ جانِ جاناں کہ جاتے جاتے یہ زخم کیسا لگا گیا ہے
اکیلے پن کا علاج ہے کیا یہاں پہ جینا کڑا ہے قاصر
خیالِ ہجراں بنا قیامت کہ ہم کو کیسے بھلا گیا ہے
(قاصر ایاز میمن۔ تھرپارکر)

غزل
گرچہ تم روح میں نہاں بھی ہو 
پر مرے زخم سے عیاں بھی ہو 
جس طرح ہے یہاں وہاں بھی ہو 
میری جنت میں میری ماں بھی ہو 
اے خدا اس  قدر وہ میرا ہو 
وہ میرا  لفظ ہو بیاں بھی ہو 
ہم  نہیں مانتے کسی  صورت 
ظلم جس پر بھی ہو جہاں بھی ہو 
اس سے بڑھ کر مجھے ستائے وہ 
اس سے بڑھ کر جو مہرباں بھی ہو 
(عاطف خان۔ ڈھکی خورہ آباد، ضلع چارسدہ)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ 
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
 روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی حدیں پار کریں نہیں تھے لیکن رہ جائے گا میرے ساتھ رہیں گے فہد جی غزل کی بھی ہو

پڑھیں:

استقبال رمضان

کسی کے آنے کی آمد عام طور پر خوش گوار ہوتی ہے اور اس کے استقبال کی تیاریاں بھی بڑے پیمانے پر کی جاتی ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ وہ آنے والا کون ہے اور اس کی تیاریاں کیسے کی جائیں۔ فی الوقت ہم رمضان المبارک کی بات کر رہے ہیں اور اس کی آمد نہ صرف ایک مسلمان کے لیے بلکہ اْمتِ مسلمہ کے علاوہ دنیا کے ہر فرد کے لیے عالمی پیمانے پر خیر و برکت کا باعث ہوتی ہے۔ ماہ رمضان نزولِ قرآن کا مہینہ ہے۔ تقویٰ، پرہیزگاری، ہمدردی، غمگساری، محبت و الفت، خیر خواہی، خدمتِ خلق، راہ خدا میں استقامت، جذبۂ حمیت اور جذبۂ اتحاد، اللہ اور رسولؐ سے بے انتہا لو لگانے کا مہینہ ہے۔ لہٰذا اْس کے استقبال کے لیے ہمیں اپنے اندر ان صفات کو پیدا کرنے کی تیاری کرنا ہوگی جن صفات کی جانب ماہِ رمضان ہماری توجہ مبذول کراتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ رمضان المبارک میں قرآن نازل ہوا، روزے فرض ہوئے، جنگ بدر پیش آئی، شبِ قدر رکھی گئی، فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا۔ اس کے تینوں عشروں کو مخصوص اہمیت دی گئی، پھر اس ماہ میں زکوٰۃ، انفاق اور فطرانے کا اہتمام کیا گیا۔ نتیجتاً ماہِ رمضان المبارک کی عبادات کے درجات بہت زیادہ بلند کر دیے گئے۔ ضروری ہے کہ ہم اِس ماہ کی حیثیت کے شایانِ شان اس کا استقبال کریں۔ قبل اس سے کہ رمضان کی آمد آمد ہو، ہم اپنے ظاہر و باطن کو اس کے لیے یکسوکر لیں۔
رمضان المبارک: تین اہم واقعات
رمضان المبارک کے یہ وہ تین واقعات ہیں جنھوں نے دنیا کی صورت یک سر تبدیل کردی۔ یہ صحیح ہے کہ امت کی کامیابی مختلف ادوار میں پیش آنے والے واقعات کے پس منظر میں بنائی جانے والی حکمت عملی، لائحہ عمل اور تدابیر وضع کرنے کے نتیجے میں ہی ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ ابتدائی تین واقعات وہ مینارٔ نور ہیں جن کی روشنی میں یہ کام اس طرح ہو سکتا ہے کہ امت بحیثیت پوری امتِ مسلمہ اور مسلمان بحیثیت فرد کامیابی سے ہم کنار ہو۔ لہٰذا کامیابی کے حصول کے مراحل میں یہ واقعات ہماری بہترین رہنمائی کرتے ہیں۔
نزولِ قرآن: واقعہ یہ ہے کہ قرآن نے حیاتِ انسانی کو جِلا بخشی اور دنیا کو تاریکی، گمراہی اور شرک کی جڑوں سے نجات دلائی۔ لہٰذا ہماری ذمے داری ہے کہ ہم قرآن کو حتی الامکان سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کو اپنی عملی زندگی کے شب وروز میں پیش آنے والے معاملات میں نافذ کریں۔ اس کے مطابق اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگیوں کو ڈھالیں۔ اس کے پیغام سے پیاسی روحوں کو تازہ دم کریں۔ اس کے قیام کی سعی و جہد کریں اور اس کو وہ اہمیت دیں جو اس کا حق ادا کر دے۔
غزوۂ بدر: یہ واقعہ اْس حق و باطل کے فرق کو کھول کر رکھ دینے کا ہے جہاں حق کے علَم بردار اِس سعی و جہد میں اپنی تمام نعمتوں کو اللہ کے حوالے کر دیتے ہیں، جو اس نے عطا کی ہیں۔ اللہ نے عقل دی ہے اور یہ سب سے بڑی نعمت ہے جس کے ذریعے انسان اور حیوان میں فرق نمایاں ہونا چاہیے۔ اللہ نے صلاحیتیں دی ہیں جن کے ذریعے خیر و فلاح کے کام انجام دیے جانے چاہییں۔ اللہ نے علم عطا کیا ہے جس کے ذریعے جہالت، گمراہی اور باطل نظریہ ہاے افکار سے چھٹکارا پایا اور دلایا جانا چاہیے۔ اللہ نے مال دیا ہے جو خدمتِ خلق اور انفاق فی سبیل اللہ کے کاموں میں استعمال کیا جانا چاہیے۔ اللہ نے جان دی ہے جس کے ذریعے نظامِ باطل کو زیر کیا جاسکتا ہے اور یہ آخری انتہا ہے۔ لیکن اس آخری انتہا سے قبل لاز م ہے کہ وہ کام انجام دیے جائیں جن کا آغاز ہر شخص اپنی ذات سے کر سکتا ہے۔ لیکن اللہ کی راہ میں جان دینے کا کام اجتماعی ہوگا اور یہ اْسی وقت ہوگا جب اس کا تقاضا ہو، فی الوقت اس کی ضرورت وطنِ عزیز میں محسوس نہیں ہوتی۔
فتح مکہ، فتح مبین: تیسرا واقعہ فتحِ مبین ہے: یہ واقعہ اس بات کی شہادت پیش کرتا ہے کہ حق کے علَم بردار دنیا میں بھی سرخ رْو ہوں اور آخرت کی ابدی کامیابی بھی حاصل کریں۔ یہ واقعہ اس بات کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ اللہ کا گھر اور وہ مقام جو اللہ کی عبادت کے لیے مختص کرلیا گیا ہو وہ شرک اور بت پرستی سے پاک رہنا چاہیے۔ یہ زمین اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص ہے، لہٰذا اس میں باطل سے سودے بازی نہیں کی جا سکتی۔ یہ زمین وہ ہے جہاں اللہ کے نام لینے والے اللہ کے آگے سربجود ہوتے ہیں، اس کی بڑائی اور کبریائی بیان کرتے ہیں، اس سے اپنی توقعات وابستہ کرتے ہیں، اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں، اور اسلامی فکر میں اجتماعی روح پروان چڑھاتے ہیں۔ یہ واقعہ اس بات کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ مسلمان اگر دنیا میں کسی بھی مرحلے میں کامیابی حاصل کریں تو وہ مزید اللہ کی بڑائی بیان کرنے والے بن جائیں۔ ان کی گردن غرور و تکبرکے محرکات سے اکڑے نہیں بلکہ مزید وہ اللہ کے آگے جھک جانے والی بن جائے۔ فائدہ یہ ہوگا کہ اْن میں انسانوں سے مزید خیر خواہی کے جذبات ابھریں گے جس کی آج شدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
یہ تین واقعات اس جانب بھی متوجہ کرتے ہیں کہ ماہِ قرآن کے استقبال، اس سے استفادے اور اس کے بعد کے ایام میں ہمیں اپنے ظاہر و باطن میں وہ تبدیلیاں پیدا کر لینی چاہییں جن کے نتیجے میں اللہ اور اس کے بندوں کے ہم محبوب بن جائیں۔
یکسو ہو جائیے!
آج اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی بقا و تحفظ کے لیے ان اقدامات کی ضرورت ہے جو دنیا میں رواج پا چکے ہیں تو یہ نہ صرف ہماری کم عقلی ہوگی بلکہ دین کی تعلیمات سے دوری بھی نمایاں کرے گی۔ علمی میدان میں ترقی، معاشی میدان میں ترقی، عورتوں کی آزادی اور بالا دستی، صنعت و حرفت میں پیش قدمی، سائنس و ٹکنالوجی میں دریافتیں، چاند اور مریخ پر کمندیں، یہ اور ان جیسے تمام نعروں میں اس وقت تک کوئی دم نہیں ہے جب تک کہ وہ اسلام کے سانچے میں نہ ڈھلے ہوں۔ ہم دینی مدارس کھولتے ہیں، کلمہ اور نماز کی تبلیغ کرتے ہیں، فسق و فجور کے خلاف وعظ و تلقین کرتے ہیں اور گمراہ فرقوں کے خلاف مورچے لگاتے ہیں، حاصل؟؟ حاصل یہ کہ بس جس رفتار سے دین مٹ رہا ہے اور مسلمانوں کی عملی زندگی سے دْور ہوتا جا رہا ہے، اس کے مٹنے میں ذرا سستی آجائے اور زندگی کو سانس لینے کے لیے ذرا کچھ دن اورمیسر آجائیں۔ لیکن یہ امید کبھی نہیں کی جا سکتی کہ اللہ کا دین غالب آجائے یا اللہ کا کلمہ عوام الناس کے دلوں کی دھڑکن بن جائے۔ پھر یہ خیال کہ موجودہ نظام تو انھی بنیادوں پر قائم رہے، مگراخلاق، معاشرت، معیشت، نظم و نسق یا سیاست کی موجودہ خرابیوں میں سے کسی کی اصلاح ہو جائے گی، تو یہ بھی کسی تدبیر سے ممکن نہیں۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظام، زندگی کی بنیادی خرابیوں کا آفریدہ اور پروردہ ہے اور ہر خرابی کو دوسری بہت سی خرابیوں کا سہارا مل رہا ہے۔ ایسے حالات میں جامع فساد کو رفع کرنے کے لیے ایک جامع پروگرام ناگزیر ہے، جو جڑ سے لے کر شاخوں تک پورے توازن کے ساتھ اصلاح کا عمل جاری کرے۔ وہ کامل پروگرام کیا ہے؟ اس سے قبل یہ سوال اہم بن جاتا ہے کہ آپ فی الواقع چاہتے کیا ہیں؟ اس موقعے پر ہم یہ بتاتے چلیں کہ اسلام اور جاہلیت کا ملا جلا مرکب، جو اَب تک ہمارانظامِ حیات بنا ہوا ہے، زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ یہ اگر چلتا رہا تو دنیا میں بھی ہماری کامل تباہی کا موجب ہوگا اور آخرت میں بھی!
داعی حق بن جائیے!
انسان جب کسی کا غلام بن جائے تو لازم ہے کہ اس کو غلامی سے نکالا جائے۔ انسان جسمانی اور عقلی بنیادوں پر آزاد پیدا کیا گیا ہے اور ساتھ ہی وہ اللہ کا بندہ بھی ہے۔ لہٰذا اس کے جسم اور اس کی فکر کو ہر سطح پر غلامی سے نجات دلانا اولین فریضہ ہے۔ ڈی کنڈیشنگ جسے عرفِ عام میں تطہیرِ فکر و قلب کہہ سکتے ہیں، یہ عمل انسان کو ہر طرح کی نفسیاتی غلامی کے خاتمے کا عمل ہے۔ لیکن یہ عمل انھی افراد کو نفسیاتی غلامی سے آزاد کر سکتا ہے جن میں یہ خواہش موجود ہو۔ جس شخص میں یہ جذبہ ہی نہ ہو اسے آزاد کروانا بہت مشکل ہے۔ ڈی کنڈیشنگ کا عمل، نفسیاتی آزادی کا عمل یا تطہیرِ فکر و قلب کا عمل ان لوگوں کے لیے آسان ہے جو داعی الی الخیر کی ذمے داری انجام دیتے ہیں۔ اور یہی وقت کا تقاضا بھی ہے کہ ہم داعیِ حق بن جائیں۔ لیکن داعی حق کے لیے لازم ہے کہ وہ غیر ضروری بحث و مناظرے سے بچے۔ دین کے بہت سے پْرجوش داعی خواہش رکھتے ہیں کہ مخاطب چند گھنٹوں میں تبدیل ہو کر ان کا نقطۂ نظر قبول کر لے۔ لیکن ہمارے خیال میں یہ طریقہ مناسب نہیں ہے۔ داعیِ حق کے لیے اخلاصِ نیت پہلی شرط ہے تو وہیں دوسری یہ کہ کارِ دعوت کا مقصد کسی شخص کو گھیر گھار کر اپنے نقطۂ نظر پر قائل یا لاجواب کرنا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ داعی کا کام صرف اتنا ہے کہ جس بات کو وہ حق سمجھتا ہے، اسے احسن طریقے سے اپنے دوسرے بھائی تک پہنچا دے۔ داعی کو کبھی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور نہ اپنے مخاطب ہی کو براہِ راست یا بلاواسطہ ایسی تنقید کا نشانہ بنانا چاہیے جس کے نتیجے میں ضد پیدا ہونے کا امکان ہو۔ کیونکہ ضد، انانیت اور ہٹ دھرمی، کبھی سیدھے راستے کی طرف راہنمائی نہیں کر سکتے۔ لہٰذا رمضان المبارک کا استقبال ہمیں اس طرح کرنا چاہیے کہ ہم پر یہ واضح ہو جائے کہ نبی کریمؐ کی آمد کا مقصد کیا تھا۔
پھر جب یہ بات واضح ہو جائے کہ نبی کریمؐ کی آمد کا مقصد کیا تھا تو استقبال کریں رمضان المبارک کا اپنے قول سے، اپنے عمل سے، اسلامی نظریۂ حیات کو عام کرکے، اور ان طریقوں کو اختیار کرکے جو ہم پر لازم آتے ہیں۔ استقبال کریں رمضان المبارک کا اِس عہد و پیمان کے ساتھ جس کے نتیجے میں ہماری زندگیاں نہ صرف ہمارے متعلقین کے لیے بلکہ عوام الناس کے لیے بھی سود مند ثابت ہوں، اور استقبال کریں رمضان المبارک کا کہ یہ استقبال امت کے عروج کا ذریعہ بن جائے۔
سیدنا سلمان فارسیؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ شعبان کی آخری تاریخ کو نبی کریمؐ نے خطبہ دیا جس میں فرمایا: ’’اے لوگو! ایک بڑی عظمت والا بڑی برکت والا مہینہ قریب آگیا ہے۔ وہ ایسا مہینہ ہے جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں روزہ رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس مہینے کی راتوں میں تراویح پڑھنا نفل قرار دیا ہے (یعنی فرض نہیں ہے بلکہ سنت ہے، جس کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے)۔ جو شخص اس مہینے میں کوئی ایک نیک کام اپنے دل کی خوشی سے بطور خودکرے گا تو وہ ایسا ہوگا جیسے کہ رمضان کے سوا اور مہینوں میں فرض ادا کیا ہو، اور جو اس مہینے میں فرض ادا کرے گا تو وہ ایسا ہوگا جیسے رمضان کے علاوہ دوسرے مہینے میں کسی نے 70 فرض ادا کیے۔ اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ اور یہ مہینہ معاشرے کے غریب اور حاجت مندوں کے ساتھ مالی ہمدردی کا مہینہ ہے‘‘۔ (بیہقی فی شعبان الایمان) پس یہ وہ عبادات ہیں جن کو اختیار کرنا ہر مسلمان کے لیے لازم ہے۔ پھر یہی استقبال ہے اور یہی استفادہ !

متعلقہ مضامین

  • پاک بھارت ٹاکرا: شاہین شاہ آفریدی نے اپنے عزائم ظاہر کر دیے
  • جب تک مزید قیدیوں کی رہائی محفوظ نہیں ہو جاتی، فلسطینی قیدی رہا نہیں کئے جائیں گے، اسرائیل
  • ایف آئی آر
  • موسم کی انگڑائی، جاتی سردی کو بریک لگ گئی، کئی شہروں میں بارش، موسم خوشگوار
  • مادری زبانوں کا عالمی دن، پاکستان میں کون کون سی زبانیں بولی جاتی ہیں؟
  • انسانی خلیے کے برابر لیگو کا ٹکڑا بنا کر شہری نے عالمی ریکارڈ قائم کرلیا
  • میرے پاس لسٹ ہے کس نے کس طرح کمٹمنٹ کر کے الیکشن جیتا: محمود خان
  • گمشدگی کیس؛ ہمارا دائرہ اختیار محدود ہے اداروں سے رپورٹس مانگتے ہیں، پشاور ہائیکورٹ
  • استقبال رمضان