ملک کا بیڑہ غرق کس نے کیا
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
وطن عزیز کو معرض وجود میں آئے ہوئے تقریباًاٹھتر برس بیت چکے ہیں مگر اس عرصے میں ہم نے ترقی سے زیادہ تنرلی کی منازل طے کی ہیں اور نتیجتاً آج اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ ہر وقت دیوالیہ ہوجانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔خاص کر پچھلے دس برسوں میں یہ خطرہ خطرناک حدوں کو چھونے لگا اورایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہم حقیقتاً ڈیفالٹ کرچکے تھے بس اس کا برملا اعتراف اور اعلان کرنے سے ہچکچاتے رہے۔
خدا کا شکر ہے کہ قوم کی زبردست قربانیوں کے نتیجے میں ہم آج اس خطرے سے وقتی طور پر باہر نکل چکے ہیں،لیکن یہ خطرہ مکمل طور پر ابھی ٹلا نہیںہے۔تلوار ابھی بھی ہمارے سروں پر لٹکی ہوئی ہے۔ کوئی بھی انہونہ واقعہ یا سیاسی عدم استحکام ہمیں پھر ایڑھیاں رگڑنے پرمجبور کرسکتا ہے۔سیاسی وابستگی کو پس پشت ڈال کر اورتعصب کی عینک اتار کر اگر ہم اپنی ان ناکامیوں کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ احساس ضرور ہوگا کہ ہم نے کسی بھی حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے ہی نہیں دی۔
ہمارے عدم استحکام کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے ۔سیاسی رہنماؤں پر تنقید کرنے اورناکامیوں کا سارا الزام جمہوریت پر ڈالنے والے تبصرہ کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ دو ڈھائی برس کی حکومتوں سے ہم یہ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ وہ اس مختصر سے عرصے میں قوم کی کایا پلٹ کر رکھ دیں گے۔ ہم تجزیہ کرتے ہوئے یہ حقیقت بھی فراموش کرجاتے ہیںکہ کس سیاسی رہنما نے اس تھوڑے سے عرصے میں ملک کی خوشحالی اورترقی کے لیے بلاشبہ کچھ نہ کچھ کیاہے۔
تنقید کرتے ہوئے ہم تمام سیاسی رہنماؤں کو ایک ہی لکڑی سے ہانکتے ہوئے سب کواِن ناکامیوں کا ذمے دار قرار دینے لگتے ہیں۔تیس برس تک بلاروک ٹوک حکمرانی کرنے والے غیر جمہوری حکمرانوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے انھیں معاف کردیتے ہیں۔جب کہ دیکھا جائے تو دس دس برس تک کسی بھی مداخلت کے بنا بلا خوف وخطر اورکسی جواب دہی کے بغیر حکومت کر نے والے اگر چاہتے تو اس ملک کو کہاں سے کہاں پہنچا سکتے تھے۔جمہوری حکمرانوں پر تو دیدہ و نادیدہ بہت دباؤ ہوا کرتا ہے۔ اُسے تو اپنے سیاسی لوگ ہی چین سے حکومت کرنے نہیں دیتے ہیں۔
ایسا ہر گز نہیں ہے کہ جمہوری حکمرانوں نے اس ملک کے لیے کچھ بھی نہیںکیا۔وہ حتی المقدور اپنی ڈیوٹی بڑی جانفشانی سے ادا کرتے رہے ہیں۔ موجودہ حکومت ہی کو لے لیجیے ، وہ جس طرح شبانہ روز مستعدی اورمحنت سے ملک اور قوم کومالی عدم استحکام سے باہر نکالنے کی کوششیں کررہی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں ہے ۔
یہ اور بات ہے کہ اس کے مخالف اسے تسلیم کرنے میں خفت اورشرم محسوس کرتے ہیںلیکن دنیا کے مالیاتی ادارے ان کوششوں کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس کااعتراف بھی کرتے ہے۔قطع نظر اس کے کہ پی ڈی ایم کی حکومت میں قوم پر مہنگائی کا بہت بڑا بوجھ ڈالا گیا اورجس کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ ن کو سیاسی قربانی بھی دینی پڑی لیکن بہرحال اسی شہباز شریف نے اس ایک سال میں بہت سے اچھے کام بھی کرکے دکھادیے ہیں۔رفتہ رفتہ ملک کنگالی کے اثرات سے باہر نکل رہا ہے اورقوم کو اُمید بن چکی ہے کہ اگر اس حکومت کو چلنے دیاگیا تو ہم یقیناً 2017 والی پوزیشن پر پہنچ جائیںگے جب ہم نے IMF کو خدا حافظ کہہ دیا تھااوراپنے پیروں پر کھڑے ہوچکے تھے۔ مہنگائی کا وہ عالم بھی نہیںتھا جوبڑھتے بڑھتے آج اس قدر بڑھ گئی ہے کہ عام آدمی کی پہنچ سے باہرنکل چکی ہے۔
سوچا جائے کہ ایسا کیونکر ہوا۔ وہ کونسی سازشیں تھیں جس نے ایک اچھے بھلے پھلتے پھولتے ملک کو ترقی وخوشحالی کی پٹریوں سے اتارکرتنزلی اورتباہی کی گہری کھائی میں دھکیل دیا۔الیکشن میں دھاندلی کا شوشہ کھڑا کرکے پہلے ہی برس لانگ مارچ اور ڈی چوک پردھرنے کے نام پرقبضہ کرکے اس حکومت کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے اوراس میںناکامی کے بعد پاناما اسکینڈل کھڑا کردیا گیا،اس پاناما لیکس میں 480افراد کے نام درج تھے لیکن صرف ایک شخص جس کانام بھی اس فہرست میں شامل نہیں تھااسے تختہ مشق بناکرمحروم اقتدار کردیاگیا، ایسا کیوں کیاگیا ؟
یہ وہ زمانہ تھا جب اس ملک سے طویل عرصے سے جاری دہشت گردی کا خاتمہ کیاگیا، کراچی شہر سے بدامنی اورقتل وغارت گری ختم کی گئی ، توانائی کے بحران کا حل تلاش کیا گیا اورسب سے بڑھ کرسی پیک منصوبے پر تیزی سے عملدرآمد شروع کردیا گیا۔ دشمنوں کو یہ خوف طاری ہونے لگا کہ اس شخص کو اگر چلنے دیاگیا تو پھر 2018 الیکشن میں اسے ہرانا ناممکن ہوجائے گا۔ لہٰذا اس کا راستہ نہ صرف روک دیاگیا بلکہ اسے تاحیات نااہل قرار دیکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاگیا۔اس کے بعد جوکچھ بھی ہوا ہم آج اسی کے نتائج اور شاخسانے بھگت رہے ہیں۔
ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ پرویزمشرف کے دور میں دہشت گردی کی جنگ میں ہراول دستہ کاکردار اداکرنے کی وجہ سے ہمارا ملک خود اسی دہشت گردی کی آگ میں جلنے لگا اوردس پندرہ برسوں تک جلتارہابلکہ دیکھا جائے تو ابھی تک سلگ رہا ہے۔بلوچستان اورخیبر پختون خوا میںآج بھی امن کا فقدان ہے۔
یہ اسی جنگ کا نتیجہ ہے کہ افغانستان کے لوگ ہمیں اپنا دشمن سمجھنے لگے ہیں۔وہ امریکا کا تو کچھ بگاڑ نہیںسکتے لیکن ہمارے یہاں گوریلاجنگ تولڑسکتے ہیں۔ انھیں ہم سے زیادہ بھارت عزیز لگنے لگا ہے۔ ایک طرف عدم تحفظ اور دوسری طرف سیاسی عدم استحکام ہوتو پھربھلا یہ ملک ترقی کرے تو کیسے کرے۔پرویز مشرف کے دور کو ایک بہتر دورخیال کرنے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس دور میں ہم غیر محفوظ اور خطرناک ملکوں کی فہرست میں شامل کردیے گئے تھے اورکوئی ملک اپنا وفد یا کھلاڑی بھی بھیجنے کو تیار نہ تھا۔ہم دس برس تک اپنے یہاں کوئی ٹورنامنٹ بھی نہیںکرواپائے ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عدم استحکام کرتے ہوئے بھی نہیں ہیں کہ
پڑھیں:
پیپلزپارٹی کا ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم کے نام کی تبدیلی کیخلاف عدالت جانے کا اعلان
پشاور:پاکستان پیپلزپارٹی نے ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم کے نام کی تبدیلی کے عدالت جانے کا فیصلہ کرلیا۔
خیبرپختونخوا اسمبلے میں پیپلزپارٹی کے رکن ارباب زرک اور پیپلز ٹریڈ فورم نے حکومتی فیصلے کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے، رکن صونائی اسمبلی ارباب زرک نے کہا کہ اسٹیڈیم کا نام تبدیل کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے 11 سالہ اقتدار میں عوام کو ایک بھی نیا بڑا منصوبہ دینے میں ناکام رہی ہے، اس غیر قانونی اور بدنیتی پر مبنی فیصلے کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔
پیپلز ٹریڈ فورم کے صوبائی سینیئر نائب صدر شبیر الحسنین نے کہا کہ ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم کا نام تبدیل کرنے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں اس کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گے، صوبائی حکومت کی جانب سے 16 ہزار ملازمین کو فارغ کرنے کے فیصلے کو بھی مسترد کرتے ہیں ہم ملازمین کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک سے قبل 16 ہزار خاندانوں کی معاشی قتل نہ کیا جائے، صوبے میں بے روزگاری میں 100 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔