کشمیر میں بھارتی مظالم، کنال کھیمو نے اپنے بچپن کے خوفناک تجربات بتادیئے
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
بالی وڈ اداکار کنال کھیمو نے حال ہی میں اپنے بچپن کی تلخ یادیں شیئر کی ہیں۔ کنال نے 6 سال کی عمر تک سری نگر، کشمیر میں گزارے ہوئے دنوں کو یاد کرتے ہوئے ان خوفناک واقعات کا ذکر کیا، جو ان کے ذہن پر آج بھی نقش ہیں۔
کشمیر کا کشیدہ ماحول
کنال کھیمو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ 6 سال کی عمر میں سری نگر میں رہتے تھے، جہاں دھماکے اور پتھراؤ روزمرہ کی زندگی کا حصہ تھے۔ انہوں نے کہا، ’’6 سال کے بچے کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ سب عجیب تھا۔ میں سری نگر کی خوبصورت یادیں بھی نہیں بھول سکتا، جیسے اپنے اسکول، خاندان کے ساتھ جھیل پر جانا، یا پہلگام کی سیر کرنا۔ لیکن پھر میں اپنے گھر والوں کی فکرمندی دیکھتا تھا۔‘‘
دھماکوں کا خوف
کنال نے بتایا کہ انہیں اکثر یہ الجھن رہتی تھی کہ زوردار آواز گیس کے سلنڈر کے پھٹنے کی ہے یا بم دھماکے کی۔ انہوں نے کہا، ’’کبھی کبھار تو ایسا بھی ہوتا تھا کہ شام کے وقت گھر کی لائٹس نہیں جلائی جاتی تھیں، کیونکہ خطرہ ہوتا تھا کہ پتھر گھر میں آسکتے ہیں۔ اس وقت اعلان ہوتا تھا کہ شام کے بعد گھروں میں روشنی نہ کی جائے۔‘‘
بم دھماکے کا خوفناک تجربہ
کنال نے اپنے سب سے خوفناک تجربے کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے گھر کے نیچے بم دھماکا ہوا تھا، جب وہ اپنے کزن کے ساتھ تاش کھیل رہے تھے۔ انہوں نے کہا، ’’ہم ‘بلَف’ نام کا ایک کھیل کھیل رہے تھے کہ اچانک زوردار دھماکا ہوا اور میں اچھل کر دور جا گرا۔ کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا، بس دھواں اور ٹوٹے ہوئے شیشے نظر آرہے تھے۔ یہ سب کسی فلم کے منظر جیسا تھا۔ میں نے خود کو الٹا گرتے دیکھا اور پھر ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ اس کے بعد کی یادیں بس اتنی ہیں کہ میں کسی وقت ہوش میں آیا۔‘‘
پتھراؤ اور فوج کی آمد
کنال نے ان لمحات کا بھی ذکر کیا جب اچانک پتھراؤ شروع ہوجاتا اور فوج علاقے میں پہنچ جاتی۔ انہوں نے کہا، ’’نواکدل میں بھی ایسا ہوتا تھا کہ پتھراؤ شروع ہوتا اور پھر فوج آجاتی۔ میں اور میرا کزن کھڑکی سے جھانک کر دیکھتے تھے، لیکن یہ نہیں سمجھ پاتے تھے کہ ہو کیا رہا ہے۔‘‘
کنال نے بتایا کہ ممبئی آنے کے بعد بھی انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ دوبارہ کشمیر واپس نہیں جائیں گے۔ انہوں نے کہا، ’’ہمارے والدین نے ہمیں اس صورت حال سے بچانے کےلیے شاندار کام کیا، لیکن 6 یا 7 سال کی عمر میں آپ اردگرد کی باتیں ضرور سنتے ہیں۔‘‘
کنال نے اعتراف کیا کہ بچپن میں یہ سب کچھ ناخوشگوار تھا، اس لیے انہوں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ وادی کشمیر میں کیا ہورہا تھا۔ انہوں نے کہا، ’’میں نے اس موضوع پر زیادہ سوال نہیں کیے، کیونکہ جب بھی بڑے لوگ اس بارے میں بات کرتے، ماحول افسردہ ہوجاتا۔ شاید اسی لیے میں نے اپنے اندر ایک دیوار بنا لی تھی کہ ان سوالوں میں نہ پڑوں۔‘‘
کنال کھیمو نے بالی ووڈ میں اپنے کیریئر کا آغاز چائلڈ ایکٹر کے طور پر کیا اور بعد میں ہیرو کے طور پر بھی کامیابی حاصل کی۔ ان کی مشہور فلموں میں ’راجہ ہندوستانی‘، ’کلیوگ‘، ’ٹریفک سگنل‘، ’گول مال 3‘، ’بلڈ منی‘، ’گول مال اگین‘ اور ’لوٹ کیس‘ شامل ہیں۔ وہ آخری بار فلم ’مڈگاؤں ایکسپریس‘ میں نظر آئے تھے۔
کنال کھیمو کے انکشافات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ کشمیر کے کشیدہ ماحول نے کس طرح لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: کنال کھیمو نے انہوں نے کہا بتایا کہ کنال نے
پڑھیں:
سچ کا ایک اور در وا ہوا ہے
وزیر اعظم کی کابینہ کے ایک اہم وزیر جن کے پاس وزارت حزانہ کا قلم دان ہے، انہوں نے کہا ہے کہ ’’ہم ایک ملک کے طور پر اپنی ساکھ کھو چکے ہیں، تنخواہ دار طبقے پر جو بوجھ آیا ہے اس کا کوئی اندازہ نہیں کررہا۔مسلسل تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس لینا مسئلے کا حل نہیں ہے‘‘۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ’’ اے ڈی بی نے 500 ملین ڈالر کا اعلان کیا تھا، ہم نے آئی ایم ایف سے بات چیت کی، اگلے ہفتے آئی ایم ایف بلین ڈالرز اس حوالے سے ہمیں دیں گی، گرین پانڈا بائونڈ کے لیے ہم کوشش کر رہے ہیں جو ہمارے پاس ہے وہ تو ہم استعمال کریں، گرین انیشیٹو سے پاکستان کو دو بلین ڈالر ز ماہانہ آرہے ہیں، ہم نے ٹیکس پالیسی کو ایف بی آر سے نکال دیا ہے، وزارت خزانہ ٹیکس پالیسی کو دیکھے گی، ایف بی آر کا کام صرف ٹیکس کولیکشن ہے‘‘۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار طبقے کے علاوہ باقی شعبہ جات کو بھی ٹیکس آمدن میں ڈالنا ہوگا، زرعی شعبہ معیشت میں زیادہ حصہ دار ہے لیکن ٹیکس میں اس کا حصہ کم ہے دوسری طرف تیکس چوری ہورہا ہے، مسلسل ٹیکس چوری سے ملکی امور نہیں چلائے جاسکتے‘ یہ بھی کتنا بڑا سچ ہے جو حکومت کے اندر کے بندے نے بولا ہے بلکہ حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ کا پول کھولا ہے، اب اس پر وزیراعظم کیا ارشاد فرمائیں گے، ان کے پاس کہنے کو رہ ہی کیا گیا ہے اور وزیرخزانہ جھوٹ بول کر گناہ بے لذت کے مرتکب کیوں کر ہوتے کہ وہ کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہیں مقتدرہ کا چنائو ہے اور وہ اپنا نامہ اعمال صاف رکھنے کے لئے اقتدار میں شراکت کرتی ہے اور اپنے بندوں کے ذریعے خود پر لگنے والے داغ مٹانے کے اقدام کرتی ہی رہتی ہے اور یہ مقتدرہ ہی کا موقف رہا ہے کہ ملک کو اچھا ساچلانا ہے تو بڑے بڑے جاگیر دار جو حکومت کی صفوں میں گجھی مار کے بیٹھے ہیں انہیں ٹیکس کے دائرے میں لانا از حد ضروری ہے، تنخواہ دار طبقے کی کمر تو اتنی جھک چکی ہے کہ اس کا اپنے خاندان کا معاشی بوجھ سہارنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔
اسی جاگیردار سیاست کار طبقے کی اولاد اور کچھ سرمایہ دار مل کر قومی معیشت کی تباہی پر تلے ہوئے ہیں ۔جاگیر دار سرے سے ٹیکس ادا کرتا ہی نہیں جبکہ سرمایہ داروں نے ایک رشوت خور اوراس کے ساتھ کمیشن خور مافیا تیار کیا ہے اگر کام رشوت کے ذریعے نہ نکل سکے تو بڑے بڑے آفیسرز کے کمیشن ایجنٹ براہ راست آفیسرز تک رسائی میں مدد گار بنتے ہیں ،یوں معاملات بہت سے پریشانیوں سے بچ بچا کرطے ہوجاتے ہیں ،یہ مراحل طے کرا نے والے طبقے کا تعلق عام طور پر کالے کوٹ والوں کے بیچ کالی بھیڑیں ہوتی ہیں جن کا ذکر کچھ عرصہ قبل معزز ججز کرتے رہے یہی بھیڑیں اپنے تن کا گوشت بھی بڑھاتی ہیں اور بعض نچلی کلاس سے آئے ہوئے آفیسرز کو ڈی ایچ اے اوربحریہ ٹائون جیسے پوش علاقوں کا واسی بنادیتی ہیں پھر ان کے لئے مختلف ماڈلز کی لگژری گاڑیاں بھی مسئلہ نہیں ہوتیں کہ آفیسرز کچھ وقت بعد ان کو اپنے جل کی مچھلیاں بنالیتے ہیں اور جب جاگیرداروں پر ٹیکس لاگو ہوگیا تو وہ بھی اپنے اپنے جوہڑ تیار کرکے ایسی مچھلیاں پالنے کے انتظامات کر ہی لیں گے کچھ نہ آنے سے بہتر یہ ہوگا کہ کچھ نہ کچھ اس مد سے آمدن شروع ہوجائے گی ۔
اسی دوران مقتدرہ کے کچھ درویش منش لوگ ان امور کے انچارج بنا دیئے گئے تو یہ جو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے ،سارا نہ سہی کچھ تو سنور ہی جائے گا۔پھر کوئی اندر کا آدمی شاید ہی یہ بھاشن دے کہ ’’ہم ایک ملک کے طور پر اپنی ساکھ کھو چکے ہیں ‘‘ ہاں البتہ زندگی کے اور بے شمار شعبے ہیں جن میں اصلاح ہونے والی ہے۔ خصوصاً ہماری یونیورسٹیز جو اس بحران سے گزر رہی ہیں کہ کبھی کچھ اساتذہ کے مکروہ اور شرمناک اسکینڈلز اور کبھی مالی امور میں بے قاعدگیوں کے پنڈورا باکس کھل جاتے ہیں ۔یہ سب ہماری معاشرتی کمزوریاں ہیں جن پر اب قابو پالینا چاہیئے۔اب جبکہ ریاست اور حکومت مقتدرہ کے سائے تلے کام کر رہی ہیں تو انہیں سنبھل جانا چاہیے۔ہم آخر کب تک ان گھمر گھیریوں میں پھنسے ،مضطرب و پریشان اور پراگندہ حال رہیں گے۔