Express News:
2025-04-15@09:37:17 GMT

پارلیمنٹ عملی طور پر سپریم بنائیں

اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT

دوسری بڑی حکومتی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کے رولز میں بڑی تبدیلی کے لیے اہم ترمیم لے آئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نے رولز 247, 39 اور دو میں ترمیم تجویز کر دی ہے۔

مجوزہ ترمیم کے تحت پارلیمانی سیکریٹریوں کے اختیارات کو محدود کرنے کی تجویز دی گئی ہے جو اگر منظور ہو گئی تو وفاقی کابینہ آرٹیکل 91 کے تحت قومی اسمبلی کو جواب دہ ہوگی اور پارلیمانی سیکریٹری کو جاری نوٹس کی میعاد متعلقہ وزارت یا ڈویژن کے ضمن میں ختم ہوگی۔ پی پی کی طرف سے رولز میں ترمیم کی تجاویز پر پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی اسپیکر نے جو قومی اسمبلی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے نے مجوزہ ترمیم قومی اسمبلی کی متعلقہ کمیٹی کے سپرد کر دی ہے جس کے بعد ترمیم کمیٹی اپنے اجلاس میں فیصلہ کرے گی۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر کی ذمے داری فل ٹائم اسپیکر کی ہوتی ہے جن کی غیر موجودگی میں ڈپٹی اسپیکر ایوان میں اجلاس کی صدارت کرتے ہیں اور یہ دونوں نہ ہوں تو صدارت کے لیے چیئرمین پینل کے لیے ارکان کا تقرر ہوتا ہے۔

عام طور پر ہر حکومت قومی اسمبلی میں مرضی کی قانون سازی اور کارروائی کے لیے اپنے اعتماد کے اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر منتخب کراتی ہے جو اس کی اپنی یا اتحادی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں جن کی وجہ سے حکومت مطمئن رہتی ہے کہ ایوان میں حکومتی مرضی کے خلاف کچھ نہیں ہوگا اور اگر ایوان میں حکومتی ارکان کم اور اپوزیشن کے زیادہ ہوں تو کسی وجہ سے حکومت کی شکست کا خدشہ ہو تو اسپیکر اور قومی اسپیکر حالات سنبھال لیتے ہیں اور کسی جواز پر اجلاس ملتوی کر دیتے ہیں۔

پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ قومی اسمبلی میں سینیٹ کے مقابلے میں کورم کا مسئلہ زیادہ رہتا ہے جب کہ وہاں تعداد 344 ہے اور سینیٹ میں چاروں صوبوں کی نمایندگی یکساں ہے اور سینیٹ کے اجلاس میں سینیٹر زیادہ موجود ہوتے ہیں اور قومی اسمبلی کے مقابلے میں وہاں ہنگامہ آرائی اور کورم کا مسئلہ ہوتا ہے۔

پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی آغا رفیع اللہ نے جس اجلاس میں رولز میں تبدیلی کی ترمیم پیش کی اس روز اسپیکر قومی اسمبلی موجود نہیں تھے اور وزرا ویسے بھی اجلاسوں میں دلچسپی نہیں لیتے اور قومی اسمبلی کے جاری اجلاس میں شرکت کے بجائے اپنے دفتر میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور ایوان میں بہت ہی کم آتے ہیں جس کی وجہ سے ارکان قومی اسمبلی بھی ایوان سے غیر حاضر رہ کر وزیروں کے آئین کے تحت ارکان اسمبلی کی ذمے داری ایوان میں موجودگی زیادہ اہم ہے کیونکہ وہ عوام کے ووٹوں سے ہی قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوتے ہیں مگر اجلاسوں کے دوران اگر ان کی حاضری چیک کی جائے تو وہ کم اور وزیروں کے دفاتر میں زیادہ ہوتی ہے کیونکہ انھیں وزیروں سے اپنے کام لینے ہوتے ہیں۔

اس لیے وہ اپنا اصل کام نہیں کرتے۔ اگر قومی اسمبلی آئیں تو حاضری لگا کر الاؤنس پکا کر لیتے ہیں اور ایوان میں منہ دکھا کر چلے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم قومی اسمبلی سے منتخب ہونے کے بعد اپنا زیادہ وقت پارلیمنٹ سے باہر کی مصروفیات کو دیتے ہیں۔ بجٹ یا اہم مسئلے پر ایوان میں آتے ہیں۔

وزیر اعظم کے اگر ایوان میں آنے کی خبر پکی ہو تو اسپیکر، وزرا سمیت ارکان کی بڑی تعداد ایوان میں موجود ہوتی ہے اور ارکان قومی اسمبلی کو بھی وزیر اعظم سے ملنے اور چہرہ دکھانے کا موقعہ مل جاتا ہے اور اپنا کام بھی کرا لیتے ہیں کیونکہ وزیر اعظم سے تو ان کی مہینوں ملاقات ممکن نہیں ہوتی اور ان کے لیے یہی موقعہ وزیر اعظم سے ملنے کا ہوتا ہے۔ یوسف رضا گیلانی اور ظفر اللہ جمالی پارلیمنٹ زیادہ آتے تھے تو ان سے ارکان کو ملنے کا زیادہ موقعہ ملتا تھا جب کہ باقی وزرائے اعظم صرف کابینہ کو اہمیت دیتے تھے اور پارلیمنٹ آنا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔

 پارلیمنٹ خود کو سپریم اس لیے سمجھتی ہے کہ وہ قانون سازی کا اختیار رکھتی ہے جب کہ سپریم وہ نام کی ہے کیونکہ جب وزیر اعظم، وزرا اور ارکان قومی اسمبلی اپنے ادارے کو اہمیت نہیں دیتے اور اکثر غیر حاضر رہتے ہیں کورم پورا نہ ہونے کی شکایات ہمیشہ ہی رہتی ہیں۔

وزرا کی طرف سے پارلیمانی سیکریٹری ایوان میں ادھورے جوابات دیتے ہیں جس سے ارکان کو ان کے سوالوں کے مکمل جواب نہیں ملتے تو پارلیمانی سیکریٹریوں کے تقرر کا کوئی فائدہ نہیں۔ حکومت نوازنے کے لیے ان پارلیمانی سیکریٹریوں کو گاڑیاں اور مراعات بھی دیتی ہے جب کہ وہ خزانے پر اضافی بوجھ ہوتے ہیں اور وزیر ایوان میں آنا ضروری نہیں سمجھتے، ان کی وزارتیں بھی پارلیمانی سیکریٹریوں کو اہمیت دیتی ہیں نہ مکمل معلومات جس کی وجہ سے ارکان کو ہمیشہ وزارتوں سے سوالات کے جواب نہ ملنے کی شکایت رہتی ہے۔

پیپلز پارٹی کی مجوزہ تجویز وفاقی کابینہ کو ایوان میں جواب دہ بنانے کی ہے جو اچھی تجویز ہے جس کی منظوری سے وزرا تو ایوان میں آنے کے پابند ہو جائیں گے مگر وزیر اعظم پابند نہیں ہوں گے جب کہ وزیر اعظم اگر قومی اسمبلی خود آئیں تو کورم کا مسئلہ خود حل ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم کے پاس تو دیگر سرکاری مصروفیات کا جائز جواز ہو سکتا ہے مگر وزیروں اور ارکان اسمبلی کو بھی ایوان کو جواب دہ بنانے کی اشد ضرورت ہے تب ہی پارلیمنٹ خود کو سپریم کہلانے کی حق دار ہوگی۔ قومی اسمبلی میں کبھی وزیر آ بھی جاتے ہیں مگر سینیٹ میں آنا وہ اپنی توہین سمجھتے ہیں جب کہ سینیٹ بھی پارلیمنٹ ہے مگر سینیٹ سے لیے گئے وزیر بھی سینیٹ سے دور ہو جاتے ہیں۔

پارلیمنٹ کو حقیقی طور سپریم بنانے کے لیے وفاقی کابینہ کو ایوان میں جواب دہ بنانے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وزیر اعظم پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران وزیر اعظم کی غیر موجودگی میں وزیروں پر اپنے دفاتر میں بیٹھنے پر پابندی بھی لگائیں کہ وہ اپنے دفاتر کے بجائے پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں لازمی طور اجلاس جاری رہنے تک موجود رہیں جس سے ارکان بھی وزیروں سے وہیں مل لیا کریں گے اور ایوانوں میں کورم نہ ہونے کا اہم و دیرینہ مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا۔  

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: قومی اسمبلی کے پیپلز پارٹی اجلاس میں ایوان میں کے اجلاس دیتے ہیں سے ارکان ہوتے ہیں جواب دہ ہیں اور ہے اور

پڑھیں:

امریکی وفد نے عمران خان سے متعلق بات نہیں، اسپیکر قومی اسمبلی

اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی وفد نے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے متعلق کوئی بات نہیں کی اور کہا کہ ہمارا پاکستان کی اندرونی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ترک اسپیکر نے غزہ معاملے پرکانفرنس کا انعقاد کیا، ترک اسمبلی کے اسپیکر نے مدعو کیا، کانفرنس میں شرکت کیلئے جاؤنگا، غزہ کے معاملے پر ہمیشہ واضع موقف رہا، کانفرنس میں غزہ کے مظلوم عوام کیلئے آواز اٹھاؤ گا۔

ان کا کہنا تھا کہ  غزہ کی صورتحال دیکھ کر دکھ ہوتا ہے بحثیت اسلامی ملک ہم اپنا وہ کردار ادا نہیں کر رہے جو کرنا چاہئے، پیپلز پارٹی نے کینال معاملے پر منگل کو سنی اتحاد کونسل نے جمعرات کو قرارداد جمع کرائی۔

ایاز صادق نے کہا کہ ہمیشہ سے کوشش ہوتی ہے قوائد کے مطابق کاروائی چلاؤں، پیپلز پارٹی کی قرارداد پر اپنا تحریری نوٹ لکھ دیا، پارلیمنٹ ہاؤس سے اراکین کو اٹھانے کے معاملے پر۔تحقیقات کی، اراکین اسمبلی کو پارلیمنٹ سے اٹھانے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔

انہوں  نے کہا کہ بطور اسپیکر اپنی زمہ داری پوری کی، اراکین کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے، پارلیمنٹ لاجز کوسب جیل قرار دیا۔

ان کا کہنا تھاکہ  امریکی وفد نے بانی پی ٹی آئی پر کوئی بات نہیں کی، امریکی وفد نے کہا ہمارا پاکستان کی اندرونی سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔

ایاز صادق نے کہا کہ پارلیمانی سال کو ایک سال بیت گیا مگر مطعن نہیں ہوں، میرے خلاف عدم اعتماد آئی  توان کے اپنے ووٹ بھی ٹوٹ جائینگے۔

اسپیکر نے کہا کہ محمود خان اچکزئی نے مجھے حوالدار کہا، میں ان سے پوچھا  کونسا حوالدار، ایک چوروں پکڑتے ہیں دوسرے بارڈر پر گولی کھاتے ہیں، محمود خان اچکزئی اتنی اہم شخصیت نہیں ان پر زیادہ بات کی جائے، محمود خان اچکزئی کی عزت کرتا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • امریکی وفد نے عمران خان سے متعلق بات نہیں، اسپیکر قومی اسمبلی
  • قومی اسمبلی : فلسطینو ں سے یکجتی ‘ اسرائیلی مظالم کیخلاف متفقہ ‘ 6نئی نہروں کی تفصیل پیش 
  • عطا تارڑ کا غزہ امداد بھیجنے پر الخدمت اور جماعت اسلامی کو خراج تحسین
  • اسرائیلی جارحیت کے خلاف قومی اسمبلی میں متفقہ قرارداد منظور
  • قومی اسمبلی میں فلسطینیوں کی حمایت، اسرائیلی بربریت کیخلاف قرارداد منظور
  • قومی اسمبلی میں فلسطینی عوام کےساتھ اظہارِ یکجہتی کیلئےمتفقہ قراردادمنظو ر
  • فلسطین میں اسرائیلی مظالم کے خلاف قومی اسمبلی میں قرارداد متفقہ طور پر منظور
  • صدر مملکت نے سینیٹ کا اجلاس منگل کو طلب کر لیا
  • نامور کامیڈین جاوید کوڈو کا انتقال، وزیر اعظم اور اسپیکر قومی اسمبلی کا اظہار افسوس
  • پہلے ہی کہا تھا کہ میچ میں خاص حکمت عملی بنائیں گے: ڈیوڈ وارنر