Express News:
2025-02-24@00:29:49 GMT

پارلیمنٹ عملی طور پر سپریم بنائیں

اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT

دوسری بڑی حکومتی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کے رولز میں بڑی تبدیلی کے لیے اہم ترمیم لے آئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نے رولز 247, 39 اور دو میں ترمیم تجویز کر دی ہے۔

مجوزہ ترمیم کے تحت پارلیمانی سیکریٹریوں کے اختیارات کو محدود کرنے کی تجویز دی گئی ہے جو اگر منظور ہو گئی تو وفاقی کابینہ آرٹیکل 91 کے تحت قومی اسمبلی کو جواب دہ ہوگی اور پارلیمانی سیکریٹری کو جاری نوٹس کی میعاد متعلقہ وزارت یا ڈویژن کے ضمن میں ختم ہوگی۔ پی پی کی طرف سے رولز میں ترمیم کی تجاویز پر پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی اسپیکر نے جو قومی اسمبلی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے نے مجوزہ ترمیم قومی اسمبلی کی متعلقہ کمیٹی کے سپرد کر دی ہے جس کے بعد ترمیم کمیٹی اپنے اجلاس میں فیصلہ کرے گی۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر کی ذمے داری فل ٹائم اسپیکر کی ہوتی ہے جن کی غیر موجودگی میں ڈپٹی اسپیکر ایوان میں اجلاس کی صدارت کرتے ہیں اور یہ دونوں نہ ہوں تو صدارت کے لیے چیئرمین پینل کے لیے ارکان کا تقرر ہوتا ہے۔

عام طور پر ہر حکومت قومی اسمبلی میں مرضی کی قانون سازی اور کارروائی کے لیے اپنے اعتماد کے اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر منتخب کراتی ہے جو اس کی اپنی یا اتحادی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں جن کی وجہ سے حکومت مطمئن رہتی ہے کہ ایوان میں حکومتی مرضی کے خلاف کچھ نہیں ہوگا اور اگر ایوان میں حکومتی ارکان کم اور اپوزیشن کے زیادہ ہوں تو کسی وجہ سے حکومت کی شکست کا خدشہ ہو تو اسپیکر اور قومی اسپیکر حالات سنبھال لیتے ہیں اور کسی جواز پر اجلاس ملتوی کر دیتے ہیں۔

پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ قومی اسمبلی میں سینیٹ کے مقابلے میں کورم کا مسئلہ زیادہ رہتا ہے جب کہ وہاں تعداد 344 ہے اور سینیٹ میں چاروں صوبوں کی نمایندگی یکساں ہے اور سینیٹ کے اجلاس میں سینیٹر زیادہ موجود ہوتے ہیں اور قومی اسمبلی کے مقابلے میں وہاں ہنگامہ آرائی اور کورم کا مسئلہ ہوتا ہے۔

پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی آغا رفیع اللہ نے جس اجلاس میں رولز میں تبدیلی کی ترمیم پیش کی اس روز اسپیکر قومی اسمبلی موجود نہیں تھے اور وزرا ویسے بھی اجلاسوں میں دلچسپی نہیں لیتے اور قومی اسمبلی کے جاری اجلاس میں شرکت کے بجائے اپنے دفتر میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور ایوان میں بہت ہی کم آتے ہیں جس کی وجہ سے ارکان قومی اسمبلی بھی ایوان سے غیر حاضر رہ کر وزیروں کے آئین کے تحت ارکان اسمبلی کی ذمے داری ایوان میں موجودگی زیادہ اہم ہے کیونکہ وہ عوام کے ووٹوں سے ہی قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوتے ہیں مگر اجلاسوں کے دوران اگر ان کی حاضری چیک کی جائے تو وہ کم اور وزیروں کے دفاتر میں زیادہ ہوتی ہے کیونکہ انھیں وزیروں سے اپنے کام لینے ہوتے ہیں۔

اس لیے وہ اپنا اصل کام نہیں کرتے۔ اگر قومی اسمبلی آئیں تو حاضری لگا کر الاؤنس پکا کر لیتے ہیں اور ایوان میں منہ دکھا کر چلے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم قومی اسمبلی سے منتخب ہونے کے بعد اپنا زیادہ وقت پارلیمنٹ سے باہر کی مصروفیات کو دیتے ہیں۔ بجٹ یا اہم مسئلے پر ایوان میں آتے ہیں۔

وزیر اعظم کے اگر ایوان میں آنے کی خبر پکی ہو تو اسپیکر، وزرا سمیت ارکان کی بڑی تعداد ایوان میں موجود ہوتی ہے اور ارکان قومی اسمبلی کو بھی وزیر اعظم سے ملنے اور چہرہ دکھانے کا موقعہ مل جاتا ہے اور اپنا کام بھی کرا لیتے ہیں کیونکہ وزیر اعظم سے تو ان کی مہینوں ملاقات ممکن نہیں ہوتی اور ان کے لیے یہی موقعہ وزیر اعظم سے ملنے کا ہوتا ہے۔ یوسف رضا گیلانی اور ظفر اللہ جمالی پارلیمنٹ زیادہ آتے تھے تو ان سے ارکان کو ملنے کا زیادہ موقعہ ملتا تھا جب کہ باقی وزرائے اعظم صرف کابینہ کو اہمیت دیتے تھے اور پارلیمنٹ آنا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔

 پارلیمنٹ خود کو سپریم اس لیے سمجھتی ہے کہ وہ قانون سازی کا اختیار رکھتی ہے جب کہ سپریم وہ نام کی ہے کیونکہ جب وزیر اعظم، وزرا اور ارکان قومی اسمبلی اپنے ادارے کو اہمیت نہیں دیتے اور اکثر غیر حاضر رہتے ہیں کورم پورا نہ ہونے کی شکایات ہمیشہ ہی رہتی ہیں۔

وزرا کی طرف سے پارلیمانی سیکریٹری ایوان میں ادھورے جوابات دیتے ہیں جس سے ارکان کو ان کے سوالوں کے مکمل جواب نہیں ملتے تو پارلیمانی سیکریٹریوں کے تقرر کا کوئی فائدہ نہیں۔ حکومت نوازنے کے لیے ان پارلیمانی سیکریٹریوں کو گاڑیاں اور مراعات بھی دیتی ہے جب کہ وہ خزانے پر اضافی بوجھ ہوتے ہیں اور وزیر ایوان میں آنا ضروری نہیں سمجھتے، ان کی وزارتیں بھی پارلیمانی سیکریٹریوں کو اہمیت دیتی ہیں نہ مکمل معلومات جس کی وجہ سے ارکان کو ہمیشہ وزارتوں سے سوالات کے جواب نہ ملنے کی شکایت رہتی ہے۔

پیپلز پارٹی کی مجوزہ تجویز وفاقی کابینہ کو ایوان میں جواب دہ بنانے کی ہے جو اچھی تجویز ہے جس کی منظوری سے وزرا تو ایوان میں آنے کے پابند ہو جائیں گے مگر وزیر اعظم پابند نہیں ہوں گے جب کہ وزیر اعظم اگر قومی اسمبلی خود آئیں تو کورم کا مسئلہ خود حل ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم کے پاس تو دیگر سرکاری مصروفیات کا جائز جواز ہو سکتا ہے مگر وزیروں اور ارکان اسمبلی کو بھی ایوان کو جواب دہ بنانے کی اشد ضرورت ہے تب ہی پارلیمنٹ خود کو سپریم کہلانے کی حق دار ہوگی۔ قومی اسمبلی میں کبھی وزیر آ بھی جاتے ہیں مگر سینیٹ میں آنا وہ اپنی توہین سمجھتے ہیں جب کہ سینیٹ بھی پارلیمنٹ ہے مگر سینیٹ سے لیے گئے وزیر بھی سینیٹ سے دور ہو جاتے ہیں۔

پارلیمنٹ کو حقیقی طور سپریم بنانے کے لیے وفاقی کابینہ کو ایوان میں جواب دہ بنانے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وزیر اعظم پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران وزیر اعظم کی غیر موجودگی میں وزیروں پر اپنے دفاتر میں بیٹھنے پر پابندی بھی لگائیں کہ وہ اپنے دفاتر کے بجائے پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں لازمی طور اجلاس جاری رہنے تک موجود رہیں جس سے ارکان بھی وزیروں سے وہیں مل لیا کریں گے اور ایوانوں میں کورم نہ ہونے کا اہم و دیرینہ مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا۔  

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: قومی اسمبلی کے پیپلز پارٹی اجلاس میں ایوان میں کے اجلاس دیتے ہیں سے ارکان ہوتے ہیں جواب دہ ہیں اور ہے اور

پڑھیں:

تین دہشت گرد وزیرِ اعظم (حصہ دوم)

وزیرِاعظم ڈیوڈ بن گوریان ، گولڈا مائر اور میہنم بیگن کی طرح ایتزاک یزرنسکی بھی پولش نژاد صیہونی اور مینہم بیگن کی طرح انتہاپسند پولش صیہونی رہنما زیو جیبوٹنسکی کے شاگرد تھے۔انیس سو پینتیس میں یزرنسکی جعلی شناختی دستاویزات کی مدد سے ایتزاک شمیر کے نام سے فلسطین میں داخل ہوئے اور پھر تاحیات اسی نام سے پہچانے گئے۔

ایتزاک شمیر نے بھی بن گوریان کی ہگانہ ملیشیا سے برطانیہ کی حمائیت پر اختلاف کی بنیاد پر الگ ہونے والے دھڑے ارگون میں شمولیت اختیار کی اور پھر ارگون کو بھی ’’ اعتدال پسند‘‘ سمجھ کے لیخی نامی دھڑے میں شامل ہو گئے۔

انیس سو اکتالیس میں شمیر اپنی سرگرمیوں کے سبب گرفتار ہو گئے مگر چند ماہ بعد برطانوی انتظامیہ کے نظربندی کیمپ سے فرار ہو گئے۔شمیر لیخی ملیشیا کے بانی ایورہام سٹیرن کے اس خیال کے حامی تھے کہ فلسطین سے برطانیہ کو نکالنے کے لیے مسولینی اور ہٹلر سے بھی مدد مانگنے میں کوئی حرج نہیں ( شمیر کو بعد میں پتہ چلا کہ پولینڈ میں رہ جانے والے ان کے والدین اور تین بہنوں کی موت نازی کنسنٹریشن کیمپوں میں ہوئی)۔

انیس سو بیالیس میں لیخی ملیشیا کے بانی ایورہام سٹیرن کی ایک پولیس مقابلے میں موت کے بعد دھڑے کی قیادت شمیر سمیت ایک سہہ رکنی کمیٹی کے ہاتھ میں آ گئی۔کمیٹی کے رکن ایلیاہو گلادی کو انیس سو تینتالیس میں شمیر نے خود قتل کیا۔ کیونکہ بقول شمیر گلادی سب سے مقبول صیہونی رہنما بن گوریان کے قتل کا منصوبہ بنا چکا تھا۔ (یہ اعتراف شمیر نے انیس سو چورانوے میں شایع ہونے والی اپنی یادداشتوں میں بھی کیا)۔

شمیر نے انیس سو چوالیس میں برطانوی سفارت کار لارڈ میون کو قاہرہ میں قتل کرنے کے لیے دو قاتلوں ایلیاہو حاکم اور ایلیاہو بیت زوری کا انتخاب بھی خود کیا۔شمیر کا خیال تھا کہ لارڈ میون فلسطین میں یہودیوں کی آمد کو محدود کرنے والی برطانوی پالیسی کے اصل معمار تھے۔ دونوں قاتلوں کو پھانسی دے دی گئی۔ان کی باقیات اسرائیل کی تشکیل کے بعد مصر سے منتقل کر کے اعزاز کے ساتھ کوہِ زیتون کے قبرستان میں دفنائی گئیں۔

شمیر اور مینہم بیگن سمیت ارگون اور لیخی کی قیادت زیرِ زمین متحرک تھی اور ان کی تصاویر ہر تھانے میں دیگر انتہاپسندوں کے ساتھ آویزاں تھیں۔

جولائی انیس سو چھیالیس میں ایتزاک شمیر کو بھیس بدلنے کے باوجود ایک برطانوی پولیس افسر ٹی جی مارٹن نے گھنی بھنوؤں کے سبب پہچان لیا۔گرفتاری کے بعد شمیر کو فوری طور پر دیگر گرفتار شدگان کے ہمراہ اریٹیریا کے ایک برطانوی حراستی کیمپ میں منتقل کر دیا گیا۔ٹی جی مارٹن کو لیخی کے انتہاپسندوں نے کچھ عرصے بعد قتل کر دیا۔

شمیر اور ان کے چار ساتھی دو سو فٹ کی خفیہ سرنگ کے ذریعے اریٹیریا کے کیمپ سے فرار ہو کر کسی طرح خرطوم پہنچ گئے۔وہاں سے وہ فرنچ صومالی لینڈ پہنچے۔انھیں فرانسیسی حکام نے حراست میں لے لیا مگر برطانیہ کے حوالے کرنے کے بجائے سیاسی پناہ کی درخواست پر پیرس جانے کی اجازت دے دی۔فرانس سے شمیر ایک جعلی پاسپورٹ پر دوبارہ فلسطین پہنچ گئے۔

نو اپریل انیس سو اڑتالیس کو اسرائیل کے قیام سے دو ماہ پہلے غربِ اردن کے ایک گاؤں دیر یاسین میں ارگون اور لیخی دہشت گردوں کی مشترکہ کارروائی میں لگ بھگ ڈھائی سو فلسطینی شہریوں کے قتلِ عام کے بعد یورپ اور امریکا کے صیہونی حلقوں تک نے اس کارروائی کو غیر ضروری دہشت گردی قرار دیا۔ مگر اس قتلِ عام کے دو ماہ بعد اسرائیل کے قیام کی سرخوشی میں صیہونیت کا خونی متشدد پہلو سب بھول بھال گئے۔

 اسرائیل کے قیام کے پندرہ روز بعد انتیس مئی کو بظاہر لیخی کی قیادت نے مزید بدنامی سے بچنے کے لیے تنظیم توڑنے کا اعلان کر دیا۔البتہ دہشت گردی بدستور جاری رہی۔لیخی کی قیادت نے ستمبر انیس سو اڑتالیس میں اسرائیل کی تشکیل کے چار ماہ بعد اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کاؤنٹ برناڈوت کو یروشلم میں دن دہاڑے قتل کروایا۔

بن گوریان حکومت نے لیخی کو اعلانیہ دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس کے دو سو سے زائد ارکان کو حراست میں لے لیا۔ان پر مقدمات قائم ہوئے اور چند ماہ میں جب کاؤنٹ برناڈوٹ کے قتل کے ردِعمل کی دھول بیٹھ گئی تو سب ملزموں کو عام عافی مل گئی۔ان میں سے بیشتر اسرائیلی فوج میں شامل ہو گئے۔

ایتزاک شمیر نے انیس سو پچپن میں موساد میں شمولیت اختیار کر لیا۔مگر آپریشن ڈیموکلیز اسکینڈل کے نتیجے میں جب بن گوریان حکومت نے انیس سو تریسٹھ میں موساد کے سربراہ آئزر ہیرل کو برطرف کیا تو شمیر اور ان کے کچھ ساتھیوں نے بھی موساد کے پلاننگ ڈویڑن سے انیس سو پینسٹھ میں باقاعدہ علیحدگی اختیار کر لی۔آپریشن ڈیموکلیز موساد نے انیس سو باسٹھ تریسٹھ میں قومی قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر کیا۔

اس آپریشن کا نشانہ مصر کے صدر جمال ناصر کے میزائیل سازی منصوبے میں شامل تین سابق نازی سائنسدان اور ان کے اہلِ خانہ تھے۔ موساد نے ان سائنس دانوں کو پارسل بم بھیجے۔ ایک سائنسدان زخمی ہوا جب کہ پانچ مقامی ماہرین ہلاک ہوئے۔ایک سائنسدان کے خاندان کو آسٹریا میں اغوا کر کے اور باقیوں کے اہلِ خانہ کو دھمکیاں دے کر اس پروجیکٹ سے علیحدہ ہونے پر مجبور کیا گیا۔انیس سو سڑسٹھ میں ناصر نے میزائیل سازی کا پروگرام مکمل ترک کر کے سوویت اسکڈ میزائل حاصل کر لیے۔

موساد کا یہ آپریشن اس زمانے میں ہو ا جب وزیرِ عظنم بن گوریان اور وزیرِ خارجہ گولڈا مائر جرمن حکومت سے ہالوکاسٹ کے عوض بھاری ازالہ رقم وصول کر رہے تھے اور جرمنوں سے اسلحے کی ڈیل کر رہے تھے۔چنانچہ سابق نازی سائنسدانوں (جرمن شہری ) کے خلاف آپریشن پر جرمن حکومت کی خفگی کے تدارک کے لیے موساد کے سربراہ اور ان کے معاونین کو قربانی کا بکرا بننا پڑا۔

ایتزاک شمیر نے بعد ازاں انیس سو انہتر میں مینہم بیگن کی جماعت ہیروت میں شمولیت کر لی۔ انیس سو بہتر میں ہیروت سمیت دائیں بازو کی جماعتوں نے لیخود کے نام سے اتحاد قائم کیا۔انیس سو ستتر میں جب یہ اتحاد برسرِاقتدار آیا تو شمیر پارلیمنٹ کے اسپیکر بن گئے۔تاہم انھوں نے انیس سو اناسی میں بیگن اور سادات کے مابین ہونے والے کیمپ ڈیوڈ امن سمجھوتے کی مخالفت کی۔

انیس سو اسی تا چھیاسی شمیر دو مخلوط حکومتوں میں وزیرِ خارجہ رہے اور پھر مخلوط حکومت کے وزیرِ اعظم بن گئے۔شمیر کی وزارتِ خارجہ کے دور میں جولائی انیس سو بیاسی میں بیروت کا محاصرہ ، بیروت سے یاسر عرفات کی بے دخلی اور صابرہ شتیلا کیمپوں میں قتلِ عام ہوا۔ شمیر کی وزارتِ عظمی کے دوران ہی پہلا فلسطینی انتفادہ شروع ہوا۔اسے بے رحمی سے دبا دیا گیا۔

شمیر نے امریکا سے مطالبہ کیا کہ جو روسی یہودی سوویت یونین سے نقلِ مکانی کرنا چاہتے ہیں انھیں امیگریشن ویزہ نہ دیا جائے تاکہ وہ امریکا کے بجائے اسرائیل کا رخ کریں۔صدر بش سینیر کی حکومت نے حکم کی تعمیل کی اور انیس سو اناسی کے گوربچوف دور میں لاکھوں سوویت یہودیوں کو ملک چھوڑنے کی اجازت ملی۔ انھیں سیدھا اسرائیل اور مقبوضہ غربِ اردن پہنچایا گیا۔افریقہ بالخصوص ایتھوپیا سے بھی بڑی تعداد میں یہودیوں کو منتقل کیا گیا۔اکتوبر انیس سو اکیانوے میں سوویت یونین سے دوبارہ سفارتی تعلقات بحال ہوئے جو جون انیس سو سڑسٹھ کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد سے منقطع تھے۔

شمیر فلسطینیوں سے امن بات چیت اور دو ریاستی حل کے شدید مخالف رہے۔ امریکا کی جانب سے مقبوضہ غرب اردن میں یہودی آبادکاری کے لیے مالی امداد معطل کرنے کی دھمکی کے بعد ہی شمیر نے میڈرڈ امن مذاکرات میں بادلِ نخواستہ شرکت پر آمادگی ظاہر کی اور اس کی قیمت حکومت ٹوٹنے کی شکل میں ادا کی۔

بطور وزیرِ اعظم انھوں نے جس آخری حکم پر دستخط کیے وہ سولہ فروری انیس سو بانوے کو حزبِ اللہ کے بانی شیخ عباس موسوی کے قتل کا محضر نامہ تھا۔عباس موسوی کے بعد حسن نصراللہ نے حزبِ اللہ کی قیادت سنبھالی اور وہ بھی بتیس برس بعد ایک اور لیخود وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو کے حکم پر قتل کیے گئے۔ شمیر کو نیتن یاہو بطور لیڈر سخت ناپسند رہے۔ان کے خیال میں نیتن یاہو ایک ’’ نرم خو اور غیر فیصلہ کن ’’ شخصیت تھے۔

دو ہزار چار میں شمیر کو ایلزائمر کا عارضہ لاحق ہو گیا۔اگلے آٹھ برس انھوں نے تل ابیب کے ایک نرسنگ ہوم میں گذارے اور وہیں تیس جون دو ہزار بارہ میں ستانوے برس کی عمر میں انتقال ہوا اور ماؤنٹ ہرزل کے سرکاری قبرستان میں دفن ہوئے۔          ( جاری ہے )

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • پاک بھارت ٹاکرا، بابر اعظم نے کونسا قومی ریکارڈ اپنے نام کرلیا؟
  • پاک بھارت ٹاکرا: وزیراعلیٰ پنجاب، اسپیکر قومی اسمبلی کا نیک خواہشات کا اظہار
  • پاک بھارت ٹاکرے سے قبل بابر اعظم پریکٹس سیشن سے غائب، میچ میں شرکت مشکوک؟
  • روایتی حریف سے ٹاکرا: قومی کرکٹ ٹیم کی دبئی میں پریکٹس، بابر اعظم کی عدم شرکت
  • یوٹیلیٹی اسٹورز بند نہیں ہوں گے ، انتظام بہتر بناکر نجکاری ہوگی، حکومت کا اعلان
  • یوٹیلیٹی اسٹورز بند نہیں ہوں گے، انتظام بہتر بناکر نجکاری کی جائے گی( حکومت کا اعلان)
  • ای ووٹنگ، پارلیمنٹ جائیں، سپریم کورٹ: پراجکیٹ بھارت، اسرائیل، فلپائن سے ہیک کرنے کی کوشش ہوئی، الیکشن کمشن
  • تین دہشت گرد وزیرِ اعظم (حصہ دوم)
  • پی ٹی آئی کے سینیٹرز نے ارکان کی معطلی کے معاملے پر ڈپٹی چیئرمین کی رولنگ مسترد کردی