زباں فہمی نمبر 237 ؛ اُردو اور گجراتی کے لسانی تعلق واشتراک پر ایک نظر
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
(حصہ اوّل)
ایک بار پھر قندمکرر کی طرح اپنی ہی کہی ہوئی یہ بات دُہراتا ہوں کہ گجراتی اُردو کی بڑی بہن ہے۔ برّعظیم پاک وہند کے مختلف اور ایک دوسرے سے طویل مسافت پر واقع متعدد علاقو ں میں صدیوں اُس زبان کی تشکیل، مقامی وعلاقائی زبانوں اور بولیوں سے اختلاط واِشتراک کے سبب ہوتی رہی جسے آج ہم اُردو کہتے ہیں۔
ان میں گجرات کا حصہ بھی بہت بڑا ہے۔ خطہ گجرات (ہند) کا ہم پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ ہمیں ولی ؔ گجراتی دکنی جیسا عظیم شاعر دیا جسے ایک طویل مدت تک ’اردو غزل کا باوا آدم ‘ کہا گیا اور آج بھی اس کی فنّی عظمت کی مختلف جہتوں میں تحقیق کی ضرورت ہے۔ ہرچند کہ گجراتی کا شمار برّعظیم کی بڑی زبانوں میں ہوتا ہے، اور یہ ہندوستان میں ہندی /اردو کے بعد، دوسری سب سے زیادہ پھلنے پھُولنے والی زبان ہے، لیکن مقام افسوس ہے کہ پاکستان میں گجراتی دَم توڑ رہی ہے اور اس کی بقاء کے لیے بہت کم لوگ سنجیدہ ہیں۔ خاکسار نے (غیرگجراتی ہونے کے باوجود) اپنی سی کوشش کی ہے، جس کا ذکر آگے آئے گا۔ پہلے ہم مختصراً گجراتی کا تعارف پیش کرتے ہیں۔
ہندوستان کی زبانوں کی غالب اکثریت سنسکِرِت کی اولا دہے۔ کہا جاتا ہے کہ بادشاہ واُمَراء اپنی خواتین اور خُدّام سے پراکِرِت میں بات کرتے اور عوامی سطح پر معیاری وترقی یافتہ، قدرے دقیق زبان یعنی سنسکِرِت استعمال کرتے تھے۔ پرانے ناٹکوں میں استعمال ہونے والی پراکرتوں میں ترقی پاکر مشہور ہونے والی بولیوں میں شوراسینی (Sauraseni)، مہاراشٹری اور مگدھی شامل ہیں۔ یہ تمام بولیاں اصل میں اَردھَم گڑھی (نصف مگدھی) کی شاخیں تھیں جو ہندومَت کے فرقے یا نئے مذہب جین مَت کے پیروکاروں کی زبان تھی۔ ایک تحقیق کی رُو سے شوراسینی کے طفیل ہندی/اردو۔ پنجابی بولیاں معرضِ وجودمیں آئیں، مہاراشٹری سے مراٹھی، گجراتی، اُڑیا اور چند دیگر نے جنم لیا، جبکہ عظیم مشرقی سلطنت ِ مگدھ کی زبان مگدھی کو بنگلہ اور آسامی زبان کی ماں قراردیا جاتا ہے اور چودھویں صدی عیسوی تک ان دونوں زبانوں میں بہت کم فرق تھا۔
ان کے بیچ ایک زبان اَپ بھرنش (یعنی درمیانی زبان ) تھی جس سے جدید ہندوستانی زبانیں پیدا ہوئیں۔ گجراتی میں بہت شروع ہی سے مقامی اثرات کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی وتُرکی کے الفاظ کی شمولیت، غیرشعوری طور پر ہوتی رہی ہے اور اَگر ڈاکٹر سید ظہیرمدنی صاحب کی تحقیق صحیح مانی جائے تو کتابی شکل میں اس کا ثبوت تیرہویں صدی کی ایک کتاب سے ملتا ہے، مگر خاکسار کا خیال ہے کہ یہ معاملہ مزید قدیم ہوگا کیونکہ یہ خطہ، قدیم عربی کی ابتدائی تشکیل کا مرکز تھا تو کیسے ممکن ہے کہ ویدِک بولیاں، سنسکرت اور دیگر تو عربی سے متأثر ہوئی ہوں، گجراتی محروم رہی ہو۔ یوں اُردو کے گجراتی سے پیدائشی تعلق کی بنیاد پڑی۔
موضوع ایسا ہے کہ بوجوہ اپنی ہی سابقہ تحریروں سے اقتباسات پیش کرنے پر مجبور ہوں۔
زباں فہمی 121:
خوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے
معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا
میرؔ نے اس شعر میں ولیؔ گجراتی (المعروف) دکنی کو منفرد انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ یہ وہی ولیؔ ہے جسے ''آبِ حیات'' کے مصنف محمد حسین آزادؔ نے اردو کا باوا آدم اور فارسی کے اوّلین غزل گو، رودکی ؔ(وفات: 940ء)ؔ اور انگریزی کے چاسر]Geoffrey Chaucer:1340s -25 October 1400[کا ہم پَلّہ قراردیا۔ قاضی احمد میاں اخترؔ جوناگڑھی نے اُنھیں ریختہ (بمعنیٰ زبان) گوئی کا مُوجد ٹھہرایا۔
ہندوی یعنی اردوئے قدیم میں شاعری کے سَرخَیل، مسعودسعدسلمان لاہوری اور ریختہ (یعنی مِلواں یا مخلوط زبان میں) کے اولین سخنور (اور صنف مُوسِیقی ریختہ کے مُوجد) امیرخسرو سے کہیں زیادہ شہرت، غزل گوئی کے باب میں ان دونوں کے صدیوں بعد (دکن کے قطب شاہی سلسلے کے آٹھویں حکم راں سلطان عبد اللہ قلی شاہ کے عہد حکومت میں) جنم لینے والے شاہ سیدمحمد ولی اللہ ولیؔ کو حاصل ہوئی جنھیں گجرات کے شہر احمد آباد سے تعلق کی بِناء پر گجراتی کہنا اور قرار دینا بالتحقیق درست ہے۔
1922ء میں بابائے اردو مولوی ڈاکٹر عبدالحق کے انکشاف کہ ''اولین صاحب ِدیوان اردو شاعر قلی قطب شاہ تھا''(مقالہ مشمولہ سہ ماہی اردو، انجمن ترقی اردو، ہند) سے قبل، ولی ؔ ہی کو اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر اور بقول آزادؔ ''نظم ِاردو کی نسل کا آدم'' سمجھا جاتا تھا ] انھیں اخترؔ جوناگڑھی کی تقلید میں احمدآبادی بھی لکھا جاسکتا ہے، مگر یہ معروف نہیں، جبکہ حیدرآبادی برادری نے انھیں اورنگ آباد اور حیدرآباد میں قیام کے سبب، اورنگ آبادی اور دکنی یا دکھنی قرار دیا۔ وہ بضد ہیں کہ ولیؔ ہمارے ہیں۔ یہ بات اتنی مشہور ہوئی کہ میرؔ نے بھی نِکات ُالشعراء میں ولیؔ کو اورنگ آبادی قرار دیتے ہوئے لکھ دیا: ''شاعرِ ریختہ اَز خاکِ اورنگ آباداست''۔ کلیات ِ ولیؔ (مرتبہ: 1927ء، مطبوعہ انجمن ترقی اردو، ہند) کے مرتب، ممتاز شاعر اور داغؔ دہلوی کے مشہور شاگرد، احسن مارہروی نے اپنی معلومات کی بنیاد پر ولیؔ کو دکنی اور اورنگ آبادی قرار دیا۔
انھوں نے اس عظیم سخنور کے حالات کی نقل میں بھی احتیاط سے کام نہیں لیا۔ میرحسن ؔ دہلوی نے انھیں گجراتی اور دکنی قرار دیا، اس لیے کہ گجرات بھی دکن (جنوب) ہی ہے اور آزادؔ نے اپنے اسی پیش رَو کی تقلید میں انھیں احمدآبادی گجراتی لکھتے ہوئے دکنی کہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ گجرات کے اردو شعراء بشمول ولیؔ اپنی زبان کو دکنی بھی کہتے تھے۔ ''ولیؔ نے اس زبان کی اصلاح کرکے اس کو اِس قابل بنایا کہ وہ شعرائے اردو کی مستقل زبان بن گئی اور اُن کے جدیدرنگِ تغزل نے تمام ملک کے شعراء کو ایسا گرویدہ کردیا کہ اُنھی کے نہج اور اسلوب پر اُردو شاعری کی بنیاد رکھی گئی'' (قاضی احمد میاں اخترؔ جوناگڑھی: مضامین ِ اخترؔ جوناگڑھی)۔
یہاں ایک لسانی لطیفہ یہ بھی ہے کہ بِیجا پور (دکن) کے بعض مصنفین نے اپنی زبان کو گجراتی کہا ہے۔ ''بہرحال یہ مُسَلّمہ اَمر ہے کہ ولیؔ کے کلام میں جو بعض الفاظ و محاورات آئے ہیں، وہ گجرات کی قدیم اردو میں اور دکنی میں مشترک ہیں'' (مضامین ِ اخترؔ جوناگڑھی)۔ مضامینِ اخترؔ جوناگڑھی کو پروفیسر محی الدین بمبئی والا نے مرتب کرکے ''ولی ؔگجراتی'' کے عنوان سے گجرات ساہتیہ اکیڈمی، گاندھی نگر کے زیراہتمام شایع کیا، جبکہ اخترؔ کے عزیز، ڈاکٹر سید ظہیرالدین مدنی، (اسسٹنٹ ڈائریکٹر، انجمن اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، بمبئی) کی کتاب 'ولیؔگجراتی'، اسی انجمن کے زیراہتمام 1950ء میں شایع ہوئی۔ انھی مدنی صاحب نے پی ایچ ڈی کے لیے مقالہ بعنوان ''اردو شعرائے گجرات'' لکھا تھا[۔
آگے بڑھنے سے پہلے خاکسار کے کالم زباں فہمی نمبر119،''حیدرآبادی بولی'' (مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، مؤرخہ17 اکتوبر2021ء) سے اقتباس ملاحظہ فرمائیں: جب حیدرآبادی /دکنی کی بات ہوگی تو ناواقفین کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس سے مراد، ہندوستان کے دکن / دکھن/دَکھشنڑ یعنی جَنوب میں بولی جانے والی بولی ہے جو مقامی زبانوں مَراٹھی، تیلَگُو اور کَنّڑ کے اثرات سے مَملُو ہے اور جس کا قدیم رشتہ وانسلاک، ہندی، سنسکرت اور اردو کی قدیم بولیوں سے ہے۔
اب یہاں ایک وضاحت اور بھی ضروری ہے کہ دکن یا جنوب سے کون سے علاقے مراد ہیں۔ ]یہ نکتہ اُس پرانی بحث سے بھی جُڑا ہوا ہے کہ اردو کے پہلے توانا شاعر وَلی گجراتی دکنی کو دکنی (اور اورنگ آبادی، دکنی) کیوں کہا جاتا ہے۔ ماقبل کسی تحریر میں، غالباً زباں فہمی ہی میں ڈاکٹر غلام مصطفی خان مرحوم کا یہ قول نقل کرچکا ہوں کہ ''انھیں گجراتی کہیے یا دکنی کہیے، ایک ہی بات ہے، کیونکہ دکن کا اطلاق جنوبی ہند کے علاقے پر ہوتا تھا جو دریائے نربدا سے لے کر گجرات تک اور جنوب میں مدراس اور راس کُماری تک تھا'' (رسالہ تحقیق مضمون قاضی احمد میاں اختر ؔجوناگڑھی مرحوم، شمارہ نمبر آٹھ نو، 19994-1995ء، ص ۲۱)۔ قاضی احمدمیاں اخترؔ جوناگڑھی نے بالتحقیق ثابت کیا ہے کہ ولیؔ کا تعلق احمد آباد، گجرات سے تھا، وہ اورنگ آباد، حیدرآباد اور دہلی سمیت متعدد شہروں میں مقیم رہے، مگر اُنھیں حیدرآبادی یا اورنگ آبادی دکنی سمجھنا خلاف ِ حقیقت ہے۔ اس بحث کا خلاصہ پھر کبھی پیش کروں گا، فی الحال دکن کی تعریف مزید واضح کردوں[۔ اس خطے کی آبادی میں مَرٹھواڑا، خاندیش، کرناٹک، حیدرآباد۔کرناٹک، تلنگانہ، جنوبی اور وسطی آندھراپردیش، شِمالی تَمِل ناڈ (ناڈو نہیں)، گوا اور کیرل (کیرالہ) کے اقلیتی دکنی باشندے شامل ہیں۔ یہاں یہ لطیف نکتہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ دکن یعنی جنوب میں فقط یہی ایک بولی یا زبان نہیں تھی، بلکہ وہاں زمانہ قدیم سے متعدد زبانیں بشمول گجراتی، تیلگو، تَمِل، کنڑ، ملیالم بھی رائج تھیں اور ہیں، یہ سب کی سب دکنی ہیں۔
عبدالستار صدیقی نے اپنے مضمون 'ولیؔ کی زبان ' میں ولیؔ کو دکنی شاعر ثابت کرنے کے لیے لکھا ہے:''اب ولیؔ کی زبان کو دیکھنا چاہیے۔ پہلے ان اجزاء سے بحث کرلی جائے، جو ولی کی زبان اور دلّی کے شاعروں میرؔ، سوداؔ، دردؔ اور اُن کے ہم عصروں کی زبان میں مشترک ہیں۔''
1۔لفظ: - بوجھنا (پہچاننا سمجھنا)، بولنا (کہنا کی جگہ)، پَوَن (ہوا)، پی، پیو، سجن، موہن (محبوب کے لیے)، پیونا (پینا) تجھ، مجھ، (تیرا، میرا) جیو، (جی)، لگ (تلک) نین، نَین (آنکھ)، ستی، سیتی (سے) کنے (پاس) نپٹ، نپٹھ (بالکل، سراسر) یہ اور اس طرح کے بہت سے لفظ شاعروں کے کلام کے علاوہ دلّی، پنجاب، صوبہ متحدہ اور بہار میں اب تک بولے جاتے ہیں۔ کسی لفظ میں حرف علّت کا گھٹ کر ایک حرکت ہی رہ جانا یا حرکت کا کھنچ کر حرف ہوجانا، جیسے اُپر (اوپر) دکھو (دیکھو) لاگا (لگا)، لوہو (لہو)، اودھر، ایدھر، جیدھر۔ تشدید، کا جاتا رہنا یا اکہرے حروف پر تشدید کا آجانا، جیسے ''اتنا'' سے ''اتّا'' اور ''پات'' سے ''پتّا'' ہوجانا۔ یہ سب صورتیں دلّی کے شاعروں کے کلام میں بھی موجود ہیں۔ نون غنّہ پُرانے زمانے میں بہت تھا، یہاں تک بعضے لوگ فارسی لفظوں ''کوچہ''، ''پیچ''، ''پائچہ'' کو ''کونچہ''، ''پینچ''، ''پائنچہ'' لکھا کرتے تھے۔ توں (تو) کوں (کو) سیں (سے) نیں (نے) سداں (سدا)، دیکھناں (دیکھنا) وغیرہ بہت عام تھے۔ ہائے
ملفوظہؔ خاص کر دلّی اور پچھاں کے اور مقامات میں اکثر جاتی رہتی ہے اور اس کی جگہ اکثر ایک مخلوط یؔ یا ہمزہ لے لیتا ہے، جیسے ''بہت'' کی جگہ ''بوت''، ''کہتا'' کے لیے ''کے تا''، ''کہوں''، (کؤں) اسی طرح ''کئیں'' یا ''کئں'' اور ''وئن'' اور ''نِئں'' عام طور پر سنا جاتا ہے۔ لکھاوٹ میں آکر ایک صورت کی ترجمانی نہیں ہوتی یا نہیں ہوسکتی، تو وہ صورت زبان سے مٹ نہیں جاتی۔ ملفوظ ہؔ کہیں حذف ہوجاتی ہے، جیسے ''گھبراہٹ'' سے ''گھبراٹ'' کہیں مخلوط ہوجاتی ہے، جیسے ''وہاں'' سے ''وھاں''، ''یہاں'' سے ''یھاں'' کہیں مخلوط ھ اپنی جگہ بدل لیتی ہے، جیسے ''گڑھنا'' (گھڑنا) بعضے لفظوں میں ان دونوں کا قلب اور ابدال ایک ساتھ ہوا ہے، جیسے ''پہچان'' اور پیچھان''، ''پہونچا'' اور ''پونچھا''۔ لفظ کے بیچ یا آخر میں سے مخلوط ھ اکثر جاتی رہتی ہے اور بھوک (بھوکھ) تڑپ (تڑپھ)، دھوکا (دھوکھا) سامنا (سامنھا) مانجنا (مانجھنا) بھکاری (بھکھاری) اب سے تھوڑے دن پہلے تک دونوں طرح سے لکھے جاتے رہے ہیں''۔
موضوع کو سمیٹتے ہوئے اس عظیم سخنور کے کلام میں شامل، گجراتی یا گجرات کی قدیم اردو کے ذخیرہ الفاظ و محاورات کی فہرست پیش کرتا ہوں:
کَپَٹ (حسد،رنج، بغض وکِینہ)، نال (آنول نال) بِستار (پہنائی، وسعت، تفصیل و تشریح)، طُومار (مِسل)، سِینے کا سال (سینے کا کانٹا یا پھانس)، دَھَرم کا کام (کارِ ثواب)، بھار (وزن، بوجھ)، اڑکا (اٹکا)، اڑکنا (اٹکنا)، اڑکانا (اٹکانا)، وِسواس (اعتبارواعتماد)، آدھار کرنا (دارومداررَکھنا)، چِتَرنا (تصویربنانا)، جَھلجھلاٹ (جگمگاہٹ، استعارتاً رُعب و جلال)، میا (رحم)، چُوتا ہے (ٹپکتا ہے)، چِیرا(پگڑی)، پَٹکا (کمر سے بندھا ہوا لمبا چوڑا رُومال)، بَتہ یا بَتّا (سِل کا بَٹّا)، آل (گزند، آنچ)، کان دھرنا (توجہ سے سننا)، سُرمے کی سَلی (سرمے کی سلائی)، سنجاب (سنجاف، کُرتے یا پشواز کا استر)، بھوئیں (زمین)، جوکھا (تولا)، حیاتی (زندگی: نیز پنجابی وسرائیکی میں مستعمل)، چَپَل (پھُرتِیلا، چالاک)، پُور (سیلاب)، ہُلاس (خوشی)، فتنے کی جَڑ (دلّی، میرٹھ اور گجرات میں مشترک)،
ڈاڑم (انار)، ہٹ چھُٹا (ہت چھٹ، پھکیت)، اَجانا (انجان)، ناٹھ گئے (بھاگ گئے)، کسبل (کسبن یعنی قحبہ، کسبی)، کُنّواں (کنواں)، ہاٹ (دُکان)، ہٹڑی (دُکنیا، چھوٹی دکان)، اوجھل (پردہ)، کاڑنا (نکالنا)، چھند (مکروفریب، چالاکی)، گھانے کا بیل (کولھو کا بیل)، اَدھر (معلّق)، لڑاہنایا لَڈانا (اُچھالنا، جُھلانا، زیادہ ہاتھ ہلانا)، دیوی (چھوٹا چراغ: یہ وہی قدیم اردو، ہندی اور پنجابی کا دِیوا ہے)، رُوسنا (روٹھنا)، اُپرا پینچ (پگڑی کا آخری بالائی پیچ)، جھَرنا (گرنا،ٹپکنا: بقول ڈاکٹر غلام مصطفی خان یہی لفظ جبل پور میں مستعمل رِسنا ہے)، گھرگھالے (کئی گھر لُوٹے یا ویران کیے)، بقّال پُرفن (عیّار بنیے کا لونڈا)، کُلاہ ِ بارانی (چھجّے دار برساتی ٹوپی، فیلٹ ہیٹ)، رام رامی (علیک سلیک کی جگہ رام رام کہنا)، گو ل دستار (چکری پگڑی)، مناہی (ممانعت: عربی الاصل لفظ جو یوپی اور سی پی بھی رائج) [مضامین ِ اخترؔ جوناگڑھی]۔ (زباں فہمی نمبر121،’’اردو غزل کا توانا شجر۔ ولی ؔ گجراتی دکنی‘‘، تحریرسہیل احمد صدیقی مشمولہ روزنامہ ایکسپریس، سنڈے میگزین ، مؤرخہ31اکتوبر 2021)
اب ذرا یہ جَدوَل ملاحظہ فرمائیں کہ ہندی/اردو اور گجراتی میں مشترک یا مماثل لفظ کیسے انگریزی بن گیا:
ہاتھ /ہاتھ۔تھ(یعنی ذرا شَدّ کے ساتھ): hand
آٹھ /آٹھ۔ٹھ: eight
آنکھ/اَکھّی: eye
جِیبھ (زبان)/جیبھ بھا: tongue (یہ مختلف ہوگیا)
گانٹھ /گاٹھّی: knot
کھو(کھونا)/کھَوا (khava): lose
گھی: گھی۔آ: ghee
پھل/پھلا: fruit(یہ مختلف ہوگیا)
کپوُر/کافور/کپوُرا: camphor
ہندی /اردو (فارسی آمیز) اور گجراتی کے مشترک الفاظ کی فہرست بہت طویل ہے، چند مثالیں:
شہر: سہر/شہر
فولاد: پولاد
پُل: پُل
لال: لال
بِیما/بِیمہ: وی مو(insurance)
ناشتا: ناستو
بطخ: بَتَک
فائدہ: پھائدو
لشکر: لسکر
بازار: باجار۔یا۔بجار
(جاری)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اورنگ ا بادی اورنگ ا باد زباں فہمی اور گجرات کہ گجرات گجراتی د ہے اور ا جاتا ہے کو دکنی کی زبان میں ولی کے کلام ردو کے اور اس کی جگہ ردو کی
پڑھیں:
ملک بھر میں فوری بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں، خرم نواز گنڈاپور
سیکرٹری جنرل پی اے ٹی کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی اداروں کا کام کرنے کی بجائے اپنا کام کریں، لوکل سسٹم کے فعال ہونے اور اردو زبان کے دفتری نفاذ سے عدم برداشت کا خاتمہ ہو گا۔حکومت اگر چاہتی ہے کہ عوام میں برداشت آئے اور گراس روٹ پر عوام کے مسائل ان کے گھر کی دہلیز پر حل ہوں تو بلاتاخیر بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں بلدیاتی اداروں کیخلاف اپنی سوچ بدلیں اور ملک بھر میں فوری بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں۔ صوبائی حکومتیں بلدیاتی اداروں کے فنڈز اور اختیارات استعمال کرنے کی بجائے اپنا کام کریں۔ صوبائی حکومتوں کا کام قانون سازی اور پالیسی دینا ہے نہ کہ براہ راست گلیاں، نالیاں ٹھیک کروانا۔ لوکل سسٹم کے فعال ہونے اور قومی زبان اردو کو دفتری زبان کے طور پر نافذ کرنے سے عدم برداشت کا خاتمہ ہو گا۔ اردو زبان 100فیصد بولی اور سمجھی جاتی ہے جبکہ 90فیصد سے زائد کام بلدیاتی اداروں سے متعلقہ ہوتے ہیں۔ وہ لاہور میں مختلف وفود سے گفتگو کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ بلدیاتی اداروں کے بغیر جمہوریت کے قیام کے دعوے کھوکھلے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کو کبھی بھی اس ملک کے اندر چلنے نہیں دیا گیا جبکہ مالی اور انتظامی اعتبار سے بااختیار بلدیاتی اداروں کے وجود کی آئین گارنٹی دیتا ہے۔ آئین کا یہ آرٹیکل پچھلی کئی دہائیوں سے بلڈوز ہورہا ہے مگر اس پر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو اپنے نمائندوں کے انتخاب کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ بلدیاتی اداروں کے وسائل سرکاری ملازم استعمال کررہے ہیں، یہ کہاں کی جمہوریت اور آئین کی بالادستی ہے؟۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت اگر چاہتی ہے کہ عوام میں برداشت آئے اور گراس روٹ پر عوام کے مسائل ان کے گھر کی دہلیز پر حل ہوں تو بلاتاخیر بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں۔