سنہرے لوگ : مشکور رضا ۔۔۔ کچھ یادیں
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
آج تم بھی ڈھیروں مٹی تلے جا سوئے۔
آج دوپہر جب میں واٹس اپ پر آئے پیغامات دیکھ رہی تھی کہ آرٹس کونسل سے آنے والا نمازجنازہ کا پیغام فون کے پردے پر جھلملایا۔ میں نے عادت کے مطابق پیغام کھولا، کسی ممبر کی زوجہ کے گزر جانے اور نماز جنازہ کا اعلانیہ تھا۔ اسے پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ ایک پیغام اور بھی ہے۔ پردۂ فون کو آگے بڑھانے پر جو پیغام سامنے آیا اس نے مجھے ہلا دیا۔
وہ مشکور رضا کے دنیا سے گزر جانے اور تدفین کے پروگرام کا اعلانیہ تھا۔
مشکور!
تم کئی برسوں سے ڈائیلیسس کروا رہے تھے۔ اس سلسلے میں ہفتے میں تین بار حاضری لگوانے اسپتال جاتے تھے۔ اس ایک دن آرام کرنے کے بعد دوسرے دن تم پھر رنگوں اور برش کی دنیا میں گم ہوجاتے تھے کہ رنگ، برش، کینوس اور ایزل ہی تمہاری دنیا تھی۔
آج دوپہر سے مجھے تمہاری وہ شکل بار بار یاد آرہی ہے، جب ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔
وہ ۱۹۷۸یا ۱۹۷۹ کی ایک نرم گرم سی صبح تھی۔ تم سفید کرتے پاجامے میں ملبوس، بالوں کو سلیقے سے جمائے، ناظم آباد کے ایک گول برآمدے والے گھر میں ہمارے منتظر تھے۔ باتوں کا سلسلہ شروع ہوا لیکن تھوڑی دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ بات بن نہیں رہی کیوں کہ میرے پانچ منٹ کی طوالت پر محیط سوال کا جواب تم آدھے منٹ میں نمٹا دیتے تھے۔ انٹرویو کا دورانیہ ایک گھنٹے کا تھا۔ مجھے ایک گھنٹے کا پیٹ بھرنا تھا اور مشکور کو جلدی اس بات کی تھی کہ کسی طرح جان چھوٹے—-
ہم دونوں ہی ایک عجیب سی کشمکش کا شکار تھے۔ ریکارڈنگ روک کے میں نے مشکور کا جائزہ لیا۔ وہ سرتاپا پسینے میں شرابور تھا۔ میری طرف دیکھتے ہوئے اس نے بہت معصومیت سے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ یہ اس کی زندگی کا پہلا انٹرویو ہے۔
ان دنوں مشکور کی پینٹگنز کینیوس پر سفید بیک گراؤنڈ میں گہرے رنگوں کی abstract Sami ہوتی تھیں۔ اصل میں وہ اپنی استاد لبنی آغا سے بہت متاثر تھے، جس کا اظہار ان کے کام میں واضح نظر آتا تھا۔
ان کی زندگی کے اس پہلے انٹرویو کے کچھ عرصے بعد میں نے ان سے رسالے کے لیے انٹرویو کیا تو ان میں خاصہ اعتماد نظر آیا۔ ان کے جوابات کی طوالت بڑھ گئی تھی۔ وہ اپنے ہم عصروں کے متعلق بات کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے سے بڑوں کے بارے میں بھی بات کر رہے تھے——- پھر کچھ یوں ہوا کہ ہماری دوستی سی ہوگئی۔ برسوں بعد بھی کسی نمائش میں یا اِدھراُدھر ملتے تو گزرے وقت کا اپ ڈیٹ کرلیتے۔ مثلاً کون کہاں رہ رہا ہے، کیا کر رہا ہے، بچے کتنے ہوگئے، کہاں پڑھتے ہیں، کب نمائش ہوگی وغیرہ وغیرہ۔
مشکور نے اپنا اسکول آف آرٹ کھولا چند سالوں بعد بند کر دیا، کسی کو بھی مورد الزام ٹھہرائے بغیر۔ کہتے تھے اسکول چلانا میرے بس کی بات نہیں۔ میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ بس اب گھر سے کام کروں گا اور جو سیکھنا چاہتے ہیں وہ میرے گھر ہی آئیں گے۔
اس بیچ ان کے کام نے بھی کئی رخ بدلے، گھوڑے بنانے شروع کیے تو ہر ہر طرح کے گھوڑے بنا ڈالے، پھر ان گھوڑوں کو انسانی اجسام کے ساتھ ملا کے کئی کئی رنگ روپ دیے۔ اس بیچ کیلی گرافی سے بھی شوق فرماتے رہے۔ اسی درمیان انھوں نے صرف خطوط نسواں پر بھی کافی کام کیا۔ پھر جانے دماغ میں کیا سمائی کہ چاند کے ساتھ کھیلنا شروع کردیا اور چندا کی چاندنی کو روپ بہروپ دیتے دیتے اس میں بھی گھوڑے شامل کردیے۔ گھوڑوں کے اصطبل کو انھوں نے نیا رنگ یہ دیا کہ پولو کھیل کی ہر ہر زاویے سے سیکڑوں تصاویر بنا ڈالیں۔
ایک وقت یہ آیا کہ وہ ملک میں سب سے زیادہ بکنے اور کام کرنے والے آرٹسٹ کہلاتے تھے۔ ان کی نمائش کے لیے بننے والی پینٹگنز نمائش سے پہلے ہی فروخت ہوجاتی تھیں۔ ان کا کام نہ صرف ملک میں بلکہ ملک سے باہر بھی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتا تھا۔
چند سال پہلے تک وہ کبھی آسٹریلیا تو کبھی امریکا، کبھی مڈل ایسٹ میں ہوتے تھے۔ میں اکثر کہتی تھی مشکور تم تو بس ہوا ہی میں رہتے ہو۔
اس بیچ ان کی بچیاں بڑی ہوگئیں۔ ہر چند سال بعد کسی نہ کسی کے پیادیس جانے کی خبر سناتے۔
ان میں تصنع بالکل نہ تھا، دھیمے لہجے میں مسکرا مسکرا کے بولتے، جب بھی پینٹنگ کے مول تول پر میری بحث ہوتی تو آخری جواب ہوتا ایسے ہی لے جاؤ، پتا تھا کہ میں ایسے ہی کبھی نہیں لے جاؤں گی۔
میں اکثر کہتی مشکور! آپ کو اندازہ ہے ناں کہ میر ے خاندان میں آپ کی پینٹگنز اتنی ہیں کہ ہم سب ملاکے آرام سے ایک گیلری کھول سکتے ہیں، دھیمے سے ہنس کے کہتے میں مانتا ہوں۔
کوئی پندرہ سال پہلے کی بات ہوگی مشکور سے فون پر بات ہورہی تھی تو میں نے محسوس کیا کہ ان کی سانس بہت پھولی ہوئی ہے، میرے توجہ دلانے پر جواب دیا،’’مجھے بھی کبھی کبھی احساس ہوتا ہے۔‘‘ میں نے ان سے پوچھا بلڈپریشر ٹھیک رہتا ہے؟ کچھ رک کے کہا،’’کبھی کبھی بڑھ جاتا ہے۔‘‘ میں نے زور سے کہا کبھی کبھار تو آپ چیک کرتے ہوں گے، دوا کھاتے ہیں، جواب انکار میں ملا۔ میں نے بہت ڈرایا، دھمکایا اور کہا کہ آپ فوراً کسی کارڈیولوجسٹ سے ملیں۔
چند ہفتوں بعد بات ہوئی آواز سنتے ہی کہا،’’شور مت کرنا، ڈاکٹر سے ملا تھا، اس نے کچھ ٹیسٹ کروائے ہیں اور کہا ہے کہ آپ کے گردوں کا مسئلہ لگتا ہے۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا، اسی بات کا ڈر تھا، تو جواب ملا، لیکن میں اب دوا برابر کھاتا ہوں۔ میں نے دل میں کہا، دیر کردی مہرباں۔
اب بات پینٹگنز اور نمائشوں سے زیادہ دواؤں اور ڈاکٹروں کی ہونے لگی۔
چند سال پہلے ان کے گھر گئی کہ انھوں نے آدھے گھر کو اسٹوڈیو اور گیلری بنا لیا تھا۔ چند باتوں کے بعد کہنے لگے،’’تم کو پتا ہے میرے ساتھ کیا ہوا۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا،’’کیا اغوا ہوگئے تھے؟‘‘ زور سے قہقہہ لگا کے جواب دیا،’’کچھ ملتی جلتی واردات ہوئی تھی۔‘‘ کیا مطلب؟ سہج سہج انھوں نے ڈی ایس پی راؤ انوار کے دو تین پولیس موبائلز کے ساتھ گھر آنے، گیلری میں دھماچوکڑی کرنے، مختلف پینٹگنز کے اٹھانے، بنا ادائی گاڑیوں میں ڈالنے اور مطالبہ کرنے پر ایک نام ور سیاست داں کی پسندیدگی کا حوالہ دینے کا مکمل قصہ سنایا۔
میں نے بے چینی سے پوچھا،’’کم بختوں نے کچھ نہیں دیا۔‘‘ دھیمے سے کہا،’’بہت حجت کے بعد ساڑھے تین لاکھ، میری پینٹنگز تو پندرہ سولہ لاکھ کی لے گئے۔‘‘
میں نے غصے سے کہا تمہیں پریس کانفرنس کرنی چاہیے تھی۔
’’میں یہ سب کام نہیں کر سکتا۔ بس میں نے گارڈ بٹھا دیے ہیں اور بنا اطلاع آنے والوں سے نہیں ملتا، گارڈ کہہ دیتے ہیں میں گھر پر نہیں ہوں، گیلری بند ہے۔‘‘
باتیں اور یادیں ہیں کہ پرے باندھے چلی آرہی ہیں۔
مشکور بہت ہی منکسر المزاج انسان تھے۔ کبھی کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہتے تھے۔
میرے خیال میں وہ پاکستان کے واحد مصور تھے جن کے ہاں ہر آرٹسٹ کا کام آویزاں نظر آتا ہے۔ وہ بہت فخریہ کہتے تھے میں اپنے ہم عصروں کا کام خریدتا ہوں۔ اگر ہم ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی نہ کریں گے تو پھر کون کرے گا۔
گذشتہ چند سالوں سے گردے کی صفائی کے عمل سے گزرنے کے باعث ان کے کام کی رفتار خاصی متاثر ہوئی تھی۔ پینٹنگز کا سائز چھوٹا ہوگیا تھا، رفتار دھیمی ہوگئی تھی، نیا کام کم کر رہے تھے۔
مشکور کا کام مشکور ہی کا تھا، پاکستان کے سیکڑوں خوش حال گھروں کی دیواریں ان کے کام سے مزین ہیں۔
موت برحق ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ ہم پیدا ہی مرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ پھر بھی کچھ کا مرنا عجیب سا خلاء چھوڑ جاتا ہے۔ مشکور رضا تم بھی ان ہی میں سے ایک ہو۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ان کے کام انھوں نے کے ساتھ چند سال سے کہا کا کام
پڑھیں:
سنہرے لوگ : مشکور رضا ۔۔۔ کچھ یادیں
آج تم بھی ڈھیروں مٹی تلے جا سوئے۔
آج دوپہر جب میں واٹس اپ پر آئے پیغامات دیکھ رہی تھی کہ آرٹس کونسل سے آنے والا نمازجنازہ کا پیغام فون کے پردے پر جھلملایا۔ میں نے عادت کے مطابق پیغام کھولا، کسی ممبر کی زوجہ کے گزر جانے اور نماز جنازہ کا اعلانیہ تھا۔ اسے پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ ایک پیغام اور بھی ہے۔ پردۂ فون کو آگے بڑھانے پر جو پیغام سامنے آیا اس نے مجھے ہلا دیا۔
وہ مشکور رضا کے دنیا سے گزر جانے اور تدفین کے پروگرام کا اعلانیہ تھا۔
مشکور!
تم کئی برسوں سے ڈائیلیسس کروا رہے تھے۔ اس سلسلے میں ہفتے میں تین بار حاضری لگوانے اسپتال جاتے تھے۔ اس ایک دن آرام کرنے کے بعد دوسرے دن تم پھر رنگوں اور برش کی دنیا میں گم ہوجاتے تھے کہ رنگ، برش، کینوس اور ایزل ہی تمہاری دنیا تھی۔
آج دوپہر سے مجھے تمہاری وہ شکل بار بار یاد آرہی ہے، جب ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔
وہ ۱۹۷۸یا ۱۹۷۹ کی ایک نرم گرم سی صبح تھی۔ تم سفید کرتے پاجامے میں ملبوس، بالوں کو سلیقے سے جمائے، ناظم آباد کے ایک گول برآمدے والے گھر میں ہمارے منتظر تھے۔ باتوں کا سلسلہ شروع ہوا لیکن تھوڑی دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ بات بن نہیں رہی کیوں کہ میرے پانچ منٹ کی طوالت پر محیط سوال کا جواب تم آدھے منٹ میں نمٹا دیتے تھے۔ انٹرویو کا دورانیہ ایک گھنٹے کا تھا۔ مجھے ایک گھنٹے کا پیٹ بھرنا تھا اور مشکور کو جلدی اس بات کی تھی کہ کسی طرح جان چھوٹے—-
ہم دونوں ہی ایک عجیب سی کشمکش کا شکار تھے۔ ریکارڈنگ روک کے میں نے مشکور کا جائزہ لیا۔ وہ سرتاپا پسینے میں شرابور تھا۔ میری طرف دیکھتے ہوئے اس نے بہت معصومیت سے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ یہ اس کی زندگی کا پہلا انٹرویو ہے۔
ان دنوں مشکور کی پینٹگنز کینیوس پر سفید بیک گراؤنڈ میں گہرے رنگوں کی abstract Sami ہوتی تھیں۔ اصل میں وہ اپنی استاد لبنی آغا سے بہت متاثر تھے، جس کا اظہار ان کے کام میں واضح نظر آتا تھا۔
ان کی زندگی کے اس پہلے انٹرویو کے کچھ عرصے بعد میں نے ان سے رسالے کے لیے انٹرویو کیا تو ان میں خاصہ اعتماد نظر آیا۔ ان کے جوابات کی طوالت بڑھ گئی تھی۔ وہ اپنے ہم عصروں کے متعلق بات کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے سے بڑوں کے بارے میں بھی بات کر رہے تھے——- پھر کچھ یوں ہوا کہ ہماری دوستی سی ہوگئی۔ برسوں بعد بھی کسی نمائش میں یا اِدھراُدھر ملتے تو گزرے وقت کا اپ ڈیٹ کرلیتے۔ مثلاً کون کہاں رہ رہا ہے، کیا کر رہا ہے، بچے کتنے ہوگئے، کہاں پڑھتے ہیں، کب نمائش ہوگی وغیرہ وغیرہ۔
مشکور نے اپنا اسکول آف آرٹ کھولا چند سالوں بعد بند کر دیا، کسی کو بھی مورد الزام ٹھہرائے بغیر۔ کہتے تھے اسکول چلانا میرے بس کی بات نہیں۔ میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ بس اب گھر سے کام کروں گا اور جو سیکھنا چاہتے ہیں وہ میرے گھر ہی آئیں گے۔
اس بیچ ان کے کام نے بھی کئی رخ بدلے، گھوڑے بنانے شروع کیے تو ہر ہر طرح کے گھوڑے بنا ڈالے، پھر ان گھوڑوں کو انسانی اجسام کے ساتھ ملا کے کئی کئی رنگ روپ دیے۔ اس بیچ کیلی گرافی سے بھی شوق فرماتے رہے۔ اسی درمیان انھوں نے صرف خطوط نسواں پر بھی کافی کام کیا۔ پھر جانے دماغ میں کیا سمائی کہ چاند کے ساتھ کھیلنا شروع کردیا اور چندا کی چاندنی کو روپ بہروپ دیتے دیتے اس میں بھی گھوڑے شامل کردیے۔ گھوڑوں کے اصطبل کو انھوں نے نیا رنگ یہ دیا کہ پولو کھیل کی ہر ہر زاویے سے سیکڑوں تصاویر بنا ڈالیں۔
ایک وقت یہ آیا کہ وہ ملک میں سب سے زیادہ بکنے اور کام کرنے والے آرٹسٹ کہلاتے تھے۔ ان کی نمائش کے لیے بننے والی پینٹگنز نمائش سے پہلے ہی فروخت ہوجاتی تھیں۔ ان کا کام نہ صرف ملک میں بلکہ ملک سے باہر بھی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتا تھا۔
چند سال پہلے تک وہ کبھی آسٹریلیا تو کبھی امریکا، کبھی مڈل ایسٹ میں ہوتے تھے۔ میں اکثر کہتی تھی مشکور تم تو بس ہوا ہی میں رہتے ہو۔
اس بیچ ان کی بچیاں بڑی ہوگئیں۔ ہر چند سال بعد کسی نہ کسی کے پیادیس جانے کی خبر سناتے۔
ان میں تصنع بالکل نہ تھا، دھیمے لہجے میں مسکرا مسکرا کے بولتے، جب بھی پینٹنگ کے مول تول پر میری بحث ہوتی تو آخری جواب ہوتا ایسے ہی لے جاؤ، پتا تھا کہ میں ایسے ہی کبھی نہیں لے جاؤں گی۔
میں اکثر کہتی مشکور! آپ کو اندازہ ہے ناں کہ میر ے خاندان میں آپ کی پینٹگنز اتنی ہیں کہ ہم سب ملاکے آرام سے ایک گیلری کھول سکتے ہیں، دھیمے سے ہنس کے کہتے میں مانتا ہوں۔
کوئی پندرہ سال پہلے کی بات ہوگی مشکور سے فون پر بات ہورہی تھی تو میں نے محسوس کیا کہ ان کی سانس بہت پھولی ہوئی ہے، میرے توجہ دلانے پر جواب دیا،’’مجھے بھی کبھی کبھی احساس ہوتا ہے۔‘‘ میں نے ان سے پوچھا بلڈپریشر ٹھیک رہتا ہے؟ کچھ رک کے کہا،’’کبھی کبھی بڑھ جاتا ہے۔‘‘ میں نے زور سے کہا کبھی کبھار تو آپ چیک کرتے ہوں گے، دوا کھاتے ہیں، جواب انکار میں ملا۔ میں نے بہت ڈرایا، دھمکایا اور کہا کہ آپ فوراً کسی کارڈیولوجسٹ سے ملیں۔
چند ہفتوں بعد بات ہوئی آواز سنتے ہی کہا،’’شور مت کرنا، ڈاکٹر سے ملا تھا، اس نے کچھ ٹیسٹ کروائے ہیں اور کہا ہے کہ آپ کے گردوں کا مسئلہ لگتا ہے۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا، اسی بات کا ڈر تھا، تو جواب ملا، لیکن میں اب دوا برابر کھاتا ہوں۔ میں نے دل میں کہا، دیر کردی مہرباں۔
اب بات پینٹگنز اور نمائشوں سے زیادہ دواؤں اور ڈاکٹروں کی ہونے لگی۔
چند سال پہلے ان کے گھر گئی کہ انھوں نے آدھے گھر کو اسٹوڈیو اور گیلری بنا لیا تھا۔ چند باتوں کے بعد کہنے لگے،’’تم کو پتا ہے میرے ساتھ کیا ہوا۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا،’’کیا اغوا ہوگئے تھے؟‘‘ زور سے قہقہہ لگا کے جواب دیا،’’کچھ ملتی جلتی واردات ہوئی تھی۔‘‘ کیا مطلب؟ سہج سہج انھوں نے ڈی ایس پی راؤ انوار کے دو تین پولیس موبائلز کے ساتھ گھر آنے، گیلری میں دھماچوکڑی کرنے، مختلف پینٹگنز کے اٹھانے، بنا ادائی گاڑیوں میں ڈالنے اور مطالبہ کرنے پر ایک نام ور سیاست داں کی پسندیدگی کا حوالہ دینے کا مکمل قصہ سنایا۔
میں نے بے چینی سے پوچھا،’’کم بختوں نے کچھ نہیں دیا۔‘‘ دھیمے سے کہا،’’بہت حجت کے بعد ساڑھے تین لاکھ، میری پینٹنگز تو پندرہ سولہ لاکھ کی لے گئے۔‘‘
میں نے غصے سے کہا تمہیں پریس کانفرنس کرنی چاہیے تھی۔
’’میں یہ سب کام نہیں کر سکتا۔ بس میں نے گارڈ بٹھا دیے ہیں اور بنا اطلاع آنے والوں سے نہیں ملتا، گارڈ کہہ دیتے ہیں میں گھر پر نہیں ہوں، گیلری بند ہے۔‘‘
باتیں اور یادیں ہیں کہ پرے باندھے چلی آرہی ہیں۔
مشکور بہت ہی منکسر المزاج انسان تھے۔ کبھی کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہتے تھے۔
میرے خیال میں وہ پاکستان کے واحد مصور تھے جن کے ہاں ہر آرٹسٹ کا کام آویزاں نظر آتا ہے۔ وہ بہت فخریہ کہتے تھے میں اپنے ہم عصروں کا کام خریدتا ہوں۔ اگر ہم ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی نہ کریں گے تو پھر کون کرے گا۔
گذشتہ چند سالوں سے گردے کی صفائی کے عمل سے گزرنے کے باعث ان کے کام کی رفتار خاصی متاثر ہوئی تھی۔ پینٹنگز کا سائز چھوٹا ہوگیا تھا، رفتار دھیمی ہوگئی تھی، نیا کام کم کر رہے تھے۔
مشکور کا کام مشکور ہی کا تھا، پاکستان کے سیکڑوں خوش حال گھروں کی دیواریں ان کے کام سے مزین ہیں۔
موت برحق ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ ہم پیدا ہی مرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ پھر بھی کچھ کا مرنا عجیب سا خلاء چھوڑ جاتا ہے۔ مشکور رضا تم بھی ان ہی میں سے ایک ہو۔