استقبالِ رمضان۔۔۔۔مگرکیسے؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
حضرت سلمان فارسیؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے شعبان کی آخر تاریخ میں ہم لوگوں کو وعظ فرمایا کہ تمہارے اوپر ایک مہینہ آرہا ہے جو بہت بڑا مہینہ ہے بہت مبارک مہینہ ہے۔
اس میں ایک رات ہے (شب قدر) جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے اللّہ تعالٰی نے اس کے روزے کو فرض فرمایا اور اس کے رات کے قیام کو (یعنی تراویح) کو ثواب کی چیز بنایا ہے جو شخص اس مہینے میں کسی نیکی کے ساتھ اللّہ کا قرب حاصل کرے ایسا ہے جیسا کہ غیررمضان میں فرض کو ادا کیا اور جو شخص اس مہینے میں کسی فرض کو ادا کرے گا وہ ایسا ہے جیسا کہ غیررمضان میں ستر فرض ادا کرے۔
یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے۔ اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے جو شخص کسی روزے دار کا روزہ افطار کرائے گا اس کے لیے گناہوں کے معاف ہونے اور آگ سے خلاصی کا سبب ہوگا اور روزہ دار کے ثواب کی مانند اس کو ثواب ہوگا، مگر اس روزہ دار کے ثواب سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا۔
صحابہؓ نے عرض کیا: یارسول اللّہ (ﷺ) ہم میں سے ہر شخص تو اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ (پیٹ بھر کھلانے پر موقوف نہیں) یہ ثواب تو اللّہ جل شانہ ایک کھجور سے کوئی افطار کرادے یا ایک گھونٹ لسی پلادے اس پر بھی مرحمت فرما دیتے ہیں۔
یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ اللّہ کی رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آگ سے آزادی ہے جو شخص اس مہینے میں ہلکا کردے اپنے غلام (وخادم) کے بوجھ کو حق تعالٰی شانہ اس کی مغفرت فرماتے ہیں اور آگ سے آزادی فرماتے ہیں اور چار چیزوں کی کثرت رکھا کرو جن میں دو چیزیں اللّہ کی رضا کے واسطے اور دو چیزیں ایسی ہیں جن کا تمہیں کوئی چارہ کار نہیں۔ پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دوچیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور آگ سے پناہ مانگو۔ جو شخص کسی روزہ دار کو پانی پلائے حق تعالٰی (قیامت کے دن) میرے حوض سے اس کو ایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی۔
ماہ رمضان۔۔۔ یہ دونوں عربی زبان کے الفاظ ہیں۔۔۔ ’’ماہ‘‘ کا معنی مہینہ اور رمضان کے معنی گرمی ۔۔۔۔حرارت۔۔۔روشنی اور جلا بخشنے کے ہیں۔
اس سے متعلق بہت سے اقوال ہیں:
یہ رمض الصائم سے ہے یعنی روزے کے سبب روزے دار کے معدے میں بھوک پیاس کی گرمی پیدا ہوتی ہے اس سے روزے دار کا باطن مضبوط ہوتا ہے۔
انسانی دل حرارت، روشنی اور گرمی پاتے ہیں۔ دلوں کی غفلت سستی اور ٹھنڈک دور ہوجاتی ہے۔
یہ رمضت النصل سے ہے یعنی تیز اور نیزے کی دھار کو دو پتھروں کے درمیان کوٹ کر تیز کیا جاتا ہے ۔
رمضان بھی ایسا آلہ ہے جو مسلمان کے ایمان کو ایسا تیز کر دیتا ہے کہ پورا سال ایمان صحت مند رہتا ہے۔ اس کی گرمی مومن کے باطن وظاہر کو سنوار کر چاک و چوبند کردیتی ہے۔ پورا سال جو گناہوں میں جکڑا رہتا ہے۔ رمضان میں وہ قرب الی للہ پاکر صبغتہ اللہ میں رنگ جاتا ہے۔
جس طرح اللّہ پاک نے اپنی مخلوقات میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔ اسی طرح دنوں میں بعض کو بعض پر جگہوں میں بعض کو بعض پر راتوں میں افضل رات لیلۃ القدر اور مہینوں میں بعض کو بعض پر جیسے اشھر حرم۔
حرمت والے مہینے میں رجب کے شروع ہوتے ہی آپﷺ اس دعا کا اہتمام کیا کرتے تھے۔
اللھم بارک لنا فی رجب وشعبان وبلغنا رمضان (اخرجہ الطبرانی)
یہ بہت ہی مبارک اور قیمتی دعا ہے، کیوںکہ ہم سب اللّہ کی رحمتوں اور برکتوں کے محتاج ہیں اور رمضان کو پانے کے لیے ایمان کی سلامتی اور قوت و طاقت لازمی ہے، جو اس دعا کی کثرت اور لگن سے پڑھنے کی برکت سے نصیب ہوسکتی ہے۔
حضرت عبادہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اکرمﷺ نے رمضان المبارک کے قریب ارشاد فرمایا کہ رمضان کا مہینہ آگیا ہے جو بڑی برکت والا ہے۔ حق تعالٰی شانہ اس میں تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اپنی رحمت خاصہ نازل فرماتے ہیں، خطاؤں کو معاف فرماتے ہیں، دعا کو قبول کرتے ہیں، تمہارے تنفس کو دیکھتے ہیں اور ملائکہ سے فخر کرتے ہیں پس اللّہ کو اپنی نیکی دکھاؤ۔ بدنصیب ہے وہ شخص جو اس مہینے میں بھی اللّہ کی رحمت سے محروم رہ جائے۔ (الطبرانی)
جب ہمارے ہاں کسی عزیز کی آمد ہوتی ہے تو اس کے آنے سے پہلے تیاریاں مکمل رکھتے ہیں۔ گھر صاف ستھرا کرتے ہیںکہ کہیں کوئی گندگی دیکھ کر گھن نہ محسوس کرے، اس کے لیے رہائش کا انتظام کیا جاتا ہے، مینیو ترتیب دیا جاتا ہے کہ کہیں مہمان کی ذرہ نوازی میں کمی کوتاہی نہ ہوجائے۔ اپنے آپ کو بھی پرفیکٹ رکھنا پڑھتا ہے۔ جب تک مہمان رہتا ہے ہم اسی ٹینشن میں رہتے ہیں کہ کہیں کوئی گڑبڑ نہ ہوجائے۔ کہیں کوئی نقص نہ رہ جائے۔ مہمان کو کوئی بات نا گوار نہ گزرے۔
اے کاش ہم ماہ رمضان کا استقبال بھی اس سے بھی شان دار انداز میں کیا کریں۔ یہ مہمان بھی تو روز نہیں آتا ہے بلکہ سال میں ایک بار آتا ہے، اپنے سنگ ڈھیروں انعامات لاتا ہے۔
اس خاص مہمان کا خاص خیال رکھا جائے، احترام کیا جائے، اس ماہ کی برکتوں، رحمتوں، عظمتوں اور رفعتوں کا حصول، رب العالمین سے گناہوں کی مغفرت، رشدوہدایت کی طلب کو لازم پکڑیں۔ اس ماہ کے استقبال اس انداز سے کریں کہ ہر قسم کی رنجشوں سے پاک ہوں۔ اللّہ، بندے اور خصوصاً والدین ہم سے راضی ہوں، محبت اور امن کی فضا ہموار ہو، گناہوں سے توبہ کی ہو،آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم ہو، ظاہر اور باطن سنوارے ہوں، تمام فرائض، واجبات، سنن اور نوافل پورے ہوں بلکہ جاری ہوں، نمازوں میں چستی ہو، ناجائز تعلقات کا خاتمہ ہو۔ غرض ہر قسم کے فتنے سے پاک ہوں، کیوںکہ ہم اس نبی ﷺ کی امت ہیں جس پر رب کے ان گنت احسانات ہیں۔ رمضان میں بھی حق تعالٰی نے ہم پر انعامات و احسانات کی بارش فرمائی۔
اسی طرح نبی کریم ﷺ نے رمضان المبارک کی پانچ خصوصیتیں ارشاد فرمائیں جو امت مسلمہ کے لیے اللّہ رب العزت کی طرف سے مخصوص انعام ہوئیں ۔
حضرت ابوہریرہؓ نے حضور اکرم ﷺ سے نقل کیا کہ میری امت کو رمضان شریف کے بارے میں پانچ چیزیں مخصوص طور پر دی گئی ہیں جو پہلی امت کو نہیں ملی ہیں۔
ان کے منہ کی بدبو اللّہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
ان کے لیے دریا کی مچھلیاں تک دعا کرتی ہیں اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں۔
جنت ہر روز ان کے لیے آراستہ کی جاتی ہے۔ پھر حق تعالٰی شانہ فرماتے ہیں کہ قریب ہے کہ میرے نیک بندے (دنیا کی) مشقیں اپنے اوپر پھینک کر تیری طرف آئیں۔
اس میں سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں کہ وہ رمضان میں ان برائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے ہیں۔
رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کے لیے مغفرت کی جاتی ہے۔ صحابہ ؓنے عرض کیا کہ شب مغفرت شب قدر ہے۔ فرمایا نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دے دی جاتی ہے (البیہقی)
جہاں انعامات و اکرامات کا ذکر کیا وہاں رمضان المبارک کا زمانہ غفلت اور معاصی میں۔ بداعمالیوں اور کوتاہیوں میں گزارنے والوں کے لیے اللّہ کے حبیب ﷺ نے بددعا فرمائی۔
کعب بن عجرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ منبر کے قریب ہوجاؤ۔ ہم لوگ حاضر ہوگئے جب حضورﷺ نے پہلے درجہ پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا آمین۔ جب دوسرے پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا آمین۔ جب تیسرے پر قدم مبارک رکھا تو پھر فرمایا آمین۔ جب آپ خطبے سے فارغ ہو کر نیچے اترے تو ہم نے عرض کیا: ہم نے آج آپ سے (منبر پر چڑھتے ہوئے) ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔
آپﷺ نے ارشاد فرمایا اس وقت جبرائیل علیہ السلام میرے سامنے آئے تھے (جب پہلے درجے پر میں نے قدم رکھا تو) انہوں نے کہا ہلاک ہوجائے وہ شخص جس نے رمضان کا مبارک مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی۔ میں نے کہا آمین۔ پھر جب دوسرے درجہ پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا کہ ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کے سامنے آپ کا ذکر مبارک ہو اور وہ درود نہ بھیجے میں نے کہا آمین۔ جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کی عمر کو پہنچے اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کرائے، میں نے کہا آمین۔ (الطبرانی)
درمنثور میں حضرت عائشہ ؓ سے نقل کیا ہے، جب رمضان آتا تھا تو نبی کریم ﷺ کا رنگ بدل جاتا تھا، دعا میں عاجزی فرماتے تھے اور خوف غالب ہوجایا کرتا تھا دوسری روایت میں فرماتی ہیں کہ رمضان تک بستر پر تشریف نہیں لاتے تھے۔
ایک روایت میں ہے کہ حق تعالٰی شانہ رمضان میں عرش کے اٹھانے والے فرشتوں کو حکم فرما دیتے ہیں کہ اپنی اپنی عبادت چھوڑ دو اور روزہ داروں کی دعا پر آمین کہا کرو۔ بہت سی روایات میں رمضان المبارک کی دعاکا خصوصیت سے قبول ہونا معلوم ہوتا ہے۔
حضرت عمر ؓ حضور نبی کریم ﷺ سے نقل فرماتے ہیں کہ رمضان میں اللّہ کو یاد کرنے والا شخص بخشا بخشایا ہے اور اللہ سے مانگنے والا نامراد نہیں رہتا۔
حضور نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ تیں آدمیوں کی دعا رد نہیں کی جاتی۔ ایک روزہ دار کی افطار کے وقت دوسرے عادل بادشاہ کی دعا تیسرے مظلوم کی جس کو حق تعالٰی شانہ بادلوں سے اوپر اٹھا لیتے ہیں اور آسمان کے دروازے اس کے لیے کھول دیتے ہیں اور ارشاد ہوتا ہے کہ تیری ضرور مدد کروں گا، گو (مصلحت سے) کچھ دیر ہوجائے۔ (الترمذی شریف)
رمضان شریف کے استقبال سے الوداع تک کوشش یہ رکھیں کہ اس ماہ محبت کو احسن طریقے سے گزاریں۔ اس کی تجلیات و برکات کی برسات کو سمیٹیں گناہوں سے پرہیز کریں اور سابقہ گناہوں پر مغفرت طلب کریں، تمام غیرضروری امور کو مؤخر کردیں، عبادات کی ترتیب بنائیں، روزمرہ کے معمولات کو سمیٹ کر عبادات کو ترجیح دیں، دعاؤں کا خصوصی اہتمام کریں، رب سے مناجات کریں، نیکی اور بھلائی کے کاموں کی طرف دوڑیں۔ اللّہ پاک ہم سب کو ماہ رمضان کو اس طریقے سے گزارنے کی توفیق عطا فرمائے جیسا کہ اس کا حق ہے۔ آمین ثم آمین۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
81فیصد
یہ دو تین سال پہلے کی بات ہے‘ میرے موبائل فون کی بیٹری جلد ختم ہو جاتی تھی‘ میں چارج کرتا تھا اور یہ گھنٹہ بھر میں دوبارہ ختم ہو جاتی تھی اور میں اٹھ کر چارجر کی تلاش شروع کر دیتا تھا‘ میں تنگ آکر فون مکینک کے پاس چلا گیا‘ اس نے فون دیکھا اور کہا ’’سر بیٹری کیوں نہ ختم ہو آپ نے سوا سو پیجز کھولے ہوئے ہیں‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’کیا مطلب؟‘‘ اس کا جواب تھا ’’آپ ایپس اور پیجز کھولنے کے بعد انھیں بند نہیں کرتے‘ یہ چلتے رہتے ہیں اور آپ کے فون کی 81 فیصد انرجی کھا جاتے ہیں یوں آپ کے پاس صرف 19فیصد انرجی بچ جاتی ہے اور یہ تین چار کالز کے بعد ختم ہو جاتی ہے‘‘ اس نے اس کے بعد تمام غیر ضروری ایپس اور پیجز ڈیلیٹ کر دیے‘ میری بیٹری اس کے بعد کبھی ختم نہیں ہوئی‘ میں رات کو فون چارج کرتا ہوں اور یہ سارا دن چلتا رہتا ہے۔
میں نے اس کے بعد اپنی زندگی کا جائزہ لیا تو پتا چلا جاپان کے ہیرو اور مجھ میں ایپس کا فرق ہے‘ میری زندگی میں اسٹریس کی بے شمار ایپس کھلی ہوئی ہیں‘ میری توانائی کا زیادہ تر حصہ یہ کھا جاتی ہیں اور یوں میرے پاس کام کے لیے بہت معمولی انرجی بچتی ہے مثلاً میں ڈرائیو نہیں کرتا‘ کیوں؟کیوں کہ شہر کی ٹریفک بے ہنگم ہے‘ دائیں بائیں دونوں جانب سے گاڑیاں نکلتی ہیں۔
اووراسپیڈنگ معمول ہے‘ سگنل توڑنا اور ہارن بجانا ہر شخص اپنا حق سمجھتا ہے اور کس وقت کس چوک پر ٹریفک بند ہو جائے یا کس راستے پر کس وقت کون کنٹینر لگا دے یا کون کس وقت کس شاہراہ پر لاش رکھ کر اسے بند کر دے یا پھر کون کس وقت گاڑیوں پر لاٹھیاں برسانا شروع کر دے کوئی نہیں جانتا لہٰذا میرے ذہن میں ہر وقت ٹریفک کے خوف کی ایپ کھلی رہتی ہے‘ دوسرا مجھے خطرہ ہوتا ہے میں جہاں جاؤں گا مجھے وہاں پارکنگ نہیں ملے گی اور اگر مل بھی گئی تو وہاں میری گاڑی محفوظ نہیں ہو گی‘ کوئی نہ کوئی گاڑی چوری کر لے گا یا کھڑی گاڑی کو ٹھوک جائے گا یا پھر اسے چھیل جائے گاچناں چہ میں ڈرائیور کے بغیر گھر سے نہیں نکل سکتا لیکن یہاں میرے ذہن میں ڈرائیور کی ایک ایپ بھی موجود ہے۔
میرا ڈرائیور میری گاڑی وقت پر صاف کرے گا یا نہیں‘ یہ اس کا آئل بھی ٹھیک تبدیل کرے گا یا نہیں اور یہ کہیں کھڑی گاڑی کا اے سی چلا کر تو نہیں سویا رہے گا یا یہ اسے لاوارث چھوڑ کر چائے پینے یا دہی بھلے کھانے تو نہیں چلا جائے گا‘ میرے ذہن میں ہر وقت یہ ایپ بھی کھلی رہتی ہے اور یہ میری انرجی کا بہت سا حصہ بھی ضایع کرتی رہتی ہے جب کہ میرے مقابلے میں جاپان کے ہیرو کی زندگی میں یہ ایپ نہیں ہے‘ یہ اپنے فلیٹ سے چل کر دو منٹ میں ٹرین اسٹیشن پہنچ جاتا ہے‘ فون ٹچ کر کے پلیٹ فارم پر آ جاتا ہے۔
وقت پر ٹرین آتی ہے اور یہ مزے سے اس میں سوار ہو کر وقت پر اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے اور اگر کبھی اسے اپنی گاڑی پر دفتر جانا پڑے تو اسے سارا راستہ رواں ٹریفک ملتی ہے‘ کوئی سڑک بند نہیں ہوتی‘ کسی چوک میں کنٹینر نہیں ہوتا‘ کوئی شخص رش ڈرائیونگ نہیں کرتا اور یہ جب دفتر پہنچتا ہے تو وہاں پارکنگ بھی ہوتی ہے اور اس پارکنگ میں اس کی گاڑی سو فیصد محفوظ ہوتی ہے‘ اس پر سکریچ پڑتے ہیں اور نہ ہی اسے کوئی ٹھوک جاتا ہے اور اگر کبھی خدانخواستہ اس کا ایکسیڈنٹ ہو جائے تو انشورنس کمپنی اسے گاڑی ٹھیک کرا دیتی ہے یا پھر اسے نئی گاڑی دے دیتی ہے اور یوں اس کا نقصان‘ نقصان نہیں رہتا چناں چہ اس کے ذہن میں ’’میری گاڑی کا کیا بنے گا؟‘‘ کی ایپ کبھی نہیں کھلتی اور یہ اپنی ساری بیٹری کام پر خرچ کرتا ہے۔
ہیرو کی زندگی بے شمار دوسری ایپس سے بھی آزاد ہے‘ مثلاً اس کے ذہن کے کسی کونے میں ذرا سا بھی یہ خیال نہیں آتا میں جو دودھ پی رہا ہوں یہ ناخالص ہو سکتا ہے‘ یہ کیمیکل سے بنا ہو گا یا اس میں جوہڑ کا گندا پانی ہوگا‘ اس کی میز پر رکھا منرل واٹر منرل نہیں ہے‘ اس کا شہد اصلی نہیں ہوگا‘ اس کی دوائیں جعلی ہوں گی یا ڈاکٹر اس کا غلط گردہ نکال دے گا یا ڈاکٹر کی ڈگری اصلی نہیں ہو گی یا یہ اسے سٹیرائیڈ دے دے گا یا بلاوجہ دس دوائیں لکھ دے گا یا کیمسٹ کی دکان سے اسے جعلی یا ایکسپائرڈ دوا ملے گی۔یہ سوچ بھی نہیں سکتا اس کی براؤن بریڈ اصل میں وائیٹ ہے اور اسے رنگ ڈال کر براؤن کیا ہو گا‘ اس کی چائے‘ چائے نہیں کیکر کی چھال کا برادہ ہے‘ اس کا بسکٹ پرانا ہے اور اس میں سے کیڑے نکل آئیں گے۔
یہ فائیو اسٹار ہوٹل میں جو آملیٹ کھا رہا ہے وہ گندے انڈے کا بنا ہوگا یا اس کی پلیٹ کا گوشت مری ہوئی مرغی یا ٹھنڈی مرغی کا ہوگا اور اس میں سے بو بھی آئے گی اور کیڑے بھی نکل آئیں گے یا اسے جس کام کے لیے ہائر کیا جائے گایہ وہ کام سرے سے نہیں جانتا ہو گا یا یہ سوچتا ہو گا میں نے اگر اے سی یا ٹی وی لگوانا ہے تو پھر مجھے لگانے والے کے سر پر کھڑا ہونا پڑے گا کیوں کہ یہ جاتے جاتے میری کوئی اور چیز توڑ جائے گا یا دیوار گندی کر جائے گا‘ اسے یہ خطرہ بھی نہیں ہوگا اس کا پلمبر اصل میں پلمبر نہیں یا اس کا الیکٹریشن‘ الیکٹریشن اور پینٹر اصل میں پینٹر نہیں یا اس کی گاڑی میںائیر بیگز نہیں ہوں گے یا گاڑی کا مکینک مکمل نالائق اور ان پڑھ ہو گا یا اس کے گھر کی بجلی اچانک چلی جائے گی یا یہ دس پندرہ بیس کے وی کے سولر پینلز لگا لے گا تو گورنمنٹ اچانک پالیسی بدل لے گی۔
حکومت اس کے اکاؤنٹس سے پیسے نکال لے گی یا اس کی نوکری اچانک چلی جائے گی یا اس کے سامنے موجود شخص کا سی وی غلط ہو گا اور یہ ایم بی اے کے باوجود بزنس سے مکمل نابلد ہو گا اور یہ کسی بھی وقت جاب چھوڑ کر چلا جائے گا یا کمپنی سے ایڈوانس لے کر غائب ہو جائے گا یا یہ دفتر کے اوقات میں سارا دن موبائل فون پر لگا رہے گا یا کوئی شخص ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر گاڑی لے کر سڑک پر آ جائے گا یا ’’ون ویلنگ‘‘ کرے گا یا اووراسپیڈ ہو گا۔
ہیرو یہ بھی نہیں سوچ سکتا اس کے گھر کی گیس اچانک غائب ہو جائے گی یا پٹرول پمپس سے پٹرول اچانک ختم ہو جائے گا یا ملک میں اچانک چینی مہنگی ہو جائے گی یا آٹا غائب ہو جائے گا یا پولیس اسے اچانک اٹھا لے جائے گی یا یہ ایجنسیوں کے ہتھے چڑھ جائے گا اور مکمل طور پر مسنگ ہو جائے گا یا ریاست اسے سڑکوں پر ذلیل کرے گی یا اس کا ووٹ کسی دوسرے امیدوار کے باکس سے نکل آئے گا یا مالک مکان اسے کسی بھی وقت مکان سے نکال دے گا یا اس کی پراپرٹی پر کوئی دوسرا شخص قبضہ کر لے گا یا اس کا بچہ میدان میں کھیلتا ہوا اغواء ہو جائے گا اور اسے تاوان ادا کرنا پڑے گا یا پولیس اس کی عزت نفس کچل کر رکھ دے گی یا اسے عدالت سے انصاف نہیں ملے گا یا پھر حکومت عدالتوں میں اپنی مرضی کے جج تعینات کر کے مرضی کے فیصلے لے لے گی یا کوئی سیاسی جماعت کسی بھی وقت سرکاری املاک توڑ دے گی یا سوشل میڈیا پر کسی بھی وقت ہیرو کی ٹرولنگ شروع ہو جائے گی یا کسی بس‘ ٹرین یا ریستوران سے اس کا بیگ یا موبائل فون چوری ہو جائے گا یا کسی گلی میں کوئی پستول دکھا کر اس سے موبائل اور پرس چھین لے گا یا اس کے ٹیمپل یا مسجد میں بم دھماکا ہو جائے گا یا اس کا مولوی اسے کسی دوسرے فرقے کے خلاف اکسا دے گا یا اس پر گستاخی کا الزام لگا کر اسے زندہ جلا دیا جائے گا یا یہ بے گناہی کے باوجود جیلیں بھگتے گا یا اس کی گھر کی ٹونٹی سے پانی نہیں آئے گا یا اسے کسی پبلک پلیس پر واش روم نہیں ملے گا یا اس کی فلائیٹ وقت پر نہیں اڑے گی یا درزی اس کے کپڑے خراب کر دے گا یا پھر ڈرائی کلین کے دوران اس کے کپڑوں پر استری کا نشان پڑ جائے گا‘ ہیرو کے ذہن پر ٹینشن کی کوئی ایپ نہیں کھلتی‘ اس پر کوئی اسٹریس نہیں آتا‘یہ ذہنی طور پر مکمل آزاد رہتا ہے۔
فری مائینڈ‘ یہ کام کرتا ہے اور اپنی گھریلو زندگی کو انجوائے کرتا ہے جب کہ میرے ذہن میں خوف‘ غیر یقینی‘ عدم استحکام اور انہونی کے ہزاروں پیجز اور درجنوں ایپس کھلی ہوئی ہیں اور یہ دن میں میری 81 فیصد بیٹری کھا جاتی ہیں‘ میرے پاس صرف 19 فیصد توانائی بچتی ہے اور اس میں سے بھی 18 فیصد’’ میرے بچوں کا کیا بنے گا؟ ان کا مستقبل کیا ہوگا؟ میں انھیں جلد سے جلد کیسے سیٹل کر سکتا ہوں اور کیا یہ میری دکان‘ میری فیکٹری‘ میرا بزنس یا میری جائیداد سنبھال سکیں گے وغیرہ وغیرہ‘‘ جیسے خوف میں ضایع ہو جاتی ہے یوں میرے پاس باقی صرف ایک فیصد بیٹری بچتی ہے لہٰذا سوال یہ ہے میں اس ایک فیصد سے کیا اکھاڑ لوں گا‘ کیا توڑ لوں گا اور میں کیا تبدیل کر لوں گا لہٰذا اگر ریاست مجھ سے کام لینا چاہتی ہے تو اسے پہلے خوف کی یہ ساری ایپس اور غیریقینی کے یہ تمام پیجز بند کرنا ہوں گے تاکہ میرا مائینڈ فری ہو سکے اور میں جاپان کے ہیرو کی طرح پرفارم کر سکوں ورنہ میں روزانہ یہ سوچ سوچ کر مر جاؤں گا ’’میرا شہد اصلی ہے یا جعلی اور میری میز پر پڑا دودھ کیا واقعی بھینس نے دیا تھا؟‘‘۔