UrduPoint:
2025-04-17@14:17:32 GMT

جرمنی میں جمہوریت کس طرح اتنی مضبوط ہوئی؟

اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT

جرمنی میں جمہوریت کس طرح اتنی مضبوط ہوئی؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 فروری 2025ء) جرمنی کی سولہ ریاستیں ہیں اور ان سب میں ایک ساتھ ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔ جرمنی کی تراسی ملین آبادی میں تقریباً اکسٹھ ملین افراد حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل ہیں۔

جرمنی ابتداء میں تین سو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم تھا لیکن جب نیپولین نے اقتدار پر قبضہ کیا تو اُس نے ریاستوں کی تعداد کم کر کے تیس (30) کر دی۔

1871ء میں جب پُروشیا کے چانسلر اُوٹو فون بسمارک نے جرمنی کو مُتحد کیا تو رائشٹاگ کے الیکشن میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی جو مارکس کے نظریے کی حامی تھی، اکثریت سے منتخب ہوئی۔ بسمارک نے پارٹی کی مقبولیت کو روکنے کے لیے فلاحی ریاست کا پلان نافذ کیا۔ اس کے بعد جرمنی میں رائشٹاگ کے بارہ جنرل الیکشن ہوئے۔

(جاری ہے)

پہلی عالمی جنگ جس میں جرمنی کو شکست ہوئی تھی، اس کے بعد معاشی بحران کی وجہ سے مہنگائی میں بے حد اضافہ ہو گیا تھا۔

اِن حالات میں جرمن سیاست میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں اور ہٹلر کی رہنمائی میں نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی کی مقبولیت بڑھی۔ 1933ء کے جنرل الیکشن میں ہٹلر نے جارحانہ پراپیگینڈا کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دن میں وہ تقریباً تین شہروں میں خطاب کرتا تھا۔ وہ اس تیز ترین سفر کے لیے جہاز استعمال کرتا تھا۔ جلسہ ایک چھوٹے ہال میں منعقد ہوتا تھا تا کہ حال لوگوں سے بھر جائے اور جن کو حال میں جگہ نہ ملے وہ باہر کھڑے رہیں۔

ہٹلر کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کم از کم 15 منٹ کی تاخیر سے جلسہ گاہ میں آتا تھا تا کہ لوگ اُس کا انتظار کریں۔ انتخابات میں نازی پارٹی کو کامیابی ہوئی اور جرمنی کے صدر پاؤل فان ہنڈن برگ نے ہٹلر کو جرمنی کا چانسلر بنا دیا۔ جرمنی کے صدر کے انتقال کے بعد اُس نے صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ جب تک ہٹلر اقتدار میں رہا جرمنی میں کوئی انتخابات منعقد نہیں ہوئے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (SDP)، کرسچن ڈیموکریٹک یونین (CDU) اور لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (LDP) نے انتخابات میں حصہ لیا۔ جنگ کے بعد کونراڈ آڈیناؤر جرمنی کے پہلے چانسلر بنے۔ جرمنی نے ہٹلر کی آمریت اور جنگ کی تباہی کے نتیجے میں بہت کچھ سیکھا۔ آمریت کو روکنے کے لیے معاشرے کے ہر شعبے میں جمہوری روایات کو نافذ کیا۔ چاہے تعلیمی ادارے ہوں، سرکاری دفاتر ہوں یا کسی پلازہ کے رہائشی ہوں یہ ہر مسئلے کے لیے اسمبلی بُلا کر بحث و مُباحثہ کے زریعے اور اکثریتی ووٹوں کے ذریعے فیصلے کرتے رہے۔

یہ روایت بھی ہے کہ اگر کوئی سیاستدان یا چانسلر غلطی کرے تو اُس کا احتساب کیا جاتا ہے۔ سیاست کے سلسلے میں جرمنی کا میڈیا بہت حساس ہے۔ ولی برانٹ جنہیں جرمنی کا قابل ترین چانسلر کہا جاتا تھا، انہوں نے اس خبر کے بعد استعفیٰ دے دیا کہ اُن کے اسٹاف میں مشرقی جرمنی کا ایک مخبر شامل ہو گیا تھا۔ بہت سے سیاستدانوں نے تو اپنے خلاف اسکینڈلز سامنے آنے یا تنقید کے بعد اپنے عہدوں سے استعفے دے دیے۔

ابھی حال میں کرسٹینے لامبریشٹ نے وزارت دفاع کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ انہیں کئی معاملات میں تنقید کا سامنا تھا۔ سابق صدر کرسٹیان وولف نے بھی بدعنوانی کے الزامات کے بعد اپنا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔ اسی طرح ماضی میں وزیر دفاع رہنے والے کارل تھیوڈور سو گٹن برگ بھی سرقے کے الزامات کے بعد اپنا منصب اور سیاست دونوں ہی چھوڑ گئے تھے۔

جرمنی کے الیکشن شفاف ہوتے ہیں۔ اُمیدوار میڈیا کو اپنے پراپیگینڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جلسے جلوس بہت منظم انداز میں منعقد ہوتے ہیں۔رائے دہی کے لیے اتوار کے دن رکھا جاتا ہے۔ زیادہ تر پولنگ اسٹیشنز تعلیمی اداروں میں بنائے جاتے ہیں اور کسی بھی پولنگ بوتھ کے باہر کسی بھی سیاسی جماعت کا کوئی کیمپ نہیں لگا ہوتا۔شہری آتے جاتے ہیں اور خاموشی سے اپنا ووٹ ڈال کر چلے جاتے ہیں۔

انتخابات سے قبل لگائے جانے والے اندازے اکثر درست ثابت ہوتے ہیں۔ انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد ایک دوسرے پر الزام تراشی بھی نہیں کی جاتی اور ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو بخوشی تسلیم بھی کیا جاتا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جرمنی کا جاتے ہیں جرمنی کے کے بعد ا جاتا ہے کے لیے

پڑھیں:

راشن خیال قوم اور ملاوٹی جمہوریت

ایوب خان کا مارشل لا ہو یا جنرل یحیٰ کا قلیل مدتی اقتدار، ذوالفقار علی بھٹو کا دورِ صدارت ہو یا وزارتِ عظمی کا دور، جنرل ضیا کا 90 دنوں میں انتخابات کا وعدہ کر کے ایک عشرے کا نافذ کردہ مارشل لا ہو یا 1987 سے 1999 تک اقتدار میں آنے والی بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان کھیلی جانے والی میوزکل چیئرز کا کھیل، مشرف کا بطور سویلین صدر ختم ہونے والا آمرانہ دور ہو یا نواز شریف کی 2017 میں اور عمران خان کی 2021 میں حکومتیں ختم کرنے کے بعد آج تک جاری رہنے والا ہائیبرڈ نظام ۔۔۔۔

پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد ان 78 سالوں میں سب کچھ آزما لیا، نہیں آزمایا تو خالص جمہوریت کا وہ غیر آزمودہ طرزِ حکمرانی جس کے سبب پاکستان کے بعد معرضِ وجود میں آنے والے ممالک آج ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔

ہمارے بڑے جب ہم جتنے بڑے تھے تو ان کا دعوی ہے کہ ایوب خان کا دورِ اقتدارسب سے سنہرہ دور تھا۔ اس دور میں نہ صرف تربیلا اور منگلہ ڈیم بنے بلکہ اشیا خورونوش کی قیمتیں انتہائی کم تھیں۔

جنرل ایوب نے 1954 میں ہونے والے سیٹو معاہدے کے نتیجے میں ملنے والے ڈالرز سے عوام کو سستے راشن کی فراہمی اور ڈیموں کی تعمیر تو یقینی بنائی، لیکن اس پاداش میں پاکستانی قوم یہ بھول گئی کہ قوموں کو روشن خیال ہونا چاہیے ناکہ راشن خیال۔

راشن خیالی میں قوم بھول گئی کہ دیگر ممالک میں رائج جمہوریت نے ان قوموں کو آج کی کامیاب ترین قومیں بنے میں مدد فراہم کی۔ ایوب نے صرف قوم کو سستے راشن کی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا اور پاکستان کی آزادی کے بعد پہلے 20 سالوں میں جمہوریت کے ملک میں پہنپنے ہی نہ دیا جس کے سبب آج تک قوم جمہوریت کے لیے ترستی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ایوب کی حکومت کے خاتمے کی ایک مبینہ وجہ چینی کی قیمت میں اضافہ بنی۔

ایوب کے بعد جنرل یحی کا دور ایسا دور تھا جس میں منعقد ہونے والے 1970 کے انتخابات کو پاکستان کے منصفانہ ترین انتخابات مانا جاتا ہے، لیکن اس کے بعد ہوا کیا؟ ملک ٹوٹ گیا اور اس کا ذمہ دار مجیب اور بھٹو کو ٹھرایا گیا۔ اس کے باوجود کے اقتدار جنرل یحیی کے پاس تھا جو چاہتا تو اپنے زیرِ اثر بھٹو کو قائل کرکے مجیب کی حکومت بنوا سکتا تھا لیکن۔۔۔

جنرل ضیا کے لگ بھگ ایک عشرے کے دور میں جہاں سوویت یونین کے خلاف پاکستانی فوج کی خدمات کرائے پر دینے پر ملک کو کثیر تعداد میں ڈالر ملے، وہیں دوسری طرف ملک میں انہی ڈالروں کی بدولت قدرے خوشحالی قائم رہی۔

قوم کو یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ امریکی ڈالروں کے عوض جو طالبان پاکستان بنا رہا ہے، یہی طالبان ہمارے دشمن بنیں گے۔ قوم کو جہاد کے لیے قائل کیا گیا اور یوں جنرل ضیا کا دور ایک ایسے حادثے کی صورت میں ختم ہوا کہ انہیں دفنانے کے لیے دیگر چند اعضا سمیت سونے کے دانتوں کو دفنانا پڑا۔

بھٹو کے نام نہاد جمہوری دور کے بعد ملک میں ہونے والے 1988 کے انتخابات کے بعد بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان اقتدار کے لیے میوزیکل چیئرز کا کھیل شروع ہوا اور 1999 میں مشرف کے مارشل لا تک دونوں رہنماؤں نے دو دو بار اقتدار کی کرسی حاصل کی۔ لیکن انہی دونوں نے فیصلہ سازوں کی مدد سے ایک دوسرے کو اقتدار کی کرسی سے چلتا کیا۔

قدرت کا نظام کہیں یا عالمی طاقتوں کی منصوبہ بندی۔ مشرف کے اقتدار میں آنے کے دو سالوں بعد ہی نائن الیون ہو گیا۔ پھر کیا تھا۔ اندھے کو کیا چاہیے، دو روٹیاں۔ کیونکہ جب اندھے کو ڈالروں کی صورت میں روٹیاں مل جائیں تو اسے دنیا دیکھ کر کرنا کیا ہے۔

افغانستان میں مشرف دور میں ضیا دور کے دوران تیار کردہ طالبان کے خلاف فوج کرائے پر دینے کے عوض ڈالروں کی ریل پیل ہو گئی۔ سڑکوں پر چمچماتی گاڑیاں نظر آنے لگیں۔ بین الاقوامی فوڈ چینز پہنچ گئیں۔

اس سے قطع نظر کہ امریکا جب افغانستان سے نکلے گا تو طالبان، پاکستان کا کیا حال کریں گے، ڈالروں کی مسلسل فراہمی نے اس راشن خیال قوم کو کسی بھی منطقی نقطے پر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بانجھ کر دیا۔ نجی چینلز کے آنے سے لوگوں میں ایسا شعور آیا کہ آج پوری قوم ہی ٹک ٹاک اور انسٹا گرام پر لگی ہے۔

خیر جو بھی کہیں یا نہ بھی کہیں، کہنے سے فرق کیا پڑتا ہے۔ مشرف نے اکیسویں صدی کی شروعات 2002 میں انتخابات کروا کر کی اور اپنی صدارت میں ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت نے 5 سال مکمل کیے۔ چاہے کچھ عرصے بعد ہی تکنیکی خرابی کی وجہ سے وزیراعظم بدلنے پڑے۔

کہنے کو کہا تو جا سکتا ہے کہ ملک میں کسی حد تک حقیقی جمہوریت محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008 میں ہونے والے انتخابات کے بعد آئی، لیکن چلتی جمہوریت میں فیصلہ سازوں نے جب اپنے فوجی صدر کی حکومت میں پنگا کرنے سے باز نہیں آئے تھے تو اب بھی باز کیسے رہتے۔

اچانک سے عدالت کو خیال آیا کہ وزیراعظم کو سوئس حکام کو خط لکھنا چاہیے، نہیں تو۔۔۔ اور یوں 5 سالہ دور بھی وزیراعظم کی تبدیلی کے بغیر مکمل نہ ہو سکا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اسی دور میں آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینے کی روائت پڑی۔

2013  کے انتخابات کو آر اوز کا الیکشن تو کہا گیا، لیکن عمران خان کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں نے انہیں قبول کر لیا۔ تاہم اگلے سال ہی پنگا کرنے والوں نے عمران خان اور مولانا طاہر القادری کو رشتہ احتجاج میں باندھ دیا اور یوں عمران خان 126 دنوں تک اسلام آباد میں براجمان رہے، جہاں وہ جمِ حقیر سے روزانہ خطاب کرتے اور امپائیر کی انگلی جلد اٹھنے کا اشارہ دیتے۔

خیر یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ نواز شریف 5 سال پورے کرتے۔ آگیا پانامہ اور پھر پنگا کرنے والوں نے کر دیے لانچ اپنے پیادے۔ جس کے بعد 2017 سے ہائبرڈ نظام کی ایسی شروعات ہوئی جو آج تک جاری ہے۔

2018 کے انتخابات جس قدر متنازع تھے لیکن ان پر تنازع 7 جولائی 2024 تک ہی تھا، کیونکہ اس کے بعد 8 فروری کو ہونے والے انتخابات نے ایسے ورلڈ ریکارڈ قائم کیے جنہیں لگتا نہیں آسان ہو گا توڑنا۔

تاہم یہ پاکستان ہے جہاں خالص جمہوریت کے علاوہ تمام اقسام کے حکومتی نظام آزمائے جا چکے ہیں۔ 78 سالوں بعد ہمیں اس نتیجے پر تو پہنچ جانا چاہیے کہ ان سالوں میں جتنے بھی طریقے آزمائے گئے وہ ناکام ثابت ہوئے۔

لہذا کیوں نہ ایک بار خالص جمہوریت کو ہی موقع فراہم کر دیں۔ شائد نتائج دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کامیاب ہو جائیں۔ وگرنہ یہ نظام تو پچھلے 78 سالوں سے چل ہی رہا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

نوید نسیم

متعلقہ مضامین

  • کرہ ارض سے باہر زندگی کا امکان: اب تک کے سب سے مضبوط اشارے
  • جمہوریت اور موروثیت
  • پاکستان: افغان پناہ گزینوں کی خصوصی پرواز سے جرمنی روانگی
  • اداکارہ علیزے شاہ کا نفرت کرنیوالوں کیلئے پیغام
  • جرمنی کا ویزا، پاکستانی شہریوں کے لئے بڑا اعلان
  • شامی ڈاکٹر وطن میں مفت علاج کرنے کے لیے جرمنی سے جانے لگے
  • چین اور ملائیشیا کو اسٹریٹجک روابط کو مضبوط بنانا چاہئے، چینی صدر
  • چین ویتنام کے ساتھ اسٹریٹجک روابط کو مضبوط بنانے کے لئے تیار ہے، چینی صدر
  • راشن خیال قوم اور ملاوٹی جمہوریت
  • فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر (حصہ سوم)