WE News:
2025-02-23@18:29:42 GMT

امن کی تلاش، دنیا سعودی عرب پر کیوں بھروسہ کرتی ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT

گزشتہ ہفتے ریاض میں امریکی وزیر خارجہ اور ان کے روسی ہم منصب کے مابین ہونے والی ملاقات نے دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔ اس اہم سفارتی پیشرفت نے جہاں روس اور یوکرین کے مابین جاری جنگ کے خاتمے کی امیدوں کو جِلا بخشی، وہیں 2 عظیم عالمی طاقتوں کے درمیان مصالحت کی نئی راہیں بھی ہموار کیں۔ اس تناظر میں ایک سوال ہر ذی شعور کے ذہن میں ابھرا: دنیا ریاض پر کیوں اعتماد کرتی ہے؟

آخر وہ کون سی وجوہات ہیں کہ مشرق و مغرب کے ممالک، دہائیوں سے تنازعات کے حل، کشیدگیوں کے خاتمے اور جنگوں کو ختم کرنے کے لیے ریاض کی طرف دیکھتے ہیں؟

بعض مبصرین اسے سعودی عرب کے سیاسی وزن سے تعبیر کرتے ہیں۔ لیکن جب عالمی سیاست کے بڑے کھلاڑی، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل اراکین اور ویٹو پاور رکھنے والے ممالک بھی ریاض کی دہلیز پر دستک دیتے ہیں، تو معاملہ محض سیاسی اثر و رسوخ سے آگے بڑھ کر گہرے اسباب کا آئینہ دار بن جاتا ہے۔

کچھ حلقے سعودی عرب کی مضبوط معیشت اور مستحکم مالی پوزیشن کو اس اعتماد کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ تاہم اگر محض اقتصادی طاقت ہی اعتماد کا پیمانہ ہوتی، تو کئی بڑی معیشتیں ریاض جیسی عالمی پذیرائی اور مقام کی حامل ہوتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اعتماد راتوں رات حاصل نہیں ہوا، بلکہ یہ عشروں پر محیط مستقل سفارتی کاوشوں، خلوص نیت، غیرجانبداری، اور انصاف پر مبنی فیصلوں کا ثمر ہے، جنہوں نے سعودی عرب کو عالمی سطح پر ایک قابل اعتماد ثالث کی حیثیت عطا کی۔

ریاض نے اپنی غیرمعمولی سفارت کاری، دیانت، اور پُرامن حل کی جستجو کے ذریعے ثابت کیا کہ وہ محض مشرق وسطیٰ ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی امن واستحکام کا علمبردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متحارب گروہ بھی سعودی وساطت کو قبول کرتے ہیں، کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ ریاض کا کردار نہ صرف غیرجانبدار ہوتا ہے بلکہ دیرپا اور منصفانہ حل فراہم کرنے والا بھی ہوتا ہے۔

اگر ہم تاریخ کی روشنی میں جھانکیں تو بے شمار مثالیں سعودی عرب کے اس مقام کی تصدیق کرتی ہیں۔ 1989 میں لبنان کی 15 سالہ خانہ جنگی کا خاتمہ ’طائف معاہدے‘ کے ذریعے ممکن ہوا، جس نے اس ملک میں امن اور سیاسی استحکام کی بنیاد رکھی۔

1990  میں جب عراق نے کویت پر حملہ کیا تو سعودی عرب نے نہ صرف کویت کی حمایت میں آواز بلند کی بلکہ بین الاقوامی اتحاد تشکیل دے کر کویت کی آزادی اور خودمختاری کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کیا۔

مراکش اور الجزائر کے درمیان 1980 کی دہائی میں جاری سیاسی کشیدگی کو ختم کرنے میں بھی ریاض کی ثالثی اہم سنگ میل ثابت ہوئی، جس کے نتیجے میں سفارتی تعلقات بحال ہوئے، سرحدیں کھلیں اور ویزا کی پابندیاں ختم ہوئیں۔

اسی طرح 1980 میں شام اور اردن کے درمیان سرحدی کشیدگی اُس وقت عروج پر پہنچی جب شامی افواج نے اردنی سرحد کے قریب 20 ہزار فوجی اور 6 سو ٹینک تعینات کیے۔ یہ سنگین بحران بھی اس وقت ختم ہوا جب سعودی عرب کے اُس وقت کے وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل نے اپنی دانشمندانہ سفارت کاری کے ذریعے شام کو افواج واپس بلانے پر آمادہ کیا، یوں علاقائی امن و استحکام کو نئی زندگی ملی۔

ریاض کی سفارت کاری کی کامیابیاں صرف جنگوں کو روکنے تک محدود نہیں رہیں، بلکہ اس نے امن کانفرنسوں کی میزبانی اور بین المذاہب مکالموں کی سرپرستی کے ذریعے بھی دنیا بھر میں ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دیا۔ ان تمام کاوشوں کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ریاض نہ صرف عالمی طاقتوں کا مرکزِ نگاہ ہے بلکہ ایک ایسا ثالث ہے جس پر متحارب فریق بھی اعتماد کرتے ہیں اور جو بین الاقوامی سفارت کاری میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

دنیا کا یہ اعتماد محض تیل کی دولت یا اقتصادی خوشحالی پر مبنی نہیں بلکہ عشروں کی محنت، صداقت، اور انسانی اقدار کی پاسداری کا نتیجہ ہے۔ سعودی عرب نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ امن و انصاف کا پرچم تھامے ہوئے ہے اور عالمی برادری اس کے کردار کو احترام اور اعتماد کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

کاتبِ مقالہ ’ڈاکٹر نایف العتیبی‘ پاکستان میں سعودی عرب کے پریس اتاشی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر راسخ الكشميری

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: سعودی عرب کے سفارت کاری کے ذریعے ریاض کی

پڑھیں:

محفوظ، ترقی یافتہ دنیا کیلیے فرد سے شروعات کرنا چاہیے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ محفوظ اور ترقی یافتہ دنیا کی تعمیر کے لیے فرد سے شروعات کرنا چاہیے۔

اسکاؤٹس کے عالمی دن پربیان میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اور دنیا بھر کے اسکاؤٹس کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں کیونکہ آج کے دن ہم قیادت، برادری اور خدمت کے جذبے کو منا رہے ہیں جو اس پوری تحریک کی بنیاد ہے۔ ہر سال 22 فروری کو، دنیا بھر میں اسکاؤٹس، اسکاؤٹنگ کی تحریک کے بانی لارڈ رابرٹ سٹیفنسن سمتھ بیڈن پاول کی میراث کو عقیدت سے یاد کرتے ہیں۔

پاکستان بوائے اسکاؤٹس ایسوسی ایشن کی تاریخ میں نمایاں کارکرگی، بالخصوص جب یہ اپریل 2025 میں 15 ویں نیشنل جمبوری کی تیاری کر رہی ہے، باعث مسرت ہے۔ اپنے ویژن 2030 اور ورلڈ اسکاؤٹ بیورو کے ایشیا پیسیفک ریجن کے ساتھ تعاون سے، ایسوسی ایشن بین الاقوامی شراکت کو مضبوط بنانے، پاکستان کے لیے عالمی سطح پر بہترین پریکٹسز کا تبادلہ کرنے اور پاکستان کی عالمی اسکاوٹنگ کیلئے خدمات کو نمایاں کرنے کے لیے تیار ہے۔

امن اور بحران دونوں وقتوں میں تربیت یافتہ سکاؤٹس کا گراں قدر کردار رہا ہے۔ اسکاوٹس، اسکاؤٹنگ کے نصب العین کی جیتی جاگتی مثال ہیں جو کہتا ہے کہ لچک، قیادت، اور بے لوث خدمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، “تیار رہو”۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے اسکاؤٹنگ کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا:

“ایک محفوظ، صاف ستھری اور ترقی یافتہ دنیا کی تعمیر کے لیے، ہمیں فرد سے شروعات کرنی چاہیے۔ آئیے ہم اسے (فرد کو) نوجوانی میں ہی تیار کریں اور اس کے اندر اسکاؤٹنگ کے نصب العین کے مطابق اپنی ذات سے بالا تر ہوکر خدمت، سوچ، قول اور عمل میں پاکیزگی پیدا کریں۔”

مستقبل میں اس تحریک میں ہمیں جدید اور پرکشش اقدامات کا نفاذ کرنا ہوگا جو نوجوان ذہنوں کو چیلنج، تحریک و جدت کو فروغ اور کردار کو مضبوط کریں۔ “میسنجر آف پیس” جیسے اقدامات اسکاؤٹس کو اتحاد، ہم آہنگی اور بامعنی سماجی اثرات کو فروغ دینے کے لیے ایک طاقتور پلیٹ فارم فراہم کرتے ہیں، جو انہیں عالمی شہری بننے کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔

مجھے پوری امید ہے کہ پاکستان میں اسکاؤٹ تحریک یونہی فروغ پاتی رہے گی، جس سے ہر لڑکے اور لڑکی کو اسکاؤٹنگ کی اقدار کو اپنانے اور قوم کی خدمت کے لیے خود کو وقف کرنے کی ترغیب ملے گی۔

صدر مملکت آصف زرداری نے اسکاؤٹس کے عالمی دن پر پیغام میں کہا کہ نوجوانوں کی خودمختاری اور کردار سازی میں اسکاؤٹس کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اسکاؤٹس کا عالمی منا رہے ہیں۔ اسکاؤٹنگ نوجوانوں میں نظم و ضبط اور استقامت پیدا کرتی ہے۔ اسکاؤٹنگ نوجوانوں کو معاشرے کی خدمت کرنے کی ترغیب دلاتی ہے۔ خدمت اسکاؤٹنگ کی روح ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مسلمانوں کا فکری دھارا مختلف کیوں ہے؟
  • ریاض، عرب ممالک کا غزہ کی تعمیر نو کے لیے متبادل منصوبے پر جزوی اتفاق
  • محفوظ، ترقی یافتہ دنیا کیلیے فرد سے شروعات کرنا چاہیے، وزیراعظم
  • ریاض میں بیٹھک: ٹرمپ کے غزہ منصوبے کے مقابلے میں عرب دنیا کا متبادل پلان تیار
  • دنیا بھر کے سکاؤٹس کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں:شہباز شریف
  • علاقائی اور عالمی امن کے حوالے سے سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی وجوہات کیا ہیں؟
  • عالمی یوم مادر ی زبان کی سلور جوبلی
  • فیک نیوز سے نمٹنے کیلیے جامع لائحہ بنانا ضروری ہے، عطا تارڑ
  • فیک نیوز سے نمٹنے کے لیے جامع لائحہ عمل مرتب کرنا ضروری ہے، عطا تارڑ