لندن میں ایک خاتون جسے مکڑیوں کا خوف ہے، مکڑیوں سے بچنے کیلئے انہوں نے اپنے بستر پر خیمہ نصب کردیا ہے۔

25 سالہ ایسٹیلا کیریاکو مکڑیوں کے خوف میں پلی بڑھیں۔ جب بھی وہ اپنے کمرے میں ایک مکڑی کو دیکھتیں تو بہت خوفزدہ ہو جاتیں۔

تاہم پھر انہوں نے مکڑیوں سے نمٹنے کے لیے سخت اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا۔

ایسٹیلا نے ایمازون پر مچھروں سے بچنے کیلئے مخصوص خیمہ کا آرڈر دیا اور پھر اسے اپنے بستر پر لگایا تاکہ کسی بھی کیڑے کو بستر میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔

خاتون اب چار ماہ سے اپنے فلیٹ مین بستر پر خیمے میں سو رہی ہیں اور ان کا یہ طریقہ تبدیل کرنے کا ارادہ نہیں ہے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

نقد در نقد۔۔۔۔ ملوکیت اور مولانا مودودیؒ

اسلام ٹائمز: مولانا مودودی کی بادشاہت پر نقد بہت تحقیقی اور علمی ہے، لیکن اُنکی اس نقد کی تکمیل کیلئے اُن پر یہ نقد بنتی ہے کہ اگر کہیں پر حصولِ اقتدار قرآنی و نبوی نصوص کے مطابق نہ ہو تو کیا ایک مسلمان کیلئے ایسا اقتدار نبوی ؐ حکومت کا متبادل ہوسکتا ہے؟ اور پھر ایسا اقتدار کسی حاکم کیطرف سے اپنے دوست کو منتقل کرنا تو ٹھیک اور جائز ہے، لیکن اپنے بیٹے کو منتقل کرنا کیسے غلط و ناجائز ہے۔؟ مولانا مودودی نے حکمرانوں کی جن لغزشوں کو سامنے لایا ہے، اِنکا تعلق اُنکے بادشاہ ہونے سے ہرگز نہیں۔ وہ کسی جمہوری عمل سے بھی برسرِ اقتدار آتے اور بادشاہ نہ بھی ہوتے تو تب بھی وہ قابلِ گرفت تھے۔ اللہ کے آخری نبی ؐ اپنے پیچھے انسانوں کی ہدایت و تربیّت کیلئے ایک نبوی حکومت چھوڑ کر گئے تھے، صرف حکومت نہیں۔ صرف حکومت چاہے جمہوری ہو یا آمریت و ملوکیت، وہ کبھی بھی نبوی حکومت کی جگہ نہیں لے سکتی۔ نبوی حکومت یعنی قیامت تک کے عوام النّاس کی ہدایت و تربیت جبکہ بادشاہت و جمہوریت یعنی قیامت تک ہدایت و تربیّت کی محتاجی۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

ہر شعبے میں منصف مزاجی سے کام لینا چاہیئے۔ ہم ملوکیت یعنی بادشاہت پر حضرت مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کے نقد کو بھی انصاف کے ترازو پر پرکھنے کے مشتاق ہیں۔ بھلا تحقیق و تصنیف میں جانچ پرکھ نہیں ہوگی تو پھر کہاں ہوگی۔؟ کسی بھی قوم کی عظمت و بزرگی کیلئے یہ کافی ہے کہ وہ انصاف پسند ہو۔ ملوکیت یعنی بادشاہت سے بھی نفرت کے بجائے اُسے نفرت انگیز بنانے کے عمل کا منصفانہ جائزہ لیا جانا چاہیئے۔ تاریخی طور پر بادشاہت اپنے زمانے کا ایک بہترین نظامِ حکومت رہا ہے۔ ابنِ آدم کے عروج اور ارتقاء میں اس کا بڑا کردار ہے۔ تاریخ بشریت اور قرآن کا قطعی فیصلہ ہے کہ کسی کے بادشاہ ہونے یا اُس کے اپنے بیٹے کو جانشین بنانے میں کوئی برائی نہیں، بلکہ اصولی اقدار کو پامال کرکے اقتدار کو ہتھیانے میں قباحت ہے۔ اقدار کو پامال کرکے آپ جمہوریّت بھی قائم کریں تو اس میں بھی برائی ہی برائی ہے۔ بے شک اپنے ہاں کی جمہوریّت کو ہی دیکھ لیجئے۔ پس قباحت اور بُرائی بادشاہت یا جمہوریّت میں نہیں بلکہ اقدار، اصولوں، معیارات اور حقائق کی پامالی میں ہے۔

اللہ نے بنی نوع انسان کی ہدایت کیلئے خود بھی بادشاہ متعیّن کئے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں: "وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ قَالُوا أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ۔" (بقرہ ۲۴۷) "اللہ تعالیٰ نے حضرت طالوت ؑ کو بادشاہ بنایا، اسی طرح اللہ نے حضرت داود علیہ اسلام کو بادشاہت عطا کی۔ سورہ ص کی آیت ۱۹ سے چھبیس کا مطالعہ کریں۔ حضرت داود علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت سلیمان علیہ اسلام کو اپنا جانشین بنایا، سورہ نمل میں حضرت سلیمان علیہ اسلام کی بادشاہت اور دربار کی شان و شوکت کا ذکر موجود ہے۔ صرف بادشاہوں کی بات ہی نہیں بلکہ اسی سورہ میں ملکه سبا کا ذکر بھی ہے۔ کوئی بھی شخص خواہ کافر ہی کیوں نہ ہو، اگر منصف مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تفکر، تعقل اور تدبّر کے ساتھ صرف سورہ نمل کا مطالعہ ہی کر لے تو اُس پر واضح ہو جائے گا کہ "نہ ہی تو بادشاہ یا ملکہ ہونا کوئی بُری بات ہے اور نہ ہی کسی بادشاہ کا اپنے بیٹے کو اپنا جانشین بنانا۔"

اسی طرح بادشاہِ حبشہ "نجّاشی" بھی تو ایک بادشاہ ہی تھا، جس نے مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی تھی۔ کیا نجّاشی کے بادشاہ ہونے سے انکار ممکن ہے۔؟ اس بات کو مزید سمجھانے کیلئے میں اپنے آپ سے یہ سوال پوچھتا ہوں کہ کیا سب سے پہلے میں بذاتِ خود یہ ماننے کو تیار ہوں کہ جو چیز میری ہے ہی نہیں، میں اُس کا مالک بھی نہیں۔ بے شک میں سالہا سال اُس چیز پر قبضہ جمائے بیٹھا رہوں۔ ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی کوئی ناجائز قبضہ جائز نہیں ہو جاتا۔ ایسا قبضہ چاہے آمریت، بادشاہت یا جمہوریت کے روپ میں کیا جائے اور یا پھر عیسائی، یہودی یا مسلمان ہونے کے نام پر۔ ناجائز قابض اُس مقبوضہ شئے کو چاہے اپنے کسی دوست کو دے یا اپنے بیٹے کو اس کا وارث بنائے، اس سے قبضہ جائز نہیں ہو جاتا۔ فطرتِ سالم اور عقلِ سلیم کے مطابق جبر و استبداد سے چاہے کسی کی زمین ہتھیائیں، حکومت پر قبضہ کریں یا کسی سے اپنی اطاعت و بیعت کروائیں، یہ سب غیر پسندیدہ ہے۔ خواہ کوئی بادشاہ ایسا کرے یا جمہوری صدر انجام دے اور چاہے کوئی کسی علاقے کا وڈیرہ۔ بس سب سے پہلے یہ واضح ہونا چاہیئے کہ بُرا کام بُرا ہے، چاہے بادشاہت کے نام پر ہو یا کسی بھی دوسرے نام پر۔

اب آتے ہیں دینِ اسلام کے اندر ملوکیت و بادشاہت کے داخلے کی طرف۔ دینِ اسلام میں آخری نبی کی حکومت ایک الہیٰ و نبویؐ حکومت تھی۔ اس حکومت کو کسی بھی طور سے دین سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بعد مندرجہ ذیل سوالات بادشاہت اور ایک نبوی ؐ حکومت کے درمیان فرق کی وضاحت کیلئے کافی ہیں:
۱۔ نبی اکرمﷺ کی حکومت عین نبوّت تھی یا یہ ایک نبوی کام نہیں بلکہ ایک غیر نبوی اور محض دنیاوی کام نعوذ باللہ بادشاہت تھا۔؟
۲۔ کیا پیغمبرﷺ کے پاس دو منصب تھے، ایک نبوّت کا اور دوسرا بادشاہ ہونے کا؟ آپ کچھ دیر کیلئے بطورِ نبی کام کرتے تھے اور کچھ دیر کیلئے بطورِ بادشاہ؟ یا نہیں پیغمبرﷺ کی بادشاہت اور حکومت عین نبوّت اور کارِ رسالت تھی۔؟
۳۔ اگر پیغمبر کی نبوّت، رسالت اور حکومت ایک ہی شئے تھی تو ختمِ نبوّت کے ساتھ نبوّت تو ختم ہوگئی، کیا نبی ؐ کی حکومت بھی ختم ہوگئی تھی۔؟

ہر کلمہ گو مسلمان کے نزدیک ہمارے نبیؐ کی حکومت خالصتاً ایک نبوی حکومت تھی اور نبی ؐکے وصال کے وقت یہ نبوی حکومت باقی بھی تھی، نیز اس نبوی حکومت کے باقی رہنے میں جہاں کئی دیگر حکمتیں پوشیدہ تھیں، وہیں یہ حکمت بھی مضمر  تھی کہ ختمِ نبوّت کے بعد قیامت تک اسی حکومت نے لوگوں کی ہدایت اور تربیّت کرنی تھی۔ گزشتہ چودہ سو سال کی طرح ہر مسلمان کی مانند مفکرِ اسلام مولانا مودودی ؒ کے دل و دماغ پر بھی یہ سوال چھایا ہوا تھا کہ کیا خدا اور اُس کے رسول  نے قیامت تک اس اتنی اہم حکومت کو باقی رکھنے کیلئے کچھ نہیں کیا تھا۔؟ اگر کچھ کیا تھا تو نصوصِ قرآن و حدیث کے مطابق وہ کیا تھا۔؟ خصوصاً پیغمبرِ اسلامؐ ایک ایسے ایک عظیم مدبِّر، دوراندیش مفکر، بہترین قائد، بابصیرت رہنماء اور ایک بے مثال انقلابی رہنماء تھے کہ آپ نے صرف تئیس سال میں مکے و مدینے کے عقائد، عبادات، تہذیب و تمدن، جغرافئے، جنگی اصلوں، صلح کی اقدار اور۔۔۔ کو زیر و زبر کر دیا۔ کیا اتنا عظیم رہنماء یہ بتا کر نہیں گیا کہ میرے بعد میرے مشن کو جاری رکھنے کیلئے میری حکومت کون چلائے گا۔؟

آج ہم دیکھتے ہیں کہ عام اور چھوٹے چھوٹے رہبر و رہنماء بھی اگلے پچاس سو سال کے بعد پیش آنے والے خطرات سے آگاہ کر رہے ہوتے ہیں۔ جب ہمارے یہ عام سے لیڈر اتنی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں تو کیا نبی اکرم ؐ جیسا عظیم رہبر و رہنماء ان خطرات کی سوجھ بوجھ نہیں رکھتا تھا کہ میرے بعد میری حکومت کو بادشاہت میں تبدیل کر دیا جائے گا۔؟ میری قائم کردہ حکومت کے بیت المال سے رنگ رلیاں منائی جائیں گی۔؟ میری قائم کردہ اسلامی ریاست کی بساط لپیٹ دی جائے گی؟ اور میرے سچے پیروکاروں حتی کہ میری آل و اہل بیت کو دیوار سے لگا دیا جائے گا۔؟ کسی چھوٹے سے سکول یا مدرسے کا مدیر بھی اگر کسی سفر پر جائے تو یہ خلاف عقل ہے کہ وہ اپنا کوئی جانشین اور نائب بنائے بغیر چلا جائے۔ جب عام آدمی کی عقل اتنا کام کرتی ہے تو وہ جو ختمِ نبوّت کا تاجدار، کُلِّ عقل اور مجسمہ عقل و خِرد ہے، کیا وہ اتنی اہم حکومت و سلطنت کو اپنے کسی واضح نائب اور مشخص جانشین کے بغیر چھوڑ گیا۔؟

جب ہزاروں سال پہلے حضرت داود ؑ جیسا نبی اپنے بیٹے کو اپنی حکومت کا جانشین بنا کر گیا، تو کیا جو آج کے جدید ترین عہد کا نبی ہے اور جس پر نبوّت ہی ختم ہوگئی اور جو سارے انبیاء کا سردار ہے اور جس کا دین سارے عالمین کیلئے ہے، کیا نعوذ باللہ وہ اپنی حکومت کے جانشین بنانے کی اہمیّت کو نہیں سمجھتا تھا۔؟ ایک ایسا اسوہ کامل ؐ، ایک ایسا جامع نمونہ حیاتؐ جس نے ہمارے لئے گھر سے نکلنے کی دُعا، غُسلِ جنابت کا طریقہ، بیت الخلاء کے احکام، کھانے کے آداب اور مسواک کے فوائد تک بتائے تو کیا وہ یہ نہیں بتا کر گیا کہ میرے بعد عالمِ بشریت کی ہدایت و تربیت  انجام دینے والی میری حکومت کا کیا بنے گا۔؟ کیا اتنے دوراندیش رہبر و رہنماء کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ میرے بعد میری جانشینی کے مسئلے پر میری ہی اُمّت میں ایسا شدید اختلاف پیدا ہوگا کہ لوگوں کی ہدایت کے بجائے قیامت تک میری اُمّت داخلی انتشار اور فرقہ واریّت میں اُلجھ جائے گی۔؟

مولانا مودودی ؒ صاحب سمیت ہر صاحب علم و تحقیق یہ جانتا ہے کہ قطعیّات تاریخ، سیرت النّبی اور احادیثِ رسول ؐ کے مطابق اللہ کے آخری نبیؐ اپنے بعد پیش آنے والے حوادث کے حوالے سے فکر مند تھے اور آپ ہمیشہ محتاط رہتے تھے۔ یہ آپ کی دور اندیشی اور قبل از وقت احتیاط ہی ہے کہ آپ نے اسلام کی پہلی دعوت "دعوتِ ذوالعشیر" میں ہی یہ اعلان کیا کہ آج جو بھی میری رسالت کی تصدیق کرے گا، وہ میرا جانشین، وزیر، وصی اور میرا خلیفہ ہوگا۔ اُس وقت ابھی کوئی سلطنت وجود میں نہیں آئی تھی، ابھی اعلانیہ تبلیغ بھی شروع نہیں ہوئی تھی، غزوات نہیں ہوئے تھے، فتوحات نہیں ہوئی تھیں۔۔۔ تو اُس وقت پیغمبر کے نزدیک اپنے جانشین کا اعلان اتنا اہم تھا کہ آپ نے وہیں دعوتِ ذوالعشیر میں ہی اپنے جانشین کا اعلان کر دیا۔۔۔ تو کیا جب ریاست و حکومت تشکیل پا گئی تو پھر رسولؐ نے اپنا جانشین معیّن نہیں کیا۔؟ وہ رسول جو نماز کیلئے بھی اپنا نائب مقرر کرتا ہے، کیا وہ اپنی حکومت کیلئے اپنا جانشین معیّن کرکے نہیں گیا۔؟

آپ قرآن مجید کی نصوص پر پرکھیں، احادیثِ نبوی پر تولیں، تاریخ کو پیمانہ بنائیں، عقل کو میزان قرار دیں یا اپنے ضمیر کی عدالت میں کھڑے ہو جائیں! آپ پر یہ ثابت ہو جائے گا کہ ایک بات تو یقینی ہے کہ اتنا بڑا رہبر و رہنماء اپنے جانشین کے تعیّن سے غافل نہیں تھا۔ ہم جو صابن خریدنے دکان پر جاتے ہیں تو وہاں بھی تھوڑی سی غفلت نہیں کرتے تو کیا اتنے اہم مسئلے میں رسولؐ کی طرف سے نعوذ باللہ غفلت کا شائبہ بھی ممکن ہے۔؟ پس یہ ایک یقینی امر ہے کہ رسولؐ خدا نے اپنا جانشین ضرور معیّن کیا ہے۔ اب رسولؐ کے بعد جھگڑا اس پر ہے کہ رسولِ خدا کا وہ معیّن شُدہ جانشین کون ہے۔؟ یہ جھگڑا ابھی رسولِ خدا دفن نہیں ہوئے تھے، اُسی وقت مدینے میں ہی سقیفہ بنی ساعدہ میں مسلمانوں کے درمیان رونما ہوا۔ کیا مولانا مودودی ؒ اس سے انکار کرسکتے ہیں کہ اگر آلِ رسولؐ کو نظر انداز کرنے کے بجائے جانشینِ پیغمبر کا تعیّن نصوص قرآن و احادیث کے مطابق ہوتا اور سقیفہ بنی ساعدہ میں دیگر معیارات بیان کرنے کے بجائے آیات سُنائی جاتیں اور روایات بیان کی جاتیں تو یہ اختلاف وجود میں ہی نہ آتا۔

مولانا مودودی جانتے تھے کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں جانشینِ پیغمبر کیلئے قرآن و حدیث کی نصوص کے بجائے دیگر معیارات بیان کئے گئے۔ جیسے مکّی، مہاجر، قریشی یا عمر میں بڑا ہونے جیسے معیارات۔ پیغمبر اسلام نے تو اپنی جدوجہد سے مکی و مدنی، مہاجر و انصار، قریشی و حبشی کی تفریق ختم کر دی تھی۔ ان منسوخ شدہ اقدار پر جانشینِ پیغمبر کا تعیّن قطعاً قرآنی تعلیمات اور سیرت النبیؐ سے مختلف ایک دوسرا راستہ تھا۔ اس دوسرے راستے سے نبویؐ حکومت نامی وہ چیز آلِ رسولؐ سے لے لی گئی، جو درحقیقت قیامت تک لوگوں کی ہدایت و تربیّت کیلئے تھی۔ پہلے راستے کے مطابق یعنی قرآن و حدیث نیز قطعیّاتِ تاریخ کے مطابق  ایسی حکومت کو نبوی اصولوں و معیارات کے مطابق چلانا یہ آلِ رسولؑ کے علاوہ کسی اور کے بس کی بات بھی نہ تھی۔ اب یہ سوال مولانا مودودی ؒ اپنی ہزاروں تالیفات و تحقیقات کے باوجود حل نہیں کر پائے کہ جو چیز میری نہ ہو اور وہ میں کسی بھی دوسرے طریقے سے اپنے ہاتھ لے لوں تو کیا وہ میری ہو جائے گی۔؟ اچھا اب وہ چیز جو میری نہیں ہے، اگر وہ میں استعمال کرنے کے بعد اپنے کسی دوست کو دے دوں تو یہ تو اچھی بات ہے، لیکن اگر وہی چیز اپنے بیٹے کو دوں تو یہ بُری بات ہے۔؟ پس بادشاہت میں چونکہ حکومت بیٹے کو منتقل ہوئی اس لئے بادشاہت بُری ہو گئی۔

انہوں نے خلافت و ملوکیّت لکھ کر ساری بحث کو اقتدار پر قبضے کے بجائے انتقالِ اقتدار کی طرف Divert کر دیا۔ اس کے بعد لوگوں نے ملوکیّت و بادشاہت کو اتنا برا بھلا کہنا شروع کیا کہ گویا یہ لفظ گالی بن گیا۔ طرفین سُنّی و شیعہ دونوں کی تاریخی تسکین کا سارا سامان چونکہ بادشاہوں کو بُرا بھلا کہنے میں موجود ہے، لہذا دونوں کو یہ موضوع راس آیا۔ ڈائورٹ کرنے کی اصطلاح کو یوں سمجھئے کہ جیسے ٹریفک کو کسی گلی سے بڑی شاہراہ پر ڈال دیا جاتا ہے، یا پانی کو دریا سے کاٹ کر سمندر کے بجائے کھیتوں کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح لوگوں کے افکار کو ڈائیورٹ کرکے لوگوں کی قوت تحلیل کو بھی کسی ایک نکتے سے کسی دوسرے نکتے پر متمرکز کر دیا جاتا ہے۔ اگرچہ مخصوص حلقوں نے خلافت و ملوکیت لکھنے کی وجہ سے مولانا پر تنقید بھی کی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب نے سطحی طور پر مطالعہ کرنے والے افراد کو تاریخ اسلام کا حقیقی پسِ منظر دیکھنے سے محروم کر دیا۔ البتہ مولانا مودودی کی اس کاوش کے باعث مسلمانوں کو بالآخر اپنی تاریخ پر نظرِثانی اور نقد و نظر کرنے کا موقع ضرور ملا۔

طرفین یعنی سُنّی و شیعہ حلقوں نے بادشاہوں کی لغزشوں سے آگاہی حاصل کی اور اکثر نے بادشاہوں کو ہی اپنے سارے مسائل کا سبب گردانا اور جانا۔ یہ بھی بڑی بات ہے کہ طرفین نے ماضی کی طرح بادشاہوں کو ظِلّ الہیٰ اور خلیفۃ اللہ و خلیفۃ الرسول وغیرہ سمجھنا چھوڑ دیا۔ اس کے بعد اب ہمیں جانشینی پیغمبر کے موضوع سے ملوکیّت کی طرف ڈائیورٹ ہوئے کافی سال گزر چکے ہیں۔ ڈائیورٹ ہونے کے باوجود یہ سوال تاریخِ اسلام کے طالب علموں کے دماغوں میں اپنی جگہ بنائے بیٹھا ہے کہ بادشاہت بُری شئے ہے یا اقتدار کو مسلمہ اقدار کے بجائے کسی دوسرے راستے سے ہتھیانا؟ اور اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کوئی شخص ہتھیائی ہوئی چیز اپنے کسی دوست کو دے یا اپنے بیٹے کو؟ قانون دانوں کیلئے بھی یہ ایک اہم پہلو ہے کہ اگر حصول اقتدار ہی قانونی نہیں تو کیا فقط انتقالِ اقتدار زیرِ سوال جائے گا یا حصولِ اقتدار بھی۔؟

مولانا مودودی کی بادشاہت پر نقد بہت تحقیقی اور علمی ہے، لیکن اُن کی اس نقد کی تکمیل کیلئے اُن پر یہ نقد بنتی ہے کہ اگر کہیں پر حصولِ اقتدار قرآنی و نبوی نصوص کے مطابق نہ ہو تو کیا ایک مسلمان کیلئے ایسا اقتدار نبوی ؐ حکومت کا متبادل ہوسکتا ہے؟ اور پھر ایسا اقتدار کسی حاکم کی طرف سے اپنے دوست کو منتقل کرنا تو ٹھیک اور جائز ہے، لیکن اپنے بیٹے کو منتقل کرنا کیسے غلط و ناجائز ہے۔؟ مولانا مودودی نے حکمرانوں کی جن لغزشوں کو سامنے لایا ہے، اِن کا تعلق اُن کے بادشاہ ہونے سے ہرگز نہیں۔ وہ کسی جمہوری عمل سے بھی برسرِ اقتدار آتے اور بادشاہ نہ بھی ہوتے تو تب بھی وہ قابلِ گرفت تھے۔ اللہ کے آخری نبی ؐ اپنے پیچھے انسانوں کی ہدایت و تربیّت کیلئے ایک نبوی حکومت چھوڑ کر گئے تھے، صرف حکومت نہیں۔ صرف حکومت چاہے جمہوری ہو یا آمریت و ملوکیت، وہ کبھی بھی نبوی حکومت کی جگہ نہیں لے سکتی۔ نبوی حکومت یعنی قیامت تک کے عوام النّاس کی ہدایت و تربیت جبکہ بادشاہت و جمہوریت یعنی قیامت تک ہدایت و تربیّت کی محتاجی۔

متعلقہ مضامین

  • مکڑیوں کے خوف سےخاتون نے بستر پر خیمہ نصب کردیا
  • خاتون نے بستر پرخیمہ کیوں لگایا؟وجہ جان کرآپ دنگ رہ جائیں گے
  • کشمیر میں بھارتی مظالم، کنال کھیمو نے اپنے بچپن کے خوفناک تجربات بتادیئے
  • عجیب خوف میں مبتلا خاتون جنہیں کیچپ سے ڈر لگتا ہے
  • بی جے پی نے پہلے دن سے ہی دہلی کے عوام کو دھوکہ دینا شروع کردیا ہے، آتشی
  • اسرائیل نے حماس پر مغوی خاتون کی جگہ غیر متعلقہ لاش دینے کا الزام عائد کردیا
  • ڈیلٹا ایئر لائن حادثے میں بچنے والے تمام مسافروں کے لیے بڑی مالی امداد
  • اہلیہ کے ہاتھوں شوہر قتل، خاتون نے اپنے مقتول باپ کا بدلہ لے لیا
  • نقد در نقد۔۔۔۔ ملوکیت اور مولانا مودودیؒ