آسٹریلیا کی جانب سے چینی بحری جہازوں کی مشقوں پر بیانات حقائق کے منافی ہیں،چینی وزارت دفاع
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
بیجنگ : چینی وزارت دفاع کے ترجمان وو چھیئن نے اتوار کے روز آسٹریلیا کی جانب سے چینی بحری جہازوں کی حالیہ مشقوں کے بارے میں بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آسٹریلیا کے بیانات حقائق سے مکمل طور پر متصادم ہیں۔ چینی بحری جہازوں کی مشقیں آسٹریلیا کے ساحل سے دور، مکمل طور پر بین الاقوامی پانیوں میں کی گئی تھیں۔ اس دوران چین نے پیشگی طور پر بار بار حفاظتی نوٹس جاری کرنے کے بعد، بحری توپوں کے ذریعے لائیو فائر مشق کی۔ چین کے اقدامات بین الاقوامی قانون اور نظم و ضبط کے عین مطابق تھے اور ایوی ایشن سیفٹی پر کوئی اثر نہیں ڈالتے۔ چین آسٹریلیا کی بے بنیاد الزامات اور جان بوجھ کر اس معاملے کو بڑھانے پر سخت عدم اطمینان کا اظہار کرتا ہے۔ چین امید کرتا ہے کہ آسٹریلیا دونوں ممالک اور دونوں فوجوں کے تعلقات کو معروضی اور معقول انداز میں دیکھے گا، زیادہ خلوص اور پیشہ ورانہ رویہ اپنائے گا، اور صحیح معنوں میں دونوں ممالک اور دونوں فوجوں کے تعلقات کی مستحکم ترقی کے لیے عملی اقدامات کرے گا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
امریکہ کی جانب سے محصولات کی نام نہاد “باہمی مساوات” دراصل معاشی جبر کی کارروائی ہے، چینی میڈیا
امریکہ کی جانب سے محصولات کی نام نہاد “باہمی مساوات” دراصل معاشی جبر کی کارروائی ہے، چینی میڈیا WhatsAppFacebookTwitter 0 12 April, 2025 سب نیوز
بیجنگ :چین نے امریکہ سے تمام درآمدات پر اضافی 125 فیصد ٹیرف عائد کر دیا ہے تاکہ امریکہ کی طرف سے چین پر عائد کردہ نام نہاد ” ریسیپروکل ٹیرف” کا جواب دیا جاسکے۔ اس کے ساتھ ہی، اشیاء کی تجارت پر ڈبلیو ٹی او کونسل کے پہلے سالانہ اجلاس میں، چین نے یہ واضح کیا کہ ڈبلیو ٹی او کے قوانین کے مطابق’’باہمی مساوات ‘‘کا مطلب یہ ہے کہ تجارتی فریق ایک دوسرے کو ترجیحی سلوک اور سہولت فراہم کرتے ہیں، اور بالآخر حقوق اور ذمہ داریوں کا مجموعی توازن حاصل کرتے ہیں. تاہم، امریکہ کی نام نہاد “باہمی مساوات ” درحقیقت تنگ نظری، یکطرفہ پسندی، خود غرضی اور معاشی جبر کا عمل ہے۔
ڈبلیو ٹی او کا “باہمی مساوات ” کا اصول ہر رکن کی اقتصادی ترقی کی سطح میں اختلافات کو مدنظر رکھتے ہوئے حقوق اور ذمہ داریوں کا مجموعی توازن پیدا کرتا ہے۔ امریکہ نے ڈبلیو ٹی او کے ارکان کے درمیان ترجیحی سلوک کو ” مساوی تعداد ” میں غلط انداز میں پیش کیا اور ” مساوی محصولات” عائد کیے ہیں، جو بالکل اس تصور کا ایک غیر مساوی اور غیر معقول اظہار ہے اور اس سے ترقی پذیر ممالک کو ان کے ترقی کے حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ جہاں تک امریکی فریق کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ محصولات ’’غیر مساوی‘ہیں اور اس کی وجہ سے اسے تجارت میں ’’نقصان ‘‘اٹھانا پڑ رہا ہے، تو یہ اور بھی زیادہ مضحکہ خیز بات ہے۔
درحقیقت امریکہ موجودہ بین الاقوامی تجارتی نظام میں سب سے بڑا فائدہ اٹھانے والا ملک ہے۔ امریکہ نے خدمات کی تجارت میں طویل مدتی سرپلس برقرار رکھا ہے ، جس میں 2024 میں تقریباً 300 بلین ڈالر کا سرپلس رہا ۔ خدمات کی برآمدات نے 4.1 ملین امریکی ملازمتیں پیدا کیں۔امریکہ نام نہاد “باہمی مساوات ” کے جھنڈے تلے زیرو سم گیم میں مصروف ہے، جو بنیادی طور پر “امریکہ فرسٹ” اور “امریکہ اسپیشل” کا تعاقب ہے۔ تاہم، ٹیرف کی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہے، اور دنیا کے خلاف کیے جانے والے طرز عمل سے امریکہ خود کو دنیا سے الگ تھلگ کر دے گا۔