Daily Mumtaz:
2025-02-23@16:56:47 GMT

چین میں نمبر 1 مرکزی دستاویز 2025 کا اجراء 

اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT

چین میں نمبر 1 مرکزی دستاویز 2025 کا اجراء 

 

کمیونسٹ پارٹی آف چائنا  کی 18ویں قومی کانگریس کے بعد سے  13ویں نمبر 1 مرکزی دستاویز  اتوار کے روز جاری کر دی گئی ، جس میں دیہی اصلاحات کو مزید گہرا کرنے اور جامع  دیہی احیاء کو صحیح معنوں میں آگے بڑھانے  کی تجویز پیش کی گئی۔مرکزی دستاویز کا عنوان ہے “دیہی اصلاحات کو مزید گہرا کرنے اور جامع دیہی احیاء  کو صحیح معنوں میں آگے بڑھانے  کے بارے میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی مرکزی کمیٹی اور چین کی ریاستی کونسل کی رائے”، اور  اس کا مکمل متن چھ حصوں پر مشتمل ہے۔ اس میں  اناج اور دیگر اہم زرعی پیداوار کی فراہمی  کی صلاحیت میں مسلسل  اضافہ جاری رکھنا، غربت کے خاتمے کے ثمرات کو مضبوط بنانا اور وسعت دینا، لوگوں کو خوشحال بنانے کے لئے کاؤنٹی سطح کی صنعتوں کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کرنا، دیہی تعمیر کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کرنا، دیہی حکمرانی کے نظام کو بہتر بنانے پر توجہ دینا، اور عوامل  کی ضمانت اور بہتر  تقسیم کے لئے نظام اور میکانزم کو بہتر بنانا شامل ہے۔
نمبر 1مرکزی دستاویز میں  کہا گیا ہے کہ چینی طرز کی جدیدکاری کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ جامع دیہی احیاء میں تیزی لائی جائے۔ جامع دیہی احیاء کو فروغ دینے ، ایک مضبوط زرعی ملک کی تعمیر ، اصلاحات و کھلے پن اور سائنسی و تکنیکی جدت طرازی کو محرک قوت کے طور پر فروغ دینےاور بنیادی دیہی انتظامی نظام کو مستحکم اور بہتر بنانے کے لئے “چھیئن وان پروجیکٹ” کے تجربے کا گہرائی سے مطالعہ اور اطلاق ضروری ہے۔ہمیں  قومی غذائی تحفظ  اور بڑے پیمانے پر غربت کی جانب واپسی کو  موثر طور پر کنٹرول کرتے ہوئے دیہی صنعت کی ترقی، دیہی تعمیر اور دیہی حکمرانی کے معیار کو بہتر بنانا ہوگا اور زرعی کارکردگی، دیہی قوت محرکہ اور کسانوں کی آمدنی کو فروغ دینے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی ۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

جرمنی میں جمہوریت کس طرح اتنی مضبوط ہوئی؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 فروری 2025ء) جرمنی کی سولہ ریاستیں ہیں اور ان سب میں ایک ساتھ ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔ جرمنی کی تراسی ملین آبادی میں تقریباً اکسٹھ ملین افراد حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل ہیں۔

جرمنی ابتداء میں تین سو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم تھا لیکن جب نیپولین نے اقتدار پر قبضہ کیا تو اُس نے ریاستوں کی تعداد کم کر کے تیس (30) کر دی۔

1871ء میں جب پُروشیا کے چانسلر اُوٹو فون بسمارک نے جرمنی کو مُتحد کیا تو رائشٹاگ کے الیکشن میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی جو مارکس کے نظریے کی حامی تھی، اکثریت سے منتخب ہوئی۔ بسمارک نے پارٹی کی مقبولیت کو روکنے کے لیے فلاحی ریاست کا پلان نافذ کیا۔ اس کے بعد جرمنی میں رائشٹاگ کے بارہ جنرل الیکشن ہوئے۔

(جاری ہے)

پہلی عالمی جنگ جس میں جرمنی کو شکست ہوئی تھی، اس کے بعد معاشی بحران کی وجہ سے مہنگائی میں بے حد اضافہ ہو گیا تھا۔

اِن حالات میں جرمن سیاست میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں اور ہٹلر کی رہنمائی میں نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی کی مقبولیت بڑھی۔ 1933ء کے جنرل الیکشن میں ہٹلر نے جارحانہ پراپیگینڈا کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دن میں وہ تقریباً تین شہروں میں خطاب کرتا تھا۔ وہ اس تیز ترین سفر کے لیے جہاز استعمال کرتا تھا۔ جلسہ ایک چھوٹے ہال میں منعقد ہوتا تھا تا کہ حال لوگوں سے بھر جائے اور جن کو حال میں جگہ نہ ملے وہ باہر کھڑے رہیں۔

ہٹلر کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کم از کم 15 منٹ کی تاخیر سے جلسہ گاہ میں آتا تھا تا کہ لوگ اُس کا انتظار کریں۔ انتخابات میں نازی پارٹی کو کامیابی ہوئی اور جرمنی کے صدر پاؤل فان ہنڈن برگ نے ہٹلر کو جرمنی کا چانسلر بنا دیا۔ جرمنی کے صدر کے انتقال کے بعد اُس نے صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ جب تک ہٹلر اقتدار میں رہا جرمنی میں کوئی انتخابات منعقد نہیں ہوئے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (SDP)، کرسچن ڈیموکریٹک یونین (CDU) اور لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (LDP) نے انتخابات میں حصہ لیا۔ جنگ کے بعد کونراڈ آڈیناؤر جرمنی کے پہلے چانسلر بنے۔ جرمنی نے ہٹلر کی آمریت اور جنگ کی تباہی کے نتیجے میں بہت کچھ سیکھا۔ آمریت کو روکنے کے لیے معاشرے کے ہر شعبے میں جمہوری روایات کو نافذ کیا۔ چاہے تعلیمی ادارے ہوں، سرکاری دفاتر ہوں یا کسی پلازہ کے رہائشی ہوں یہ ہر مسئلے کے لیے اسمبلی بُلا کر بحث و مُباحثہ کے زریعے اور اکثریتی ووٹوں کے ذریعے فیصلے کرتے رہے۔

یہ روایت بھی ہے کہ اگر کوئی سیاستدان یا چانسلر غلطی کرے تو اُس کا احتساب کیا جاتا ہے۔ سیاست کے سلسلے میں جرمنی کا میڈیا بہت حساس ہے۔ ولی برانٹ جنہیں جرمنی کا قابل ترین چانسلر کہا جاتا تھا، انہوں نے اس خبر کے بعد استعفیٰ دے دیا کہ اُن کے اسٹاف میں مشرقی جرمنی کا ایک مخبر شامل ہو گیا تھا۔ بہت سے سیاستدانوں نے تو اپنے خلاف اسکینڈلز سامنے آنے یا تنقید کے بعد اپنے عہدوں سے استعفے دے دیے۔

ابھی حال میں کرسٹینے لامبریشٹ نے وزارت دفاع کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ انہیں کئی معاملات میں تنقید کا سامنا تھا۔ سابق صدر کرسٹیان وولف نے بھی بدعنوانی کے الزامات کے بعد اپنا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔ اسی طرح ماضی میں وزیر دفاع رہنے والے کارل تھیوڈور سو گٹن برگ بھی سرقے کے الزامات کے بعد اپنا منصب اور سیاست دونوں ہی چھوڑ گئے تھے۔

جرمنی کے الیکشن شفاف ہوتے ہیں۔ اُمیدوار میڈیا کو اپنے پراپیگینڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جلسے جلوس بہت منظم انداز میں منعقد ہوتے ہیں۔رائے دہی کے لیے اتوار کے دن رکھا جاتا ہے۔ زیادہ تر پولنگ اسٹیشنز تعلیمی اداروں میں بنائے جاتے ہیں اور کسی بھی پولنگ بوتھ کے باہر کسی بھی سیاسی جماعت کا کوئی کیمپ نہیں لگا ہوتا۔شہری آتے جاتے ہیں اور خاموشی سے اپنا ووٹ ڈال کر چلے جاتے ہیں۔

انتخابات سے قبل لگائے جانے والے اندازے اکثر درست ثابت ہوتے ہیں۔ انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد ایک دوسرے پر الزام تراشی بھی نہیں کی جاتی اور ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو بخوشی تسلیم بھی کیا جاتا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جرمنی میں جمہوریت کس طرح اتنی مضبوط ہوئی؟
  • پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے نائب وزرائے اعظم کا تجارتی اور دفاعی تعاون کو مضبوط بنانے کے امکانات پر تبادلہ خیال
  • جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کیلئے جامع معاہدے کیلئے تیار ہیں، حماس
  • وزیراعظم نے مقدمات کی تفویض اور انتظامی نظام کے اجراء کا افتتاح کر دیا، نیا نظام شفافیت، بروقت اور فوری انصاف کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرے گا، شہباز شریف
  • چین کی سافٹ پاور رینکنگ دنیا میں دوسرے نمبر پر آ گئی
  • فیک نیوز سے نمٹنے کیلیے جامع لائحہ بنانا ضروری ہے، عطا تارڑ
  • پرائیوٹ اسکولز تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کیلے کوشاں ہیں،سید طارق شاہ
  • فیک نیوز سے نمٹنے کے لیے جامع لائحہ عمل مرتب کرنا ضروری ہے، عطا تارڑ
  • سعودی عرب میں ریال کے دیدہ زیب نئے لوگو کا اجراء