پاکستان نے امریکا منتقلی کے منتظر افغان پناہ گزینوں کو واشنگٹن نہ لے جانے کی صورت میں ملک بدر کرنے کا عندیہ دے دیا۔

امریکی میڈیا کے مطابق نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان افغان پناہ گزینوں کی امریکا منتقلی کے لیے بات چیت کرنے کو تیار ہے۔

یہ بھی پڑھیں افغانستان سے غیرملکی اسلحے کی کھیپ پاکستان اسمگل کرنے کی کوشش ناکام

اسحاق ڈار نے کہاکہ امریکا کی جانب سے جن پناہ گزینوں کو قبول نہیں کیا جائےگا ہم انہیں ملک بدر کردیں گے۔

وزیر خارجہ نے کہاکہ جن پناہ گزینوں کو کوئی ملک منتقل کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے، اور باضابطہ وعدہ کرلیا جاتا ہے تو ان کے لیے کوئی ڈیڈلائن نہیں ہوگی۔

اسحاق ڈار نے کہاکہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ لوگ پاکستان میں غیرقانونی تارکین وطن تصور ہوں گے اور انہیں مجبوراً اپنے ملک افغانستان بھیجنا پڑےگا۔

واضح رہے کہ 2021 میں افغانستان میں طالبان کی جانب سے اقتدار حاصل کرنے کے بعد افغان شہری پاکستان آئے تھے تاکہ وہ کسی بھی ممکنہ کارروائی سے بچ سکیں۔

رپورٹس کے مطابق مختلف ممالک 80 ہزار افغان باشندوں کو اپنے ملکوں میں بسانے کے لیے لے جا چکے ہیں، جبکہ قریباً 40 ہزار اس وقت بھی پاکستان میں موجود ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ان افغان باشندوں میں 15 ہزار افغان شہری ایسے بھی ہیں جو امریکا منتقلی کے لیے اجازت ملنے کے انتظار میں ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق سال 2023 کے اختتام کے بعد پاکستان کی جانب سے سفری دستاویزات نہ رکھنے والے غیرملکی شہریوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا تھا، جس میں 8 لاکھ سے زیادہ افغان شہری ڈی پورٹ ہو چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں افغانستان کا پاکستان کے خلاف ہونا ہماری غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے، وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور

پاکستان میں اقوام متحدہ میں رجسٹرڈ اور پروف آف رجسٹریشن کارڈ رکھنے والے افغان شہریوں کی تعداد 10 لاکھ سے زیادہ ہے، شہباز شریف کی حکومت نے پی او آر کارڈ رکھنے والے افغان شہریوں کو 30 جون 2025 تک پاکستان میں رہنے کی مہلت دے دی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اسحاق ڈار افغان پنازہ گزین امریکا منتقلی پاکستان ڈی پورٹ عندیہ ملک بدر وزیر خارجہ وعنعوس.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسحاق ڈار افغان پنازہ گزین امریکا منتقلی پاکستان ڈی پورٹ عندیہ ملک بدر امریکا منتقلی کے پناہ گزینوں پاکستان میں اسحاق ڈار کے مطابق ملک بدر کے لیے

پڑھیں:

چین امریکا کی ٹیرف وار کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، مسعود خان

امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل نمائندہ مسعود خان نے کہا ہے کہ چین امریکا کی جانب سے شروع کی گئی ٹیرف وار کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور استعداد رکھتا ہے۔

وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے اُنہوں نے کہاکہ صدر ٹرمپ کے گزشتہ دورِ صدارت میں چینی حکام ٹیرف کے لیے تیار نہیں تھے لیکن اِس بار وہ تیار ہیں اور وہ جوابی قدم اُٹھائیں گے۔ ’میں سمجھتا ہوں کہ صدر ٹرمپ نے چین کی برآمدات و درآمدات پر بہت سخت پابندیاں عائد کی ہیں، لیکن مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ ٹیرف وار نہ امریکا کے مفاد میں ہے نہ چین کے۔ اگر صدر ٹرمپ کی چین سے متعلق پالیسی جاری رہتی ہے تو دنیا میں ایک بھونچال ہوگا۔‘

اِس وقت پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟

اس سوال کے جواب میں سفارتکار مسعود خان نے کہاکہ پاکستان کے امریکا کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں، ہماری حکومت اور ہمارے دفتر خارجہ کو یہ تعلقات مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ کثیرالجہتی تعلقات ہیں۔ ہمارے میزائل پروگرام پر پابندیاں بائیڈن انتظامیہ نے لگائیں جبکہ ہماری تعریف ٹرمپ انتظامیہ نے کی، تو ہمیں توقع رکھنی چاہیے کہ ہمارے اوپر مزید کوئی پابندیاں نہیں لگائی جائیں گی۔

مسعود خان نے کہاکہ پاکستان کو امریکا کے ساتھ تجارتی تعلقات مضبوط کرنے چاہییں، ہمیں جدید ٹیکنالوجی اور تعلیم کے ضِمن میں امریکا کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

کیا امریکا پاکستان ٹیرف مذاکرات سے پاک چین تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں؟

مسعود خان نے کہاکہ ٹیرف مذاکرات کا محور درآمدات و برآمدات سے متعلق ہوگا، اُس میں شاید ہی پاک چین تعلقات کا ذکر آئے، امریکا میں بائیڈن انتظامیہ ہو یا ٹرمپ انتظامیہ، بعض اوقات وہ کُھل کر نہیں بھی کہتے ہیں پر وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور چین کے تعلقات بہت قریبی ہیں اور اتنے قریبی تعلقات کی وجہ سے پاک امریکا تعلقات کا اسکوپ بہت کم رہ جاتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ امریکا کی خواہش ہے کہ پاکستان چین کے بہت زیادہ قریب نہ جائے، پاک امریکا اور پاک چین ان دو متنوع تعلقات کے ضِمن میں ایک تناؤ موجود ہے لیکن اب ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم نے ان دونوں کو کیسے لے کر چلنا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ چین پاکستان اور امریکا مِل کر اِس معمے کو حل کر سکتے ہیں۔

مسعود خان نے کہاکہ امریکا، پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت کئی ترقی پذیر ممالک کی سب سے بڑی منڈی ہے، جب میں امریکا میں سفیر تھا تو ہم نے دیگر 27 ممالک کے ساتھ مِل کر کوشش کی امریکا ہمارا جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس بحال کرے، لیکن جی ایس پی بحال ہونے کے بجائے ٹیرف عائد کردیا گیا جس پر پاکستان حکومت نے فوری طور امریکی محکمہ تجارت کے حکام سے رابطہ کیا اور اب ایک بڑا وفد اِس سلسلے میں مذاکرات کے لیے امریکہ جا رہا ہے۔ ہماری کوشش ہو گی کہ ایسے حل کی طرف بڑھا جائے جس سے امریکا کو بھی فائدہ ہو لیکن پاکستان کو نقصان نہ ہو۔

’امریکا کو افغان مسئلے سے دامن چُھڑانا نہیں چاہیے‘

افغانستان میں امریکا کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ کیا پاکستان کے مفاد میں ہے یا پاکستان کے مفاد کے خلاف؟ اِس سوال کے جواب میں سفارتکار مسعود خان نے کہاکہ پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ امریکا کیا قدم اُٹھا رہا ہے، اور اِس سے متعلق خبروں میں کتنی سچائی اور کیا حقیقت ہے۔

انہوں نے کہاکہ داعش کے دہشتگرد شریف اللہ کو پکڑنے میں تعاون پر امریکا نے ہمارا شکریہ ادا کیا ہے جو کہ خوش آئند ہے، امریکا کے ساتھ انسدادِ دہشتگردی کے معاملات پر ہمارے مذاکرات بھی ہوتے رہتے ہیں، میری خواہش ہے کہ یہ تعلقات بڑھیں لیکن اِس کی کوئی عملی صورت بھی سامنے آنی چاہیے۔

انہوں نے کہاکہ امریکا تو 2021 میں افغانستان سے چلا گیا اب وہ دہشتگردوں کے نشانے پر نہیں ہے، لیکن ہم ہر روز، ہر مہینے اور ہر سال دہشتگردی کا مقابلہ کررہے ہیں۔ دہشتگردی میں دو چیزیں بہت واضح ہیں، ایک یہ کہ دہشتگرد افغانستان کی سرزمین استعمال کررہے ہیں اور دوسرا یہ کہ اُنہیں بیرونی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے۔

مسعود خان نے کہاکہ امریکا یہ سمجھتا ہے کہ دہشتگردی پاکستان اور افغانستان کا مسئلہ ہے جبکہ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ خطّے کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے، نہ صرف خطے بلکہ امریکا کے اتحادیوں اور حلیفوں کے لیے بھی یہ خطرہ ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا کو اِس سے اپنا دامن چُھڑانا نہیں چاہیے، خاص طور پر جب امریکی افواج 07 ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ افغانستان میں چھوڑ کر گئی ہیں، جس میں کافی سارا اسلحہ تقسیم ہو چُکا ہے اور خاص طور پر چھوٹے ہتھیار پاکستان کے خلاف استعمال ہورہے ہیں۔

اںہوں نے کہاکہ امریکا کو چاہیے کہ پاکستان، ایران اور وسط ایشیائی ممالک کو اعتماد میں لے کر دہشتگردی کے خاتمے کے لیے اقدامات کرے اور ساتھ ہی ساتھ بھارت جو کہ براہِ راست یا بالواسطہ طور پر دہشتگردی میں ملوث ہے اُس کو بھی اعتماد میں لیا جانا چاہیے تاکہ اِس خطّے میں امن قائم ہو سکے۔

اقوام متحدہ فلسطینیوں کا قتلِ عام روکنے میں کیوں ناکام ہے؟

اس سوال کے جواب میں مسعود خان نے کہاکہ اقوام متحدہ اِس لیے ناکام ہے کیونکہ اسرائیل اور نیتن یاہو کو امریکی حمایت حاصل ہے۔ امریکا جو کہ دنیا کا طاقتور ترین مُلک ہے اور عرب ممالک سے متعلق پالیسی سازی میں اُس کا خصوصی کردار ہے، اس وجہ سے اقوام متحدہ بے بس ہے۔

انہوں نے کہاکہ امریکا کے ساتھ برطانیہ اور فرانس بھی امریکا کی حمایت میں کھڑے ہو جاتے ہیں، اگر امریکا اسرائیل کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے، فلسطین کی وجہ سے امریکی قیادت پر حرف آ رہا ہے، اقوام متحدہ کا وجود ہی اِس لیے قائم ہوا کہ جنگی جرائم اور نسل کُشی نہ ہو سکے اور امریکا اس سارے نظام کا مؤجد اور ضامن تھا۔

مسعود خان نے کہاکہ امریکا کی زیرِپرستی اگر اِس طرح کے اقدامات ہوں گے تو امریکا کی قیادت کمزور ہوگی، واشنگٹن کو اِس بات کا احساس ہے لیکن اندرونی سیاسی مجبوریاں آڑے آتی ہیں۔ امریکا میں ڈیموکریٹ اور ریپبلکنز نے اسرائیل کی حمایت کو اپنی مجبوری بنا لیا ہے۔

’بھارت کی جانب سے بی ایل اے کی حمایت بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے‘

انہوں نے کہاکہ بی ایل اے جو کہ بین الاقوامی طور پر ایک کالعدم عسکری جماعت ہے، بھارت کی جانب سے اُس کی حمایت بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے زُمرے میں آتی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ بھارت دوطرفہ تعلقات کی خلاف ورزی کررہا ہے جو کہ ناقابلِ معافی جُرم ہے۔

مسعود خان نے کہاکہ بھارت بی ایل اے کی کھلم کھلا حمایت کر رہا ہے، عالمی سیاست کی پیچیدگیوں کی وجہ سے بھارت کی جوابدہی نہیں ہو پا رہی، پاکستان نے کئی بار اقوام متحدہ اور بین الاقوامی فورمز کو شواہد پیش کیے ہیں، صرف اِس واقعے کے نہیں بلکہ اِس سے قبل پیش آنے والے حادثات میں بھی بھارتی مداخلت کے ثبوت ہم جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل سمیت بین الاقوامی فورمز پر پیش کرتے رہے ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کو اپنی سوچ بدلنا ہوگی۔

انہوں نے کہاکہ ایک مستحکم پاکستان بھارت کے مفاد میں ہے اور ایک مستحکم جنوبی ایشیا ساری دنیا کے مفاد میں ہے، ہندوستان یہ سمجھ رہا ہے کہ اِس طرح پاکستان کو نیچا دکھائے گا، گلگت بلتستان سے لے کر گوادر تک ہم ایک قوم ہیں اور اِس طرح دہشتگردی کے واقعات سے ہمیں زیادہ فرق نہیں پڑےگا۔

’امریکہ کی جانب سے پاکستانی معدنیات میں سرمایہ کاری خوش آئند ہے‘

مسعود خان نے کہا کہ امریکا کا پاکستان میں سرمایہ کاری کا تجربہ ہے، پاکستان کے پاس لیتھئم اور تانبے کے ذخائر نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا کے لیے خوش آئند ہیں، اگر امریکا یہاں سرمایہ کاری کرتا ہے تو دونوں مُلکوں کے تعلقات مزید مضبوط ہوسکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews امریکا پاک امریکا تعلقات پاک چین تعلقات پاکستان ٹیرف وار سابق سفیر سفارتکار سی پیک مسعود خان معدنیات وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • آٹھ پاکستانی شہریوں کے قتل کے بعد دہشتگردی کے خلاف پاکستان اور ایران کی مشترکہ کارروائی کا عندیہ
  • چین امریکا کی ٹیرف وار کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، مسعود خان
  • فواد خان کی حمایت؛ سشمیتاسین کا پاکستانی فلم میں کام کرنے کا بھی عندیہ
  • سشمیتاسین کی فواد خان کی حمایت؛ اداکارہ کا پاکستانی فلم میں کام کرنے کا عندیہ
  • ٹرمپ نے افغان باشندوں کی عارضی پناہ گاہوں کی حیثیت ختم کردی
  • غیر قانونی مقیم غیر ملکی باشندوں کی انخلاء مہم جاری،مزید 4ہزارسے زائد خاندان افغانستان میں داخل
  • غیر قانونی مقیم مزید 4 ہزار افغان باشندوں واپس بھیج دیے گئے
  • افغان مہاجرین سمیت غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کے انخلاء جاری
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کو کیسز کی غیر ضروری منتقلی سے روکنے کا حکم
  • افغان باشندوں، غیرملکیوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کا معاملہ، نادرا اہلکار گرفتار