UrduPoint:
2025-04-13@15:57:14 GMT

گوادر کا نیا ایئرپورٹ: نہ جہاز نہ مسافر، بس ایک پراسراریت

اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT

گوادر کا نیا ایئرپورٹ: نہ جہاز نہ مسافر، بس ایک پراسراریت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 فروری 2025ء) لاگت کے حوالے سے پاکستان کا یہ سب سے مہنگا ہوائی اڈہ شورش شدہ صوبہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں واقع ہے۔ اس علاقے کے لوگوں کی معاشی صورتحال بھی کچھ زیادہ اچھی نہیں۔ چین گزشتہ ایک دہائی سے گوادر اور بلوچستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے، جو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ ہے۔

گوادر کے لیے سمندر نعمت سے عذاب کیسے بنا؟

’بلوچستان میں صورت حال صرف ایک دن میں تو خراب نہیں ہوئی‘

پاکستانی حکام نے اس منصوبے کو تبدیلی کا نشان قرار دیا ہے، لیکن گوادر شہر میں تبدیلی کے بہت کم آثار نظر آتے ہیں۔ شہر میں بجلی اور پانی کی قلت ہے۔ چار لاکھ مسافروں کی گنجائش والا یہ ہوائی اڈہ شہر کے 90 ہزار باسیوں کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

(جاری ہے)

پاکستان اور چین کے تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہر عظیم خالد کے مطابق یہ ہوائی اڈہ پاکستان یا گوادر کے لیے نہیں ہے: ''یہ چین کے لیے ہے تاکہ وہ اپنے شہریوں کو گوادراور بلوچستان تک محفوظ رسائی دے سکے۔‘‘

سی پیک نے بلوچستان میں دہائیوں سے جاری شورش کو ہوا دی ہے۔ علیحدگی پسند، جن کا دعویٰ ہے کہ وہ مقامی لوگوں کے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں، پاکستانی فوجیوں اور چینی کارکنوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں حکومت کی جانب سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چین کی سرمایہ کاری کے تحفظ کے لیے گوادر میں فوجی موجودگی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ شہر میں چیک پوائنٹس، خاردار تاریں، فوجی اور رکاوٹیں عام منظر ہیں۔ چینی کارکنوں اور پاکستانی وی آئی پیز کو محفوظ طریقے سے گزرنے کی اجازت دینے کے لیے سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں، جبکہ صحافیوں کی نگرانی کی جاتی ہے۔

مقامی آبادی کے مسائل

مقامی باشندے پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گوادر میں پینے کے صاف پانی کی بھی قلت ہے اور روزگار کے مواقعوں کی بھی۔ گوادر سے تعلق رکھنے والے 76 سالہ خدا بخش ہاشم کے بقول پہلے کوئی نہیں پوچھتا تھا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں، یا یہ کہ وہ کیا کرتے ہیں یا ان کا نام کیا ہے: ''ہم پہاڑوں یا دیہی علاقوں میں پوری رات پکنک سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

‘‘
انہوں نے موجودہ صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہوئے مزید کہا، ''ہمیں اپنی شناخت ثابت کرنے کے لیے کہا جاتا ہے، ہم کون ہیں، ہم کہاں سے آئے ہیں۔ ہم تو یہاں کے باشندے ہیں۔ پوچھنے والوں کو اپنی شناخت بتانی چاہیے کہ وہ کون ہیں۔‘‘

حکومت کا کہنا ہے کہ سی پیک نے 2000 مقامی ملازمتیں پیدا کی ہیں، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ 'مقامی‘ سے ان کی کیا مراد ہے۔

گوادر کے لوگوں کو چین کی موجودگی سے بہت کم فوائد نظر آتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں ہزاروں افراد لاپتہ ہو چکے ہیں اور جو کوئی بھی استحصال کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اسے حراست میں لیا جا سکتا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں اور تشدد ہو رہا ہے، تاہم حکومت اس سے انکار کرتی ہے۔

خدا بخش ہاشم کے بقول مقامی لوگ چاہتے ہیں کہ سی پیک کامیاب ہو تاکہ انہیں روزگار، امید اور مقصد مل سکے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

سی پیک کا مستقبل اور مقامی خدشات

'پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز‘ کے مطابق 2014 میں حکومت کی جانب سے انسداد بغاوت کے بعد بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے تشدد میں کمی آئی ۔

لیکن 2021 کے بعد حملوں میں تیزی آئی ہے اور ان میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔

سکیورٹی خدشات کی وجہ سے نئے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے افتتاح میں بھی تاخیر ہوئی۔ اس بات کا خدشہ تھا کہ ہوائی اڈے کے قریب موجود پہاڑ کسی حملے کے لیے مثالی لانچ پیڈ ثابت ہو سکتے ہیں۔

اس ایئرپورٹ کے افتتاح کے لیے گوادر آنے کی بجائے پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے چینی ہم منصب لی کیانگ نے ایک ورچوئل تقریب کی میزبانی کی۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے ضلعی صدر عبدالغفور ہوتھ نے کہا کہ گوادر کے ایک بھی باشندے کو ہوائی اڈے پر کام کرنے کے لیے نہیں رکھا گیا، ''یہاں تک کہ چوکیدار کے طور پر بھی نہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ دیگر ملازمتوں کو بھول جائیں، ''سی پیک کے تحت بنائی گئی اس بندرگاہ پر کتنے بلوچ موجود ہیں؟‘‘

دسمبر میں گوادر میں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی پر مسلسل احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔

احتجاج 47 دن جاری رہا اور حکام کی طرف سے بجلی اور پانی تک بہتر رسائی سمیت مقامی لوگوں کے مطالبات کو پورا کرنے کے وعدے کے بعد اس کا اختتام ہوا۔

لیکن ان مطالبات کو نافذ کرنے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مقامی لیبر، سامان یا خدمات کے بغیر سی پیک سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ جیسے جیسے چینی پیسہ گوادر میں آیا، اسی طرح سکیورٹی رکاوٹیں کھڑی ہوئیں اور بداعتمادی گہری ہوئی۔

بین الاقوامی تعلقات کے ماہر عظیم خالد کے مطابق، ''پاکستانی حکومت بلوچ عوام کو کچھ بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہے، اور نہ ہی بلوچ عوام ، حکومت سے کچھ بھی لینے کو تیار ہیں۔‘‘

ا ب ا/ک م (ایسوسی ایٹڈ پریس)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں مقامی لوگوں گوادر میں گوادر کے نہیں ہو کے لیے سی پیک

پڑھیں:

نواز شریف بلوچستان آکر کیا کریں گے، ان کے ہاتھ میں ہے کیا؟ سردار اختر مینگل

کوئٹہ (ڈیلی پاکستان آن لائن )بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ نواز شریف یہاں آکر کیا کریں گے، ان کے ہاتھ میں کیا ہے۔ کیا ان کے پاس اختیارات ہیں۔
نجی سوشل میڈیا ویب سائٹ وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا کہ ابتداءمیں حکومت کے 2 وفود آئے تھے جن میں صوبائی وزراء شامل تھے۔ دونوں وفود نے ہمارے مطالبات سنے اور اقرار کیا کہ غلط ہو رہا ہے لیکن پھر وہ اپنی بے بسی کا رونا روتے رہے اور کہا کہ ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں۔ جس کے بعد حکومت سے ہماری کوئی بات نہیں ہوئی۔
ایک سوال کے جواب میں سردار اختر مینگل نے ترجمان بلوچستان حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ ترجمان منتخب ہوتا تو اس کی باتوں کا جواب ضرور دیتا۔ کرایے پر لائے ہوئے ترجمانوں کو ہم ترجمان نہیں گردانتے۔ آج یہ حکومت انہیں تنخواہ دے رہی ہے تو ان کی ترجمانی کر رہے ہیں کل کسی اور کی ترجمانی کریں گے۔
’جہاں تک بات ہے شاہوانی سٹیڈیم کی اجازت کی تو وہاں انہوں نے جلسہ کرنے کی اجازت دی تھی۔ ہم جب سے وڈھ سے نکلے ہیں جلسے کررہے ہیں۔ روزانہ لکپاس پر 2 جلسے کرتے ہیں۔ ہم جلسہ کرنے نہیں بلکہ احتجاج ریکارڈ کروانے آئے ہیں۔ چاہے آپ ہمارے مطالبات مانیں یا نہ مانیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ہمیں کہا جارہا ہے، آپ کو اس لئے احتجاج نہیں کرنے دیا جارہا کیونکہ سکیورٹی کا مسئلہ ہے۔ ہم شاہوانی سٹیڈیم نہیں گئے اور وہاں سے انہوں نے بم برآمد کر لیا۔ ہم کوئٹہ نہیں گئے لیکن کیا وہاں تخریب کاری رکی ہے۔ دراصل حکومت ایکسپوز ہوچکی ہے اور خوف زدہ ہے۔ حکومت جانتی ہے کہ اگر ہم کوئٹہ آگئے تو ان کے کارناموں کا بھانڈا پھوڑیں گے اسی لئے انہوں نے ہمارے لئے رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔
سردار اختر مینگل نے کہا کہ وہ حکومت جسے خود سیاست کا پتا نہیں، جنہوں نے سیاست 4 نمبر دروازے سے کی ہو، ایسے لوگ ہمیں سیاست کا درس نہ دیں۔ ہم نے اپنی تمام عمر لوگوں کے لئے عوامی سیاست کی ہے۔ اگر ہمیں سیاست کرنا ہوتی تو اس وقت کرتے جب دھاندلی کرکے فارم۔47 والوں کو ہماری نشستیں دی جارہی تھیں لیکن اس مسئلے پر کوئی بھی غیرت مند خاموش نہیں رہتا۔
ایک سوال کے جواب میں سردار اختر مینگل نے کہا کہ پارلیمان کو اس لئے خیر باد کہا کیونکہ وہاں ہماری بات نہیں سنی جارہی تھی۔’مجھے اس بات کی فکر نہیں کہ پارلیمان میں ہماری بات سنی جارہی ہے یا نہیں، مجھے ان لوگوں کی فکر تھی جنہوں نے ہمیں اپنا ووٹ دیا تھا۔ جن لوگوں نے ہم پر اعتماد کیا ہم انہیں یہ بتانا چاہتے تھے کہ ہم آپ کے مسائل پر خاموش نہیں۔‘سرفراز بگٹی کے دور حکومت سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ دنیا جب ترقی کرتی ہے تو مثبت پہلو سامنے آتے ہیں۔ یہ واحد ملک ہے جہاں وقت کے بہاو¿ کے ساتھ ساتھ پالیسیوں میں منفی تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرفراز بگٹی کا دور ماضی کی منفی پالیسیوں کی عکاسی کرتا ہے۔
سردار اختر مینگل نے کہا کہ ریاست کے مائنڈ سیٹ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ حکومتیں تبدیل ہوئیں، نام نہاد جمہوری لوگ آئے، مارشل لا لگائے گئے لیکن بلوچستان کے حالات اس لئے نہیں بدل رہے کیونکہ ایک مائنڈ سیٹ نہیں بدل رہا۔ جب تک اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل نہیں کیا جائے گا تب تک حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ اور مائنڈ سیٹ یہ ہے کہ بلوچستان کو صوبہ نہیں ایک کالونی تصور کیا جاتا ہے۔ جب اس سوچ کے تحت حکومت ہوگی تو حالات بگڑیں گے۔سردار اختر مینگل نے کہا کہ نواز شریف یہاں آکر کیا کریں گے ان کے ہاتھ میں کیا ہے۔ کیا ان کے پاس اختیارات ہیں۔ نواز شریف صاحب کو اگر کچھ کرنا تھا تو جس وقت الیکشن سے قبل میں نے انہیں خط لکھا تھا تو وہ تب کچھ نہیں کر سکے، جب وہ کبھی نشستیں حاصل کرنے کی امید سے تھے، اب جب وہ نہ وزیراعظم ہیں اور نہ انتخابات میں انہیں کچھ ملا۔ ہاں! نواز شریف نے اپنے اصولوں کو بلی چڑھایا جس کے نتیجے میں ان کا بھائی وزیر اعظم بنا اور بیٹی وزیر اعلیٰ بنی لیکن انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔

فاسٹ بولر احسان اللہ پی ایس ایل میں کس ٹیم کی طرف سے کھیلیں گے ؟

مزید :

متعلقہ مضامین

  • کوئٹہ جانے والی بولان میل جیکب آباد پر روک دی گئی، مسافر رُل گئے
  • ن لیگ بلوچستان کے رہنماؤں کی اختر مینگل پر تنقید
  • جہاز رانی میں مضر ماحول گیسوں کا اخراج کم کرنے پر تاریخی معاہدہ طے
  • گوادر: پسنی میں گاڑی سے 54 کلو آئس برآمد
  • سابق صدر مملکت عارف علوی کا مذاکرات کی حمایت کا اعلان
  • نواز شریف بلوچستان آکر کیا کریں گے، ان کے ہاتھ میں ہے کیا؟   اختر مینگل
  • نواز شریف بلوچستان آکر کیا کریں گے، ان کے ہاتھ میں ہے کیا؟ سردار اختر مینگل
  • امریکی طیاروں کی خوفناک ٹکر، کانگریس ممبران بال بال بچے
  • بلوچستان کا سیاسی حل تلاش کرنا ہوگا
  • بلوچستان کا ایشو