گوادر کا نیا ایئرپورٹ: نہ جہاز نہ مسافر، بس ایک پراسراریت
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 فروری 2025ء) لاگت کے حوالے سے پاکستان کا یہ سب سے مہنگا ہوائی اڈہ شورش شدہ صوبہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں واقع ہے۔ اس علاقے کے لوگوں کی معاشی صورتحال بھی کچھ زیادہ اچھی نہیں۔ چین گزشتہ ایک دہائی سے گوادر اور بلوچستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے، جو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ ہے۔
گوادر کے لیے سمندر نعمت سے عذاب کیسے بنا؟
’بلوچستان میں صورت حال صرف ایک دن میں تو خراب نہیں ہوئی‘
پاکستانی حکام نے اس منصوبے کو تبدیلی کا نشان قرار دیا ہے، لیکن گوادر شہر میں تبدیلی کے بہت کم آثار نظر آتے ہیں۔ شہر میں بجلی اور پانی کی قلت ہے۔ چار لاکھ مسافروں کی گنجائش والا یہ ہوائی اڈہ شہر کے 90 ہزار باسیوں کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔
(جاری ہے)
پاکستان اور چین کے تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہر عظیم خالد کے مطابق یہ ہوائی اڈہ پاکستان یا گوادر کے لیے نہیں ہے: ''یہ چین کے لیے ہے تاکہ وہ اپنے شہریوں کو گوادراور بلوچستان تک محفوظ رسائی دے سکے۔‘‘
سی پیک نے بلوچستان میں دہائیوں سے جاری شورش کو ہوا دی ہے۔ علیحدگی پسند، جن کا دعویٰ ہے کہ وہ مقامی لوگوں کے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں، پاکستانی فوجیوں اور چینی کارکنوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں حکومت کی جانب سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چین کی سرمایہ کاری کے تحفظ کے لیے گوادر میں فوجی موجودگی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ شہر میں چیک پوائنٹس، خاردار تاریں، فوجی اور رکاوٹیں عام منظر ہیں۔ چینی کارکنوں اور پاکستانی وی آئی پیز کو محفوظ طریقے سے گزرنے کی اجازت دینے کے لیے سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں، جبکہ صحافیوں کی نگرانی کی جاتی ہے۔
مقامی آبادی کے مسائلمقامی باشندے پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گوادر میں پینے کے صاف پانی کی بھی قلت ہے اور روزگار کے مواقعوں کی بھی۔ گوادر سے تعلق رکھنے والے 76 سالہ خدا بخش ہاشم کے بقول پہلے کوئی نہیں پوچھتا تھا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں، یا یہ کہ وہ کیا کرتے ہیں یا ان کا نام کیا ہے: ''ہم پہاڑوں یا دیہی علاقوں میں پوری رات پکنک سے لطف اندوز ہوتے تھے۔
‘‘انہوں نے موجودہ صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہوئے مزید کہا، ''ہمیں اپنی شناخت ثابت کرنے کے لیے کہا جاتا ہے، ہم کون ہیں، ہم کہاں سے آئے ہیں۔ ہم تو یہاں کے باشندے ہیں۔ پوچھنے والوں کو اپنی شناخت بتانی چاہیے کہ وہ کون ہیں۔‘‘
حکومت کا کہنا ہے کہ سی پیک نے 2000 مقامی ملازمتیں پیدا کی ہیں، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ 'مقامی‘ سے ان کی کیا مراد ہے۔
گوادر کے لوگوں کو چین کی موجودگی سے بہت کم فوائد نظر آتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں ہزاروں افراد لاپتہ ہو چکے ہیں اور جو کوئی بھی استحصال کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اسے حراست میں لیا جا سکتا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں اور تشدد ہو رہا ہے، تاہم حکومت اس سے انکار کرتی ہے۔
خدا بخش ہاشم کے بقول مقامی لوگ چاہتے ہیں کہ سی پیک کامیاب ہو تاکہ انہیں روزگار، امید اور مقصد مل سکے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔
سی پیک کا مستقبل اور مقامی خدشات'پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز‘ کے مطابق 2014 میں حکومت کی جانب سے انسداد بغاوت کے بعد بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے تشدد میں کمی آئی ۔
لیکن 2021 کے بعد حملوں میں تیزی آئی ہے اور ان میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔سکیورٹی خدشات کی وجہ سے نئے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے افتتاح میں بھی تاخیر ہوئی۔ اس بات کا خدشہ تھا کہ ہوائی اڈے کے قریب موجود پہاڑ کسی حملے کے لیے مثالی لانچ پیڈ ثابت ہو سکتے ہیں۔
اس ایئرپورٹ کے افتتاح کے لیے گوادر آنے کی بجائے پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے چینی ہم منصب لی کیانگ نے ایک ورچوئل تقریب کی میزبانی کی۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے ضلعی صدر عبدالغفور ہوتھ نے کہا کہ گوادر کے ایک بھی باشندے کو ہوائی اڈے پر کام کرنے کے لیے نہیں رکھا گیا، ''یہاں تک کہ چوکیدار کے طور پر بھی نہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ دیگر ملازمتوں کو بھول جائیں، ''سی پیک کے تحت بنائی گئی اس بندرگاہ پر کتنے بلوچ موجود ہیں؟‘‘
دسمبر میں گوادر میں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی پر مسلسل احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
احتجاج 47 دن جاری رہا اور حکام کی طرف سے بجلی اور پانی تک بہتر رسائی سمیت مقامی لوگوں کے مطالبات کو پورا کرنے کے وعدے کے بعد اس کا اختتام ہوا۔لیکن ان مطالبات کو نافذ کرنے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مقامی لیبر، سامان یا خدمات کے بغیر سی پیک سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ جیسے جیسے چینی پیسہ گوادر میں آیا، اسی طرح سکیورٹی رکاوٹیں کھڑی ہوئیں اور بداعتمادی گہری ہوئی۔
بین الاقوامی تعلقات کے ماہر عظیم خالد کے مطابق، ''پاکستانی حکومت بلوچ عوام کو کچھ بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہے، اور نہ ہی بلوچ عوام ، حکومت سے کچھ بھی لینے کو تیار ہیں۔‘‘
ا ب ا/ک م (ایسوسی ایٹڈ پریس)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں مقامی لوگوں گوادر میں گوادر کے نہیں ہو کے لیے سی پیک
پڑھیں:
بلوچستان گڈز ٹرالرز مالکان کا احتجاج، اشیاء خوردونوش کی قلت کا خدشہ
گڈز ٹرالرز مالکان کیجانب سے احتجاج کے باعث بلوچستان میں اشیاء کی ترسیل بند ہے۔ دکانداروں کا کہنا ہے کہ ماہ رمضان کی آمد کیساتھ اشیاء کی قلت کا سامنا ہو سکتا ہے، جسکے باعث قیمتیں بڑھنے کا خدشہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ گزشتہ چار دنوں سے بلوچستان گڈز ٹرالرز اونر ایسوسی ایشن کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ مالکان نے احتجاجاً مال بردار ٹرکوں کو قومی شاہراہوں پر کھڑا کر دیا ہے، اور دیگر صوبوں سے بلوچستان تک اشیائے خوردونوش کی ترسیل بند ہیں۔ آج 5 روز سے جاری احتجاج کے باعث بلوچستان میں اشیائے خورونوش کی قلت کا خدشہ پیدا ہونے لگا ہے۔ بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں مرغی کے گوشت، سبزیوں، دالوں سمیت دیگر خوردنی اشیا کے دام بڑھنا شروع ہو گئے ہیں۔ 2 روز کے دوران مرغی کے گوشت کی قیمت میں 40 روپے کا بڑا اضافہ ہوا ہے، جبکہ سبزیوں اور دالوں کی قیمتوں میں 5 سے 10 فیصد کا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ دکانداروں کا کہنا ہے کہ تاحال خوردنی اشیاء دستیاب تو ہیں مگر وافر مقدار میں نہیں ہیں۔ تاہم اگر گڈز اور ٹرک مالکان کا احتجاج مزید چند دن جاری رہتا ہے تو صورتحال بگڑ سکتی ہیں۔ دکانداروں کا موقف ہے کہ آئندہ چند دنوں میں ماہ رمضان آنے والا ہے اور ایسے میں اشیاء خورونوش کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔ ایسے میں اگر دیگر علاقوں سے اشیائے خورونوش کوئٹہ نہ پہنچیں تو خوردنی اشیا کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔