اسلام آباد:

چوہدری شجاعت حسین کی قائم کردہ سیاسی رابطہ کمیٹی نے قومی مفاہمت کے لیے سفارشات تیار کرلیں۔

پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے سیاسی درجہ حرارت میں کمی لانے اور تمام سٹیک ہولڈرز کو قومی ایجنڈا پر متفق بنانے کے لیے قائم کی گئی سیاسی رابطہ کمیٹی کا پہلا باقاعدہ اجلاس اتوار کے روز مسلم لیگ ہاوس اسلام آباد میں منعقد ہوا جس کی صدارت کمیٹی کے وائس چئیرمین غلام مصطفیٰ ملک نے کی۔

 اجلاس میں اراکین ڈاکٹر محمد امجد، محمد رحیم اعوان، انتخاب خان چمکنی، طارق حسن اور رضوان صادق خان شریک ہوئے، جب کہ اجلاس کے حوالے سے کمیٹی کے چئیرمین میر نصیر خان مینگل سے بھی مشاورت کی گئی۔

پارٹی سیکرٹریٹ سے جاری کردہ اعلامیہ میں بتایا گیا کہ سیاسی رابطہ کمیٹی نے حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں سے مشاورت کے لیے ایجنڈا تیار کر لیا ہے۔

مصطفی ملک نے کہا کہ سیاسی رابطہ کمیٹی نے قومی مفاہمت کے لیے سفارشات تیار کر لی ہیں، کمیٹی چوہدری شجاعت حسین کی اجازت کے بعد اپوزیش جماعتوں، سول سوسائٹی، میڈیا سے ملاقاتوں کا آغاز کرے گی۔

مصطفیٰ ملک نے کہا کہ مسلم لیگ نے اتحادی جماعتوں کو مزید وسعت دینے کی تجویز دی ہے، ہم خیال سیاسی جماعتوں اور بزرگ سیاستدانوں سے بھی رہنمائی لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ ملکی مسائل اور درپیش چیلجز سے نمٹنے کے لیے اپوزیش جماعتوں سے بامقصد بات چیت میں کوئی حرج نہیں ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیاسی رابطہ کمیٹی نے چوہدری شجاعت کے لیے

پڑھیں:

سیاسی مخالفین کے خلاف ہمارا مجموعی سیاسی کلچر

پاکستانی سیاست کا ایک بڑا المیہ اپنے سیاسی مخالفین کو برداشت نہ کرنا ہے۔ہمارا مجموعی مزاج سیاسی تنقید کا کم اور سیاسی دشمنی کا زیادہ غالب نظر آتا ہے۔

سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مخالفین پر تنقید کے نام پر تضحیک کے پہلو کو نمایاں پیش کرتی ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست میں جمہوری روایات اور طرز عمل پنپ نہیں سکا۔سیاسی جماعتیں جمہوریت اور جمہوری طرز عمل کے دعوے تو بہت کرتی ہیں لیکن ان جماعتوں کی مجموعی سیاست جمہوری اور اخلاقی اصولوں کے برعکس ہے۔

یہ مسئلہ کسی ایک جماعت کی حد تک محدود نہیں بلکہ تمام بڑی اور چھوٹی جماعتیں اس کھیل میں اپنا اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ایک وجہ قومی سیاست میں حقیقی مسائل کی بنیاد پر ہمیں عملی سیاست کا فقدان نظر آتا ہے۔جب حقیقی مسائل پر مبنی سیاست نہیںہوگی تواس کی جگہ ہمیں غیر سنجیدہ اورالزام تراشیوں پر مبنی سیاست کا کھیل دیکھنے کو ملتا ہے۔

پاکستان میں جو ہمیں سیاسی عدم استحکام اور جمہوریت کے عدم تسلسل کی کہانی یاجمہوریت کے کمزور ہونے کا عمل دیکھنے کوملتا ہے تو اس کی وجوہات کو دیکھیں توایک بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کے داخلی سطح پر موجود غیر جمہوری طرزعمل اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی سیاست بھی ہے جو قومی سیاست پر غالب ہے۔ سیاسی جماعتوں کا دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف الزام تراشیوں کا کھیل ایک طرف ان کے اپنے سیاسی مفادات کے گردگھومتا تھا تو دوسری طرف اس کا فائدہ غیر سیاسی قوتوں کو بھی ہوتا تھا جو سیاسی جماعتوں کی باہمی لڑائی کا فائدہ اٹھاکر اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل بھی کرتے تھے۔

ہم جب سیاسی جماعتوں کی طرز سیاست کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمارے بہت سے دوست اس تجزیے کی بنیاد 2011 سے بناتے ہیں۔ان کے خیال میں 2011 سے پہلے پاکستان کی سیاست میں نہ تو کوئی محاذآرئی کا کلچر تھا اور نہ ہی کردار کشی اور گالم گلوچ پر مبنی سیاست۔ان کے بقول یہ سب کچھ 2011 کے بعد سے شروع ہوا ہے اور اس کا الزام پی ٹی آئی پر لگایا جاتا ہے۔پی ٹی آئی پر بہت تنقید کی جا سکتی ہے اور کی جانی چاہیے۔یقیناً انھوں نے بھی دیگر جماعتوں کی طرح کوئی اچھی سیاسی روایت قائم نہیں کی ہے۔ لیکن ہم نے جو سیاست 80 اور 90 کی دہائی میں دیکھی ہے وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔

اس سیاست میں بہت کچھ ہوا اور مسلم لیگ ن ، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے کی کردار کشی تک کی۔ بھٹوصاحب کے خلاف بننے والا پی این اے کا اتحاد ہو یا محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف بننے والے اسلامی جمہوری اتحاد ان دونوں اتحادوں کی سیاست مجموعی طورپر منفی اور نفرت کی سیاست پر مبنی تھی اور اس سیاست کی وجہ سے جمہوری عمل متاثر ہوا۔یہ جو بار بار ہمیں ملکی سیاست میں فوجی مداخلتوں کا کھیل دیکھنے کو ملا ،وہ بھی اسی سیاست کا عملی نتیجہ تھا۔

ہمیں مجموعی طورپر اس ناکامی کا اعتراف بھی کرنا چاہیے کیونکہ ایک طرف بھٹو کے مخالفین تھے دوسری طرف بھٹو کے حامی اور دونوں نے اس کھیل میں نفرت کے بیج بوئے۔ماضی کی سیاست میں ہم نے سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلافملک دشمنی ،قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دینا، بھارت اسرائیل اور امریکا دوستی اور مسلم دشمنی پر مبنی سیاست کو دیکھا ہے۔اس کھیل میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں نے بھی اپنا حصہ خوب ڈالا تھا۔ماضی کی جو منفی سیاست ہم نے دیکھی تھی اب اس کی نئی شکل ہم دیکھ رہے ہیں۔

بعض لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ماضی کی غلطیوں سے ملک کی دو بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے سبق سیکھا ہے اور اس کی مثال وہ میثاق جمہوریت کو دیتے ہیں۔یہ بات سمجھنی ہوگی کہ میثاق جمہوریت کے بعد بھی یہ جماعتیں ایک دوسرے سے دست وگریبان رہی ہیں اوراس وقت یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ اقتدار کے کھیل شریک ہیں۔ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا، چاہے ماضی کی سیاست ہو یا آج کی سیاست ہم مجموعی طور پر جمہوری سیاست اور جمہوری طرز عمل کو اختیار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا جمہوری تجربہ وہ نتائج نہیں دے رہا جو جمہوری ملکوںکو ملتا ہے۔ہماری جمہوریت آج دنیا کی درجہ بندی میں بہت پیچھے ہے اور لوگ ہماری جمہوریت پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھارہے ہیں یا ان کو ہماری جمہوریت پر شدید تحفظات ہیں۔

جمہوریت سے مراد اپنے سیاسی مخالفین کی سیاسی قبولیت سے ہوتا ہے اور جمہوری عمل ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا سکھاتا ہے جب کہ ہم جمہوریت کے نام پر سیاسی دشمنی کے کھیل میں اس حد تک آگے چلے گئے ہیں کہ جمہوریت کا سفر پیچھے رہ گیا ہے۔یہ کھیل میںکسی ایک سیاسی جماعت یا مذہبی جماعت کی ناکامی نہیں بلکہ اس میں سب جماعتوں نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔بعض سیاسی جماعتوں نے غیر سیاسی قوتوں کے ایجنڈا کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی سیاست کے بیج بوئے ہیں۔

ان سیاسی جماعتوں نے یہاں اپنی اپنی جماعتوں کو ایک دوسرے کی عملی مخالفت میں نفرت کے طور پر استعمال کیا ۔ اس لیے ہماری سیاست کے حقائق کافی تلخ ہیں اور ہمیں اپنی اپنی سیاسی پسندوناپسند سے باہر نکل کر ایک بڑے سیاسی فریم ورک میں قومی مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔یہ جو ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھ کر ہم اپنا قومی سیاسی بیانیہ نفرت کی بنیاد پر بنا رہے ہیں، اس سے معاشرے میں سیاسی بنیادوں پر اور زیادہ تقسیم ہوگی۔پہلے ہی ہم بطور معاشرہ سیاسی طور پر بہت تقسیم ہوگئے ہیں اور اس تقسیم نے لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کردیا ہے۔

اس لیے ہمیں ایک نئی سیاست درکار ہے جو لوگوں میں سیاسی نفرت کو کم کرے اور اس عمل میں ہماری سیاسی جماعتوں اورسیاسی قیادت کو بڑی ذمے داری کا مظاہرہ کرناہوگا۔یہ عمل روائتی اور فرسودہ یا غیر حقیقی سیاسی ایجنڈا کی بنیاد پر نہیں آگے بڑھے گا۔سول سوسائٹی اور میڈیا کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں پر دباؤ بڑھائیں کہ وہ اپنی سیاست کی سمت کو درست کریں اور سیاست کو جمہوری اصولوں کی بنیاد پر آگے بڑھائیں۔یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں، ہمیںاس عمل میں قومی سطح پرایک تحریک چلانی ہوگی کہ سیاست اور جمہوریت کی بنیاد سیاسی دشمنی پر نہیں بلکہ قومی اورحقیقی مسائل سے جڑی ہونی چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • چوہدری شجاعت کی قائم کردہ سیاسی رابطہ کمیٹی کی جانب سے قومی مفاہمتی سفارشات تیار کرلی گئیں
  • جرمن انتخابات: انتخابی مہم میں سیاسی جماعتوں کی خارجہ پالیسی
  • ڈاکٹر محمد امجد،رضوان صادق خان پولیٹیکل کوآرڈینیشن کمیٹی کے رکن نامزد، کمیٹی کا پہلا باقاعدہ اجلاس کل ہوگا
  • پی ٹی آئی ایک بار پھر اداروں کے خلاف مہم چلانا چاہتی ہے، مصدق ملک
  • سی ایس ایس کا برسوں پرانا امتحانی نظام تبدیل کرنے کیلئے حکومت تیار
  • اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس، آئی سی سی کیلئے ٹیکس چھوٹ کی منظوری 
  • سیاسی مخالفین کے خلاف ہمارا مجموعی سیاسی کلچر
  • رمضان کا چاند دیکھنے کیلئے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس پشاور میں ہوگا
  • پی ٹی آئی کی قیادت پر بانی چیئرمین کی رہائی کیلئے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کا الزام