سوچنے کا فن اور کاروباری آئیڈیاز
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
اگر آپ کسی مشکل میں گھرے ہوئے ہیں، کسی پریشانی اور دکھ کا شکار ہیں یا زندگی میں کوئی بڑا کام کرنا چاہتے ہیں مگر آپ کے دماغ میں کوئی بہتر خیال نہیں آ رہا ہے تو آپ کو چاہیے کہ سب سے پہلے آپ اپنے ذہن کو تروتازہ رکھیں اور اس کے بعد سوچنے کا ہمہ وقت فن سیکھنے کے لئے خود کو تیار کریں۔ صرف دماغ میں خیالات کا آنا سوچنے کا عمل نہیں ہے کیونکہ بے ہنگھم اور منتشر خیالات تو احمقوں کے دماغ میں بھی آتے ہیں۔ بامقصد سوچنے کی مشق ہی سوچنا کہلاتی ہے کیونکہ یہ باقاعدہ ایک مہارت ہے جو مقاصد کے حصول اور مسائل کے حل میں مدد فراہم کرتی ہے۔دنیا میں جتنے بھی بڑے اور کامیاب لوگ گزرے ہیں وہ کبھی بھی مایوسی اور ناامیدی کی گرفت میں نہیں آئے کہ جس سے ان کے سوچنے سمجھنے اور غوروخوض کرنے کی صلاحیت مسلوب ہوئی ہو۔ امریکی شہری ہینری فورڈ ’’ فورڈ موٹر کمپنی‘‘کے مالک اور گاڑیوں کی بڑے پیمانے پر پیداوار اور ان کی جدید خطوط پر ہیئت سازی کرنے کے بانی تھے جن کی ٹی ماڈل کی گاڑیوں نے نقل و حمل اور امریکی صنعت میں انقلاب برپا کیا۔ وہ ایک زرخیز ذہن کے مالک موجد تھے جنہیں اپنی 161 ایجادات کی رویلٹی ملتی تھی۔ ہینری فورڈ دنیا کے پہلے بزنس مین تھے جنہوں نے سوچنے اور بزنس آئیڈیاز لینے کے لئے ایک خصوصی ملازم رکھا ہوا تھا جسے وہ اپنے ملازمین میں سب سے زیادہ تنخواہ اور مراعات دیتے تھے۔ایک بار ایک صحافی ہینری فورڈ کے پاس آیا اور اس نے ان سے پوچھا، ’’آپ سب سے زیادہ معاوضہ کس کو دیتے ہیں؟‘‘ فورڈ مسکرائے، اپنا کوٹ اور ہیٹ اٹھایا اورصحافی کو اپنے پروڈکشن روم میں لے گئے۔ وہاں ہر طرف کام ہو رہا تھا، لوگ دوڑ رہے تھے، گھنٹیاں بج رہی تھیں اور لفٹیں چل رہی تھیں، ہر طرف افراتفری تھی مگر ایک کیبن تھا جس میں ایک شخص میز پر ٹانگیں رکھ کر کرسی پر لیٹا ہوا تھا۔ اس نے منہ پر ہیٹ رکھا ہوا تھا۔
ہنری فورڈ نے دروازہ کھٹکھٹایا، کرسی پر لیٹے شخص نے ہیٹ کے نیچے سے دیکھا اور تھکی تھکی آواز میں بولا ’’ہیلو ہینری آر یو او کے؟‘‘ ہینری نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا، دروازہ بند کیا اور باہر نکل گیا۔ صحافی حیرت سے یہ سارا منظر دیکھتا رہا۔ ہینری فورڈ نے ہنس کر کہا، ’’یہ شخص میری کمپنی میں سب سے زیادہ معاوضہ لیتا ہے۔‘‘ صحافی نے حیران ہو کر پوچھا ’’یہ شخص کیا کرتا ہے؟‘‘ ہینری فورڈ نے جواب دیا ’’کچھ بھی نہیں یہ بس آتا ہے اور سارا دن میز پر ٹانگیں رکھ کر بیٹھا رہتا ہے۔‘‘ صحافی نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا ’’پھر آپ اسے سب سے زیادہ معاوضہ کیوں دیتے ہیں؟‘‘ فورڈ نے جواب دیا ’’کیونکہ یہ میرے لئے سب سے زیادہ مفید شخص ہے۔‘‘ فورڈ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا ’’میں نے اس شخص کو سوچنے کے لئے رکھا ہوا ہے میری کمپنی کے سارے سسٹم اور گاڑیوں کے ڈیزائن اس شخص کے آئیڈیاز ہیں، یہ آتا ہے، کرسی پر لیٹتا ہے، سوچتا ہے، آئیڈیا تیار کرتا ہے اور مجھے بھجوا دیتا ہے۔ میں ان آئیڈیاز پر کام کرتا ہوں اور کروڑوں ڈالر کماتا ہوں۔ ہنری فورڈ نے کہا۔ہینری فورڈ کا کہنا تھا کہ ’’دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی چیز آئیڈیاز ہیں اور آئیڈیاز کے لئے آپ کو فری ٹائم چاہیے، مکمل سکون چاہیے، ہر قسم کی ہچ ہچ سے آزادی چایئے اور اگر آپ دن رات مصروف ہیں تو پھر آپ کے دماغ میں نئے آئیڈیاز اور نئے منصوبے نہیں آ سکتے ہیں۔ چنانچہ میں نے ایک سمجھ دار شخص کو صرف سوچنے کے لئے رکھا ہوا ہے۔ میں نے اسے معاشی آزادی دے رکھی ہے تاکہ یہ روز مجھے کوئی نہ کوئی نیا آئیڈیا دے سکے۔‘‘ یہ ایک حقیقت ہے کہ سوچنا اور غوروفکر کرنا انسان پر نئے خیالات کے بہت سے جدید اُفق کھولنے کا باعث بنتا ہے۔ ایک عام آدمی بھی اگر ہینری فورڈ کی کاروباری دانش کو سمجھ لے تو وہ بھی اپنے کاروبار میں جدت پیدا کر کے آگے بڑھ سکتا ہے۔ اگر ایک مزدور ہے یا کاریگر ہے اور وہ سارا دن کام کرتا ہے تو جسم کے ساتھ اس کا دماغ بھی صرف مشقت اور کام کرنے پر ہی توجہ دیتا ہے۔ کوئی انسان جوں جوں اوپر جاتا ہے اس کی فرصت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ بڑی صنعتوں اور نئے شعبوں کے موجد پورا سال گھر سے باہر قدم نہیں رکھتے۔ لیکن اس دوران وہ کسی خاص بزنس یا شعبے کے بارے سوچنے کے لئے بھی وقت نکالتے تو ان کے کاروبار وغیرہ میں یکسر بہتری آ جاتی ہے۔
دنیا کی امیر ترین شخصیات جیسا کہ بل گیٹس اور وارن بفٹ وغیرہ ہیں وہ سوچنے اور نئے خیالات ڈھونڈنے کے لئے الگ سے وقت نکالتے ہیں۔ یہ دنیا کے ویلے ترین لوگ ہیں، وارن بفٹ روزانہ کم و بیش پانچ گھنٹے مطالعہ کرتے ہیں، بل گیٹس ہفتے میں دو کتابیں ختم کرتے ہیں، وہ سال بھر میں 80کتابیں پڑھتے ہیں۔ یہ دونوں اپنی گاڑیاں خود چلاتے ہیں، لائن میں لگ کر کافی اور برگر لیتے ہیں اور سمارٹ فون استعمال نہیں کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ دنیا کے امیر ترین لوگ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس فرصت ہے اور وہ سوچنے کے لئے الگ سے وقت نکالتے ہیں۔ ہم جب تک ذہنی طور پر آزادی محسوس نہیں کرتے ہیں ہمارا دماغ اس وقت تک بڑے آئیڈیاز پر کام نہیں کرتا ہے۔ چنانچہ اگر آپ دنیا میں کوئی بڑا کام کرنا چاہتے ہیں یا کاروباری کامیابی وغیرہ چاہتے ہیں تو پہلے خود کو مسائل اور غم و آلام سے آزاد کر کے سوچنا سیکھیں۔ آپ اگر خود کو چھوٹے چھوٹے کاموں میں الجھائے رکھیں گے یا ناکامیوں اور مسائل کی وجہ سے اپنی سوچ پر پابندی لگائے رکھیں گے تو آپ کے دماغ میں کوئی بڑا خیال آئے گا اور نہ ہی آپ زندگی بھر ترقی کر سکیں گے۔آپ کی ساری زندگی صرف ایک آئیڈیا بدل سکتا ہے۔ آپ کو اگر سوچنا آتا ہے، آپ کا انداز مثبت اور تعمیری ہے اور آپ کو پرسکون ماحول اور ذہنی آزادی حاصل ہے تو آپ کے دماغ میں نئے نئے اور تخلیقی خیالات آئیں گے۔ آپ اچھا سوچنے کا فن سیکھ لیں، آپ اپنی زندگی میں کوئی بھی بڑا کام کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: آپ کے دماغ میں سوچنے کے لئے سب سے زیادہ ہینری فورڈ کرتے ہیں میں کوئی سوچنے کا رکھا ہوا کرتا ہے فورڈ نے ہے اور
پڑھیں:
جنگ میں سب کچھ جائز نہیں ہوتا!
معاصر اصطلاح میں جسے ’بین الاقوامی قانون‘ کہا جاتا ہے، وہ یورپ میں ’قومی ریاستوں کے نظام‘ (nation-state system) کی تخلیق ہے ۔ اس لیے اس کی تاریخ بہت مختصر ہے۔
بین الاقوامی قانونِ جنگ کی تاریخ
جنگ سے متعلق بین الاقوامی قانون کےلیے جس معاہدے کو ایک طرح سے نقطۂ آغاز سمجھا جاتا ہے، وہ 1864ء کا جنیوا معاہدہ ہے جس کے ذریعے یورپی اقوام نے آپس میں یہ طے کرلیا کہ جنگ میں زخمی ہونے والوں کی دیکھ بھال کی جائے گی اور اس مقصد کے لیے جنگ میں غیر جانب دار بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کو اپنا کام کرنے کے لیے ممکنہ سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
اسی دور کے لگ بھگ امریکی خانہ جنگی کے تناظر میں امریکی فوج کے لیے تیار کیے گئے ضابطے ’لِیبر کوڈ‘ کا بھی خصوصاً ذکر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ میں جاری کیے گئے ’اعلان‘ کو بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس میں قرار دیا گیا کہ ’جنگ کا واحد جائز مقصد فریقِ مخالف کو شکست دینا ہے، نہ کہ اسے ملیا میٹ کرنا‘۔
بین الاقوامی قانونِ جنگ کے ارتقا میں ہیگ میں 1899ء اور 1907ء میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں کا کردار بھی بہت اہم ہے کیونکہ ان کانفرنسوں کے ذریعے کوشش کی گئی کہ بین الاقوامی عرف اور تعامل سے اصول مستنبط کرکے انھیں باقاعدہ معاہدات کی صورت میں مدوَّن کیا جائے۔ پہلی جنگِ عظیم (1914ء-1918ء) میں جب پہلی دفعہ ہزاروں کی تعداد میں جنگی قیدیوں کا مسئلہ سامنے آیا، تو 1929ء میں ایک اور جنیوا معاہدہ طے پایا جس میں جنگی قیدیوں کے متعلق قانونی اصول ذکر کیے گئے۔
دوسری جنگِ عظیم (1939ء-1949ء) کے بعد ایک تفصیلی ڈپلومیٹک کانفرنس کے بعد 4 ضخیم جنیوا معاہدات طے پائے جنھیں اب قانون کے اس شعبے کے بارے میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ ان میں پہلا جنیوا معاہدہ بری جنگ میں زخمی، بیمار یا معذور ہونے والے فوجیوں کے حقوق سے متعلق ہے جبکہ دوسرا جنیوا معاہدہ بحری جنگ میں زخمی، بیمار یا معذور ہونے والے فوجیوں کے حقوق کے بارے میں ہے۔ تیسرا جنیوا معاہدہ جنگی قیدیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہے اور چوتھا جنیوا معاہدہ جنگ کے دوران میں غیر مقاتلین اور عام شہریوں کے تحفظ اور مقبوضہ علاقوں کے متعلق امور کے لیے ہے۔ ان 4 معاہدات کے ساتھ 1977ء میں 2 مزید معاہدات ملحق کیے گئے جنھیں ’اضافی پروٹوکول‘ کہا جاتا ہے۔ ان معاہدات کے ذریعے عام شہریوں کے تحفظ کے لیے مزید پیش رفت ہوئی۔ کئی دیگر معاہدات کے ذریعے ہتھیاروں پر بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ دیگر موضوعات (جیسے جنگ کے دوران میں تاریخی اور ثقافتی ورثے کی حفاظت) پر بھی معاہدات کے ذریعے قانون سازی کی گئی ہے۔ان معاہدات کے علاوہ ریاستوں کے تعامل اور عرف سے بھی بین الاقوامی قانون کے اس شعبے سے متعلق اہم اصول معلوم ہوتے ہیں۔
تفہیم میں آسانی کی خاطر آداب القتال کے بین الاقوامی قانون کو 2 بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:
ایک، ’قانون جنیوا‘ جو مسلح تصادم سے متاثر ہونے والے افراد کا تحفظ کرتا ہے؛ ان افراد میں عام شہری، زخمی، بیمار اور معذور جنگجو اور جنگی قیدی، نیز مقبوضہ علاقوں کے رہنے والے شامل ہیں؛ اور
دوسری قسم کو ’قانون ہیگ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ قانون جنگ کے طریقوں اور ہتھیاروں کی تحدید کرتا ہے ۔
اس قانون کا اطلاق کب ہوتا ہے؟
اس قانون کا اطلاق ’مسلح تصادم‘ پر ہوتا ہے۔ چنانچہ جس صورتِ حال کو مسلح تصادم نہ کہا جاسکے، اس پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ 1949ء کے 4 جنیوا معاہدات میں یہ بنیادی اصول ذکر کیا گیا ہے کہ جب کسی ریاست کی جانب سے جنگ کا اعلان ہو، تو جنیوا معاہدات اور دیگر قوانین کا اطلاق ہوتا ہے، خواہ عملاً ایک گولی بھی نہ چلائی گئی ہو، اور خواہ جنگ میں حصہ لینے والی ریاستوں میں کوئی ریاست حالتِ جنگ سے انکاری ہو۔ مزید قرار دیاگیا ہے کہ جب کسی ریاست پر قبضہ ہو تو اسے مسلح تصادم کے مفہوم میں شامل سمجھا جاتا ہے اور مسلح تصادم کی یہ صورت اس وقت تک برقرار رہتی ہے جب تک قبضہ برقرار ہے۔
مقبوضہ یا استعماری تسلط کے تحت علاقوں (Occupied or Colonial Territories) میں کی جانے والی مسلح مزاحمت کو قابض یا استعماری ریاست کا ’اندرونی معاملہ‘ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ یہ قانون اسے ’بین الاقوامی مسلح تصادم‘ قرار دیتا ہے ۔ یہی اصول ان علاقوں کے لیے ہے جن کےلیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے آزادی کا حق تسلیم کرلیا ہو۔ نیز پہلے اضافی پروٹوکول نے آزادی کی جنگ لڑنے والوں کےلیے ’مقاتل‘ (combatant) کی حیثیت بھی تسلیم کی ہے اور یہ بھی قرار دیا ہے کہ مخالف فریق کی قید میں آنے پر ان کو ’جنگی قیدی‘ کی حیثیت حاصل ہوگی۔ جنگی قیدی وہ ہوتے ہیں جنھیں سزا کے طور پر قید نہ کیا گیا ہو، بلکہ جنگ میں مزید حصہ لینے سے روکنے کےلیے قید کیا گیا ہو، اور جنگ کے خاتمے پر انھیں آزاد کرانا لازم ہوتا ہے۔ انھیں صرف قانونِ جنگ کی خلاف ورزی پر سزا دی جاسکتی ہے، اور وہ بھی باقاعدہ مقدمہ چلا کر اور صفائی کا پورا موقع دینے کے بعد۔
جنیوا معاہدات کی صرف دفعہ 3 ، جو ان چاروں معاہدات میں مشترک ہے ، کا اطلاق کسی ملک کے اندر مسلح تصادم، یعنی خانہ جنگی یا بغاوت، پر بھی ہوتا ہے۔ تاہم کسی ریاست کے اندر حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو ’مسلح تصادم‘ نہیں کہا جاسکتا، خواہ وہ مظاہرے پُرتشدد بھی ہوں ۔ البتہ بعض علامات ایسی ہیں جن کی بنا پر ایسی صورتحال کو ’امن و امان کا مسئلہ‘ قرار دینے کے بجائے مسلح تصادم کہا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگ کسی علاقے میں اپنی حکومت قائم کرلیں اور مرکزی حکومت کی باقاعدہ مزاحمت کریں؛ یا’شر پسندوں ‘ سے نمٹنے کے لیے حکومت نے فوج کو باقاعدہ تمام اختیارات دے دیے ہوں ؛ یا مزاحمت کا سلسلہ ایک طویل عرصے پر محیط ہوجائے ؛ یا مزاحمت میں ہونے والا جانی و مالی نقصان بہت زیادہ ہو؛ یا حکومت خود تسلیم کرلے کہ یہ محض امن و امان کا مسئلہ نہیں ہے ۔
اس قانون کے بنیادی اصول
مسلح تصادم پر لاگو ہونے والے قانون کی تفصیلات تو بہت ہیں، لیکن ان تفصیلات کوچند بنیادی اصولوں کی صورت میں پیش کیا جاسکتا ہے۔
اس قانون کا اولین اور بنیادی اصول ’انسانیت‘ ہے۔ یہ قانون قرار دیتا ہے کہ جنگ کے دوران میں بھی انسانیت کی حدود کی پابندی لازم ہے ۔ مثال کے طور پر اگر لڑنے والا ہتھیار ڈال دے، یا زخمی ہوجائے ، یا معذور ہوجائے ، یا کسی اور وجہ سے جنگ سے باز آجائے (hors de combat)، تو پھر اس پر حملہ ناجائز ہوجاتا ہے۔
اسی اصول کے ایک لازمی نتیجے کے طور پر ’تمییز‘ (distinction) کا بنیادی اصول مانا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حملے کے دوران میں جائز اور ناجائز ہدف میں فرق کیا جائے ۔ چنانچہ دشمن کے فوجی ٹھکانوں پر حملہ جائز ہے، جبکہ شہری آبادی ، اسپتالوں ، اسکولوں ، بازاروں اور عبادت گاہوں پر حملہ ناجائز ہے۔ اسی طرح ایسے حملے ناجائز ہیں جن میں فوجی اور غیر فوجی دونوں کے نشانہ بننے کا احتمال ہو۔ اسی اصول پر ایسے ہتھیاروں کا استعمال بھی ناجائز ہے جن کا اثر صرف دشمن کے فوجیوں تک ہی محدود نہ ہو ، مثلاً کیمیائی ہتھیار۔
تاہم اگر جنگی حملے میں انسانیت اور تمییز کے اصولوں کی پابندی کی گئی ہو اور غیر مقاتلین کو دانستہ ہدف نہ بنایا گیا ہو، بلکہ حملے کو مقاتلین تک محدود رکھنے کےلیے ہر ممکن احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی ہو، تو یہ قانون جنگ ایسے حملے کو جائز قرار دیتا ہے، خواہ اس کے نتیجے میں بعض غیر مقاتلین نادانستہ طور پر نشانہ بن جائیں۔ اسے فوجی ضرورت (military necessity) کا اصول کہتے ہیں۔ ایسے حملوں میں عام شہریوں کو پہنچنے والے ضرر کو ’ضمنی نقصان‘ (collateral damage) کے طور پر برداشت کیا جاتا ہے۔
فوجی ضرورت کے اس اصول کو انسانیت اور تمییز کے اصولوں کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے، تو نتیجے کے طور پر’تناسب کا اصول‘ سامنے آجاتا ہے ۔ اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ جنگ میں دشمن کو صرف اتنا ہی نقصان پہنچایا جائے جتنا اس کے حملے کی پسپائی، یا اس پر فتح کے حصول، کے لیے ضروری ہو۔ گویا جنگ کا مقصد دشمن کا صفایا کرنا (extermination) نہیں ہونا چاہیے۔ اس اصول کی بنیاد پر ایسے ہتھیاروں یا طریقوں کا استعمال بھی ناجائز ہوجاتا ہے جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائیں ، یا جو غیر ضروری اذیت دیں ، خواہ ان کا استعمال دشمن کے فوجیوں پر ہی ہو۔
بین الاقوامی قانون نے بالعموم 2ریاستوں کے مابین تعلقات کے ضمن میں ’برابر کے بدلے‘ (reprisal) کے اصول کو تسلیم کیا ہے، لیکن حملے کے ہدف کےلیے اس اصول کو ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔ چنانچہ اگر ایک فریق عام شہریوں کو نشانہ بنائے، تب بھی دوسرے فریق کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ جواباً پہلے فریق کے عام شہریوں کو نشانہ بنائے۔ اگر اس نے ایسا کیا، تو یہ اسی طرح کا جرم ہوگا جیسے فریق اول کا فعل جرم تھا ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قانون کا ایک اور مسلمہ اصول ’جرم کے ارتکاب کے لیے انفرادی ذمہ داری‘ (Individual Criminal Responsibility) ہے ۔ اس اصول کے مطابق ہر فرد اس قانون کی خلاف ورزی کے لیے انفرادی طور پر ذمہ دار ہے۔ مثال کے طور اگر کسی کمانڈر کے حکم کی اطاعت میں ماتحتوں نے کسی عبادت گاہ پر حملہ کرکے اسے مسمار کردیا، تو ماتحت یہ عذر نہیں پیش کرسکتے کہ وہ اس مجرمانہ فعل کے ارتکاب پر مجبور تھے کیونکہ ان پر لازم تھا کہ وہ اپنے کمانڈر کا حکم مانیں ۔ اگر عدالت میں ثابت کیا گیا کہ ماتحت عملاً اس کام پر مجبور تھے اور انھوں نے نہ چاہتے ہوئے اس کام کا ارتکاب کیا، تب بھی وہ سزا سے نہیں بچ سکیں گے ۔ البتہ اس بنیاد پر ان کی سزا میں تخفیف کی جاسکے گی ۔ اسی طرح کمانڈر اپنے تمام افعال کے لیے بھی ذمہ دار ہوتا ہے اور اپنے ماتحتوں کے افعال کے لیے بھی۔ پس اگر کسی کمانڈر کے ماتحتوں نے کسی علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں کی آبادی پر مظالم ڈھائے، تو کمانڈر لاعلمی کا عذر نہیں پیش کرسکتا۔
پس جنگ میں ’سب کچھ‘ جائز نہیں ہے ، بالکل اسی طرح جیسے محبت میں بھی ’سب کچھ‘جائز نہیں ہوتا ؛ یقین نہیں، تو کرکے دیکھ لیں!
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔