Daily Ausaf:
2025-04-13@16:28:32 GMT

سچ کا ایک اور در وا ہوا ہے

اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT

وزیر اعظم کی کابینہ کے ایک اہم وزیر جن کے پاس وزارت حزانہ کا قلم دان ہے، انہوں نے کہا ہے کہ ’’ہم ایک ملک کے طور پر اپنی ساکھ کھو چکے ہیں، تنخواہ دار طبقے پر جو بوجھ آیا ہے اس کا کوئی اندازہ نہیں کررہا۔مسلسل تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس لینا مسئلے کا حل نہیں ہے‘‘۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ’’ اے ڈی بی نے 500 ملین ڈالر کا اعلان کیا تھا، ہم نے آئی ایم ایف سے بات چیت کی، اگلے ہفتے آئی ایم ایف بلین ڈالرز اس حوالے سے ہمیں دیں گی، گرین پانڈا بائونڈ کے لیے ہم کوشش کر رہے ہیں جو ہمارے پاس ہے وہ تو ہم استعمال کریں، گرین انیشیٹو سے پاکستان کو دو بلین ڈالر ز ماہانہ آرہے ہیں، ہم نے ٹیکس پالیسی کو ایف بی آر سے نکال دیا ہے، وزارت خزانہ ٹیکس پالیسی کو دیکھے گی، ایف بی آر کا کام صرف ٹیکس کولیکشن ہے‘‘۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار طبقے کے علاوہ باقی شعبہ جات کو بھی ٹیکس آمدن میں ڈالنا ہوگا، زرعی شعبہ معیشت میں زیادہ حصہ دار ہے لیکن ٹیکس میں اس کا حصہ کم ہے دوسری طرف تیکس چوری ہورہا ہے، مسلسل ٹیکس چوری سے ملکی امور نہیں چلائے جاسکتے‘ یہ بھی کتنا بڑا سچ ہے جو حکومت کے اندر کے بندے نے بولا ہے بلکہ حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ کا پول کھولا ہے، اب اس پر وزیراعظم کیا ارشاد فرمائیں گے، ان کے پاس کہنے کو رہ ہی کیا گیا ہے اور وزیرخزانہ جھوٹ بول کر گناہ بے لذت کے مرتکب کیوں کر ہوتے کہ وہ کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہیں مقتدرہ کا چنائو ہے اور وہ اپنا نامہ اعمال صاف رکھنے کے لئے اقتدار میں شراکت کرتی ہے اور اپنے بندوں کے ذریعے خود پر لگنے والے داغ مٹانے کے اقدام کرتی ہی رہتی ہے اور یہ مقتدرہ ہی کا موقف رہا ہے کہ ملک کو اچھا ساچلانا ہے تو بڑے بڑے جاگیر دار جو حکومت کی صفوں میں گجھی مار کے بیٹھے ہیں انہیں ٹیکس کے دائرے میں لانا از حد ضروری ہے، تنخواہ دار طبقے کی کمر تو اتنی جھک چکی ہے کہ اس کا اپنے خاندان کا معاشی بوجھ سہارنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔
اسی جاگیردار سیاست کار طبقے کی اولاد اور کچھ سرمایہ دار مل کر قومی معیشت کی تباہی پر تلے ہوئے ہیں ۔جاگیر دار سرے سے ٹیکس ادا کرتا ہی نہیں جبکہ سرمایہ داروں نے ایک رشوت خور اوراس کے ساتھ کمیشن خور مافیا تیار کیا ہے اگر کام رشوت کے ذریعے نہ نکل سکے تو بڑے بڑے آفیسرز کے کمیشن ایجنٹ براہ راست آفیسرز تک رسائی میں مدد گار بنتے ہیں ،یوں معاملات بہت سے پریشانیوں سے بچ بچا کرطے ہوجاتے ہیں ،یہ مراحل طے کرا نے والے طبقے کا تعلق عام طور پر کالے کوٹ والوں کے بیچ کالی بھیڑیں ہوتی ہیں جن کا ذکر کچھ عرصہ قبل معزز ججز کرتے رہے یہی بھیڑیں اپنے تن کا گوشت بھی بڑھاتی ہیں اور بعض نچلی کلاس سے آئے ہوئے آفیسرز کو ڈی ایچ اے اوربحریہ ٹائون جیسے پوش علاقوں کا واسی بنادیتی ہیں پھر ان کے لئے مختلف ماڈلز کی لگژری گاڑیاں بھی مسئلہ نہیں ہوتیں کہ آفیسرز کچھ وقت بعد ان کو اپنے جل کی مچھلیاں بنالیتے ہیں اور جب جاگیرداروں پر ٹیکس لاگو ہوگیا تو وہ بھی اپنے اپنے جوہڑ تیار کرکے ایسی مچھلیاں پالنے کے انتظامات کر ہی لیں گے کچھ نہ آنے سے بہتر یہ ہوگا کہ کچھ نہ کچھ اس مد سے آمدن شروع ہوجائے گی ۔
اسی دوران مقتدرہ کے کچھ درویش منش لوگ ان امور کے انچارج بنا دیئے گئے تو یہ جو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے ،سارا نہ سہی کچھ تو سنور ہی جائے گا۔پھر کوئی اندر کا آدمی شاید ہی یہ بھاشن دے کہ ’’ہم ایک ملک کے طور پر اپنی ساکھ کھو چکے ہیں ‘‘ ہاں البتہ زندگی کے اور بے شمار شعبے ہیں جن میں اصلاح ہونے والی ہے۔ خصوصاً ہماری یونیورسٹیز جو اس بحران سے گزر رہی ہیں کہ کبھی کچھ اساتذہ کے مکروہ اور شرمناک اسکینڈلز اور کبھی مالی امور میں بے قاعدگیوں کے پنڈورا باکس کھل جاتے ہیں ۔یہ سب ہماری معاشرتی کمزوریاں ہیں جن پر اب قابو پالینا چاہیئے۔اب جبکہ ریاست اور حکومت مقتدرہ کے سائے تلے کام کر رہی ہیں تو انہیں سنبھل جانا چاہیے۔ہم آخر کب تک ان گھمر گھیریوں میں پھنسے ،مضطرب و پریشان اور پراگندہ حال رہیں گے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: تنخواہ دار طبقے ہے اور

پڑھیں:

ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا (آخری حصہ)

حکومت انسانیت کا زریں سبق بھول چکی ہے۔ آنکھوں کے آگے پڑنے والا پردہ ہٹنے کا نام نہیں لیتا ہے۔گویا یہ پردہ آنکھ کے موتیا اور بصارت سے محرومی سے زیادہ خطرناک ہے، ذمے داران حکومت کی غفلت نے لوگوں کو برباد اور ملک کی اساس کو کمزور کر دیا ہے اسی وجہ سے سپر پاور طاقتوں کی نظر ہمارے ملک پر ہے۔

چونکہ ہمارا ملک اتنا کمزور ہے کہ جہاں آئی ایم ایف اپنے فیصلے سناتا اور اپنی بات منواتا ہے۔ جہاں امرا و وزرا کی تنخواہوں میں لاکھوں کا اضافہ کیا جاتا ہے اور بے چارہ محنت کش صرف اور صرف پچیس تیس ہزار سے زیادہ تنخواہ وصول نہیں کرتا۔

اس قدر مہنگائی میں کس طرح وہ اپنے خاندان کی کفالت کر سکتا ہے؟ حکومت کا تحفظ اور خوشحالی کے لیے اقدامات کرنا تو دور کی بات ہے بلکہ اس کی دکھ بیماری اور عید بقر عید کے مواقعوں پر مدد بھی نہیں کی جاتی ہے۔

محنت کشوں کی عید اور رمضان مشکلات اور دکھوں کا باعث ہوتے ہیں، ان کے معصوم بچے عید کے کپڑوں کے لیے ترستے ہیں، نئی چپل خریدنے کا خواب دیکھتے ہیں لیکن ان کے خوابوں کی تعبیر اکثر اوقات اس قدر بھیانک ہوتی ہے کہ دل صدمے سے تڑپ کر رہ جاتا ہے،کبھی یہ بے چارے بلند و بالا عمارات سے مستری یا مزدوری کا کام کرتے ہوئے تو کبھی بجلی کے پول سے گر کر ہلاک ہو جاتے ہیں اور بے شمار مزدور آئے دن کوئلے کی کانوں میں پھنس جاتے ہیں اور واپسی کی کوئی راہ نظر نہیں آتی ہے تب وہ اسی راہ پر جانے پر مجبور ہیں، جہاں سب کو ایک دن جانا ہے۔

ان کے یتیم بچے اور بیوائیں عید، بقرعید منانے کی تو دورکی بات ہے دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ غزہ کے مظلوم اور بے سہارا مسلمان اپنے مسلم بھائیوں سے مدد کے طالب ہیں، چھوٹے چھوٹے معصوم بچے تنہا رہ گئے ہیں۔

وہ ملبے کے ڈھیر یا پھر ٹوٹے پھوٹے راستوں پر اپنے تباہ و برباد علاقوں میں بیٹھے فریاد کناں ہیں کہ کوئی آئے اور انھیں ان کے نرم وگرم بستروں میں پہنچا دے، جہاں ماں باپ اور بہن بھائی ہوں، رسوئی سے گرم گرم کھانے پکنے کی خوشبوئیں ان کی بھوک کو بڑھا رہی ہوں، اس کے ساتھ ہی ماں پکوان کی تھالی ان کے سامنے لے آئے، اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا کر کھلائے اور باپ اپنے کاندھوں پر بٹھا کر دنیا کا نظارہ کرانے باہر لے جائے، وہ کھلونوں سے کھیلیں، چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے فضا میں ہاتھ پھیلائے، پنچھی کی تصویر بنائیں۔ کیا وہ اپنے گھروں میں دوبارہ آباد ہوسکتے ہیں؟ ان کے مرحوم والدین اپنے گھروں کو اور اپنے بچوں کو اپنی آغوش میں چھپانے کے لیے آسکتے ہیں، نہیں ناں!

یہ ہو سکتا ہے اور ہوتا ہی رہتا ہے کہ غزہ کے بے کس و مجبور بچے اپنی ماؤں کے پاس زمانے کی ٹھوکروں کے بعد پہنچ سکتے ہیں، ان مسلمان بچوں کو دوسرے ملکوں میں فروخت یا پھر بے اولاد جوڑے گود لے سکتے ہیں، انھیں بے دردی کے ساتھ مارا جا سکتا ہے، جیساکہ ہو رہا ہے۔ مسلم ممالک کو اس بات کی ذرہ برابر پرواہ نہیں ہے، بس انھیں تو اپنے آپ کو اور اپنے ملک کو بچانا ہے۔

اسی بچانے کی مہم نے امت مسلمہ کو کمزور کر دیا ہے، اتنا کمزور کہ وہ اپنے دشمن کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتے ہیں، اتنی تاب ہی نہیں ہے کہ ایمان کمزور ہو چکا ہے، ان کی اس بزدلی نے ان کے لیے جہنم کے راستوں کو کھول دیا ہے، وہ جہاد جیسے عظیم مقصد اور اللہ کے حکم اور غزوات کو بھلا چکے ہیں۔

انھیں حضرت خالد بن ولید اور جرنیل طارق بن زیاد کی فتوحات اور جنگی مہم یاد نہیں، ایرانیوں کے ہاتھوں رومیوں کی شکست کو بھی فراموش کر دیا ہے کہ کس طرح ایک بڑی طاقت کو زیر کیا گیا، لیکن وہ وقت دور نہیں ہے جب مسلم اتحاد و اخوت کی فضا پروان چڑھے گی اور حق کو فتح حاصل ہوگی۔ حکمرانوں کی حقائق سے چشم پوشی کی بنا پر ملک کا شیرازہ بکھر چکا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ محض آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کے لیے پاکستان کے اہم اداروں کو فروخت کیا جا رہا ہے، اس بات کی وضاحت حکومت نے ببانگ دہل خود کی ہے۔

حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو پی آئی اے سمیت پانچ سے سات سرکاری ادارے بیچنے کی یقین دہانی کروا دی ہے، وہ بھی بڑے کروفر کے ساتھ، بلا جھجک قومی اداروں کے نام اور مہینوں کے نام بھی بتا دیے ہیں کہ یہ عمل کن مہینوں میں انجام پائے گا۔

حکومت متعدد ادارے بیچنے کی خواہاںہے۔ ملک میں بجلی و گیس کا بحران قدرتی وسائل ہونے کے باوجود موجود ہے، اب جب کہ حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ بجلی کمپنیوں کو فروخت کردیا جائے تاکہ مزید قرضہ ملے اور ملک آگے بڑھے بلکہ حکومت کا خیال ہے کہ بس ملک کسی نہ کسی طرح چلتا رہے، بنا سوچے سمجھے اور بغیر دور اندیشی کے کیے ہوئے فیصلے اکثر اوقات بڑی تباہی و بربادی کا باعث ہوتے ہیں اور آزادی کو قید میں بدلنے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے جب پرانے قرضے چکانے کے لیے رقم نہیں ہے تو آیندہ لینے والے قرضوں کے لیے کس طرح ادائیگی ممکن ہے؟

حکومت کی نظر صرف اپنے پیروں تک ہے جس پر وہ کھڑی ہے، وہ آگے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے، اسے نظر نہیں آ رہا ہے کہ تاحد نگاہ ناکامیوں اور مایوسیوں کا جنگل آباد ہے اور قدموں کے نیچے پاتال ہے، کروڑوں پاکستانیوں کی آزادی سلب کرنے اور انھیں برے انجام تک پہنچانے کی اہم ذمے داری حکومت نے اپنے کاندھوں پر اٹھا لی ہے لیکن وہ یہ بات بھول گئی ہے کہ یہ ملک ان کا بھی ہے، انھیں بھی شکست و ریخت سے گزرنا ہوگا۔ 

کفار نے کبھی بغیر مطلب کے کسی کا ساتھ نہیں دیا ہے، چونکہ وہ جانتے ہیں جو اپنے وطن سے مخلص نہیں ہوتے وہ کسی دوسرے کے لیے بھی وفادار نہیں ہوسکتے ہیں۔

موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے بے شمار پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ان کے آبا و اجداد نے گھر بار چھوڑا، زمینوں و جائیدادوں سے محروم ہوئے ، اپنے والدین، عزیز و اقارب اور بے شمار مہاجرین کو اپنی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے دیکھا، ان کے ایثار و قربانی کا یہ صلہ کہ آج اپنے ہی وطن میں امان حاصل نہیں، نفرت و تعصب کو دانستہ ہوا دینے والے اپنے ملک سے مخلص ہرگز نہیں ہو سکتے۔

ملک میں انتشار پھیلانا دانائی کی علامت ہرگز نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا اپنے ہی ملک اور صوبوں سے نفرت کرنے کے بجائے ان کے حقوق کی ادائیگی لازم ہے۔

نوجوانوں کے لیے تعلیم و ہنر کے مواقع فراہم کرنا اور انھیں ملازمت ان کی صلاحیت کے مطابق فراہم کرنا کسی دوسرے ملک کے حاکموں کا نہیں بلکہ اپنے ہی ملک کے حکمرانوں کا فرض ہے کہ ان کی تعلیم اور ہنر سے فائدہ اٹھا کر ملک کو مضبوط بنانا ناگزیر ہو چکا ہے تاکہ کشکول ٹوٹے اور آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات حاصل ہو، اگر ایسا ہو جاتا ہے تب پاکستان میں امن کی فاختہ دوبارہ لوٹ آئے گی اور کوئی بھی پاکستانی محض عید کی خوشیوں سے محرومی کے باعث خودکشی نہیں کرسکے گا (انشا اللہ) اور پھر یہ سوچ جنم لے گی۔

اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں

ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

متعلقہ مضامین

  • ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا (آخری حصہ)
  • مہنگائی میں کمی کا فائدہ عوام تک براہ راست نہیں پہنچ رہا، حکومت کا اعتراف
  •  پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازمین اب ٹیکس میں ہیر پھیر نہیں کرسکیں گے، بل منظور
  • پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازمین اب ٹیکس میں ہیر پھیر نہیں کرسکیں گے، بل منظور
  • بیت المقدس سے اُٹھتی چیخ
  • وفاقی بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کیلئے ریلیف
  • تنخواہ دار طبقے کے لیے بڑی خوشخبری، بجلی کی قیمتوں میں بھی کمی متوقع
  • بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے خوشی کی خبر؛ بجلی بھی مزید سستی ہوگی
  • بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے خوشی کی خبر؛ ، بجلی بھی مزید سستی ہوگی
  • وزیر خزانہ نے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کی نوید سنا دی