سچ کا ایک اور در وا ہوا ہے
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
وزیر اعظم کی کابینہ کے ایک اہم وزیر جن کے پاس وزارت حزانہ کا قلم دان ہے، انہوں نے کہا ہے کہ ’’ہم ایک ملک کے طور پر اپنی ساکھ کھو چکے ہیں، تنخواہ دار طبقے پر جو بوجھ آیا ہے اس کا کوئی اندازہ نہیں کررہا۔مسلسل تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس لینا مسئلے کا حل نہیں ہے‘‘۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ’’ اے ڈی بی نے 500 ملین ڈالر کا اعلان کیا تھا، ہم نے آئی ایم ایف سے بات چیت کی، اگلے ہفتے آئی ایم ایف بلین ڈالرز اس حوالے سے ہمیں دیں گی، گرین پانڈا بائونڈ کے لیے ہم کوشش کر رہے ہیں جو ہمارے پاس ہے وہ تو ہم استعمال کریں، گرین انیشیٹو سے پاکستان کو دو بلین ڈالر ز ماہانہ آرہے ہیں، ہم نے ٹیکس پالیسی کو ایف بی آر سے نکال دیا ہے، وزارت خزانہ ٹیکس پالیسی کو دیکھے گی، ایف بی آر کا کام صرف ٹیکس کولیکشن ہے‘‘۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار طبقے کے علاوہ باقی شعبہ جات کو بھی ٹیکس آمدن میں ڈالنا ہوگا، زرعی شعبہ معیشت میں زیادہ حصہ دار ہے لیکن ٹیکس میں اس کا حصہ کم ہے دوسری طرف تیکس چوری ہورہا ہے، مسلسل ٹیکس چوری سے ملکی امور نہیں چلائے جاسکتے‘ یہ بھی کتنا بڑا سچ ہے جو حکومت کے اندر کے بندے نے بولا ہے بلکہ حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ کا پول کھولا ہے، اب اس پر وزیراعظم کیا ارشاد فرمائیں گے، ان کے پاس کہنے کو رہ ہی کیا گیا ہے اور وزیرخزانہ جھوٹ بول کر گناہ بے لذت کے مرتکب کیوں کر ہوتے کہ وہ کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہیں مقتدرہ کا چنائو ہے اور وہ اپنا نامہ اعمال صاف رکھنے کے لئے اقتدار میں شراکت کرتی ہے اور اپنے بندوں کے ذریعے خود پر لگنے والے داغ مٹانے کے اقدام کرتی ہی رہتی ہے اور یہ مقتدرہ ہی کا موقف رہا ہے کہ ملک کو اچھا ساچلانا ہے تو بڑے بڑے جاگیر دار جو حکومت کی صفوں میں گجھی مار کے بیٹھے ہیں انہیں ٹیکس کے دائرے میں لانا از حد ضروری ہے، تنخواہ دار طبقے کی کمر تو اتنی جھک چکی ہے کہ اس کا اپنے خاندان کا معاشی بوجھ سہارنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔
اسی جاگیردار سیاست کار طبقے کی اولاد اور کچھ سرمایہ دار مل کر قومی معیشت کی تباہی پر تلے ہوئے ہیں ۔جاگیر دار سرے سے ٹیکس ادا کرتا ہی نہیں جبکہ سرمایہ داروں نے ایک رشوت خور اوراس کے ساتھ کمیشن خور مافیا تیار کیا ہے اگر کام رشوت کے ذریعے نہ نکل سکے تو بڑے بڑے آفیسرز کے کمیشن ایجنٹ براہ راست آفیسرز تک رسائی میں مدد گار بنتے ہیں ،یوں معاملات بہت سے پریشانیوں سے بچ بچا کرطے ہوجاتے ہیں ،یہ مراحل طے کرا نے والے طبقے کا تعلق عام طور پر کالے کوٹ والوں کے بیچ کالی بھیڑیں ہوتی ہیں جن کا ذکر کچھ عرصہ قبل معزز ججز کرتے رہے یہی بھیڑیں اپنے تن کا گوشت بھی بڑھاتی ہیں اور بعض نچلی کلاس سے آئے ہوئے آفیسرز کو ڈی ایچ اے اوربحریہ ٹائون جیسے پوش علاقوں کا واسی بنادیتی ہیں پھر ان کے لئے مختلف ماڈلز کی لگژری گاڑیاں بھی مسئلہ نہیں ہوتیں کہ آفیسرز کچھ وقت بعد ان کو اپنے جل کی مچھلیاں بنالیتے ہیں اور جب جاگیرداروں پر ٹیکس لاگو ہوگیا تو وہ بھی اپنے اپنے جوہڑ تیار کرکے ایسی مچھلیاں پالنے کے انتظامات کر ہی لیں گے کچھ نہ آنے سے بہتر یہ ہوگا کہ کچھ نہ کچھ اس مد سے آمدن شروع ہوجائے گی ۔
اسی دوران مقتدرہ کے کچھ درویش منش لوگ ان امور کے انچارج بنا دیئے گئے تو یہ جو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے ،سارا نہ سہی کچھ تو سنور ہی جائے گا۔پھر کوئی اندر کا آدمی شاید ہی یہ بھاشن دے کہ ’’ہم ایک ملک کے طور پر اپنی ساکھ کھو چکے ہیں ‘‘ ہاں البتہ زندگی کے اور بے شمار شعبے ہیں جن میں اصلاح ہونے والی ہے۔ خصوصاً ہماری یونیورسٹیز جو اس بحران سے گزر رہی ہیں کہ کبھی کچھ اساتذہ کے مکروہ اور شرمناک اسکینڈلز اور کبھی مالی امور میں بے قاعدگیوں کے پنڈورا باکس کھل جاتے ہیں ۔یہ سب ہماری معاشرتی کمزوریاں ہیں جن پر اب قابو پالینا چاہیئے۔اب جبکہ ریاست اور حکومت مقتدرہ کے سائے تلے کام کر رہی ہیں تو انہیں سنبھل جانا چاہیے۔ہم آخر کب تک ان گھمر گھیریوں میں پھنسے ،مضطرب و پریشان اور پراگندہ حال رہیں گے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: تنخواہ دار طبقے ہے اور
پڑھیں:
اردو کا قصور بتلاؤ
قطع کیجیے نہ تعلق ہم سے
کچھ نہیں ہے، تو عداوت ہی سہی
مرزا غالب نے یقیناً یہ شعر کسی دوسرے پیرائے میں کہا ہوگا مگر زمانہ حال کے تناظر میں اس شعر کو پڑھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہماری سلیقے کی چاشنی میں ڈوبی اُردو زبان ہم سے عرض بجا لا رہی ہے۔
میری اپنے قارئین سے گزارش ہے آپ خود سے یہ سوال کریں کہ ہم اپنی قومی زبان ’’اُردو‘‘ کے ساتھ جیسا رویہ اختیارکیے ہوئے ہیں۔ کیا وہ زیادتی کے زمرے میں نہیں آتا ہے؟ آخر اُردو زبان سے ایسی کیا غلطی سرزد ہوگئی ہے کہ اُس کو اپنانے میں ہم کو شرم آتی ہے، بولنے میں کتراتے ہیں اور سوتیلی ماں جیسا ظلم اُس پر مسلسل ڈھائے چلے جارہے ہیں؟
سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اُردو بول سکتے ہیں
ہمارے ملک میں رہنے والا ہر فرد اُردو زبان سے نالاں نہیں ہے، آٹے میں نمک کے برابر ابھی معاشرے میں کچھ لوگ اور ادارے موجود ہیں جنھوں نے اُردو کی بقاء کا دیپ جلایا ہوا ہے اور جو اُردو بولنے اور لکھنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
میرے الفاظ سے شاید یہ تاثر جھلک رہا ہو کہ رسم الخط اور بول چال کے لیے اُردو کے علاوہ دیگر زبانوں کے استعمال کی یہاں مخالفت کی جارہی ہے۔ یقین مانیے ایسا بالکل نہیں ہے اور یہ اس لیے بھی ناممکن ہے کہ اُردو سے محبت کرنے والے کبھی دوسری زبانوں سے بیر پال نہیں سکتے ہیں کیونکہ ہماری شائستہ زبان اُردو خود مختلف زبانوں کا خوبصورت ملن ہے۔ اُردو میں آپ کو فارسی زبان کا گزر ملے گا، عربی زبان کے رنگ نظر آئیں گے اور تو اور اس میں تُرک زبان کے الفاظ کی بھی کثیر تعداد موجود ہے۔
تاریخِ اردو ادب بیشمار ایسی نامور شخصیات سے بھری پڑی ہے جو انگریزی ادب کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اُردو زبان کی ترویج میں جُٹ گئے۔ شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال، ناول نگارکرشن چندر، قلمکار پطرس بخاری، قدرت اللہ شہاب اور آج کے دور کی مشہورکہانی گو عمیرہ احمد اُن گوہرِ نایاب افراد کی فہرست کا حصہ ہیں جنھوں نے بی اے اور ایم اے کے لیے تو انگریزی ادب کو چُنا مگر جب لکھنے کے لیے قلم اُٹھایا تو اپنی قومی زبان اُردو اور بین الاقوامی شہرتِ یافتہ زبان انگریزی دونوں کے ساتھ خوب انصاف کیا۔
ایک سے زائد زبانیں سیکھنا بہت اچھی بات ہے، محض انگریزی ہی کیوں ہمیں کئی دوسری زبانوں پر بھی عبور حاصل کرنا چاہیے۔ اس دنیا میں بولی جانے والی ہر زبان اپنے اندر اُس علاقے کی تہذیب سموئے ہوتی ہے جہاں وہ عام بول چال کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ جب ہم ایک زبان سے آشنا ہوتے ہیں تو اپنائیت کا سہانا تعلق اُس زبان سے جُڑی تہذیب کے ساتھ بھی قائم کرلیتے ہیں۔ دورِ جدید کے اُردو والے جب اردو سے ہی وفا نہیں کر پا رہے تو دوسری زبانوں سے اپنے نوزائیدہ رشتے کی لاج کیسے رکھ پائیں گے؟ میر تقی میر کہتے ہیں کہ ؎
بے وفائی پہ تیری جی ہے فدا
قہر ہوتا جو باوفا ہوتا
سن ستر کی دہائی میں اپنے اُردو مضامین پر داد سمیٹنے والے مشہور مصنف رشید احمد صدیقی اُردو زبان کے بارے میں کہتے ہیں کہ، ’’ زبان کے علاوہ اُردو بہت کچھ اور بھی ہے۔ جیسے ایک قیمتی ورثہ، ایک قابلِ قدر روایت، ایک نادر آرٹ، ایک مسحور کُن نغمہ، قابلِ فکرکارنامہ،کوئی پیمانِ وفا یا اس طرح کی کتنی اور باتیں جو محسوس ہوتی ہیں لیکن بیان نہیں ہو پاتیں۔‘‘
افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم اُردو کو وہ عزت و مرتبہ دے ہی نہیں پا رہے جس کی وہ مستحق ہے۔ بحیثیتِ قوم ہم ناقدرے ہوچکے ہیں، اپنے قیمتی اثاثوں کی بے حرمتی کس طرح کی جاتی ہے کوئی ہم سے سیکھے۔ درحقیقت اُردو کو پھلنے پھولنے کے لیے پاکستانیوں کی رتی برابر ضرورت نہیں ہے، ہم اس سے تعلق توڑ بھی دیں تو اُردو کوکوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اُردو زبان ہماری مدد کے بغیر بھی دوسری قوموں میں اپنی جگہ آسانی سے بنا رہی ہے، کہیں اپنی اصل شناخت میں،کسی جگہ ہندی زبان کا چوغا پہن کر اور بعض مقامات پر ہندوستانی بولی کی حیثیت سے۔
ہمارا برادر عزیز ملک ’’چین‘‘ بھی اُردو کے قدر دانوں میں شامل ہے۔ چینی باشندے باقاعدہ اُردو زبان سیکھ کر اُردو سے اپنی محبت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ دسمبر، سال 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق بیجنگ فارن اسٹیڈیز یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کے سربراہ پروفیسر زہؤ یوآن (Zhou Yuan) کا کہنا ہے کہ چین کی نوجوان نسل میں اُردو زبان کو لے کر بڑھتی دلچسپی کا اندازہ ’’ بی ایف ایس یو‘‘ کے شعبہ اُردو میں داخلہ لینے والے چینی طالب علموں کی بڑی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے۔
پوری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان بے مثال دوستی کا رشتہ کئی دہائیوں سے قائم و دائم ہے۔ چین نے ضرورت پڑنے پر پاکستان کی ہر بار مدد کی ہے لیکن کیا ہی خوب ہوتا جو ہم چین سے مدد لینے کے ساتھ ساتھ اُس کی کچھ اچھی عادتیں بھی اپنا لیتے۔ چین کی آسمان کو چھوتی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چینی لوگ اپنی زبان کو اپنے ماتھے کا جھومر سمجھتے ہیں اور دیگر زبانوں پر مہارت رکھنے کے باوجود عام گفتگو کے لیے نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ ملک سے باہر بھی چینی زبان کا ہی استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے تقسیمِ برصغیر سے قبل ہندوستان میں امن وامان کی فضا قائم کرنے کے لیے جو چودہ نکات پیش کیے تھے اُن میں بھی پرزور طریقے سے مسلمانوں کے مذہب اور زبان کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ایک آزاد ریاست کے حصول کے لیے ہمارے بزرگوں نے بے تحاشا قربانیاں دیں اور ہمیں انگریزوں کی غلامی سے چھٹکارا دلایا مگر شاید آج بھی اکثر پاکستانی غلامی میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ہم نے 1947 میں اپنے آباؤ اجداد کی بدولت جسمانی آزادی تو حاصل کرلی تھی مگر چونکہ ذہنی اعتبار سے آج بھی خود کو دیگر اقوامِ عالم کے مقابلے میں کمتر محسوس کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اپنی قومی زبان پر نازاں ہونے میں عار محسوس کرتے ہیں، اسی لیے آزادی حاصل کرنے کے اتنے سال بعد بھی ہم غلام ہی کہلائے جائیں گے۔
انگریزوں کو اس خطے سے گئے، کئی برس بیت چکے ہیں مگر انگریزی زبان کو آج بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ اپنے قیام سے لے کر اب تک ہمارے تمام ملکی ادارے انگریزی زبان میں اپنے انتظامی امور انجام دے رہے ہیں۔ اس کے برعکس گوروں کے کسی دیس کا ملکی نظام اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو کوئی ایک بھی اپنی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان کو سرکاری سطح پر اہمیت دیتا دکھائی نہیں دے گا۔
چلیں زیادہ دور نہ جائیں بس اپنے اردگرد کا جائزہ لے لیں پاکستان میں ہر دوسرا بندہ اُردو زبان میں بات چیت کرنے والے کو ان پڑھ سمجھتا اور جانتے بوجھتے اردو زبان کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر ادا کر کے خود کو cool بناتا نظر آئے گا۔ ایسے پاکستانیوں پر اُردو زبان کی یہ کہاوت بالکل صادق بیٹھتی ہے، ’’ کوّا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا۔‘‘
دنیا کی نظروں میں عزت بنانے سے پہلے خود کی نظروں میں باعزت ہونا بہت ضروری ہے۔ جو قومیں اپنی تہذیب و تمدن کو قابلِ قدر نہ جان کر اُن کی بیحرمتی کرتی ہیں وہ کبھی ترقی کی راہوں کا مسافر نہیں بن سکتیں۔ ہم دنیا میں بولی جانے والی مختلف زبانوں سے اپنا تعلق قائم کرلیں مگر ساتھ اپنی قومی زبان اُردو سے اپنے رشتے کو سینچنے کا عمل بھی منقطع نہ کریں، جب پاکستانی قوم مجموعی طور پر ایسا کرے گی تب ہمارے اورکامیابیوں کے درمیان حائل تمام رکاوٹیں دور ہو جائیں گی اور پاکستان ترقی یافتہ ملکوں کے کندھے سے کندھا ملا کر پُراعتمادی کے ساتھ اپنے اچھے دنوں کو خوش آمدید کہے گا، ربِ کریم ہمیں وہ دن دیکھنا جلد نصیب فرمائے۔ (آمین)