“بھارتی ٹیم کو کیسے قابو کیا جائے” طریقہ سامنے آگیا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
قومی ٹیم کے سابق فاسٹ بولر محمد عامر نے روایتی حریفوں کے درمیان میچ سے قبل بھارتی ٹیم کی کمزوریوں سے پردہ اٹھادیا۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق فاسٹ بولر محمد عامر کہنا تھا کہ پاک بھارت میچ کے روز، جو ٹیم زیادہ غلطیاں کرتی ہے شکست اسکا مقدر بنتی ہے۔
انہوں نےکہا کہ روہت شرما کی ٹیم کاغذ پر مضبوط ضرور ہے لیکن اگر بنگلادیش کیخلاف چیمپئینز ٹرافی کے پہلے میچ میں انکی خامیوں کو دیکھیں تو پاکستان جیتنے کا موقع بنا سکتا ہے۔
محمد عامر کا کہنا تھا کہ قومی ٹیم میں فخر زمان کی انجری کے بعد امام الحق کی واپسی ہوگی اور کوئی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔
قبل ازیں پاکستان کو اپنے میچ میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں 60 سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا تاہم بھارتی ٹیم نے بنگلادیش کو شکست دیکر فاتحانہ آغاز کیا تھا۔
دوسری جانب چیمپئینز ٹرافی میں بھارت اور پاکستان کی ٹمیں 5 بار آمنے سامنے آئی ہیں جہاں گرین شرٹس کا پلڑا بھاری ہے جبکہ بھارت 2 میچز جیت سکا ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
امریکہ کی جانب سے محصولات کی نام نہاد “باہمی مساوات” دراصل معاشی جبر کی کارروائی ہے، چینی میڈیا
امریکہ کی جانب سے محصولات کی نام نہاد “باہمی مساوات” دراصل معاشی جبر کی کارروائی ہے، چینی میڈیا WhatsAppFacebookTwitter 0 12 April, 2025 سب نیوز
بیجنگ :چین نے امریکہ سے تمام درآمدات پر اضافی 125 فیصد ٹیرف عائد کر دیا ہے تاکہ امریکہ کی طرف سے چین پر عائد کردہ نام نہاد ” ریسیپروکل ٹیرف” کا جواب دیا جاسکے۔ اس کے ساتھ ہی، اشیاء کی تجارت پر ڈبلیو ٹی او کونسل کے پہلے سالانہ اجلاس میں، چین نے یہ واضح کیا کہ ڈبلیو ٹی او کے قوانین کے مطابق’’باہمی مساوات ‘‘کا مطلب یہ ہے کہ تجارتی فریق ایک دوسرے کو ترجیحی سلوک اور سہولت فراہم کرتے ہیں، اور بالآخر حقوق اور ذمہ داریوں کا مجموعی توازن حاصل کرتے ہیں. تاہم، امریکہ کی نام نہاد “باہمی مساوات ” درحقیقت تنگ نظری، یکطرفہ پسندی، خود غرضی اور معاشی جبر کا عمل ہے۔
ڈبلیو ٹی او کا “باہمی مساوات ” کا اصول ہر رکن کی اقتصادی ترقی کی سطح میں اختلافات کو مدنظر رکھتے ہوئے حقوق اور ذمہ داریوں کا مجموعی توازن پیدا کرتا ہے۔ امریکہ نے ڈبلیو ٹی او کے ارکان کے درمیان ترجیحی سلوک کو ” مساوی تعداد ” میں غلط انداز میں پیش کیا اور ” مساوی محصولات” عائد کیے ہیں، جو بالکل اس تصور کا ایک غیر مساوی اور غیر معقول اظہار ہے اور اس سے ترقی پذیر ممالک کو ان کے ترقی کے حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ جہاں تک امریکی فریق کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ محصولات ’’غیر مساوی‘ہیں اور اس کی وجہ سے اسے تجارت میں ’’نقصان ‘‘اٹھانا پڑ رہا ہے، تو یہ اور بھی زیادہ مضحکہ خیز بات ہے۔
درحقیقت امریکہ موجودہ بین الاقوامی تجارتی نظام میں سب سے بڑا فائدہ اٹھانے والا ملک ہے۔ امریکہ نے خدمات کی تجارت میں طویل مدتی سرپلس برقرار رکھا ہے ، جس میں 2024 میں تقریباً 300 بلین ڈالر کا سرپلس رہا ۔ خدمات کی برآمدات نے 4.1 ملین امریکی ملازمتیں پیدا کیں۔امریکہ نام نہاد “باہمی مساوات ” کے جھنڈے تلے زیرو سم گیم میں مصروف ہے، جو بنیادی طور پر “امریکہ فرسٹ” اور “امریکہ اسپیشل” کا تعاقب ہے۔ تاہم، ٹیرف کی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہے، اور دنیا کے خلاف کیے جانے والے طرز عمل سے امریکہ خود کو دنیا سے الگ تھلگ کر دے گا۔