اپنی منفرد کہانی سے دھوم مچانے والا ڈرامہ سیریل ’جڑواں‘ کاپی نکلا؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں کئی ابھرتے ہوئے اداکار جلوہ گر ہو رہے ہیں، جن میں عینا آصف نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ وہ ’بے بی باجی‘ اور ’مائی ری‘ جیسے مشہور ڈراموں کے بعد اب اپنے نئے ڈرامے ’جڑواں‘ کے ذریعے ناظرین کو محظوظ کر رہی ہیں۔اس ڈرامے میں عینا آصف ایک منفرد ڈبل رول ادا کر رہی ہیں، جس میں وہ دو جڑواں بہنوں، سارہ اور زارا، کے کردار نبھا رہی ہیں۔
عینا آصف کا فنی سفر
عینا آصف نے پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں کم عرصے میں ہی اپنی جگہ بنا لی ہے۔ ان کے مشہور ڈراموں میں ’پہلی سی محبت‘، ’دل مانے نہ‘، ’بدنصیب‘، ’ہم تم‘، ’پہچان‘، اور ’پنجرا‘ شامل ہیں۔ حال ہی میں ان کا ڈرامہ ’وہ ضدی سی‘ بھی نشر ہوا، جس میں ان کی اداکاری کو خوب سراہا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی تعلیمی سرگرمیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں، جو ان کے شوق اور محنت کی عکاسی کرتا ہے۔
ڈرامہ سیریل ’جڑواں‘ کی کہانی
’جڑواں‘ کی کہانی دو جڑواں بہنوں کے گرد گھومتی ہے جو ایک دوسرے سے شکل میں مشابہت رکھتی ہیں، لیکن ان کی شخصیات بالکل مختلف ہیں۔ سارہ ایک نرم دل اور خاموش طبیعت کی لڑکی ہے، جبکہ زارا بے باک اور خود اعتماد ہے۔
کہانی میں غیر متوقع موڑ آتے ہیں جو جذباتی کشمکش اور غلط فہمیوں کو جنم دیتے ہیں۔ اس ڈرامے میں عینا آصف کے ساتھ ژالے سرحدی، عدنان رضا میر، صبرین حسبانی، اور شہود علوی نے بھی اہم کردار نبھائے ہیں۔
’دی پیرنٹ ٹریپ‘ سے مشابہت کا تنازعہ
’جڑواں‘ ڈرامے کے چند اقساط نشر ہوتے ہی سوشل میڈیا پر یہ بحث شروع ہوگئی کہ اس کی کہانی 1998 میں ریلیز ہونے والی ہالی وڈ فلم ’دی پیرنٹ ٹریپ‘ سے مشابہت رکھتی ہے۔ اس فلم میں لوہان نے جڑواں بہنوں کا کردار ادا کیا تھا جو پیدائش کے بعد الگ ہو جاتی ہیں اور بعد میں ایک سمر کیمپ میں مل کر اپنے والدین کو دوبارہ ملانے کی کوشش کرتی ہیں۔
کئی سوشل میڈیا صارفین نے دعویٰ کیا کہ ’جڑواں‘ کی کہانی اس فلم کا چربہ ہے، جبکہ کچھ ناظرین کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک اتفاقیہ مشابہت ہو سکتی ہے۔ تاہم، عینا آصف کی اداکاری کو بڑے پیمانے پر پذیرائی مل رہی ہے اور ان کے مداح ان کے کردار کو بے حد پسند کر رہے ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں جب پاکستانی ڈراموں پر کسی غیر ملکی فلم یا ڈرامے سے متاثر ہونے کا الزام لگا ہو۔ ماضی میں بھی کئی پاکستانی ڈرامے بالی وڈ یا ہالی وڈ کہانیوں سے مشابہت رکھنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بن چکے ہیں۔ اس کے باوجود، پاکستانی ڈرامے اپنی منفرد کہانیوں، شاندار اداکاری، اور بہترین پروڈکشن کی بدولت عالمی سطح پر مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔
ڈرامہ ’جڑواں‘ تنازعات کے باوجود ناظرین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ اس کی کہانی، مضبوط اداکاری، اور جذباتی مناظر اسے ایک دلچسپ ڈرامہ بناتے ہیں۔ عینا آصف اپنی بہترین کارکردگی کی بدولت ایک بار پھر ناظرین کے دل جیتنے میں کامیاب ہو رہی ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
مہمان کا استقبال!
ذرا تصوّرکیجیے… جب کسی گھر میں کوئی معزز مہمان آنے والا ہو توگھر والوں کی کیفیت کیا ہوتی ہے؟ یقیناً گھر والوں کی خوش دیدنی ہوگی۔ ہر کوئی مہمان کو دیکھنے اور ان سے ملنے کے لیے بے تاب وبے چین نظر آئے گا۔ گھر کے سارے ہی افراد کو آپ تیاریوں میں مصروف پائیں گے۔ ان کے چہروں پر مسرّت کے آثار صاف دکھائی دیں گے۔ اور یہ مہمان کے قابلِ قدر اور قابلِ احترام ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
تم آگئے تو چمکنے لگی ہیں دیواریں
ابھی ابھی تو یہاں پر بڑا اندھیرا تھا
غرض یہ کہ مہمان کا بھرپور استقبال کیا جاتا ہے۔ مہمان کی شان کے مطابق استقبالیہ دیا جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی رمضان المبارک بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنین کے لیے ایک مہمان کے طور پر عطا کیا جانے والا مہینہ ہے۔ اس ماہ مبارک کی عظمت کے سبب ضروری ہے کہ اس کی شان کے مطابق اس کا استقبال کیا جائے۔ اس کی تیاری کی جائے۔
چشم بارہوکہ مہمان آگیا
دامن میں الہٰی تحفۂ ذیشان آگیا
بخشش بھی، مغفرت بھی، جہنم سے بھی نجات
دستِ طلب بڑھاؤ کہ رمضان آگیا
سیدنا سلمانؓ سے مروی ہے کہ شعبان کا مہینہ ختم ہونے کے قریب تھا، نبی اکرمؐ نے ہمیں خطاب فرمایا: ’’لوگو! تم پر عظمت اور رحمت والا مہینہ آنے والا ہے۔ اس میں ایک رات ہزار راتوں سے بہتر ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے، اور صبرکا بدلہ جنت ہے۔ اور یہ ہم دردی اور غم خواری کا مہینہ ہے‘‘۔
ایسے عظیم الشان مہینے کی تیاری کے سلسلے میں مختلف پہلوؤں کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔
سب سے اہم یہ کہ اپنے روزمرہ کے امور کی تقسیم اور تنظیم کرلی جائے۔ رمضان سے قبل سحر وافطار کے لوازمات کی خریداری کرلی جائے تاکہ رمضان کی بابرکت ساعات کا ضیاع نہ ہو۔ مسجد میں زیادہ سے زیادہ وقت اللہ کی عبادت میں گزارا جائے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک روئے زمین پر سب سے پسندیدہ جگہ مسجد ہے۔ رمضان سے قبل شعبان کے مہینے میں گزشتہ سال کے روزوں کی قضا اور نفلی روزوں کا اہتمام کیا جائے تاکہ رمضان سے قبل روزوں کی مشق ہوجائے۔ کھانے کی مقدار میں کمی لائی جائے تاکہ دورانِ روزہ بھوک کا احساس کم سے کم پیدا ہو۔ اہلِ خانہ کی رمضان سے متعلق ذہن سازی کی جائے، ان کے لیے رمضان المبارک کے اوقات کی تقسیم کے ساتھ قرآن سرکل اور دیگر دعوتی سرگرمیاں مرتب کی جائیں کیوں کہ اپنے علاوہ اپنے گھر والوں کی نجاتِ اْخروی کی فکر بھی ہمارے ذمّے ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، خود کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ‘‘۔
اور رمضان المبارک سے بڑھ کر جہنم سے بچنے اور نجات پانے کا ذریعہ اور کیا ہوسکتا ہے؟
اس کے علاوہ اپنے دوستوں اور اہل خانہ کو صبر کی تلقین کی جائے کیوں کہ صبر ایسی صفت ہے، جس کو اپنا کر اعمالِ صالحہ کی حفاظت کی جاسکتی ہے۔ اور یہ خدا کی قدرتِ کاملہ پر یقین کی علامت ہے۔
کیجیے ہر بات پرصبر وشکر
بہت حسیں ہے خدا پہ یقین کا سفر
ہمارے روزے معیارِ مطلوب کے مطابق ہوں اس کے لیے روزوں کے مسائل سے واقفیت حاصل کی جائے۔
سب سے اہم بات یہ کہ موبائل اور انٹرنیٹ کا غیرضروری استعمال ترک کیا جائے کیوں کہ یہ نہ صرف ضیاعِ وقت کا باعث ہے بلکہ انسان کو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی یاد سے غافل کرنے والا ہے۔ اس کے نتیجے میں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم وساوس کا شکار ہوکر رمضان کے بابرکت لمحات ضائع کر بیٹھیں۔ لہٰذا اس کے لیے ابھی سے کوشش کیجیے کہ اپنا وقت ذکرِ الہٰی میں، تلاوتِ قرآن میں، دینی مسائل سیکھنے میں، دینی حلقہ جات میں، فرض نمازوں کے علاوہ دیگر نفلی نمازوں میں گزاریے اور اس کے ذریعے قربِ خداوندی کا حصول ممکن بنائیں۔
ایک خاص پہلو یہ کہ اگر کوئی فرد آپ سے ناراض ہو تو اسے منالیجیے۔ اگرآپ کی وجہ سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو اس سے معافی مانگ لیجیے۔
مولانا ابوالکلام آزادؒ لکھتے ہیں:’’اگرکوئی بندوں کے حقوق سے بے پروا ہو تواس کی عبادت قطعاً سود مند نہیں ہوسکتی‘‘۔
لہٰذا روٹھے ہوئے لوگوں کو مناکر حقیقت میں رب کو منالیجیے۔
عہدکیجیے کہ اس رمضان کو زندگی کا یادگار رمضان بناتے ہوئے رب کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے۔