امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایلون مسک اس بات کی جانچ کریں گے کہ آیا کینٹکی کی مشہور اسٹوریج فورٹ ناکس (Fort Knox) میں سونا اب بھی موجود ہے یا نہیں۔ فورٹ ناکس میں امریکہ کے وسیع اور بھاری حفاظتی سونے کے ذخائر موجود ہیں۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکہ کے سیکرٹری خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ سونے کا ہر سال آڈٹ کیا جاتا ہے اور ان آڈٹ کے مطابق تمام تر گولڈ کا حساب لیا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی میں آڈٹ کے بارے میں کچھ خدشات رہے ہیں، 1974 سے 1986 تک کی سات آڈٹ رپورٹس مبینہ طور پر غائب ہوئیں۔

فورٹ ناکس امریکہ کی ایک انتہائی محفوظ جگہ ہے جہاں سنہ 1937 سے ملک کے سونے اور دیگر قیمتی دھاتوں کو محفوظ طریقے سے ذخیرہ کیا گیا۔ یہ صرف ذخیرہ کرنے کی سہولت نہیں ہے بلکہ فورٹ ناکس امریکی فوج کے انسانی وسائل کے لیے ایک بڑے مرکز کے طور پر بھی کام کرتا ہے اور ہر موسم گرما میں ایک بڑے سالانہ تربیتی پروگرام کی میزبانی کرتا ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ فورٹ ناکس کا معائنہ کرنا چاہتے ہیں، جو کہ امریکی سونے کو ذخیرہ کرنے والی ایک انتہائی محفوظ سہولت ہے، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ سونا اب بھی وہاں موجود ہے یا نہیں۔ ٹرمپ کو خدشہ لاحق ہے کہ فورٹ ناکس سے سونا غائب ہے۔

فورٹ ناکس میں کتنا سونا ذخیرہ ہے؟
یو ایس منٹ کے مطابق، فورٹ ناکس میں یو ایس بلین ڈپازٹری میں سونے کی موجودہ ہولڈنگز 147.

3 ملین اونس ہیں۔ خزانے کے ذخیرہ شدہ سونے کا تقریباً نصف حصہ فورٹ ناکس میں محفوظ ہے۔

کیا فورٹ ناکس سے کوئی سونا نکالا گیا ہے؟
امریکی ٹکسال کے مطابق آڈٹ کے دوران اس کی پاکیزگی کو جانچنے کے لیے صرف تھوڑی مقدار میں سونے کو ہٹایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں کئی سالوں میں فورٹ ناکس سے سونا ہٹایا اور شامل نہیں کیا گیا۔

فورٹ ناکس کتنا محفوظ ہے؟
رپورٹ کے مطابق فورٹ ناکس انتہائی محفوظ ہے۔ بہت کم لوگ ہی اس سہولت اور اس کے مندرجات کی تفصیلات جانتے ہیں۔ مزید برآں، کوئی بھی فرد والٹ کو کھولنے کے تمام مراحل نہیں جانتا، یعنی اس کی خلاف ورزی کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔

فورٹ ناکس کو سنہ 1936 میں گرینائٹ، کنکریٹ اور اسٹیل جیسے مضبوط مواد کی ایک بڑی مقدار کا استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا تھا۔ یہاں کسی عام شخص کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: فورٹ ناکس میں کے مطابق

پڑھیں:

تجارتی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا

آج کی دنیا اشتراکِ عمل کی متقاضی ہے۔ دنیا بھر میں مسابقت کا بازار گرم ہے۔ مسابقت انسانی فطرت سے بھرپور مطابقت رکھنے والی کیفیت ہے مگر یہ سب کچھ اُس وقت اچھا ہوتا ہے جب اِس سے کچھ فیض پہنچ رہا ہو۔ فضول مسابقت دنیا کا بیڑا غرق ہی کرتی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر تجارتی جنگ کا بِگل بجادیا ہے۔ اُنہوں نے نئی تجارتی جنگ شروع کرنے کے لیے نقارے پر پہلی ضرب کے طور پر چار ممالک کے خلاف ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان عالمی معیشت کے لیے انتہائی خطرناک محسوس کیا جارہا ہے۔ کینیڈا، میکسیکو، چین اور بھارت کے خلاف ٹیرف اس لیے عائد کیا گیا ہے کہ امریکی اشیا و خدمات اِن ملکوں کی منڈی میں قدم جمانے کے حوالے سے انتہائی نوعیت کی مشکلات محسوس کر رہی ہیں۔ چائنا گلوبل ٹیلی وژن نیٹ ورک کے خصوصی مبصر اسٹیفن ڈیگوا نے لکھا ہے کہ درآمدی ڈیوٹی عائد کرنے کا ٹرمپ کا فیصلہ امریکی معیشت کے لیے شدید منفی مضمرات کا باعث بن سکتا ہے اور اِس کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت کے لیے بھی الجھنیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ یہ بات اب کھل کر سامنے آچکی ہے کہ صدر ٹرمپ معاشی معاملات میں امریکا کی پوزیشن بہتر بنانے کے لیے خاصی جارحیت کے اظہار پر یقین رکھتے ہیں۔ چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے حالیہ بیانات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صدر ٹرمپ تجارتی جنگوں کو پہلو میں لے کر چلنا چاہتے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے جتنے بھی ممالک کے لیے ٹیرف بڑھایا ہے اُن سب نے شدید ردِعمل ظاہر کیا ہے۔ بھارت اس معاملے میں قدرے محتاط رہا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ امریکا ایک بڑی منڈی ہے۔ اِس وقت اُسے ناراض کرنا معیشت کی راہ میں دیواریں کھڑی کرنے سے جیسا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے عہد ِ صدارت میں بھی تجارتی جنگ شروع کی تھی اور اب پھر اُنہوں نے یہی جنگ چھیڑ دی ہے۔ عالمی معیشت ایسی کسی بھی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ چینی حکومت بھی امریکی مصنوعات پر ٹیرف عائد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ چینی حکومت کہتی ہے کہ تجارتی جنگ میں کوئی بھی فاتح نہیں ہوتا۔ چینی حکومت معاشی معاملات میں جارحانہ نوعیت کی مسابقت کے بجائے مفید اشتراکِ عمل اور انحصارِ باہم پر یقین رکھتی ہے۔ بہت سے اختلافات اور تنازعات کے باوجود امریکا اور چین آج بھی ایک دوسرے کے لیے سب سے بڑے ٹریڈ پارٹنر ہیں۔ اِن کا کام ایک دوسرے سے کچھ لیے اور کچھ دیے بغیر چل نہیں سکتا۔ چین کے برآمدی تاجروں کے لیے امریکا بہت پُرکشش ہے اور دوسری طرف امریکی کاروباری دنیا کے لیے بھی چین بہت بڑی اور انتہائی بارآور منڈی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو نظر انداز کر ہی نہیں سکتے۔

امریکا میں ہزاروں ادارے اپنی اشیا کے لیے چینی پُرزوں پر منحصر ہیں۔ ٹیرف میں 10 فی صد اضافے سے امریکا میں تیار ہونے والی بہت سی چیزیں مہنگی ہوجائیں گی۔ اس کے نتیجے میں امریکی برآمدات باقی دنیا کے لیے مزید مہنگی ہوجائیں گی۔ ساتھ ہی ساتھ یہ چیزیں خود امریکی عوام کے لیے بھی مہنگی ہوجائیں گی۔ امریکی برآمدی تاجروں کو یہ اندیشہ لاحق ہے کہ چینی مارکیٹ کا ایک بڑا حصہ اُن کے ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ یہ اندیشہ کچھ ایسا بے بنیاد بھی نہیں۔

صدر ٹرمپ کو یہ غم ستا رہا ہے کہ امریکا کو تجارت میں چین اور بھارت کے مقابل خسارے کا سامنا ہے۔ توازنِ تجارت کو موافق بنانے کے لیے وہ ٹیرف کا سہارا لے رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ امریکیوں کی ملازمتیں بچانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کے اقدامات سے معاملات محض خراب ہوں گے۔ امریکی معیشت کو بچانے کی کوششیں جدت اور ندرت کی راہ میں دیواریں کھڑی کر رہی ہیں۔ امریکیوں کی ملازمتیں بچانے کا عمل محض بے روزگاری کو فروغ دے رہا ہے۔ گلوبل سپلائی چَین بھی متاثر ہو رہی ہے۔ امریکا میں کاروباری اداروں کے لیے لاگت بڑھ رہی ہے اور یوں صارفین کو بھی زیادہ ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ امریکا کے مقابلے میں چین نے کُھلی مسابقت کی راہ ہموار کی ہے۔ وہ آزاد تجارت پر یقین رکھتا ہے۔ وہ تجارت کے معاملے میں بھی اشتراکِ عمل پر یقین رکھتا ہے۔ اُسے اندازہ ہے کہ الگ تھلگ رہ کر کامیاب نہیں ہوا جاسکتا۔ عالمی سطح پر معیشت کے لیے ابھرنے والے چیلنجز کو سمجھنے میں چینی قیادت دیر نہیں لگاتی اور خاطر خواہ اقدامات بھی ممکن بناتی ہے۔ چین نے عالمی تجارتی تنظیم میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے علاقائی سطح پر بھی جامع معاشی اشتراکِ عمل کی راہ ہموار کی ہے۔ اس حوالے سے معاہدہ جنوری 2022 میں نافذ ہوا۔

میکسیکو اور کینیڈا نے بھی امریکی صدر کے اقدامات کے جواب میں بہت کچھ کرنے کا انتباہ کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا کو معیشتی سطح پر غیر معمولی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دنیا بہت الجھی ہوئی ہے۔ عالمی معیشت کے لیے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ ایسے میں امریکا کو الگ تھلگ رکھنے کی پالیسی ترک کرتے ہوئے صدر ٹرمپ اگر مل کر چلیں تو اچھا ہے۔ چین، میکسیکو، کنیڈا اور بھارت کو ساتھ لے کر چلنے کی صورت امریکی معیشت کے لیے بھی امکانات بڑھیں گے۔ ٹیرف کے ذریعے کسی کو سزا دینے کی کیفیت پیدا کرنا انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ نے بھی خبردار کیا ہے کہ تجارتی جنگ سے عالمی معیشت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے اور خود امریکا کے لیے بھی تجارتی جنگ کسی اعتبار سے اچھی بات نہیں۔
(زیرِنظر مضمون چائنا گلوبل ٹیلی وژن نیٹ ورک میں شایع ہوا ہے۔ مضمون نگار اسٹیفن ڈیگوا کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں قائم تھنک ٹینک ساؤتھ ساؤتھ ڈائیلاگز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں۔)

متعلقہ مضامین

  • تجارتی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا
  • سونا مہنگا ہو کر فی تولہ کتنے کا ہوگیا؟
  • پاکستان میں آج بروزہفتہ،22 فروری 2025 سونے کی قیمت میں مزید ہوشرباء اضافہ
  • بغیر داڑھی امتحان کی اجازت نہ ملنے کے خلاف فیصلہ محفوظ
  • سندھ‘ماہ رمضان میں مہنگائی‘ ذخیرہ اندوزی پرکارروائی کا فیصلہ
  • عالمی منڈی میں نرخ گرنے کے بعد ملکی سطح پر بھی سونا سستا ہوگیا
  • پاکستان میں سونے کی قیمت میں بڑا اضافہ
  • پاکستان میں آج بروزجمعہ المبارک،21 فروری 2025 سونے کی قیمت 3 لاکھ 10 ہزار سے تجاوز
  • سونے کی قیمت تاریخی سطح پر پہنچ گئی، فی تولہ کتنے کا ہوگیا؟