سید رضی عباس ہمدانی نابغہ روزگار شخصیت
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: قبلہ سید رضی عباس کا اندازِ تبلیع بھی بہت منفرد اور دل میں گھر کر لینے والا تھا۔ ایک دفعہ پنڈ سلطانی میں ایک دوست کے ہاں دعوت میں شریک تھے اور دوستان کسی شخصیت کی زیادتیوں کے متعلق گفتگو کر رہے تھے تو آغا صاحب نے غیر محسوس طریقے سے غیبت کے گناہ اور نقصانات سے آگاہ فرماتے ہوئے تنبیہہ کی کہ آپ لوگ غیبت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اسی محفل میں شریک ایک اہل سنت دوست برادر احسان احمد خان اکثر اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جب بھی کوئی ایسی گفتگو کرنے لگوں یا سنوں تو ایک بار ضرور مجھے ہمدانی صاحب اور انکی نصیحت یاد آتی ہے اور اکثر اوقات غیبت سے بچ جاتا ہوں۔ تحریر: محمد اشفاق شاکر
20 فروری 2025ء کو 83 برس کی بھرپور اور باعمل زندگی گزار کر داغِ مفارقت دے جانے والے ایک عالم باعمل، پیکرِ اخلاص و وفا قبلہ سید رضی عباس ہمدانی صاحب کے ساتھ تقریباً تین دہائیوں سے زائد ہر قسم کے مفادات سے بالاتر ایک انتہائی پُرخلوص اور محبت بھرا رشتہ رہا۔ قبلہ سید رضی عباس ہمدانی صاحب 1994ء مین جامعہ جعفریہ جنڈ کے پرنسپل کے طور پر جنڈ تشریف لائے تو جامعہ جعفریہ جنڈ ایک انتہائی محدود سطح کی دینی درسگاہ تھی، لیکن قبلہ رضی عباس ہمدانی نے اپنے آپ کو مدرسہ کی چاردیواری تک محدود رکھنے کی بجائے ضلع بھر کے عوام تک پھیلا دیا اور جامعہ جعفریہ جنڈ کو ضلع بھر کے عوام میں ایک مقبول اور روحانی مرکز کے طور پر متعارف کروا دیا۔
اب تو ملک بھر کے تقریباً تمام دینی مدارس میں ملت کے بچوں کی تعلیم و تربیت اور دین شناسی کے لیے شارٹ کورسز کا اہتمام کیا جاتا ہے، لیکن جامعہ جعفریہ جنڈ میں یہ سلسلہ قبلہ رضی عباس ہمدانی صاحب نے شروع اور پہلے شارٹ کورس میں تقریباً 100 کے لگ بھگ بچوں نے شرکت کی اس کورس کے کامیاب انعقاد کے اختتامی روز آغا صاحب کی خوشی دیدنی تھی اور اختتامی تقریب بھی بہت یادگار تھی، جس میں قبلہ سید ساجد علی نقوی صاحب بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔ اس شارٹ کورس کے بعد نہ صرف یہ کہ مدرسہ عوامی سطح پر ایک مقبول دینی درسگاہ کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا بلکہ خود آغا صاحب کا بھی ضلع بھر میں ایک بھرپور اور مثبت تعارف ہوا۔
آغا صاحب کی پُرخلوص کوششوں کے نتیجے میں جامعہ جعفریہ جنڈ ترقی کی منازل طے کرنے لگا اور طلاب کی تعداد بھی آئے روز بڑھتی چلی گئی۔ یہ بہت خوبصورت سلسلہ 2011ء تک جاری رہا کہ ایک روز اہلیانِ جنڈ کو اچانک یہ خبر سننے کو ملی کہ آغا سید رضی عباس ہمدانی جامعہ جعفریہ جنڈ کو چھوڑ کر اپنے گاؤں میں خدمات سرانجام دینے کے لیے جا رہے ہیں اور وجہ یہ بتائی گئی کہ اُن کے گاؤں سے مومنین کا ایک وفد جنڈ آیا اور انہوں نے گزارش کی کہ آغا صاحب آپ پر ہمارا بھی حق ہے، اس لیے اب آپ گاؤں تشریف لاکر ہمیں بھی فیضیاب فرمائیں اور خود آغا صاحب نے چونکہ ایک الوداعی خُطبہءِ جمعہ میں اس بات کا اعلان کیا، لہذا اس موضوع پر تبصرہ کرنا بہتر نہیں ہے لیکن عوام الناس کو اس خبر نے بالکل ایسے سوگوار کر دیا، جیسے وہ ایک شفیق باپ سے محروم ہونے جا رہے ہوں۔
اہلیانِ جنڈ اور گرد و نواح کے مومنین نے اپنی بے پناہ اور بے لوث محبتیں آغا صاحب کے قدموں میں نچھاور کر دیں۔ آغا صاحب کے اعزاز میں الوداعی دعوتوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ چل پڑا۔ ہر فرد، ہر ادارے، ہر تنظیم اور ہر محلے اور گرد و نواح کے مومنین کی خواہش تھی کہ آغا صاحب ان کی دعوت کو ضرور قبول فرمائیں۔ اسی دوران جنڈ سے امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے دوستوں کی طرف سے جب میں نے کھانے کی درخواست کی تو آغا صاحب پریشان ہوگئے کہ وقت بھی نہیں تھا اور جوانوں کو انکار بھی نہیں کرسکتے تھے اور پھر اچانک سے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمائے لگے کہ شاکر عام بندے کی نسبت ایک تنظیمی فرد کو قائل کرنا آسان سمجھتا ہوں، اس لیے آپ عزیزان صرف چائے کا اہتمام کرو کہ وقت بہت کم ہے اور دعوتیں بہت زیادہ۔ ہم نے آغا صاحب کی بات مان لی۔
بالآخر وہ جمعہ آہی گیا کہ جس کے خطبے کا ذکر اوپر کیا ہے اور جس کو میں خطبہ شقشقیہ کے اس اقتباس کا مصداق سمجھتا ہوں کہ جس میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ "میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب وہ زمین کے نزدیک ہو کر پرواز کرنے لگیں تو میں بھی ایسا ہی کرنے لگوں اور جب وہ اونچے ہو کر اڑنے لگیں تو میں بھی اسی طرح پرواز کروں (یعنی حتی الامکان کسی نہ کسی صورت سے نباہ کرتا رہوں۔" بہرحال آغا سید رضی عباس ہمدانی صاحب جنڈ کو چھوڑ کر چلے گئے اور ان کے جانے کے اثرات یہ ہوئے کہ جامعہ جعفریہ جنڈ میں طلبہ کی تعداد کم سے کم ہوتی چلی گئی اور مدرسہ دن بدن تنزلی کا شکار ہوتا چلا گیا اور بالآخر وہ وقت آیا کہ یہ مدرسہ بس نام کا مدرسہ رہ گیا۔
اس نازک وقت میں ٹرسٹ کے ممبران نے قبلہ علامہ مقبول حسین علوی صاحب سے رابطہ کرکے یہ گزارش کی اس جامعہ کا انتظام و انصرام اپنے ہاتھ میں لے لیں تو وہ اس شرط پر راضی ہوئے کہ اگر رضی عباس ہمدانی صاحب بطور پرنسپل ذمہ داری قبول کریں تو میں جامعہ کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے تیار ہوں۔ اہلیانِ جنڈ کا ایک وفد آغا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، ساری صورتحال ان کے گوش گزار کی تو یہ پیکرِ اخلاص و وفا ایک بار پھر میدانِ عمل میں اتر پڑا اور تین سال کے وقفے کے بعد 2014ء میں نئے سرے سے سفر کا آغاز کیا اور آج ایک بار پھر جامعہ جعفریہ جنڈ کا شمار ملک کے چنیدہ اور کامیاب مدارس میں ہوتا ہے۔ ہر سال طلبہ کی ایک معقول تعداد اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کے لیے ایران و عراق کا رخ کرتی ہے۔
تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ معمولی سے مولوی بیروزگاری کے خاتمے کے لیے کسی دینی مدرسے میں بطور مدرس جاتے ہیں تو کچھ ہی وقت کے بعد کروڑوں پتی بن جاتے ہیں، لیکن اس عظیم انسان کی علم دوستی.
واجبات کی ادائیگی اور اولاد کی تربیت کے معاملے میں کتنے حساس تھے کہ جب اپنی مذکورہ اراضی فروخت کرکے اپنے فرزندان و دختران کو ان کے حصے کی رقم دینے لگے تو ان پر واضح کیا کہ جیسے ہی یہ رقم ملے گی تو آپ سب پر حج واجب ہو جائے گا، اس لیے فوراً اسی سال حج کی تیاری کرو۔ حتی کہ جس قبرستان میں ان کی تدفین کی گئی، اس قبرستان کے ساتھ ملحقہ اراضی کو خرید کر اپنے اور اپنے اہل خانہ کی تدفین کے لیے وقف کیا۔ قبلہ سید رضی عباس کا اندازِ تبلیع بھی بہت منفرد اور دل میں گھر کر لینے والا تھا۔ ایک دفعہ پنڈ سلطانی میں ایک دوست کے ہاں دعوت میں شریک تھے اور دوستان کسی شخصیت کی زیادتیوں کے متعلق گفتگو کر رہے تھے تو آغا صاحب نے غیر محسوس طریقے سے غیبت کے گناہ اور نقصانات سے آگاہ فرماتے ہوئے تنبیہہ کی کہ آپ لوگ غیبت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
اسی محفل میں شریک ایک اہل سنت دوست برادر احسان احمد خان اکثر اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جب بھی کوئی ایسی گفتگو کرنے لگوں یا سنوں تو ایک بار ضرور مجھے ہمدانی صاحب اور ان کی نصیحت یاد آتی ہے اور اکثر اوقات غیبت سے بچ جاتا ہوں۔ سید رضی عباس ہمدانی صاحب کی زندگی کی روش، سلیقے، طور طریقے اور سادگی میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ زندگی کے آخری لمحات تک وہی سادہ اور درویشانہ طرز زندگی برقرار رہا اور میں سمجھتا ہوں کہ قبلہ سید رضی عباس ہمدانی صاحب کے متعلق مجھے یہ لکھتے ہوئے بھی فخر ہو رہا ہے کہ خود میری ذات پر آعا صاحب کے بےشمار احسانات ہیں کہ 96-1995ء میں کچھ حالات کی وجہ سے میں علماء سے دوری میں عافیت سمجھ رہا تھا تو مجھے آغا سید رضی عباس ہمدانی صاحب کی شخصیت، ان کے پیار، اخلاص، علم، عمل اور محنت و محبت نے یہ حوصلہ دیا کہ سارا کچھ ایک جیسا نہیں ہوتا۔
المختصر اس سید کی زندگی، سیرت، کردار، سادگی، شرافت کو لفظوں میں بیان کرنا میرے لیے نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ اس لیے اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ ان کی شخصیت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فرامین کی عملی تصویر تھی۔ اس لیے میں یہاں حضرت کے چند فرامین نقل کرنے پر اکتفا کرتا ہوں اور اپنے پڑھنے والوں کو یقین دلاتا ہوں کہ میں نے قبلہ سید رضی عباس ہمدانی کو ان فرامین کی چلتی پھرتی شکل محسوس کیا ہے۔ فرماتے ہیں: "اپنا بوجھ ہلکا کر لو، تاکہ آگے بڑھنے والوں کو پا سکو"، "اس دنیا میں اپنی ضرورت سے زیادہ نہ چاہو"، "دنیا کی فانی چیزیں دے کر باقی رہنے والی چیزیں خرید لو"، "یقین رکھو کہ تم اللہ کے روبرو ہو"، "سچا شخص نجات اور عزت کی بلندیوں پر فائز ہوتا ہے" اور پھر حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے اس فرمان کا عملی نمونہ تو قبلہ کی زندگی میں بھی اور جنازے میں بھی ساری دنیا نے دیکھا کہ "لوگوں سے اس طرح ملو کہ مرجاؤ تو تم پر روئیں اور زندہ رہو تو تمھارے مشتاق رہیں۔"
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: قبلہ سید رضی عباس ہمدانی جامعہ جعفریہ جنڈ آغا صاحب کی میں شریک گفتگو کر میں بھی میں ایک صاحب کے غیبت کے ایک بار کے لیے اور ان اس لیے ہے اور جنڈ کو ہیں کہ ہوں کہ
پڑھیں:
وزیراعلی بلوچستان کا سابق ایڈووکیٹ جنرل صلاح الدین مینگل ایڈووکیٹ کے انتقال پر اظہار افسوس
کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 فروری2025ء) وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے سابق ایڈووکیٹ جنرل، معروف قانون دان اور ادبی شخصیت صلاح الدین مینگل ایڈووکیٹ کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔(جاری ہے)
اپنے تعزیتی پیغام میں وزیر اعلی بلوچستان نے مرحوم کی قانونی، ادبی اور سماجی خدمات کو شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی وفات سے بلوچستان ایک باصلاحیت قانون دان اور نامور ادبی شخصیت سے محروم ہوگیا ہے،صلاح الدین مینگل ایڈووکیٹ کی قانونی بصیرت، پیشہ ورانہ دیانت داری اور عوامی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی وہ ایک کہنہ مشق قانون دان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دانشور اور ادبی شخصیت بھی تھے جنہوں نے اپنی زندگی قانون، عدلیہ اور سماجی بہبود کے لیے وقف کردی۔
وزیر اعلی بلوچستان نے کہا کہ غم کی اس گھڑی میں لواحقین کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں،اللہ تعالی مرحوم کو جوارِ رحمت میں جگہ دے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔