عمران خان کو زیادہ دیر تک جیل میں رکھنا ممکن نہیں:ریحام خان
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
ویب ڈیسک: بانی پی ٹی آئی کی سابق اہلیہ ریحام خان نے کہا ہے کہ عمران خان کو زیادہ دیر تک جیل میں رکھنا ممکن نہیں، اگر ٹرمپ قیدی کی مدد کریں گے تو پھر سب کو ان کی ضمانت کی فکر کیوں ہو رہی ہے۔
کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ریحام خان نے ٹرمپ اپنے دوستوں کا بڑا خیال رکھتے ہیں اور یاری دوستی نبھاتے ہیں، تین ٹریلین ڈالر ان کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے، ایک ٹیسلا کا مالک ہے ایکس کا مالک ہے، میٹا کا مالک ہے ایک ایمازون کا مالک ہے۔
سبزہ زار :دو بچوں کی ماں کے مبینہ قتل کا معاملہ ، شوہر اور جیٹھ گرفتار
ریحام کے مطابق خط لکھنے سے تو کچھ نہیں ہوگا تاہم اگر وہ پاؤں پکڑ لیں تو شاید کچھ ریلیف ملے، ابھی دو سال بھی نہیں ہوئے کم از کم دو سال پورے ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہوں، کسی بھی کیریئر سیاست دان کو اتنا عرصہ نہیں رکھا گیا۔
انھوں نے کہا کہ سیاسی جماعت جوائن کرنے سے بہتر خود پارٹی بنانے کا ارادہ رکھتی ہوں، پی ٹی آئی حکومت کے دور میں ٹی وی پر بھی نہیں آ سکتی تھی، میڈیا کو فون کر دیا جاتا تھا، اس وقت پی ٹی آئی سوشل ونگ کا چرچا ہے جسے سراہنا چاہئے۔
کویت ثقافتی میلے میں پاکستانی ربوٹ توجہ کا مرکز بن گیا
ریحام خان نے کہا کہ بانی چیئرمین کی بارے میں کوئی نیوز فالو نہیں کرتی اور کوئی دلچسپی بھی نہیں ہے، تین لیٹرز تو لکھوا لیے گئے ہیں، کچھ اور معافی تلافی کی خواہشات ہوں گی۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں کوئی دوست ملک بھی رکھنے کو تیار نہیں ہے، جو مغربی ممالک ان کو رکھنے کے لیے بے چین ہیں مقتدرہ ان کو جانے نہیں دے گی، لمیٹڈ ریلیز میں دیکھ رہی ہوں۔ یہ پہلا امریکی صدر نہیں ہے جو ایسا کر رہا ہے، ان کی جو اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے وہ ایک لانگ ٹرم پلان ہوتا ہے۔
چیمپئنز ٹرافی کا سب سے بڑا ٹاکرا، پاکستان، بھارت آج مدمقابل
ریحام خان نے کہا کہ حکومت اسے کہتے ہیں جو گورننس کر رہی ہو، کراچی میں حکومت نظر آتی ہے نہ لاہور صاف نظر آتا ہے، گورننس ہوتی ہے جب لوگوں کی زندگیوں میں آسانی نظر آتی۔
انھوں نے کہا کہ یہ معصوم لوگ ہیں یہ ورغلانے گئے ہیں، میرا سافٹ کارنر عوام کے لیے ہے، پی ٹی آئی لیڈر شپ کے لیے ہمدردی ہوتی تو حالات تبدیل ہوتے۔
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: کا مالک ہے نے کہا کہ
پڑھیں:
رشتے کا حق کیا ہے؟
اللہ تعالی نے صراحت کے ساتھ بار بار یہ حکم دیا ہے کہ رشتے دار کا حق ادا کرو۔ بلاشبہ رشتے دار کی مالی اعانت کرنا اس میں شامل ہے اور اس کی بہت زیادہ اہمیت اور ثواب بھی ہے۔ لیکن رشتے کا اصل حق یہ ہے کہ اس کی حفاظت کی جائے۔ رشتوں کی حرارت باقی رہے۔ رشتوں سے محبت کی خوش پھوٹتی رہے۔ آپ کو رشتوں کی اہمیت کا احساس رہے اور آپ کے رشتے داروں کو بھی یہ محسوس ہو کہ آپ ان کے رشتے کی قدر کرتے ہیں۔ یہ رشتوں کے ساتھ انصاف کا تقاضا ہے۔
امام نوویؒ رشتوں کی پاس داری کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا رشتوں کی پاس داری ہے۔ اس میں رشتہ نباہنے والے اور جس سے رشتہ نباہنا ہے، دونوں کے احوال کا لحاظ ہوگا۔ کبھی رشتوں کی پاس داری مال و دولت کے ذریعے ہوگی، تو کبھی خدمت اور کام آنے کے راستے اور کبھی زیارت اور سلام وغیرہ سے ہوجائے گی‘‘۔ (شرح صحیح مسلم)
انصاف کا تقاضا یہ بھی ہے کہ رشتوں میں مساوات کا رنگ حاوی رہے۔ تعلیم، دولت، منصب اور سماجی اسٹیٹس کی وجہ سے رشتوں میں اونچ نیچ اور نا ہمواری کی کیفیت ہرگز پیدا نہیں ہونی چاہیے۔ لوگ آپ کی شخصیت کے نمایاں پہلوؤں کی وجہ سے آپ کا احترام کریں گے لیکن خود آپ کے اندر غرور کا شائبہ نہیں آنا چاہیے۔ رشتے داروں کے درمیان اپنی برتری کا اظہار کرنا بڑی بداخلاقی ہے۔ تواضع اور انکسار ہی بہتر رویہ ہے۔
یہ صحیح ہے کہ دور و نزدیک کے تمام رشتوں کے ساتھ یکساں معاملہ ممکن نہیں ہوتا ہے، البتہ رشتے داری کے ضروری بنیادی تقاضے سبھی کے ساتھ پورے کیے جاسکتے ہیں۔
عام حالات میں آپ کی والدہ کو والد کے مقابلے میں زیادہ توجہ کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ بھائیوں سے زیادہ بہنوں کا زیادہ خیال رکھنا ضروری ہوسکتا ہے۔ خود کفیل بڑے بھائیوں سے زیادہ چھوٹے بھائی جو ابھی اپنے پاؤں پر نہیں کھڑے ہوئے ہیں، آپ کی توجہ کے زیادہ مستحق ہوسکتے ہیں۔
البتہ بعض رشتوں میں آخری حد تک یکساں معاملہ مطلوب ہوتا ہے، جیسے بچوں کے درمیان اور بیویوں کے درمیان جتنی زیادہ مساوات برتی جاسکتی ہو ضرور برتنا چاہیے۔
یہ بھی درست ہے کہ ضروریات کا فرق ہوتا ہے، ہر بچے کی ضرورت الگ ہوسکتی ہے اور اس کی تکمیل کے لیے درکار رقم مختلف ہوسکتی ہے، ان سب باتوں کا اعتبار ضروری ہے، تاہم یہ سب کچھ انصاف اور معقولیت کے دائرے میں ہونا چاہیے اور اس طرح ہونا چاہیے کہ کسی کو شکایت نہ ہو، سب کا اعتماد برقرار رہے۔ آخری نتیجہ حق تلفی اور نا انصافی کی صورت میں نہیں بلکہ عدل وانصاف کی صورت میں سامنے آئے۔