Jasarat News:
2025-04-13@18:22:04 GMT

مشرقی پاکستان کی واپسی

اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT

مشرقی پاکستان کی واپسی

یہ 22 فروری 1974 تھا پورا عالم اسلام دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس کے لیے جمع تھا کشادہ چیئرنگ کراس لاہور، ہال کے اندر اسلامی قیادت جمع ہے اور ہال کے باہر سڑکوں پر اہل پاکستان کا ایک جم غفیر نعرے لگائے جارہے تھے کہ بنگلا دیش نہ منظور اور ہال کے اندر کا منظر یہ تھا کہ بھٹو اور مجیب، ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے بنگلا دیش منظور کی قرارداد کے لیے بے چین اور بے قرار تھے اس روز لاہور میں دو پاکستان تھے ایک بنگلا دیش منظور کرانے والے اور دوسرے نامنظور کہنے والے، نامنظور کہنے والے محب وطن عام لوگ تھے۔ ڈاکٹر نذیر شہید بھی اسی قافلے میں شامل تھے۔ متحدہ پاکستان کے شیدائی اور اس کے لیے کٹ مرنے والے تھے تاہم یہ بے اختیار تھے مگر ان کے دائیں ہاتھ میں متحدہ پاکستان کا نعرہ اور سبز ہلالی پرچم تھا تاہم کمزور تھے اختیار ان کے پاس تھا جن کے بائیں ہاتھ میں سیاہ سیاسی اعمال نامہ تھا جس میں بنگلا دیش منظور کی قرارداد لکھی ہوئی تھی۔ جس روز یہ قرارداد پاس ہوئی اس روز بلک بلک کر پورا پاکستان رویا۔ قیام پاکستان کے وقت اپنی آنکھوں کے سامنے مائوں، بہنوں، بیٹیوں جوان مرد، بزرگوں کو قتل ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی نہیں رویا تھا۔ سچ یہی ہے کہ اس وجہ سے کوئی نہیں رویا تھا کیونکہ وہ اپنی منزل پاکستان کے لیے قربان ہو رہے تھے۔ بلاشہ پاکستان کی بنیاد اس روز رکھ دی گئی تھی جب برصغیر میں پہلا مسلمان پیدا ہوا تھا مسلم لیگ تو بہت بعد میں بنی، قیام پاکستان کا یہ سفر کس قدر طویل تھا اس کا کسی کو اندازہ ہی نہیں۔ ہاں مسلم لیگ کو یہ موقع ضرور ملا کہ اس کی قیادت میں عالم اسلام کو ایک اسلامی مملکت پاکستان ملا لیکن اسے توڑا کس نے؟ یہ دھبا بھی مسلم لیگ کے ماتھے پر ہی لگا۔ وہ عوامی مسلم لیگ تھی یہ غالباً قیام پاکستان کے چند ماہ بعد کی بات ہے۔ ملک میں چینی اور کوئلے کی شدید قلت ہوگئی، چینی کا متبادل تو گڑ تھا لہٰذا گزارا ہوگیا اب کوئلے کا متبادل کہاں سے لایا جاتا وزارت تجارت جو آئی آئی چندریگر کی سربراہی میں کام کر رہی تھی اسے کوئلہ درآمد کرنے کا ٹاسک ملا کہ کہیں کوئلے سے چلنے والی ریل گاڑیاں ہی نہ بند ہوجائیں۔ ایسا ہوتا تو پا کستان کا سارا سرکاری نظام ہی معطل ہوجاتا۔ بہر حال یہ انتظام کرلیا گیا یوں ایک بحران سے ملک بچ گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد سرکاری دفاتر کے لیے سامان منگوانے کا فیصلہ ہوا جس میں سینیٹری کا سامان بھی شامل تھا اس کے لیے وزیر خزانہ کی سربراہی میں وزیروں کی ایک سب کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا جس میں اس وقت کے وزیر اطلاعات مولوی فضل الرحمن بھی شریک تھے ان کے پاس تعلیم اور داخلہ کا بھی قلم دان تھا انہوں نے تجویز دی کہ سینیٹری کا سامان منگوایا جارہا ہے تو اس میں سے کچھ سامان مشرقی پاکستان کے لیے منگوا لیا جائے۔ اس تجویز کا مذاق اڑایا گیا۔ یہ تک کہا گیا کہ مشرقی پاکستان والوں کو اس سامان کی کیا ضرورت ہے۔ وہ تو کیلوں کے درختوں کی اوٹ میں جاتے ہیں۔ مورخ لکھتے ہیں کہ گویا بنگلا دیش کے قیام کی پہلی اینٹ اسی میٹنگ میں رکھ دی گئی تھی۔

ہماری سیاسی تاریخ میں بائیس فروری 1974 کا دن ایک لمحے میں نہیں آن پہنچا تھا اس کے لیے دانستہ یا نادانستہ بلنڈر کیے گئے۔ ایوب خان کا دور بھی ہماری سیاسی تاریخ میںگزرا ہے۔ یہ 1962 کی بات ہے ایوب خان ملک کے حکمران اور اس وقت جسٹس(ر) منیر ملک کے وزیر قانون تھے، ایوب خان نے ایک تجویز دے کر انہیں ڈھاکا بھیجا، تجویز کیا تھی وہ وہاں جائیں اور مشرقی پاکستان کی سیاسی قیادت کو اس بات پر قائل کریں کہ وہ مغربی پاکستان سے الگ ہونے کی تگ و دو کریں، منیر یہ تجویز لے کر گئے لیکن مشرقی پاکستان کی سیاسی لیڈر شپ نے مسترد کردیا اور جواب دیا کہ ہم یہ کام نہیں کر سکتے آپ کو کرنا ہے تو خود یہ کام کریں۔ دیکھیے ہلکی ہلکی آنچ پر جب کوئی ہنڈیا رکھی جائے گی تو ایک دن تو اس میں اُبال آہی جاتا ہے ناں، بس یہی کچھ مشرقی پاکستان کے ساتھ بھی ہوا اس کے بعد ہی شیخ مجیب الرحمن کے چھے نکات آئے‘ ان میں ملک ٹوٹنے کی بو سب سے پہلے سید مودودی نے محسوس کی۔ 18 فروری 1966 میں ان کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ چھے نکات میں ملک توڑنے کی سازش کی بو آرہی ہے۔

سید مودودی نے تو پہچان لیا مگر اس وقت کی آمریت چھے نکات کو نہ پہچان سکی اس وقت ملک میں جمہوریت نہیں آمریت کا دور تھا جس نے بنیادی جمہوریت کے ذریعے عوامی رنگ خودپر چڑھا رکھا تھا آج ہم بائیس فروری 2025 میں ہیں۔ اکیاون سال بعد ہم کیسے ہیں اور کہاں کھڑے ہیں؟ وہ مشرقی پاکستان ہمارے ہاتھ سے جاچکا تھا اب پانچ اگست 2024 سے واپس آنے لگا ہے اب وہاں شیخ مجیب کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا ہے۔ اب وہاں نظام تعلیم اور نصاب تعلیم بھی بدل دیاگیا ہے۔ بھارت بھی بنگلا دیش بنانے میں پیش پیش تھا اسے ابھی سبق سکھانا باقی ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں ہمیں ایک نائن الیون سے واسطہ پڑا تھا اور ہم پر ایک ایسا نظام مسلط ہوا کہ ہمارا نظام تعلیم ہی بدل گیا، ہمارا نصاب ہی بدل کر رکھ دیا گیا، مگر ہم نصاب تعلیم واپس

لائیں گے۔ مشرف کے نصاب تعلیم کے باعث ہی کشمیر کی تحریک آزادی نائن الیون کے اثرات کی نذر ہو ئی تھی اور ہم اب ایک ایسا وکیل ہیں جس کے پاس کوئی دلیل نہیں رہی یہ کشمیر کی کہانی ہے دوسری جانب ہم افغانستان کے ساتھ الجھے ہوئے ہیں وہاں بھارت اپنا مکمل کام دکھا رہا ہے۔ اب ہماری یہ سرحد بھی محفوظ نہیں رہی، ایک جانب بھارت مشرقی سرحد پر اور دوسری جانب وہ افغانستان میں ہمارے لیے مسائل کھڑے کر رہا ہے اور ہم بحیثیت قوم بے فکری کی نیند سو رہے ہیں۔ ہمارے خلاف ایک عالمی ایجنڈا متحرک ہے۔ جس کے نتیجے میں پوری قوم تقسیم ہے۔ ہماری پارلیمنٹ کو آگے بڑھ کر ایک کردار ادا کرنا ہے مگر انہیں تو اپنی تنخواہوں میں اضافے کی فکر تھی سو یہ کام کر لیا گیا۔ عوام کو روٹی ملے نہ ملے اس کی کسی کو پروا ہی نہیں ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اس ملک میں ان لوگوں کے لیے کوئی سزا نہیں، کوئی علامتی سزا بھی نہیں جنہوں نے ملک توڑا، اس کے لیے منصوبہ بندی کی، ماحول بنایا اور ایسے لوگوں کو تو عدالت عظمیٰ بھی کہہ دیتی ہے کہ انہیں انصاف نہیں ملا، بھٹو صاحب کے لیے عدلیہ بول پڑی، ڈاکٹر نذیر شہید کے لیے عدلیہ کب بولے گی؟ ان کے لیے عدلیہ کب بیدار ہوگی؟ ہمارے ملک کے ساتھ کس نے کب کیا کھلواڑ کیا۔ ایک بہت بڑے کالم نگار ایک ٹی وی پروگرام میں کہہ رہے تھے قیام پاکستان کے بعد مرکزی کابینہ میں متعدد وزیر غیر مسلم تھے۔ ان سے نام پوچھا تو سب سے پہلے انہوں نے آئی آئی چندری گر کا نام لیا۔ جب اس ملک میں ایسے کالم نگار ہوں گے اور تجزیہ کار ہوں گے تو ملک میں پیکا جیسے قانون تو آئیں گے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مشرقی پاکستان قیام پاکستان پاکستان کے پاکستان کی بنگلا دیش اس کے لیے مسلم لیگ ملک میں تھا اس

پڑھیں:

ایران میں 8 پاکستانی مزدوروں کا بہیمانہ قتل، لاشوں کی واپسی میں 8 سے 10 دن لگنے کا امکان

ایران کے مغربی صوبے سیستان و بلوچستان کے ضلع مہرستان کے نواحی گاؤں ہیزآباد پایین میں پیش آنے والے ایک ہولناک واقعے میں آٹھ پاکستانی مزدوروں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ تمام مقتولین کا تعلق پنجاب کے ضلع بہاولپور سے بتایا جا رہا ہے۔ واقعے نے دونوں ممالک میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ مقتولین کی لاشوں کی واپسی میں آٹھ سے دس دن تک لگ سکتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق، حملہ آور ایک آٹو ورکشاپ میں داخل ہوئے اور مزدوروں کو ہاتھ پاؤں باندھ کر گولیاں مار دیں۔ مقتولین کی شناخت دلشاد، اس کے بیٹے نعیم، جعفر، دانش اور ناصر کے ناموں سے ہوئی ہے۔ یہ تمام افراد عرصہ دراز سے سیستان میں روزگار کی غرض سے مقیم تھے اور بطور مکینک کام کر رہے تھے۔

ایرانی سیکیورٹی فورسز نے لاشیں تحویل میں لے کر تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔ ابھی تک حملہ آوروں کی شناخت سامنے نہیں آ سکی تاہم ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس واقعے میں ایک پاکستان مخالف دہشت گرد تنظیم کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

ایرانی سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ لاشوں کی واپسی میں 8 سے 10 دن لگ سکتے ہیں، کیونکہ جائے وقوعہ دور دراز علاقے میں واقع ہے اور قانونی و فارنزک تقاضے پورے کیے جا رہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی سفارتخانہ مسلسل ایرانی حکام سے رابطے میں ہے اور تمام توجہ لاشوں کی جلد واپسی پر مرکوز ہے۔

یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب پاکستان اور ایران کے تعلقات میں بہتری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے واقعے پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایرانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ قاتلوں کو جلد از جلد گرفتار کر کے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کو دہشتگردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہوگی۔

وزیراعظم نے وزارت خارجہ کو مقتولین کے اہل خانہ سے فوری رابطہ کرنے اور ایران میں پاکستانی سفارتخانے کو لاشوں کی بحفاظت وطن واپسی کے لیے ہر ممکن اقدامات کی ہدایت کی ہے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ اس المناک واقعے پر ایرانی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں اور جیسے ہی مزید تفصیلات سامنے آئیں گی، باقاعدہ بیان جاری کیا جائے گا۔

مقتولین کے لواحقین شدید غم میں مبتلا ہیں۔ احمدپورشرقیہ میں ایک شہید کی والدہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’ڈیڑھ سال بعد میرا بیٹا واپس آرہا تھا، مگر ظالموں نے میرے غریب بیٹے کو مار ڈالا۔ اُس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔‘

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • ایران میں 8 پاکستانی مزدوروں کا بہیمانہ قتل، لاشوں کی واپسی میں 8 سے 10 دن لگنے کا امکان
  • پریانکا چوپڑا کی بالی ووڈ میں شاندار واپسی: مہنگی ترین اداکارہ بن گئیں
  • کیا سشمیتا سین پاکستانی فلم میں کام کر رہی ہیں؟ اداکارہ نے خاموشی توڑ دی
  • غیر قانونی مقیم مزید 4 ہزار افغان باشندوں واپس بھیج دیے گئے
  • پاکستان: افغان مہاجرین کی جبری واپسی کے معاشی اثرات
  • وزیراعظم کی   بیلاروس سے واپسی، وزیراعظم الیگزینڈر تورچن نے رخصت کیا
  •  افغانستان میں امریکہ کی واپسی
  • بھارت اور نیپال میں شدید بارش اور آسمانی بجلی، 100 سے زائد افراد جاں بحق
  • نوازشریف کی سیاست میں واپسی مشاورت کی حد تک ہے
  • سکندر کی ناکامی کے بعد سلمان خان کی بجرنگی بھائی جان کے سیکوئل کیساتھ واپسی کی تیاری ؟