الشفاء ٹرسٹ آئی ہاسپٹل میں شعبہ موتیا کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر صبیح الدین احمدنے کہا ہے کہ پاکستان میں سفید موتا کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجوہات میں ذیابیطس اور مناسب ہسپتالوں کا عوام کی پہنچ سے دور ہونا ہے۔ پہلے اس مرض کے علاج میں تاخیر کی جاتی تھی جسے موتا کا پکنا کہتے تھے مگر اب اس کا فوری علاج کیا جاتا ہے۔پروفیسر ڈاکٹر صبیح الدین احمد نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے لوگ اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں حالانکہ مناسب طریقے سے علاج نہ کیا جائے تو یہ اندھے پن کا باعث بن سکتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ذیابیطس کے علاوہ عمر بڑھنے، آگاہی کی کمی، غذائیت کی کمی، الٹرا وائلٹ شعائیں، جینیاتی مسائل اور دیر سے تشخیص جیسے عوامل بھی اس مسئلے کو بڑھانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ڈاکٹر صبیح الدین احمد نے کہا کہ بہت سے لوگ مالی مجبوریوں یا سرجری کے خوف کی وجہ سے علاج میں تاخیر کرتے ہیں جس سے پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔انھوں نے کہا کہ سفید موتا کا علاج بہت آسان ہے۔مریض کی آنکھ کا لینس بدلنے میں دس سے بیس منٹ لگتے ہیں مگر دیہی علاقوں میں ماہرین امراض چشم اور جدید جراحی کی سہولیات کی کمی سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔سرکاری ہسپتالوں اور خیراتی اداروں میں اس مرض کا علاج سستا یا مفت ہوتا ہے مگر مریض کو طویل اتنظار کرنا پڑتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم الشفاء راولپنڈی ہسپتال میں روزانہ 70 سے 80 آپریشن مفت کر رہے ہیں جبکہ ہماری ٹرسٹ کے زیر انتظام راولپنڈی، چکوال، کوہاٹ، مظفر آباد، سکھر اور گلگت میں واقع ہسپتال شامل ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جلد تشخیص اور علاج کے بارے میں شعور بیدار کرنا ضروری ہے۔ آنکھوں کا باقاعدہ معائنہ، حفاظتی چشمہ پہننا، ذیابیطس کاعلاج اور صحت بخش ? غذا موتیابند کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔ملک بھر میں آنکھوں کی صحت کے بارے میں آگہی، آنکھوں کی دیکھ بھال میں حکومتی سرمایہ کاری میں اضافہ، اور موبائل آئی کلینک جلد تشخیص اور علاج کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ صحت کی دیکھ بھال کے پیشہ ور افراد، پالیسی سازوں اور غیر سرکاری تنظیموں کے درمیان باہمی تعاون سے معاملات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: صبیح الدین نے کہا کہا کہ

پڑھیں:

ذہنی دباؤ صحت کےلیے خطرناک؛ بچاؤ کےلیے کیا اقدامات کیے جائیں؟

ذہنی یا اعصابی دباؤ ہماری سوچ سے کہیں زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ یہ نہ صرف ہماری ذہنی صحت کو متاثر کرتا ہے، بلکہ جسمانی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

ڈپریشن یا اضطراب کے دوران تمباکو نوشی اور شراب نوشی جیسی عادات پھیپھڑوں کے کینسر کے خطرے کو 6 فیصد تک بڑھا دیتی ہیں۔

ذہنی دباؤ مختلف وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے، لیکن اکثر لوگ اس کے اثرات کو نظرانداز کر دیتے ہیں، جو صحت کے لیے درست نہیں ہے۔

ہماری تیز رفتار اور مصروف زندگی میں اعصابی دباؤ کی علامات کو سمجھنا اور انہیں جلد پہچاننا بہت ضروری ہے۔ یہ عمل نہ صرف موثر علاج ممکن بناتا ہے، بلکہ بہتر نتائج کا بھی باعث بنتا ہے۔

 

ذہنی دباؤ کے خطرناک اثرات

ایک رپورٹ کے مطابق، ذہنی دباؤ اگر بڑھ جائے تو یہ ہمارے مدافعتی نظام، بلڈ پریشر، دل کی صحت، اور نیند کے معیار کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔ اعصابی خرابی، جسے عام طور پر ذہنی خرابی بھی کہا جاتا ہے، کوئی طبی اصطلاح نہیں ہے، بلکہ یہ شدید ذہنی پریشانی کے دور کو بیان کرنے کا ایک عام طریقہ ہے۔

 

احتیاط اور علاج کے طریقے

ابتدائی درجے کے ذہنی دباؤ کو روزمرہ کی زندگی میں کچھ مثبت تبدیلیوں کے ذریعے کم کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، صبح جلدی اٹھ کر نماز فجر کے بعد سیر کو اپنا معمول بنائیں۔ تفریحی سرگرمیوں میں حصہ لیں، دوستوں اور گھر والوں کے ساتھ وقت گزاریں، اور فلاحی کاموں میں شامل ہوں۔ اپنی صحت اور خوراک پر خصوصی توجہ دیں۔

 

غصے اور تنہائی سے بچیں

اگر کسی بات پر غصہ آئے، تو اس ماحول سے فوری طور پر نکلنے کی کوشش کریں۔ خود اعتمادی پیدا کریں اور دوسروں سے زیادہ توقعات نہ رکھیں۔ تنہائی سے دور رہیں اور مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب ہوں۔ جو چیزیں حاصل نہ ہو سکیں، ان کے بارے میں سوچنے سے گریز کریں۔

 

مسکن ادویات سے پرہیز

مسکن یا خواب آور ادویات کا سہارا لینے سے گریز کریں۔ یہ ادویات عارضی طور پر سکون تو فراہم کر سکتی ہیں، لیکن ان کے مضر اثرات طویل مدت میں شدید ہو سکتے ہیں۔


ذہنی دباؤ سے نمٹنے کے لیے مثبت طرزِ زندگی اپنانا بہترین حل ہے۔ روزمرہ کی معمولات میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں لا کر آپ نہ صرف اپنی ذہنی صحت کو بہتر بنا سکتے ہیں، بلکہ جسمانی صحت کو بھی برقرار رکھ سکتے ہیں۔ یاد رکھیں، ذہنی دباؤ کو نظرانداز کرنا صحت کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے، اس لیے اس پر توجہ دینا اور بروقت اقدامات کرنا بہت ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کینیڈا میں مقیم پاکستانی ڈاکٹر کا اچھوتا طبی کارنامہ
  • تحرین نابینا کمزوری بننے نہیں ہیںاصل روشنی آنکھوں میں نہیں، بلکہ دل اور دماغ میں ہوتی ہے
  • مودی ٹرمپ ملاقات بے نتیجہ ثابت
  • پاکستان میں سائنس کے جرمن محسن، ڈاکٹر وولفگانگ فالٹر
  • ہیپاٹائٹس کے پھیلاؤ میں پاکستان پہلے نمبر پر آگیا ہے، حکومت کی تصدیق
  • بیٹری معدنیات کی تلاش اور کان کنی پاکستان کو بے مثال اقتصادی موقع فراہم کر سکتی ہے. ویلتھ پاک
  • ذہنی دباؤ صحت کےلیے خطرناک؛ بچاؤ کےلیے کیا اقدامات کیے جائیں؟
  • کام کی جگہ ہراسگی عالمی مسئلہ ہے: سپریم کورٹ
  • نوجوانی میں خودکشی کا بچپن میں نیند کی کمی سے تعلق سامنے آگیا